نیلفامری میں قتلِ عام
۱۹۷۱ء میں شورش برپا ہونے سے قبل ضلع رنگ پور کے قصبے نیلفامری میں کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالی رہا کرتے تھے۔ ۲۳ مارچ سے ۳۰ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران اِن میں سے نصف کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اِن بدنصیب غیر بنگالیوں کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے عوامی لیگ کے مسلح کارکن تھے اور ان کی بھرپور معاونت ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے کی۔
۵۵ سالہ جمیلہ خاتون کے تین بیٹے، ایک بیٹی اور داماد نیلفامری کے علاقے کوپل مونی میں جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے اپنی داستانِ الم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’ہم طویل مدت سے نیلفامری میں بہت سکون سے رہتے آئے تھے۔ ہم سبھی بنگالی بہت روانی سے بولتے تھے۔ میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بیٹوں نے میرا بہت خیال رکھا‘‘۔
’’مارچ کے ابتدائی تین ہفتوں کے دوران ہمیں خبریں ملتی رہیں کہ نیلفامری کے مختلف علاقوں میں غیر بنگالیوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ بہت سے مکانات کو لوٹنے کے بعد ان کے مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہم نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ عوامی لیگ کے کارکنوں نے پولیس اور انتظامی مشینری کی مدد سے غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے مگر ہمارے پاس صورت حال کو دیکھتے رہنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ فرار کی کوئی راہ بچی نہ تھی‘‘۔
’’۲۴ مارچ کو ہمارے علاقے پر بھی حملہ ہوا۔ سیکڑوں باغیوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگانا اور ان کے مکینوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ شر پسندوں کے ایک ٹولے نے ہمارے گھر کا دروازہ توڑا۔ میرے تینوں بیٹے، دونوں بیٹیاں، داماد اور مَیں۔۔۔ سبھی گھر میں تھے۔ شرپسندوں نے مکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی۔ انہوں نے ہم پر گولیاں بھی برسائیں۔ میری ٹانگ پر گولی لگی۔ میں لڑکھڑاکر گری اور بے ہوش ہوگئی۔ اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو میری دنیا میں تاریکی ہی تاریکی تھی۔ میرے تینوں بیٹے، دونوں بیٹیاں اور داماد سبھی اِس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ میں خون کے تالاب میں پڑی تھی۔ پاکستانی فوج آئی تو اِن پیاروں کی تدفین ممکن ہو پائی۔ ۱۹۷۱ء کے آخر میں مجھے چاٹگام منتقل کردیا گیا جہاں میں اپنے ایک عزیز کے گھر میں رہی۔ میری زندگی میں جو سانحہ رونما ہوا تھا، اُس نے میری بینائی چھین لی۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے کراچی منتقل کیا گیا‘‘۔
جمیلہ خاتون نے بتایا کہ بنگالی باغیوں نے نیلفامری میں درجنوں غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرلیا تھا۔ جب پاکستانی فوج نے شہر کا کنٹرول حاصل کیا تو باغیوں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اِن بدنصیب لڑکیوں کو قتل کردیا۔
سعید پور میں قتلِ عام
ایسٹ پاکستان ریلوے کے ۴۲ سالہ ملازم نورالدین احمد نے بتایا: ’’سعید پور میں مارچ ۱۹۷۱ء کے آخر میں شورش برپا ہونے پر کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالیوں کو قتل کردیا گیا‘‘۔
نورالدین احمد سعید پور کی ریلوے کالونی کے کوارٹر نمبر اے/۵۹ میں رہتے تھے۔ نورالدین کے داماد کو قتل کردیا گیا اور باغی اُن کی بیٹی کو اغوا کرکے لے گئے۔ نورالدین احمد نے اپنی داستانِ الم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’۱۹۴۷ء میں جب ریلوے کے ملازمین کو آپشن دیا گیا تو میں نے پاکستان میں رہنا قبول کیا۔ ہاؤڑا (کلکتہ) سے مجھے چاٹگام منتقل کیا گیا۔ وہاں سے میرا تبادلہ سعید پور ہوا جہاں میں نے گیارہ سال گزارے۔ میں نے اپنی بیٹی شہلا کی شادی ریلوے ہی کے ایک ملازم سے کی۔ اُنہیں بھی کوارٹر ملا ہوا تھا‘‘۔
’’عوامی لیگ کے غنڈوں نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو سعید پور کے ان علاقوں پر حملہ کیا جہاں غیر بنگالی زیادہ تعداد میں رہتے تھے۔ ان میں ریلوے کالونی بھی شامل تھی۔ باغیوں نے میرے داماد کے کوارٹر پر بھی حملہ کیا۔ انہوں نے میرے داماد اور اُس کے بھائیوں کو قتل کرنے کے بعد میری بیٹی اور اُس کی نند کو اغوا کرلیا۔ جب سعید پور میں فوج آئی تو میں نے اپنی بیٹی اور اُس کی نند کو بہت تلاش کیا مگر دونوں کا کچھ پتا نہ چلا‘‘۔
جس دن باغیوں نے ریلوے کالونی پر دھاوا بولا، اُس دن نورالدین اپنے کوارٹر میں نہیں تھے۔ اُنہوں نے بتایا: ’’جب اپریل میں فوج نے سعید پور کا کنٹرول سنبھالا تب مقامی انتظامیہ نے ایک امن کمیٹی قائم کی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ غیر بنگالی آبادی اپنے پر ڈھائے جانے والے مظالم کا انتقام نہ لے۔ دسمبر میں جب بھارتی فوج نے سابق مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا تب ایک بار پھر غیر بنگالیوں کو سنگین مظالم اور جرائم کا سامنا کرنا پڑا۔ میں بمشکل جان بچا پایا اور نیپال چلا گیا جہاں سے ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل ہوا‘‘۔
سعید پور ہی میں ۴۲ سالہ حسینہ بیگم بھی رہتی تھیں۔ اُن کا بیٹا ریلوے میں ملازم تھا اور کملا پور میں تعینات تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے قتل عام میں تو اُن کا بیٹا بچ نکلا مگر دسمبر میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا تو مکتی باہنی نے اُن کے بیٹے کو اغوا کرلیا اور پھر اُس کا کچھ پتا نہ چلا۔ حسینہ بیگم کو دسمبر ۱۹۷۳ء میں کراچی منتقل کیا گیا۔
سعید پور سے تعلق رکھنے والے عینی شاہدین نے بتایا کہ ۲۴؍اور ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو آٹھ ہزار سے زائد باغیوں نے پورے شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹنے اور ان کے مکینوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے قبل باغیوں نے غیر بنگالیوں کی تمام دکانیں لوٹ لیں۔ شہر کے مضافاتی علاقے میں پاکستانی فوج کی ایک جیپ کو ایک بڑے ہجوم نے روک لیا۔ اُس میں سوار پانچ مغربی پاکستانی فوجیوں کو موقع ہی پر قتل کردیا گیا۔ جیپ پر ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے قبضہ کیا۔ یہ جیپ بعد میں غیر بنگالیوں کے قتل عام میں استعمال ہوئی۔
سعید پور میں مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے تک پوری انتظامیہ عوامی لیگ کے غنڈوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھی۔ ۱۹ مارچ کو رنگ پور کے ڈپٹی کمشنر نے ایک اجلاس بلایا جس میں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اور مکتی باہنی کے رہنما شریک ہوئے۔ غیر بنگالیوں کے نمائندہ افراد کو بلاکر کہا گیا کہ اگر انہوں نے باغیوں کا ساتھ نہ دیا تو اُنہیں قتل کردیا جائے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کی رات ایک لاکھ سے زائد مشتعل افراد نے سعید پور اور گولا ہاٹ شہر کے علاوہ سعید پور چھاؤنی میں پاکستانی فوج کے گیریژن پر بھی حملہ کیا۔ ۳۶ گھنٹے تک غیر بنگالیوں کے علاقوں کا محاصرہ جاری رہا، جس کے دوران غیر بنگالیوں کی سیکڑوں دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ سعید پور چھاؤنی میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں اور افسران نے بغاوت کردی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران اور سپاہیوں پر حملے کیے۔ پاکستانی فوج نے اس حیران کن تبدیلی پر کچھ ہی دیر میں قابو پالیا۔ باغی سپاہیوں اور افسروں کو انہوں نے تیزی سے کنٹرول کرلیا۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہادر فوجی افسر کیپٹن فتح محمد شاہ نے سپاہیوں کا ایک دستہ ساتھ لیا اور سعید پور کے مختلف علاقوں میں غیر بنگالیوں کو باغیوں کے نرغے سے نکالا۔ یہ ۲۹ مارچ کی بات ہے۔ اس سے بہت پہلے باغیوں نے ریلوے اسٹیشن سے ملٹری گیریزن کی سپلائی روک دی تھیں۔ فوجیوں کو اسلام آباد سے حکم ملا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینا ہے تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں۔ سعید پور چھاؤنی میں تعینات فوجیوں نے باغیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔ وہ صرف اس وقت متحرک ہوئے جب باغیوں نے پوری چھاؤنی پر قبضے کی کوشش کی اور اس حوالے سے شر پسندی پر مبنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
پاکستان کی حکومت نے اگست ۱۹۷۱ء میں ایک وائٹ پیپر شائع کیا، جس میں مارچ ۱۹۷۱ء کے اندوہ ناک واقعات کی تفصیل درج تھی۔ وائٹ پیپر میں لکھا تھا: ’’باغیوں نے جتھوں کی شکل میں غیر بنگالیوں کے علاقوں پر حملے کیے اور بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ باغیوں نے سعید پور میں مختلف علاقوں پر حملوں کے بعد اُس سے متصل قصبے گولا ہاٹ پر بھی حملہ کیا۔ بعد میں جب اُنہوں نے سعید پور چھاؤنی پر حملہ کیا اور فائرنگ کی تو فوجیوں کو بھی جواب میں فائر کھولنا پڑا۔‘‘
☼☼☼
Leave a Reply