
چالیس سالہ عابدہ خاتون کے شوہر مصاحب علی کو مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں چوادنگا ریلوے اسٹیشن کے نزدیک قتل کردیا گیا۔ عابدہ خاتون نے اپنی بپتا ان الفاظ میں سُنائی: ’’۲۵ مارچ کو بنگالی باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ وہ ہمارے گھر تک بھی آئے۔ میرے شوہر، جو ریلوے اسٹیشن پر قلی تھے، اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں تو انہوں نے شدید اشتعال کے عالم میں میرے پیٹ پر لات ماری اور مجھے دھکا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر میں موجود ہر کار آمد چیز لوٹ لی۔ جاتے جاتے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ میرے شوہر کو پکڑنے کے لیے کل پھر آئیں گے‘‘۔
’’نصف شب کو میرے پڑوسیوں نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ میرے شوہر کو دن میں کسی وقت ریلوے اسٹیشن پر دوسرے بہت سے غیر بنگالیوں کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ یہ خبر سن کر میری حالت غیر ہوگئی۔ میں اپنے شوہر کی لاش لینے ریلوے اسٹیشن جانا چاہتی تھی مگر سب نے یہی مشورہ دیا کہ میں نہ جاؤں ورنہ باغی مجھے بھی اغوا کرلیں گے۔ میں دل پر پتھر رکھ کر گھر میں بیٹھی رہی۔ ساتھ ہی یہ خوف بھی لاحق تھا کہ کہیں باغی پھر گھر پر دھاوا نہ بولیں۔ مگر خیر، وہ نہیں آئے۔ اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں جب پاکستانی فوج نے چوا دنگا کا کنٹرول سنبھالا، تب مجھے بے سہارا عورتوں اور یتیم بچوں کے لیے جیسور میں قائم کیے جانے والے کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ وہاں دو ماہ گزارنے کے بعد میں چوادنگا میں اپنے گھر منتقل ہوئی۔ بعد میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا تو میں اِشُردی منتقل ہوئی۔ وہاں میں نے چھوٹی موٹی نوکری کرکے گزارا کیا اور فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہوئی‘‘۔
پچاس سالہ پری بیگم کا گھرانہ ۷؍افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ۶؍افراد کو مارچ کے آخری ہفتے میں چوادنگا ریلوے اسٹیشن کے نزدیک باغیوں نے شہید کردیا۔ پری بیگم نے اپنے حالات ان الفاظ میں بیان کیے: ’’میرے شوہر اور داماد ریلوے میں ملازم تھے۔ ہمیں ریلوے کی طرف سے کوارٹر ملا ہوا تھا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو شہر کے حالات زیادہ خراب تھے۔ اس دن میرے شوہر اور داماد نے ریلوے اسٹیشن جانے کے بجائے گھر میں رہنا مناسب سمجھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر میں فارغ ہوئی ہی تھی کہ علاقے میں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے بعد مردوں، عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دیں۔ کچھ ہی دیر میں باغیوں کے ایک مسلح گروہ نے ہمارے گھر پر بھی دھاوا بول دیا۔ انہوں نے لوہے کی سلاخوں کے وار کرکے دروازے توڑ دیے۔ انہوں نے میرے شوہر اور داماد کو ہمارے سامنے گولیاں مار دیں۔ میری بیٹی کے تین بچے تھے۔ ہم دونوں نے مل کر بچوں کو بچانے کی کوشش کی مگر باغیوں میں کوئی چِلّایا کہ اِن بہاری سانپوں کو بھی مار ڈالو۔ اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے انہیں گولی مار دی گئی۔ جب میری بیٹی اپنے بچوں کی لاشوں پر جھک کر رونے لگی تو ایک باغی نے اُس کے سر میں گولی ماری اور وہ بھی اسی وقت جاں بحق ہوگئی۔ میری ٹانگ میں گولی لگی اور میں بے ہوش ہوگئی‘‘۔
’’مجھے دو دن کے بعد ہوش آیا تو میں نے کسی نہ کسی طرح اپنی مرہم پٹی کی۔ میرے پیاروں کی لاشیں میرے سامنے پڑی تھیں۔ میں نے گھر کے پردوں اور کپڑوں سے انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران شہر میں شدید خوف و ہراس کا عالم تھا۔ گھر میں تھوڑا سا پانی اور تھوڑا سا اناج تھا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح اسی پر گزارا کیا۔ اپریل میں باغیوں کے خلاف پاکستانی فوج نے کارروائی کی۔ باغیوں نے چوادنگا کو ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں شکست کھاکر وہ پسپا ہوئے تو مجھے بھی نجات ملی۔ فوج کی مدد سے کسی نہ کسی طرح میں اپنے پیاروں کی گلی سڑی لاشیں دفن کر پائی۔ مجھے ڈھاکا کے ایک ریلیف کیمپ میں منتقل کیا گیا جہاں سے فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہوئی‘‘۔
مہر پور اور ظفر کنڈی کے قاتل گروہ
