۳۰ سالہ زیب النساء نے مارچ ۱۹۷۱ء کے پُرفتن دور میں اپنے شوہر، بیٹے اور اکلوتے بھائی کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھا۔ زیب النساء نے دیناج پور پر ڈھائی جانے والی قیامت کی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’دیناج پور میں عوامی لیگ کا تسلط قائم ہوچکا تھا۔ ۲۳ مارچ کو انہوں نے حکم دیا کہ علاقے کے تمام غیر بنگالی مرد نام نہاد امن کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں۔ قاتلوں کا ایک گروہ ہمارے گھر بھی آیا اور میرے شوہر اور بیٹے کو مجبور کیا کہ وہ اجلاس میں شرکت کریں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ امن کمیٹی کیا کرتی ہے اور کیا کرے گی مگر ہمارے گھر پر آنے والے کارندے مسلح تھے، اس لیے ان کے ساتھ جانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں نے اس دن کے بعد اپنے شوہر اور بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’دوسری قیامت ۲۶ مارچ کو مجھ پر اُس وقت ٹوٹی جب باغی پھر ہمارے گھر آئے اور میرے بھائی کے بارے میں معلوم کیا۔ میرے بھائی نے بھاگ کر جنگل میں چھپنا چاہا، مگر انہوں نے اسے پکڑا اور میری آنکھوں کے سامنے بہت قریب سے اس کے سینے میں گولی مار دی۔ وہ جب گولی کھاکر گرا تو اس نے پانی مانگا۔ میں پانی لے کر اس کی طرف جانے لگی تو ایک قاتل نے میرے ہاتھ سے گلاس چھین کر پھینک دیا اور میرے مرتے ہوئے بھائی کے سر میں گولی مار دی۔ علاقے کی دو غیر بنگالی عورتوں نے بھائی کے لیے قبر کھودنے میں میری مدد کی۔‘‘
’’معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ ۳۰ مارچ کو وہ درندے پھر ہمارے گھر آئے اور مجھ سے پوچھا کہ زیورات کہاں چھپا رکھے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اس پر انہوں نے مجھے گن پوائنٹ پر لیا اور دوسری بہت سی غیر بنگالی عورتوں کے ساتھ دریا کنارے واقع عقوبت خانے کی طرف چلنے کو کہا۔ ایک عورت نے قرآن کا نسخہ تھام رکھا تھا۔ ایک درندے نے وہ نسخہ اُس سے چھین کر زمین پر پھینک دیا۔ ہم سب عورتیں جب عقوبت خانے پہنچیں تو دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے سیکڑوں غیر بنگالی عورتیں موجود ہیں۔ قتل کا سلسلہ شروع ہوا تو رات گئے تک جاری رہا۔ یہ قیامت کا منظر تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دریا کا پانی ان بے گناہ غیر بنگالی مردوں اور عورتوں کے خون سے سرخ ہوگیا ہے۔ بہت سے غیر بنگالی مردوں کے سَر بنگالی باغیوں نے تن سے جدا کردیے تھے۔ ہم نے اِن سَروں کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا۔ سیکڑوں لاشیں دریا کے کنارے بکھری پڑی تھیں۔ اگلے دن غیر بنگالی مردوں اور عورتوں کے ایک اور گروپ کو قتل کیا جانا تھا مگر اللہ نے ہماری دعائیں سن لیں۔ پاکستانی فوج کا ایک دستہ وہاں آ پہنچا۔ اس دستے کو دیکھ کر باغی خوفزدہ ہوئے اور بھاگ گئے۔ ہماری جان بچ گئی۔ فوجیوں نے ہمیں ایک ریلیف کیمپ میں پہنچایا جہاں ہمارا بہت خیال رکھا گیا۔ مگر ۱۶ دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا کے بعد ایک بار پھر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ مجھ سمیت بہت سی غیر بنگالی بیوائیں دیناج پور کے ماحول سے گھبراکر سعید پور گئیں جہاں ایک ریلیف کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ وہاں ہم نے ڈھائی برس انتہائی عُسرت کی حالت میں بسر کیے۔ بہت سی بے سہارا عورتیں اس کیمپ میں سخت کسمپرسی کے عالم میں انتقال کرگئیں۔ ہمیں جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل کیا گیا‘‘۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ دیناج پور کے نزدیک واقع قصبوں رانی سنکیل، بوچا گنج، پیر گنج، چورکوئے، فلبریا، کہا رول، بیر گنج، پونچا گڑھ اور چریر بندر میں تمام غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ ان تمام علاقوں سے غیر بنگالیوں کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ یہ سب کچھ مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے اور تیسرے ہفتے کے دوران ہوا۔ جب فوج نے ان تمام علاقوں کو کنٹرول میں لیا اور ریاست کی عملداری قائم کی، تب لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے بنگالی باغیوں نے بھاگ کر بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں پناہ لی۔ اس امر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے جن منحرف سپاہیوں نے غیر بنگالیوں کے خلاف قتل و غارت کا بازار گرم کیا، انہیں بھارت سے واضح ہدایات ملتی تھیں۔ ’’دی ٹائمز آف لندن‘‘ نے ۶؍اپریل ۱۹۷۱ء کے شمارے میں ایک برطانوی ٹیکنیشین سے گفتگو نقل کی ہے جس نے ہلی کے مقام پر پاک بھارت سرحد عبور کی تھی۔ اخبار لکھتا ہے: ’’برطانوی ٹیکنیشین نے بتایا کہ سیکڑوں غیر بنگالی مسلم تو صرف دیناج پور ہی میں قتل ہوئے ہوں گے۔ فوجیوں کے رخصت ہونے پر مشتعل لوگ بہار سے تعلق رکھنے والے غیر بنگالی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مجھے اندازہ نہیں کہ کتنے لوگ قتل ہوئے ہوں گے مگر رات بھر ان کی چیخیں میری سماعت سے ٹکراتی رہیں۔ بہت سے دوسرے علاقوں میں بہاری مسلمانوں کو اسلحے کے زور پر یرغمالی بنالیا گیا تھا‘‘۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اللہ کا خوف رکھنے والے جن انسان دوست بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کو پناہ دی تھی یا ان کی جان بچائی تھی، انہیں تلاش کرکے باغیوں نے جیلوں میں ڈال دیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بنگلہ دیش قائم ہوا تو پاکستان سے وفاداری نبھانے والے ہزاروں بنگالیوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا۔ ان پر مکتی باہنی اور پولیس نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔
دسمبر ۱۹۷۱ء کے آخری دو ہفتوں کے دوران اور ۱۹۷۲ء کے اوائل میں دیناج پور میں غیر بنگالیوں اور پاکستان نواز بنگالیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا۔ مغربی جرمنی کے معروف کثیر الاشاعت جریدے ’’اسٹرن‘‘ کے نمائندے ہر برامین نے ۲۹ فروری ۱۹۷۲ء کو ڈھاکا سے دیناج پور جاکر صورتِ حال کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ایک گڑھے میں ۱۰۰ سے زائد انسانوں کی باقیات پڑی ہیں۔ دیناج پور کے بنگالی کمشنر نے دعویٰ کیا کہ یہ لاشیں ان بنگالیوں کی ہیں جنہیں پاکستانی فوج نے ہلاک کیا تھا مگر اس دعوے پر ہر برامین کو یقین اس لیے نہ آیا کہ لاشیں تازہ تھیں۔ ’’اسٹرن‘‘ کے ۱۲؍مارچ ۱۹۷۲ء کے شمارے میں ہر برامین کا بھیجا ہوا مراسلہ شائع ہوا جس میں لکھا تھا: ’’میں اس بات پر یقین نہ کرسکا کہ گڑھے میں سو سے زیادہ لاشیں بنگالیوں کی تھیں کیونکہ یہ لاشیں پوری طرح گلی سڑی نہیں تھیں‘‘۔
ہر برامین نے اپنے مراسلے میں یہ بھی لکھا کہ دیناج پور میں مکتی باہنی کے کمانڈر محمد خورشید نے مکتی باہنی کے ایک رہنما کی یاد میں ایک عمارت کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں کئی غیر بنگالیوں کو قتل کیا۔
پاربتی پور میں قتل و غارت
۴۲ سالہ عزیز اللہ انصاری نے بتایا کہ مارچ ۱۹۷۱ء پاربتی پور میں غیر بنگالیوں کے لیے قیامت خیز ثابت ہوا۔ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں عزیز اللہ انصاری اپنی بیوی اور دو بچوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔
عزیز اللہ انصاری نے بتایا کہ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران پاربتی پور میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی حیرت انگیز بھی تھا کیونکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاربتی پور میں غیر بنگالیوں کو یوں سفاکی اور بے دردی سے نشانہ بنایا جائے گا۔ پاربتی پور میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کے دوران عزیز اللہ انصاری اور ان کے دو بیٹوں کو قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد وہ ڈھاکا کے ایک کیمپ میں رہے اور دسمبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان پہنچے۔
عزیز اللہ انصاری نے بتایا: ’’پاربتی پور کی ریلوے کالونی میں بہت سے غیر بنگالی گھرانے رہتے تھے۔ باغیوں نے مارچ کے آغاز ہی سے غیر بنگالیوں کو دھمکانا اور یرغمال بنانا شروع کردیا تھا۔ بہت سوں کو ایک ماہ تک یرغمال بناکر رکھا گیا۔ پاربتی پور کے دیگر علاقوں میں جو غیر بنگالی رہتے تھے انہیں بھی دھمکانے کا سلسلہ جاری تھا‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں (شاید ۲۲ مارچ کو) مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے پاربتی پور کے غیر بنگالیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس دن لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ اس دن ہم نے صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے اسکول مقررہ وقت سے بہت پہلے بند کردیا۔ ہمارے اسکول میں بیشتر طلبا بنگالی تھے۔ وہ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اسکول کے ایک اٹینڈنٹ نے بتایا کہ مشتعل باغیوں کا ایک بڑا گروہ ہمارے علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں اسکول سے نکل کر گھر کی طرف دوڑا۔ میں جب اپنے علاقے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بہت سے مکانات جل رہے ہیں۔ میرے مکان میں بھی آگ لگی ہوئی تھی۔ جب میں اپنے مکان میں داخل ہوا تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ میری بیوی اور دونوں بچے بری طرح جھلس کر زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے تھے۔ میری دنیا میری آنکھوں کے سامنے اُجڑی پڑی تھی۔ میں نے اُنہیں نکال کر دیکھا کہ شاید زندگی کی کوئی رمق باقی ہو۔ مگر وہ تو جاچکے تھے۔ ایک کمرہ محفوظ تھا۔ میں نے تینوں لاشوں کو وہاں رکھا۔ تدفین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ باغی مجھے بھی پکڑ سکتے تھے۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ گھر میں رہوں۔ ایک ہفتے تک میں اپنے قبر نما گھر میں رہا۔ پاکستانی فوج آئی تو اس نے میری جان بچائی اور میں اپنی بیوی اور بچوں کی تدفین کے قابل ہوسکا۔ میں پاکستان میں ہوں مگر میرے وجود کا ایک بڑا حصہ تو وہیں، پاربتی پور میں ہے کیونکہ میری بیوی اور بچوں کی قبریں وہیں رہ گئیں‘‘۔
عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران ڈھائی جانے والی قیامت نے ۳۰ ہزار غیر بنگالیوں کی جان لی۔
چھیالیس سالہ عبدالرشید پاربتی پور میں ریلوے کے ملازم تھے اور ریلوے کالونی کے کوارٹر نمبر ۱۵۳ میں رہتے تھے۔ انہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ٹرینوں میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی روداد اِن الفاظ میں سُنائی: ’’۱۲ مارچ کو ایشردی سے ٹرین دس گھنٹے کی تاخیر سے پاربتی پور پہنچی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ عوامی لیگ کے غنڈوں اور چند دوسرے شر پسندوں نے ٹرین کو راستے میں روک کر غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ میں اس وقت ریلوے اسٹیشن پر تھا، جب یہ بدنصیب ٹرین ۱۷۰ غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سمیت پاربتی پور پہنچی۔ بیشتر لاشیں بُری طرح مسخ ہوچکی تھیں۔ ٹرین میں ۷۵ زخمی غیر بنگالی بھی تھے، جن میں سے چند ایک کی حالت نازک تھی۔ انہیں فوری طور پر مقامی اسپتال منتقل کیا گیا مگر ان میں چند ہی بچ پائے۔ ٹرین میں اُن بچوں کی لاشیں بھی تھیں جنہیں اُن کی ماؤں کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ منظر اس قدر بھیانک تھا کہ اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو جسم پر جُھرجُھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ اس انتہائی اندوہ ناک واقعے کے بعد غیر بنگالیوں کا ٹرین کے ذریعے سفر انتہائی دشوار ہوگیا۔ بعض دوسرے مقامات پر بھی ٹرینوں میں غیر بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا‘‘۔
عبدالرشید، ان کی بیوی اور بچے پاربتی پور میں قتل و غارت کی نذر ہونے سے تو بچ گئے مگر، مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضے کے بعد انہیں سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ لوگ نیپال کے راستے اپریل ۱۹۷۳ء میں پاکستان پہنچے۔
۴۵ سالہ عباس علی اسکول ٹیچر تھے اور پاربتی پور کے علاقے نیو روڈ پر رہتے تھے۔ عباس علی نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا تھا۔ ۱۹ مارچ کو بنگالی باغیوں کے ایک جتھے نے اس علاقے پر حملہ کردیا جو نیو روڈ سے متصل تھا۔ یہ غنڈے اسٹین گنوں اور رائفلوں سے مسلح تھے۔ انہوں نے بہت سے مکانات کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی۔ انہوں نے کئی غیر بنگالیوں کو قتل کیا اور متعدد جوان لڑکیوں کو اٹھاکر لے گئے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حملہ آور ہندو تھے کیونکہ وہ جس لہجے میں بنگالی بول رہے تھے، وہ بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں رائج ہے۔ بنگالی باغیوں نے پاربتی پور میں غیر بنگالیوں کو مرحلہ وار ختم کیا۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں یہ سلسلہ زور پکڑ گیا اور تمام غیر بنگالیوں کو نیست و نابود کردینا ہی اُن کا مقصد اور ایجنڈا ٹھہرا۔ ایک بنگالی خاندان نے مجھے پناہ دی اور یوں میں اس قتل و غارت کی نذر ہونے سے محفوظ رہا‘‘۔
عباس علی فروری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگالی باغیوں نے پاربتی پور کے بنگالیوں کا برین واش کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان، مغربی پاکستان کے باشندوں، اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی فوج کے بارے میں اس قدر جھوٹ بولا کہ سچ لگنے لگا تھا۔ عباس علی کہتے ہیں: ’’میرے لیے سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ باغیوں نے مساجد کو بھی شہید کردیا تھا جبکہ میرے مشاہدے کے مطابق بنگالی اللہ کا خوف رکھنے والے سخت مذہبی قسم کے لوگ تھے‘‘۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران پاربتی پور میں قتل و غارت سے محفوظ رہنے والوں میں چالیس سالہ میموالنساء بھی تھیں۔ انہوں نے بتایا: ’’میرے شوہر شجیع الدین ریلوے سے ریٹائر تھے۔ ہم دونوں اور ہمارا بیٹا پاربتی پور کے ایک گنجان آباد علاقے میں رہتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں شر پسندوں کے ایک گروہ نے علاقے پر حملہ کیا اور ہمارا گھر بھی لوٹ لیا۔ میرے شوہر اور بیٹا دونوں خوش قسمتی سے شہر سے باہر تھے۔ حملہ آوروں نے مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی میں باہر گئی، انہوں نے گھر کو آگ لگادی۔ میں بہت بے بسی سے اپنے گھر کو شعلوں میں گھرا ہوا دیکھتی رہی۔ پڑوسی نے مجھے پناہ دی۔ جب فوج نے پاربتی پور کا کنٹرول سنبھال کر امن بحال کیا تب میرے شوہر اور بیٹا جلے ہوئے گھر میں واپس آئے۔ اپریل کے وسط میں ہم نے مکان دوبارہ تعمیر کیا اور رہنے لگے۔ ہمارے بیٹے محمد علی نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی ڈیوٹی سرحدی علاقوں میں تھی۔ ہمیں اپنے بیٹے پر بہت فخر تھا‘‘۔
’’جب بھارتی فوج نے ۱۶ دسمبر کو مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا اور بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا تب پاربتی پور میں ایک بار پھر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ ہم نے اس قیامت سے بچنے کے لیے سعید پور کا قصد کیا، جہاں ہمارے چند رشتہ دار رہتے تھے۔ میرے شوہر نے مجھے ۱۷ دسمبر کی شام سعید پور جانے والی ٹرین میں سوار کرادیا اور کہا کہ وہ خود اگلے دن روانہ ہوں گے۔ ان کے دفتر کے زمانے کے ایک بنگالی ساتھی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں رات کو اپنے گھر میں ٹھہرائے گا۔ اگلے دن مجھے میرے شوہر کے ایک دیرینہ رفیق نے سعید پور ریلوے اسٹیشن پر بتایا کہ میرے شوہر کو باغیوں کے ایک گروپ نے پاربتی پور کے ریلوے اسٹیشن کے نزدیک قتل کردیا۔ میں نے سعید پور میں دو سال انتہائی عسرت کے عالم میں گزارے۔ میں نے ریڈ کراس والوں کو اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا کہ وہ فوج میں تھا۔ مگر آج تک مجھے اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا ہے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے کراچی پہنچادیا گیا‘‘۔
خون اور آنسو جاری ہے
Leave a Reply