
جب جیسور پر قیامت ٹوٹی
جیسور بھارتی سرحد کے نزدیک اسٹریٹجک اہمیت کا کنٹونمنٹ ایریا ہے۔ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران جیسور میں سیکڑوں غیر بنگالیوں اور چند پاکستان نواز بنگالیوں کو بھی انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ قاتلوں میں ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس کے منحرف اہلکاروں اور عوامی لیگ کے کارکنوں کے علاوہ بھارت سے در اندازی کرنے والے ہندو بھی شامل تھے۔ جیسور چھاؤنی میں محصور مغربی پاکستانی فوجیوں کی طاقت اس قدر کم تھی کہ وہ منحرف فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور عوامی لیگ کے کارکنوں کے جنون کے آگے بند باندھنے سے قاصر تھے۔ ۴ مارچ ۱۹۷۱ء کو دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب کھلنا سے آنے والی ایک ٹرین کو جیسور میں باغیوں نے پٹڑی سے اتار دیا۔ مسلح بنگالی باغیوں نے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ٹرین سے اتار کر لوٹا اور وہیں قتل کردیا۔ اِن بدنصیب انسانوں کی لاشیں ریلوے ٹریک پر گھسیٹی گئیں۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں بنگالی باغیوں نے دہشت کا جو راج قائم کیا، اُس نے جیسور میں بارہ سے بیس ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف باغیوں اور ان کا ساتھ دینے والوں نے ۲۵ مارچ سے ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران جیسور کی جھم جھم پور کالونی میں کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالیوں کو قتل کیا۔ ۵۰۰ سے زائد غیر بنگالی خواتین کو اغوا کرکے بھارت لے جایا گیا، جہاں انہیں عصمت فروشی کے اڈوں پر فروخت کردیا گیا۔ ۲۹ اور ۳۰ مارچ کو جیسور کے علاقے رام نگر کالونی میں غیر بنگالیوں کی درجنوں جھونپڑیوں کو آگ لگادی گئی، جس کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے آکر پناہ لینے والے کم و بیش ۱۵۰؍ غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
۳۰ مارچ کو تارہ گنج کالونی میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے قیامت ڈھائی۔ اس علاقے کے ساڑھے چار ہزار غیر بنگالیوں میں سے چند ہی بچ سکے۔ ۲۶ مارچ سے ۵؍اپریل کے درمیان جیسور کے علاقوں حامد پور، امبا گاؤں، پراتن قصبہ اور باچا نگر میں ایک ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
جیسور سے متصل قصبوں مبارک گنج، کالی گنج، تسدی ڈنگا اور کوٹ چند پور میں غیر بنگالیوں کے مکانات مارچ کے وسط ہی میں نشان زد کردیے گئے تھے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں باغیوں نے سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکانات لوٹ کر اُنہیں آگ لگادی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد بدنصیب غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔
’بی بی سی‘ کے ایلن ہرسٹ اور ’سنڈے ٹائمز‘ کے نکولس ٹاملین نے ایک بنگالی فوٹوگرافر محمد امین کے ساتھ اپریل کے اوائل میں جیسور کا دورہ کیا۔ تب یہ شہر عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں کے قبضے میں تھا۔ یہ لوگ شہر کا جائزہ لیتے لیتے اتفاق سے عوامی لیگ کے مرکز تک پہنچ گئے جہاں اِنہوں نے غیر بنگالیوں کے قتل عام کے آثار دیکھے۔ نکولس ٹاملن کا بھیجا ہوا ایک مراسلہ ’سنڈے ٹائمز‘ کی ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اُس کے مندرجات یہ تھے۔ ’’میں ’بی بی سی‘ پینوراما کے ایلن ہرسٹ اور بنگالی فوٹو گرافر محمد امین کے ساتھ جیسور گیا۔ پہلے ہم یہ سمجھے کہ شاید فوج حملہ کرنے والی ہے مگر پھر معاملہ کچھ اور نکلا۔ ہم نے دیکھا کہ لمبے چوڑے پنجابیوں کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے تھے اور انہیں رائفلز کے بٹ مار کر دھکیلا جارہا تھا‘‘۔