مہر پور کی جوٹ مل کے ۳۳ سالہ کلرک عبدالعزیز نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے کے دوران مہر پور میں ڈھائی جانے والی قیامت کی کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے باغیوں نے غیر بنگالیوں پر حملے شروع کردیے تھے۔ کئی افراد کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مہر پور کی جوٹ مل میں ۱۵۰ غیر بنگالی ملازم تھے۔ مل میں واضح اکثریت بنگالی ملازمین کی تھی۔ ہم لوگ ایک کچی بستی میں رہتے تھے جو مل سے زیادہ دور نہیں تھی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب باغیوں اور منحرف فوجیوں نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ اس دن ہمارے علاقے میں کم و بیش ۷۵۰ غیر بنگالی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ میرا خیال ہے کہ اس دن علاقے میں ایک درجن سے زیادہ غیر بنگالی نہیں بچ پائے ہوں گے‘‘۔
’’میں غیر شادی شدہ تھا اور ایک کمرے میں رہتا تھا۔ میں اپنے کمرے میں چار دن تک بند رہا۔ مجھے اپنے بنگالی ساتھیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا جنہوں نے مخبری نہیں کی، ورنہ میں بھی اسی دن مار دیا جاتا۔ جب فوج نے علاقے کا کنٹرول سنبھالا، تب میں اپنے کمرے سے باہر آیا اور علاقے کا جائزہ لیا تو باغیوں کی درندگی کے مظاہر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ گلیوں میں، سڑکوں پر، ٹنکیوں میں، جلے ہوئے اور منہدم مکانات میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ بہت سی لاشیں گلنے سڑنے کے عمل سے گزر رہی تھیں۔ فوج نے اجتماعی تدفین کا اہتمام کیا۔ شواہد سے معلوم ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے جلتے ہوئے مکانات سے بھاگنے کی کوشش کی تھی، انہیں باغیوں نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔ خون کے دھبوں والی سیکڑوں ساریوں اور زیورات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ باغیوں نے کس طور بے کس غیر بنگالی عورتوں کو بھی سنگین مظالم کا نشانہ بنایا ہوگا۔ فوجیوں نے بتایا کہ محض درجن بھر غیر بنگالی اس قتل عام سے محفوظ رہ پائے ہیں۔ بہت سے جلے ہوئے مکانات اور جھونپڑیوں سے بھی لاشوں کے اجزا ملے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باغیوں نے مجبور و لاچار غیر بنگالیوں کو جلتے ہوئے مکانات اور جھونپڑیوں میں پھینکا ہوگا۔‘‘
مہر پور میں مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران باغیوں کے ہاتھوں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۲۰۰ سے زائد غیر بنگالی خواتین کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے بیشتر کو باغیوں نے فوج کے ہاتھوں شکست کے بعد پسپا ہونے سے پہلے قتل کردیا۔ عبدالعزیز کو فوج نے سعید پور کے کیمپ میں منتقل کیا جہاں اپریل ۱۹۷۱ء میں ان کی ملاقات اپنے چند رشتہ داروں سے ہوئی۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں عبدالعزیز کو کراچی منتقل کیا گیا۔
باغیوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران ضلع کشتیا کے شہر ظفر کنڈی میں کم و بیش ۶۰۰ غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ مارچ کے آخر میں باغیوں نے ظفر کنڈی کی تین ایسی آبادیوں پر حملے کیے جن میں غیر بنگالیوں کی اکثریت تھی۔ بیشتر مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی گئی اور ان میں رہنے والوں کو گن پوائنٹ پر قریب سرکاری عمارات میں لے جایا گیا۔ پہلے تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں۔ جن بے بس غیر بنگالیوں کو شہید کیا گیا، ان میں مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی تھے۔ ان تینوں بستیوں میں ایک بھی غیر بنگالی نہ بچ سکا۔
باغیوں نے جن غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کو یرغمال بناکر ہوس کا نشانہ بنایا تھا، ان سے بھی انتہائی سفاک سلوک روا رکھا گیا۔ فوج نے جب اپریل میں شہر کا کنٹرول سنبھالا تو دیکھا کہ بہت سی جوان غیر بنگالی عورتوں کو چھاتیاں کاٹ کر اور پیٹ چیر کر قتل کیا گیا تھا۔
جن بنگالیوں نے شدید بے بسی اور لاچاری کے عالم میں درندگی کا یہ تماشا دیکھا تھا، ان کی دی ہوئی شہادتوں کی روشنی میں فوج نے اندازہ لگایا کہ ظفر کنڈی کے غیر بنگالیوں پر کیسی قیامت ڈھائی گئی ہوگی۔
اِشُردی میں قتل عام
ویسے تو بنگالی باغیوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے غیر بنگالیوں کو نشانہ بنانا اور ان کی املاک کو لوٹنا شروع کردیا تھا مگر مارچ کے دوسرے ہفتے میں یہ مہم تیز ہوگئی۔ اِشُردی سے سول ایڈمنسٹریشن غائب ہوچکی تھی۔ یہ شہر مکمل طور پر عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف باغیوں کے قبضے میں تھا۔ غیر بنگالیوں کے مکانات پر بہت پہلے نشانات لگائے جاچکے تھے۔ باغیوں نے جب قتل عام شروع کیا تو نشان زد مکانات کو پہلے نشانہ بنایا۔ اِشُردی میں کم و بیش دو ہزار افراد کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
قتل عام سے قبل اِشُردی کے علاقے فتح محمد پور میں سکونت پذیر شمس الضحیٰ کامیاب تاجر تھے۔ شمس الضحیٰ نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آخر میں اِشُردی میں ڈھائی جانے والی قیامت کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی صبح باغیوں اور چند منحرف سپاہیوں نے چار غیر بنگالی خاندانوں کو پکڑ کر اورنکھولا کے بازار میں سیکڑوں افراد کے سامنے قتل کردیا۔ ان میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے۔ ان کی لاشیں ایک سائن بورڈ کے سامنے ڈال دی گئیں، جس پر لکھا تھا کہ ’یہ ہے بنگالیوں کو ناپسند کرنے والوں کا انجام‘۔ اس علاقے میں بہت سے مکانات کی دیواروں پر ایسی ہی تحریریں تھیں۔ بعض مقامات پر انتہائی اشتعال انگیز نعرے درج تھے۔ اگلے ہی دن کم و بیش پانچ ہزار باغیوں نے جو اسٹین گنوں، لوہے کی سلاخوں، خنجروں اور ڈنڈوں سے مسلح تھے، پچھم تنگڑی علاقے پر دھاوا بول دیا۔ وہاں میرا فرسٹ کزن بھی رہتا تھا۔ وہ اور اس کے چار اہل خانہ باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے‘‘۔
اپنے علاقے پر باغیوں کے حملے سے ایک دن قبل شمس الضحیٰ نے اپنی بیوی اور دس سالہ بیٹے کے ساتھ ایک بنگالی دوست کے ہاں پناہ لے لی تھی۔ پاکستانی فوج نے جب ۱۱؍اپریل ۱۹۷۱ء کو اِشُردی کا کنٹرول سنبھالا تو شمس الضحیٰ کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ڈھاکا منتقل کیا، جہاں سے وہ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل ہوئے۔
۲۷ سالہ عین الحق اِشُردی کے علاقے پچھم تنگڑی میں رہتے تھے۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں کے حملے میں ان کے ۶؍اہل خانہ شہید ہوئے۔ عین الحق نے بتایا: ’’اِشُردی میں میری چھوٹی سی دکان تھی جو اچھی چلتی تھی۔ مجھے یہ چھوٹا سا شہر بہت پسند تھا۔ یہاں سکون تھا۔ بنگالیوں سے میرے اچھے تعلقات تھے۔ میں خود بھی بنگالی بہت روانی سے بولتا تھا۔ ہمارے علاقے میں تین ہفتوں تک شدید خوف و ہراس کا عالم رہا تھا مگر پھر بھی ہم نے سوچا نہیں تھا کہ بڑے پیمانے پر قتل عام ہوگا۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو علی الصبح کم و بیش تین ہزار باغیوں نے اسٹین گنوں، بندوقوں، پستولوں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح ہوکر ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ باغیوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کردی۔ میرے گھر کا دروازہ بند تھا۔ باغی دروازہ توڑ کر داخل ہوئے۔ میری والدہ فجر کی نماز پڑھ رہی تھیں۔ باغیوں نے سب سے پہلے انہیں نشانہ بنایا۔ گولیاں لگنے پر وہ مُصلّے پر گریں اور جان دے دی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے کمرے سے نکلتا، باغیوں نے مجھ پر، میری بیوی پر اور ہمارے دونوں بچوں پر بھی فائر کھول دیا۔ گولیاں لگنے پر میں بھی خون میں ڈوب گیا۔ باغیوں نے میرے دو نوجوان بھائیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ میں دو دن تک کم و بیش کوما کی حالت میں رہا۔ تیسرے دن ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے تمام پیاروں کی لاشیں میرے سامنے پڑی ہیں۔ پہلا خیال یہ آیا کہ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں یا یہ محض واہمہ ہے۔ میں نے اپنے دونوں بچوں کی سرد پیشانیاں چُومیں۔ اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ کاش میں بھی مر جاؤں۔ اور پھر میں ایک بار پھر ہوش کھو بیٹھا۔ ۱۱؍اپریل تک لاشیں وہیں پڑی رہیں۔ جب پاکستانی فوج نے اِشُردی کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے لاشیں اجتماعی تدفین کے لیے اُٹھائیں اور مجھے اِشُردی اسپتال منتقل کیا جہاں کئی ہفتوں تک میرا علاج ہوتا رہا۔ اِشُردی میں کم و بیش ۹۰ فیصد غیر بنگالیوں کو عوامی لیگ اور انصار کے غنڈوں اور منحرف سپاہیوں نے قتل کردیا تھا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں مجھے ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply