
لال مونیر ہاٹ میں قتل عام
ضلع رنگ پور میں لال مونیر ہاٹ ایک اہم ریلوے اسٹیشن تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے اس علاقے میں باغیوں نے اپنی سرگرمیاں شروع کردی تھیں۔ غیر بنگالیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ کوشش تھی کہ غیر بنگالی مستقل خوف کی حالت میں رہیں۔ باغیوں نے اشارے دینا شروع کردیے تھے کہ وہ کسی بھی وقت لوٹ مار اور قتل و غارت شروع کرسکتے ہیں۔ مسلح باغی مختلف علاقوں میں گشت کرتے رہتے تھے۔ انہیں دیکھ کر غیر بنگالی شدید خوف محسوس کرتے تھے۔ مارچ کے ابتدائی دنوں میں لوٹ مار اور قتل کے واقعات شروع ہوچکے تھے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو لوٹنا شروع کیا۔ معاملہ صرف لوٹ مار تک محدود نہ رہتا تھا۔ لوٹنے کے بعد غیر بنگالیوں کو قتل کرکے ان کے مکانات کو آگ بھی لگادی جاتی تھی۔ ایک ماہ کے دوران لال مونیر ہاٹ میں ایک ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد قتل کرکے ان کے مکانات کو آگ لگادی گئی۔ ۵۰۰ سے زائد غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کرلیا گیا جن کا بعد میں کچھ پتا نہ چلا۔
۳۰ سالہ زہرہ کے شوہر محمد اسرائیل کا ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ایک جنرل اسٹور تھا۔ زہرہ نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’بنگالی ہمسایوں سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ ہمارے علاقے میں کبھی کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی تھی مگر دیگر علاقوں سے آئے ہوئے باغیوں نے ہمیں ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ حالات بگڑتے گئے یا بگاڑے جاتے رہے۔ میں نے اور میرے شوہر نے سوچا کہ بچوں کو چاٹگام منتقل کردیں۔ چاٹگام میں بھی ہمارا ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ مگر لال مونیر ہاٹ سے نکلنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ٹرینوں سے اور ہائی وے پر گاڑیوں سے اُتار کر غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو میرے شوہر گھر پر نہیں تھے۔ ۲۰۰ سے زائد باغیوں نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات کو پہلے ہی نشان زد کردیا تھا۔ انہوں نے ہمارے مکان کو بھی لوٹ لیا۔ گھر کا تمام قیمتی سامان لوٹنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرے زیورات بھی لوٹ لیے۔ انہوں نے مجھے اور میرے بچوں کو باہر نکال کر گھر میں آگ لگا دی۔ باغیوں نے ہماری دکان بھی لوٹ لی جو نزدیک ہی واقع تھی۔ ہمارے بنگالی پڑوسیوں نے ہاتھ جوڑ کر ہماری زندگی کی بھیک مانگی، تب کہیں باغیوں نے میری اور میرے بچوں کی جاں بخشی کی۔ ہم اپنے مکان کو دیکھ کر کفِ افسوس ملتے رہے۔ اِس کے سِوا ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
رات بھر ہم لوگ گلی میں ایک چبوترے پر بیٹھے رہے۔ صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ ہمارا تین چوتھائی مکان جل چکا ہے۔ میرے شوہر صبح آئے تو ہم نے گھر میں قدم رکھا۔ اس جلے ہوئے مکان میں ہم نے بیس دن گزارے جو ہمارے لیے قیامت سے کم نہ تھے۔ بیس دن بعد فوج آئی تو ہماری جان چھوٹی۔ اس دوران میرے شوہر مستقل روپوشی کی حالت میں رہے کیونکہ باغیوں نے طے کرلیا تھا کہ غیر بنگالی مردوں کو چُن چُن کر قتل کرنا ہے۔ مارچ کے آخر میں قتل و غارت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو ہم بچ گئے کیونکہ ہمارا مکان تو پہلے ہی جلا ہوا تھا‘‘۔
’’فوج نے ہمیں چاٹگام منتقل کیا مگر وہاں بھی ہمارا مکان راکھ کا ڈھیر ہوچکا تھا۔ ہم نے کچھ مدت کرائے کے مکان میں گزاری۔ اس دوران میرے شوہر مختلف چیزوں کی خرید و فروخت کرتے رہے تاکہ کسی طور گھر تو چلے‘‘۔
’’۱۷؍دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب سقوطِ مشرقی پاکستان واقع ہوچکا تو ہمارے لیے نئے مصائب کا آغاز ہوا۔ باغیوں نے چاٹگام میں ہمارے علاقے پر حملہ کرکے تمام مکانات کو آگ لگادی۔ ہم نے ایک اسکول کی عمارت میں واقع کیمپ میں پناہ لی مگر بدنصیبی ہمارا تعاقب کرتی ہوئی وہاں بھی آگئی۔ کیمپ سے باغیوں نے تمام غیر بنگالی مردوں کو اغوا کرلیا۔ میں نے باغیوں کے پیروں پر گر کر اپنے شوہر کے لیے رحم کی بھیک مانگی۔ ایک باغی نے میرے سر پر لات ماری۔ میری پیشانی سے خون بہہ نکلا۔ میں نے اپنے شوہر کو بہت تلاش کیا مگر ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ جتنے بھی غیر بنگالی مرد اسکول کے کیمپ سے اغوا کیے گئے تھے، وہ قتل کردیے گئے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں مجھے میرے بچوں کے ساتھ کراچی منتقل کردیا گیا۔ میری اپنے رب سے صرف اِتنی دُعا اور التجا ہے کہ مجھے میرے شوہر سے ملادے‘‘۔
۳۰ سالہ زاہدہ کے شوہر محمد اسماعیل ریلوے کے ملازم تھے اور لال مونیر ہاٹ میں تعینات تھے۔ زاہدہ نے مارچ ۱۹۷۱ء میں جو مظالم دیکھے اور سہے، اُن کی تفصیل اُنہوں نے اِن الفاظ میں بیان کی: ’’ہم لوگ لال مونیر ہاٹ میں رہتے تھے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو میرے شوہر سانتاہار میں ڈیوٹی دے رہے تھے کہ بنگالی باغیوں کے ایک گروپ نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول کر بہت سے غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ لوگ ہمارے مکان میں بھی داخل ہوئے اور سارا سامان لوٹ کر مکان کو آگ لگادی‘‘۔
’’جب میرے شوہر سانتاہار سے واپس نہیں آئے تو میں سخت تشویش میں مبتلا ہوئی۔ میں نے ریلوے حکام سے اُن کے بارے میں پوچھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ بعد میں جب فوج نے لال مونیر ہاٹ اور دیگر علاقوں کا کنٹرول سنبھالا، تب مجھے معلوم ہوا کہ میرے شوہر کو سانتاہار میں دیگر غیر بنگالیوں کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔ سانتاہار میں ہمارے چند رشتہ دار بھی رہتے تھے۔ ان سب کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘۔
’’اب میرے لیے انتہائی مشکلات کا دور شروع ہوا، میرے شوہر تو اب اس دنیا میں تھے نہیں۔ اپنا اور اپنے تینوں بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے مجھ ہی کوکچھ کرنا تھا۔ اور میں ہی جانتی ہوں کہ وہ دن میں نے کس طرح کاٹے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب مکتی باہنی نے بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا، تب ہمارے لیے نئی الجھنوں کا آغاز ہوا۔ جن غیر بنگالی عورتوں کے شوہر مارے جاچکے تھے، اُنہیں سعید پور لے جایا گیا۔ کہا یہ گیا کہ ہمیں ریڈ کراس کے کیمپ میں رکھا جائے گا مگر وہاں ہمارے لیے پریشانیاں ہی پریشانیاں تھیں۔ ہم نے شدید افلاس کی حالت میں وہ دن گزارے۔ پھر ہمیں چاٹگام میں ریڈ کراس کے قائم کیے ہوئے کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ وہاں ہم نے دو سال گزارے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں ہمیں کراچی منتقل کردیا گیا‘‘۔
زاہدہ کو اب بھی یقین ہے کہ اس کے شوہر زندہ ہیں اور ایک دن ضرور مل جائیں گے۔
۲۲ سالہ انجمن بیگم اور ان کے شوہر قیصر حسین ۲۸مارچ ۱۹۷۱ء کو تفسیدنگا میں رونما ہونے والی قیامت سے کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انجمن بیگم نے اس انسانیت سوز دور کے بارے میں ان الفاظ میں بتایا: ’’ہم لوگ تفسیدنگا کے علاقے پیک گاچا کی ایک جھونپڑی میں رہتے تھے۔ اس علاقے کو بہاری پاڑا بھی کہا جاتا تھا۔ اس علاقے میں آباد بیشتر افراد انتہائی کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے شوہر تجارتی مال کی نقل و حمل کا کام کرتے تھے۔ اس علاقے میں آباد بنگالیوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہمارے علاقے میں کبھی کوئی فساد برپا نہیں ہوا تھا‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آخر میں عوامی لیگ کے غنڈوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر بھی حملہ کیا اور تمام جھونپڑیاں جلا ڈالیں۔ اس سے قبل سارا سامان لوٹ لیا گیا۔ جلتی ہوئی جھونپڑیوں سے نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ہمارے علاقے میں سیکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے علاقے کی واحد مسجد کو بھی شہید کردیا‘‘۔
’’میں نے اور میرے شوہر نے بھاگ کر جان بچائی۔ ہم ایک قریبی کھیت میں رات بھر چُھپے رہے۔ جھونپڑیوں کی طرف سے فائرنگ اور چیخوں کی آوازیں ہم تک آتی رہیں۔ صبح کا اجالا پھیلا تو ہم نے ایک کسان کی جھونپڑی میں پناہ لی۔ ہم اس بنگالی کسان کو جانتے تھے۔ جیسور میں پاکستانی فوج کی آمد تک ہم اِس جھونپڑی میں چُھپے رہے‘‘۔
انجمن بیگم اور اُن کے شوہر ۱۹۷۱ء کے موسم خزاں میں ڈھاکا چلے گئے۔ وہاں سے جنوری ۱۹۷۴ء میں یہ دونوں پاکستان پہنچے۔
تفسیدنگا میں کم و بیش ۳۰۰ غیر بنگالی مرد، عورتیں اور بچے قتل ہوئے۔ مارچ کے وسط ہی سے عوامی لیگ اور ایک علیحدگی پسند تنظیم ’’سنگرام پریشد‘‘ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا تھا۔ غیر بنگالیوں کے مکانات کو نشان زد کردیا گیا تھا۔ ۳۰؍اور ۳۱ مارچ کو اس علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ غیر بنگالی مردوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ اِس کے بعد عورتوں اور بچوں کی باری آئی۔ جوان غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرکے اُن کی بے حُرمتی کی گئی۔ چند ہی غیر بنگالی جان بچانے میں کامیاب ہوسکے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ۱۴؍ مارچ کو باغیوں نے پاکستانی فوج کے ایک پنجابی لیفٹیننٹ کو گولی مار دی۔ وہ اپنے ایک دوست کی عیادت کے بعد واپس چھاؤنی جارہا تھا کہ راستے میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے اُسے گھیرلیا۔ چھاؤنی کے بہت سے سپاہیوں کو بھی عوامی لیگ کے غنڈوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ جیلوں اور پولیس لاک اپ میں موجود پنجابیوں کو نکال کر کھیتوں میں فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردیا گیا۔
۵۱ سالہ قربان علی جیسور کے علاقے رام نگر کالونی میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی کہانی ان الفاظ میں سُنائی: ’’۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں جب عوامی لیگ نے بھرپور کامیابی حاصل کی تو جیسور میں بسے ہوئے غیر بنگالی خوفزدہ ہوگئے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اس کامیابی کے نتیجے میں بنگالی علیحدگی پسندوں کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ غیر بنگالیوں پر غصہ ضرور اتاریں گے۔ بھرپور انتخابی کامیابی کے بعد عوامی لیگ کے کارکنوں نے غیر بنگالیوں پر طعن و تشنیع شروع کردی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل میں عوامی لیگ کے کارکنوں اور بھارت سے در اندازی کرکے آنے والے بنگالی ہندوؤں نے مقامی بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے خلاف اکسانا شروع کیا۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ، ایسٹ پاکستان رائفلز اور انصار (پولیس فورس) سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں اور عوامی لیگ کے کارکنوں نے جیسور میں غیر بنگالیوں کا صفایا کرنے کے منصوبے بنانے شروع کردیے۔ مارچ کے وسط میں انہوں نے جیسور چھاؤنی کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا۔ چند افسران اور سپاہیوں نے جب باغیوں سے ٹکرانے اور محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تو گھمسان کی لڑائی ہوئی اور متعدد افسران مارے گئے۔ جن علاقوں میں غیر بنگالی رہتے تھے، وہاں فائرنگ کے واقعات رونما ہونے لگے، جن میں بہت سے غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھوتے رہے۔‘‘
’’بنگالی علیحدگی پسندوں نے ۲۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو رام نگر کالونی پر دھاوا بول دیا۔ مکانات کو لوٹ کر آگ لگادی گئی۔ دو دن تک قتلِ عام جاری رہا، جس میں ہزاروں غیر بنگالی مرد، عورتوں اور بچوں نے جام شہادت نوش کیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں کے حملوں میں مجھے بھی زخم آئے اور میں قتل ہونے والوں میں بے ہوش پڑا رہا۔ رات ہوئی تو میں نے ایک اُجڑے ہوئے اسکول میں پناہ لی۔ میری بیٹی بھی قتل کردی گئی۔ میرے داماد نے بھاگ کر جان بچائی۔ وہ اب بھی مشرقی پاکستان ہی میں ہے‘‘۔
قربان علی کو فروری ۱۹۷۴ء میں اقوام متحدہ کی وساطت سے چاٹگام سے کراچی منتقل کیا گیا۔
مبارک گنج کے علاقے میں ۱۰۰ سے زائد غیر بنگالی خاندان رہتے تھے۔ ۲۹ مارچ کو اس علاقے پر بھی باغیوں نے دھاوا بولا اور غیر بنگالی مردوں کو چُن چُن کر قتل کرنا شروع کیا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کا سلسلہ آٹھ دن چلتا رہا۔ اس دوران کم و بیش ۲۰۰ غیر بنگالی مردوں کو قتل کیا گیا۔ ۱۰۰ سے زائد غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کیا گیا جن میں بیشتر کی عزت لُوٹی گئی۔ جن لڑکیوں نے بھارت لے جائے جانے کے خلاف مزاحمت کی اُنہیں قتل کردیا گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ کالی گنج کے علاقے میں بیشتر غیر بنگالی مردوں کو مارچ کے آخری اور اپریل کے پہلے ہفتے کے دوران انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اس قتل عام کے بعد قاتل بھارت بھاگ گئے۔ بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انہیں قتل کرکے ان کی ماؤں کو اغوا کرلیا گیا اور ان میں سے بیشتر کی عزت پامال کردی گئی۔ جب باغی بھارت بھاگ گئے تو بہت سے تباہ شدہ مکانات سے ایسی بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کی لاشیں ملیں جن کی چھاتیاں کاٹ دی گئی تھیں۔ غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے عوامی لیگ کے غنڈوں اور ان کے ساتھیوں نے چیمبرز بنا رکھے تھے۔ کالی گنج میں کم و بیش ۳۰۰ غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کوٹ چند پور
کوٹ چند پور میں عوامی لیگ کے غنڈوں اور ان کے ساتھیوں نے کم و بیش ۸۵۰ غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ چند ہی افراد بمشکل جان بچا پائے۔
۳۵ سالہ غلام وارثی ضلع جیسور کے قصبے کوٹ چندپور کے علاقے بڑا بازار میں رہتا تھا۔ اُن کی بیوی کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل کیا اور بیٹی کو اغوا کرکے لے گئے۔ غلام وارثی نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میں نے جو صدمے سہے ہیں، اُنہوں نے مجھے وقت سے بہت پہلے بوڑھا کردیا۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں جو کچھ ہوا، اُس نے میری زندگی برباد کردی۔ میں کپڑے کا بیوپاری تھا اور ہماری زندگی مجموعی طور پر بہت اچھی طرح گزر رہی تھی۔ ہم کسی حد تک خوشحال تھے۔ کوٹ چندپور میں میرے کئی بنگالی دوست تھے۔ ہم ایک عرصے سے کوٹ چندپور میں رہتے آئے تھے اور میں بنگالی بہت روانی سے بولتا تھا۔ اس قصبے میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی رہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر اتر پردیش اور بہار کے مہاجرین تھے۔ چند ایک کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا‘‘۔
’’کوٹ چند پور کے غیر بنگالیوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ عوامی لیگ کی صفوں میں موجود چند الٹرا نیشنلسٹ مقامی بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے خلاف اکسا رہے تھے۔ ۲۸ مارچ کو میں اپنی کپڑے کی دکان میں تھا کہ مجھے یہ روح فرسا خبر ملی کہ شر پسندوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کردیا ہے۔ میں دکان بند کرکے فوراً اپنے علاقے کی طرف چلا۔ قاتلوں سے بچنے کے لیے میں پچھلی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے محلے تک پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ جن مکانات کو آگ لگادی گئی تھی، ان میں میرا گھر بھی شامل تھا۔ شعلوں سے بے نیاز ہوکر، انجام کی پروا کیے بغیر میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور اپنے تین بیٹوں کو نکالا۔ میری بیٹی کا کہیں پتا نہ تھا۔ میری بیوی خون میں لت پت پڑی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ عوامی لیگ کے درندوں نے اُسے گولی مار دی تھی۔ جب پاکستانی فوج نے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا تو میں نے فوجیوں کی مدد سے اپنی بیٹی کو بہت ڈھونڈا مگر اُس کا کچھ پتا نہ چلا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے دو دن میں ایک ہزار غیر بنگالیوں کی بستی کا صفایا کردیا۔ ۸۰ لڑکیوں کو اغوا کیا گیا جن کا بعد میں کچھ پتا نہ چل سکا‘‘۔
غلام وارثی اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ ۱۹۷۱ء کے وسط میں ڈھاکا منتقل ہوئے جہاں سے اُنہیں فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل کیا گیا۔
۴؍اپریل ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ بنگال رجمنٹ کے منحرف سپاہیوں نے جیسور کے کرسچین فاطمہ کیتھولک اسپتال میں اطالوی پادری ریورنڈ ماریو ویرونیسی کو قتل کردیا۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے اس قتل کا الزام بھی پاکستانی فوج پر تھوپ دیا۔
پاکستان میں اٹلی کے سفیر نے جب جیسور کے رومن کیتھولک مشن کا دورہ کرکے حقائق جاننے کی کوشش کی تو پاکستانی فوج نے انہیں بتایا کہ اس امر کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اطالوی پادری کو بھارت نواز باغیوں نے قتل کیا تھا، پاکستانی فوج نے نہیں۔
حقائق سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ۴؍اپریل کو جیسور شہر پورا کا پورا بنگالی باغیوں کے کنٹرول میں تھا اور ایسٹ بنگال رجمنٹ کے منحرف سپاہیوں نے جیسور کے کرسچین فاطمہ کیتھولک اسپتال پر حملہ کیا تھا۔ اِنہی باغیوں نے ریورنڈ ماریو ویرونیسی کو بھی قتل کیا تھا۔ قتل کے وقت ریورنڈ ماریو ویرونیسی نے اپنا روایتی لباس نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ بنگالی باغیوں نے انہیں پٹھان سمجھا ہو۔ جس وقت یہ قتل ہوا، جیسور سمیت کئی شہروں میں باغی ہر اُس شخص کو موقع ہی پر قتل کر رہے تھے جس کے بارے میں مغربی پاکستانی ہونے کا ذرا سا بھی شبہ ہو۔
جیسور سے تعلق رکھنے والے افراد نے کراچی میں انٹرویو کے دوران بتایا کہ جیسور کے اسپتال میں اطالوی پادری سمیت چھ افراد کو باغیوں نے ہلاک کیا تھا۔ پادری کو اسپتال کے احاطے میں دفن کیا گیا تھا۔
عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا کہ جیسور سمیت کئی علاقوں میں بھارت سے در اندازی کرنے والے بنگالی ہندو پھیل گئے تھے اور انہوں نے غیر بنگالیوں کے قتل عام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھارت کے بنگالی ہندو لوٹ مار اور املاک کو تباہ کرنے کے معاملے میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے نمائندے مارس کوئنٹنس اور پانچ دیگر غیر ملکی صحافیوں نے ۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو جیسور کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو مقامی کمانڈر نے انہیں بتایا کہ عوامی لیگ کے غنڈوں کو بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس کی دو کمپنیز نے مدد فراہم کی۔ بھارت کے لیے ایسا کرنا کچھ دشوار نہ تھا کیونکہ بھارتی سرحد جیسور سے زیادہ دور نہ تھی۔ اس وقت بھارت نے جیسور سے ملحق علاقے میں بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک لاکھ سے زائد اہلکاروں کو تعینات کر رکھا تھا۔