’’ایک مرحلے پر جب ہمیں ایسا لگا کہ پاکستانی فوج حملہ کرنے والی ہے تو ہم ایک ایسے کونے میں جا چھپے جہاں گھاس اگی ہوئی تھی۔ وہاں ہم نے کئی افراد کو دیکھا جنہیں کچھ دیر قبل ہی قتل کیا گیا تھا۔ ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ چند افراد نے ابھی دم نہیں توڑا تھا۔ ان کے ہاتھ پیر ہل رہے تھے مگر کوئی آواز نہیں نکل پارہی تھی۔ ہمارے ساتھ عوامی لیگ کا گائڈ تھا۔ اس نے لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ لیا۔ وہ بدحواس ہوکر ہمیں وہاں سے ہٹانے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم یہ ساری باتیں رپورٹ کریں۔ ہم تینوں نے اندازہ لگالیا کہ یہ غیر بنگالی تھے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو وہی پنجابی تھے جنہیں ہم نے ایک گھنٹہ قبل رائفلز کے بٹ کھاتے دیکھا تھا۔ فوٹوگرافر محمد امین نے بھی تصدیق کردی کہ جن لوگوں کو ہم نے خون میں لت پت دیکھا تھا، وہ وہی لوگ تھے‘‘۔
’’ہمیں دیکھ کر مقامی لوگ بھی بدحواس ہو اٹھے۔ وہ خود بھی قتل عام میں شریک تھے، اس لیے نہیں چاہتے تھے کہ کوئی غیر جانبدار شخص یہ سب کچھ دیکھے۔ انہوں نے ہمیں وہاں سے چلے جانے پر مجبور کیا۔ ہم نے راستے میں مزید چالیس پچاس پنجابیوں کو دیکھا جنہیں باندھ کر گھاس والے پلاٹ کی طرف ہی لے جایا جارہا تھا۔ یقیناً اُن کا بھی وہی مقدر تھا، جو دوسروں کا تھا۔ ان تمام بدنصیب پنجابیوں کو مخبر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا‘‘۔
لندن کے اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے ۳؍اپریل ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں برائن رِمر کا ایک مراسلہ شائع کیا، جس میں اُس نے پنجابی تاجروں کے قتل عام کی تفصیل بیان کی تھی۔ مراسلے کے مندرجات یہ تھے: ’’جن پنجابی تاجروں کو پکڑ لیا گیا تھا ان کی تصاویر “بی بی سی” پینوراما کی ٹیم نے بنائی تھیں۔ ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے تھے اور عوامی لیگ کے مسلح کارکن انہیں گھسیٹ کر لے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد مغربی ممالک کے رپورٹر اور فوٹوگرافروں نے ان تاجروں کو مقتول پایا۔ شدید تشدد کے بعد اُنہیں گولیاں ماری گئی تھیں اور ذبح کردیا گیا تھا۔ ایک پنجابی تاجر کا دم نہیں نکلا تھا اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا‘‘۔
پاکستانی فوج نے جب جیسور کا کنٹرول سنبھال لیا، اُس کے ایک ماہ بعد ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے رپورٹر میلکم براؤن نے وہاں کا دورہ کیا۔ اُس نے اپنے ۹ مئی ۱۹۷۱ء کے مراسلے میں لکھا: ’’ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں نے ۳۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو بغاوت کردی تھی۔ اس کے چار دن بعد ۴؍اپریل کی رات جیسور میں رہنے والے غیر بنگالیوں کے لیے قیامت بن کر نمودار ہوئی۔ جیسور اور کھلنا مشرقی پاکستان میں انتہائی متاثرہ علاقوں میں سے ہیں۔ یہاں بیشتر بازار اور عمارات کو تاراج کر دیا گیا۔ ہر طرف صرف تباہی دکھائی دیتی ہے۔ شہر کے دورے میں جن سرکاری افسران اور مقامی افراد نے گائڈ کا کردار ادا کیا، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہزاروں غیر بنگالیوں کو علیٰحدگی پسندوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور ستم یہ ہے کہ قتل کیے جانے سے قبل انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا‘‘۔
۵۷ سالہ محمد زبیر تاجر تھے اور جیسور کے نواح میں رہتے تھے۔ انہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کی صورت حال کچھ اس طرح بیان کی: ’’مارچ کے دوران جیسور کے مختلف علاقوں میں غیر معمولی ہراس تھا۔ غیر بنگالیوں کی اکثریت والے علاقوں میں لوگ رات رات بھر جاگتے تھے۔ مارچ کے آخری دنوں میں بہاریوں کی اکثریت والے علاقوں پر عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے قیامت ڈھائی۔ علیٰحدگی پسندوں نے جیسور چھاؤنی کے لیے سپلائی کے تمام راستے بند کردیے تھے۔ چھاؤنی میں فوجی اور ان کے اہل خانہ محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ شہر سے چھاؤنی کو جانے والی پانی کی مرکزی پائپ لائن بھی اُنہوں نے تباہ کردی تھی‘‘۔
ایک درجن سے زائد غیر بنگالی نوجوانوں نے تمام رکاوٹیں توڑ کر چھاؤنی میں محصور پاکستانی فوجیوں کو خوراک اور پانی وغیرہ پہنچانے کی کوشش کی، یہ نوجوان مسلح تھے۔ انہوں نے ایک ٹرک میں کھانے پینے کی اشیا رکھیں اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے آگے بڑھے مگر چونکہ بنگالی باغی تعداد میں بہت زیادہ تھے، اِس لیے اُنہوں نے ٹرک کو چھاؤنی سے خاصے فاصلے پر روک لیا۔ غیر بنگالیوں نے مقدور بھر مزاحمت کی مگر ناکام رہے۔ ان تمام نوجوانوں کو بنگالی باغیوں نے شہید کردیا۔ ان کی لاشیں ایک قریبی نالے میں پھینک دی گئیں‘‘۔
’’باغیوں نے جیسور کے مختلف علاقوں میں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ ان کے مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
’’باغیوں نے میرے تین جوان بیٹوں کو قتل کردیا اور میری دونوں بیٹیوں کو اغوا کرکے لے گئے۔ ایک باغی نے میرے کاندھے میں خنجر گاڑ دیا جس سے میں بے ہوش ہوکر گرگیا۔ وہ یہ سمجھے کہ میں مر گیا ہوں۔ میرے گھر کو جلا دیا گیا تھا۔ میں گھر کے پچھلے حصے میں چھپا رہا۔ جب پاکستانی فوج نے جیسور کو باغیوں کے قبضے سے چھڑایا، تب میں نے اپنے بیٹوں کی تدفین کی۔ میں نے جیسور کے چپے چپے پر اپنی بیٹیوں کو تلاش کیا مگر ان کا کچھ پتا نہ چلا‘‘۔ محمد زبیر کو جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیا گیا۔
۲۱ سالہ طاہرہ بیگم کے شوہر کو علیٰحدگی پسندوں نے ۲۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو قتل کردیا تھا۔ طاہرہ بیگم نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’ہم جیسور کے علاقے رام نگر کالونی میں رہتے تھے۔ ہمارا تعلق کلکتہ سے تھا۔ ہماری مادری زبان اردو تھی مگر میں اور میرے شوہر بنگالی بھی بہت روانی سے بولتے تھے۔ ہمارے علاقے میں بیشتر افراد غیر بنگالی تھے۔ میرے شوہر امجد علی کامیاب بزنس مین اور مشہور سماجی کارکن تھے۔ مارچ کے اوائل ہی سے جیسور میں کشیدگی پھیلنے لگی تھی اور میرے شوہر شہر کے لوگوں سے بارہا اپیل کرچکے تھے کہ سب مل جل کر رہیں اور کسی کی باتوں میں آکر مشتعل اور بدگمان نہ ہوں‘‘۔
’’میرے شوہر نے ۲۹ مارچ کو بتایا کہ وہ مقامی امن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ اس اجلاس میں بنگالی اور غیر بنگالی کمیونٹی کے نمائندوں کو شریک ہونا تھا تاکہ یہ عہد کرسکیں کہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے۔ میں خوفزدہ تھی مگر پھر بھی میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اجلاس میں ضرور جائیں تاکہ بہتری کی کوئی صورت نکلے۔ میرے شوہر جب وہاں پہنچے تو کوئی بھی بنگالی مندوب نہیں پہنچا تھا۔ اجلاس کے غیر بنگالی مندوبین ایک گھنٹے تک وہاں بیٹھے رہے مگر بنگالیوں کا کوئی بھی نمائندہ وہاں نہ پہنچا۔ میرے شوہر اور دیگر افراد گھر آگئے۔ ہمارے علاقے پر بنگالی علیٰحدگی پسندوں کے حملے کا خطرہ تھا۔ ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ ہمارے گھرانے کے ایک مخلص اور رحم دل بنگالی دوست محمد محمود نے ہمیں مشورہ دیا کہ اپنے گھر میں نہ رہیں بلکہ کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں۔ مگر میرے شوہر نے گھر ہی میں رہنے کو ترجیح دی‘‘۔
’’۲۹ مارچ کی رات کو ۵۰۰ سے زائد باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے علاقے کے تمام مردوں کو چُن چُن کر قتل کرنا شروع کیا۔ میرے شوہر نے اُن سے گزارش کی کہ بے قصور لوگوں کو قتل نہ کریں۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک منحرف سپاہی نے میرے شوہر کو گولی مار دی۔ اُن کی لاش ایک ٹرک میں ڈال کر علاقے ہی میں واقع ایک گڑھے میں پھینک دی۔ بعد میں اس گڑھے کو اجتماعی قبر میں تبدیل کردیا گیا۔ میں کچھ دن ایک بنگالی فیملی کے ہاں پناہ لیے رہی۔ اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں مجھے اپنے والدین کے پاس ڈھاکا منتقل کردیا گیا۔ وہاں سے اقوام متحدہ نے ہمیں ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیا‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply