
پچاس سالہ ستارہ بانو کے شوہر عبدالقادر پاربتی پور میں جنرل اسٹور چلایا کرتے تھے۔ ستارہ بانو نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء میں جب پاربتی پور میں باغیوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا تب میں، میرے شوہر، بیٹا اور چھوٹی بیٹی خوش قسمتی سے جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارے گھر اور دکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی گئی۔ جب فوج نے پاربتی پور کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تب ہم نے اپنا مکان دوبارہ تعمیر کیا۔ میرے بیٹے کو ایک مقامی فرم میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پھر قتل و غارت شروع ہوگئی۔ غیر بنگالیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت کرنے والے بنگالیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا۔ جو بنگالی کسی بھی غیر بنگالی کو پناہ دیتا تھا یا جان بچانے میں کسی اور طریقے سے مدد دیتا تھا، اس پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جاتا تھا۔ ۱۷ دسمبر کو مجھے اطلاع ملی کہ میرے شوہر اور بیٹے کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل کردیا ہے۔ اسی شام میں اپنی بیٹی کے ساتھ سعید پور چلی گئی۔ وہاں ہم نے ایک بنگالی گھرانے میں ملازمت اختیار کرلی۔ مگر یہ دور ہمارے لیے بہت بھیانک تھا۔ ہر ہفتے ہمیں یہ افواہ سننے کو ملتی تھی کہ مکتی باہنی والے تمام غیر بنگالی مردوں اور عورتوں کو قتل کردیں گے۔ میری بیٹی کی شادی ۱۹۷۲ء میں ہوئی۔ وہ اس وقت سابق مشرقی پاکستان ہی میں ہے۔ مجھے سعید پور سے ڈھاکا کے ذریعے جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان بھیجا گیا‘‘۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ پاربتی پور میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے اسٹین گن، رائفل اور پستول سے فائرنگ کے علاوہ دستی بموں سے بھی غیر بنگالیوں پر حملے کیے۔ وہ پاربتی پور میں آباد تمام کے تمام چالیس ہزار غیر بنگالیوں کو مکمل طور پر ختم کردینا چاہتے تھے۔ غیر بنگالیوں نے اپنے دستے ترتیب دیے جو سخت مزاحمت کرتے تھے اور کبھی کبھی تو پچاس ہزار تک کے مجمع کو بھی فوج کے آنے تک روک کر رکھتے تھے۔ جن علاقوں میں بنگالی واضح اکثریت میں تھے وہاں تو غیر بنگالیوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔
ٹھاکر گاؤں اور ہیلی میں قتل عام
ضلع دیناج پور کے قصبے ٹھاکر گاؤں، ہیلی میں مارچ کے آخری اور اپریل کے پہلے ہفتے میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے بہت سے سپاہیوں نے منحرف ہوکر عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور پھر عوامی لیگ کے غنڈوں کے ساتھ مل کر انہوں نے غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھائی۔ اس قصبے میں کم و بیش تین ہزار غیر بنگالیوں کو انتہائی سفاکی سے موت کے گھات اتار دیا گیا۔ ٹھاکر گاؤں میں غیر بنگالیوں کی دو تہائی سے زائد آبادی کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ ان کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ سیکڑوں بدنصیب غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے بعد جلتے ہوئے مکانات میں پھینک دیا گیا۔ غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد ان پر تشدد بھی کیا گیا۔ فوج کے آنے پر فرار ہونے سے پہلے باغیوں نے بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو قتل کر ڈالا۔ بہت سی حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کردیے گئے اور ان کے مردہ بچوں کی لاشیں بھی مسخ کردی گئیں۔ بہت سے غیر بنگالیوں کو صرف قتل کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی لاشیں سڑکوں پر اور گلیوں میں گھسیٹی اور کھمبوں پر لٹکا دی گئیں۔ فوج نے ۱۵؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ٹھاکر گاؤں کا کنٹرول سنبھالا۔
۲۱سالہ محمد سہیل تنویر ٹھاکر گاؤں کے علاقے رحمت گنج میں اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے باغیوں کے ہاتھوں اپنے والد کے بے دردانہ قتل کی کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’میرے والد ٹھاکر گاؤں میں مسلم لیگ کے ایک نمایاں کارکن تھے۔ انہوں نے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت برسوں کام کیا تھا اور علاقے کے بنگالی اور غیر بنگالی سبھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ہم اٹھارہ سال سے ٹھاکر گاؤں میں رہتے آئے تھے اور بنگالی روانی سے بولتے تھے۔ میرے والد ایک کامیاب بزنس مین تھے۔ انہوں نے اچھی خاصی پراپرٹی خرید رکھی تھی اور شہر میں چند خیراتی ادارے بھی چلاتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں قتل و غارت کی لہر نے ٹھاکر گاؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی ہزار غیر بنگالی اپنی جان سے گئے۔ میرے والد ایک دن مغرب کی نماز پڑھنے علاقے کی مسجد میں تھے۔ ان کے ساتھ دو غیر بنگالی اور ایک بنگالی دوست بھی تھا۔ انہوں نے نماز کے بعد جیسے ہی مسجد سے باہر قدم رکھا، قاتلوں کے ایک گروہ نے انہیں اور ان کے تینوں دوستوں کو قتل کردیا۔ چاروں لاشیں انہوں نے مسجد کے اندر پھینک دیں اور علاقے میں دیگر غیر بنگالیوں کا بھی قتل عام کیا۔ میرے والد کے ایک خدا ترس بنگالی دوست نے مجھے اور میرے چند دوستوں کی جان بچائی۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہم نے نیپال میں پناہ لی۔ وہاں سے ہم ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچے۔‘‘
ٹھاکر گاؤں پر ڈھائی جانے والی قیامت میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو گنوا دینے والے پچاس سالہ افضل صدیقی نے بتایا کہ عوامی لیگ کے غنڈوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ٹھاکر گاؤں میں تمام غیر بنگالی جوانوں کو قتل کردیا جائے۔ افضل صدیقی نے ۱۹۴۷ء میں کلکتہ سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی اور ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ٹھاکر گاؤں میں آباد ہوئے تھے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل ہونے پر افضل صدیقی نے بتایا کہ مارچ ۱۹۷۱ء میں انہوں نے رحمت گنج میں اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک خشک واٹر ٹینک میں چھپ کر جان بچائی تھی۔ انہوں نے بتایا: ’’میرے تینوں بچے مشرقی پاکستان ہی میں پیدا ہوئے۔ میری بیوی کا سقوطِ ڈھاکا سے بہت پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ میں ٹھاکر گاؤں میں گھریلو استعمال کی اشیاء کمیشن کی بنیاد پر فروخت کرتا تھا۔ مشرقی پاکستان سے ہمارا تعلق بہت پرانا اور مضبوط تھا مگر اس کے باوجود عوامی لیگ والے ہمیں بہاری کہہ کر بلاتے تھے۔‘‘
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل سے عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے ٹھاکر گاؤں کے غیر بنگالیوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا تھا۔ اس ماہ کے آخر میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور ٹھاکر گاؤں سے غیر بنگالیوں کی نمایاں تعداد کا صفایا کردیا۔ جب غنڈوں نے میرے گھر پر حملہ کرکے میرے دونوں بیٹوں کو قتل کیا اور میری بیٹی کو اغوا کرکے لے گئے تب میں علاقے میں نہیں تھا۔ میں نے ایک خشک واٹر ٹینک میں پناہ لی جس میں ایک بڑا سوراخ تھا۔ وہاں میں تقریباً پندرہ دن تک چھپا رہا۔ فوج کے آ جانے کے بعد ہی میں نے یہ پناہ گاہ چھوڑی۔‘‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ ٹھاکر گاؤں میں کم و بیش ۹ہزار بنگالی رہتے تھے۔ ان میں سے ڈیڑھ سو ہی بچ پائے۔ ایک غیر بنگالی آرمی میجر نے تقریباً ایک ہزار بنگالی باغیوں کو ۷۲ گھنٹے تک روک کر رکھا۔ جب اسلحہ ختم ہوگیا تو وہ ایک کدال کی مدد سے لڑا اور شہادت پائی۔ باغیوں نے اس کی بیوی اور بچوں کو بھی قتل کیا اور ان کی لاشوں کو گلیوں میں گھسیٹتے پھرے۔ قاتلوں کے اس گروہ کی قیادت عوامی لیگ کے مقامی لیڈر، مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ افسر کے بیٹوں اور درجن بھر پولیس افسران نے کی۔
جاری ہے
☼☼☼
Leave a Reply