نریل کے دُکھ
نریل ضلع جیسور کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں جب ہر طرف بغاوت کا جھنڈا لہرایا تو یہ قصبہ بھی عوامی لیگ کے غنڈوں کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ جب عوامی لیگ کے غنڈوں نے اس قصبے پر قیامت ڈھانے کا فیصلہ کیا تو انتظامیہ کا دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ۲۵ مارچ سے ۶؍اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران نریل میں غیر بنگالیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اِس مدت میں ۸۰۰ غیر بنگالیوں کو شہید کردیا گیا۔
۳۵ سالہ غفور احمد نریل میں بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ ایک تجارتی فرم کے ملازم تھے۔ اُن کی جان بچانے میں ایک بنگالی دوست نے اہم کردار ادا کیا۔ اُس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اِن چاروں افراد کو اپنے گھر میں چُھپاکر رکھا اور بعد میں جب صورت حال ذرا بہتر ہوئی تو اِنہیں ڈھاکا منتقل کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ یہ لوگ جنوری ۱۹۷۴ء میں اقوام متحدہ کی وساطت سے کراچی منتقل ہوئے۔
غفور احمد نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’ہم لوگ نریل میں کم و بیش پندرہ سال سے رہتے آئے تھے۔ وہاں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا تھا۔ بنگالی مسلمانوں سے میری دوستی تھی۔ میں انہیں پسند کرتا تھا۔ وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ ہمارے علاقے کے نزدیک ہی ایک مندر تھا۔ قریب ہی چند ہندو گھرانے بھی آباد تھے۔ غیر بنگالی مسلمانوں کو یہ ہندو بنگالی پسند نہیں کرتے تھے، بالخصوص مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں، ہندو عسکریت پسندوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں پر مشتمل ایک بڑے جَتّھے نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کرنا شروع کیا۔ ۲۹ سے ۳۱ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران شر پسندوں نے ہمارے علاقے میں سیکڑوں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا‘‘۔
’’قتل عام سے دو دن قبل مذہبی رجحان رکھنے والے میرے ایک بنگالی دوست نے مجھ سے کہا کہ باغی غیر بنگالی افراد کا قتل عام کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ ایسے میں محفوظ ترین مقام اس کا مکان ہی ہوسکتا ہے۔ نریل کے نواح میں اُس نے اپنے مکان میں مجھے، میری بیوی اور دونوں بچوں کو پناہ دی‘‘۔
’’۲۹ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرے مکان کو بھی جلا ڈالا۔ انہوں نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کا ساتھ دینے والے بنگالیوں کو بھی نہ بخشا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقامی رہنما محمد امام الدین اور ان کے خاندان کے دس افراد کو قتل کرنے سے قبل باغیوں نے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے‘‘۔
غفور احمد نے مزید بتایا کہ جب پاکستانی فوج نے نریل کا کنٹرول حاصل کرلیا تو عوامی لیگ کے غنڈے اور ان کا ساتھ دینے والے ہندو عسکریت پسند بھارت بھاگ گئے۔ کئی دن سے پڑی سڑی ہوئی لاشوں کو دفن کرنے میں کئی دن لگ گئے۔ الگ الگ تدفین ممکن نہ تھی، اِس لیے اجتماعی قبریں تیار کی گئیں۔ باغیوں نے بہت سوں کو جلتے ہوئے مکانات میں پھینک دیا تھا۔ جب فوج نے باغیوں سے اس علاقے کو واپس چھینا، تو جلے ہوئے مکانات سے ڈھانچے برآمد ہوئے۔
Leave a Reply