
۳۱ سالہ بشیر احمد کی نریل کے علاقے مجگنی میں دکان تھی۔ اس کی جان اس لیے بچ گئی کہ وہ بنگالی زبان پر اچھا عبور رکھتا تھا اور باغیوں نے اسے بنگالی ہی سمجھا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیے جانے کے بعد بشیر احمد نے مارچ ۱۹۷۱ء کے واقعات ان الفاظ میں بیان کیے: ’’میں ایک زمانے سے جیسور میں آباد تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اہلیہ اور سسرالیوں نے زور دیا کہ نریل منتقل ہوجاؤں۔ میں بنگالی ایسی روانی سے بولتا تھا کہ کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ میں بنگالی نہیں ہوں۔ مجگنی کے علاقے میں میری دکان تھی جو اچھی چلتی تھی۔ علاقے کے تمام بنگالیوں اور غیر بنگالیوں سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں نریل میں کشیدگی بڑھنے لگی اور غیر بنگالی واضح طور پر خوفزدہ دکھائی دینے لگے۔ ۲۶ مارچ کو مرکزی بازار میں اپنے ایک بنگالی دوست سے ملنے گیا۔ اس کی سائیکل کی دکان تھی۔ اس دوست نے مجھے بتایا کہ عوامی لیگ کے کارکن اور چند بنگالی ہندو مل کر غیر بنگالیوں کے خلاف فضا بنا رہے ہیں اور بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے قتل عام پر اکسایا جارہا ہے۔ بنگالی دوست نے خدشہ ظاہر کیا کہ مغربی بنگال سے بھارت کے ایجنٹ جیسور اور نریل میں بھی داخل ہوچکے ہیں۔ اُس نے مجھے مشورہ دیا کہ اہل خانہ کو نریل کے نواح میں ایک مشترکہ بنگالی دوست کے گھر منتقل کردوں۔ میں نے اُس کے مشورے پر عمل کیا۔‘‘
’’۲۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو گھر جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ جنونی بنگالی علیحدگی پسند، دو غیر بنگالی نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے انہوں نے دونوں غیر بنگالی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چند بنگالی باغی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کر رہے تھے۔ وہ لوگ مجھے بنگالی سمجھے اور میں اپنے دوست کے گھر آگیا جہاں میرے اہل خانہ نے بھی پناہ لی ہوئی تھی۔ اُسی رات میرے علاقے میں غیر بنگالیوں کے مکانات لوٹ کر انہیں آگ لگادی گئی اور تمام مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘۔
۲۶ سالہ عبدالستار، اُس کی بیوی اور دو بچے مارچ ۱۹۷۱ء میں نریل میں برپا ہونے والی قیامت کی نذر ہوتے ہوتے بچے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر عبدالستار نے بتایا: ’’میں ایک تجارتی فرم میں ملازمت کرتا تھا اور ہماری رہائش نریل کے علاقے سونا ڈنگا میں تھی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے وسط میں گھر والے ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے جیسور گئے۔ میں ان کی غیر موجودگی میں اپنے ایک بنگالی دوست کے ہاں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ‘‘
’’۲۸ مارچ کو میرا بنگالی دوست بھاگتا ہوا میرے گھر پہنچا اور مجھ سے کہا کہ فوراً اس کے گھر منتقل ہوجاؤں کیونکہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور عوامی لیگ کے رضاکاروں نے علاقے میں تمام غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور اس کے گھر میں اس وقت تک روپوش رہا جب تک پاکستانی فوج نے آکر نریل کا کنٹرول نہیں سنبھال لیا۔ جب صورت حال نارمل ہوئی تو میں اپنے علاقے میں گیا۔ میرا گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گلیوں میں بہت سی گلی سڑی لاشیں پڑی تھیں جن پر کتے گھوم رہے تھے۔ چند معمر مرد و خواتین اور چھوٹے بچے لاشوں کے درمیان اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے تھے۔ ہمارے علاقے میں باغیوں نے کسی بھی جوان غیر بنگالی مرد کو نہیں چھوڑا تھا‘‘۔
عبدالستار نے اپریل کے وسط میں پاکستانی فوج کے آنے کے بعد جیسور جاکر بیوی اور بچوں کا سراغ لگایا۔ انہیں ایک بنگالی دوست نے پناہ دے رکھی تھی۔
بیجار ڈنگا اور جھنیڈا میں قتل عام
بیجار ڈنگا کے ریلوے اسٹیشن کے بہت سے غیر بنگالی ملازمین کو عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے ۲۰؍اور ۲۱ مارچ کو قتل کردیا۔ بیس سالہ مظفر علی کے والد منظور علی بیجار ڈنگا میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر تھے۔ مظفر نے بیجار ڈنگا میں اپنے والد کے قتل کا احوال اِن الفاظ میں سُنایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے سے عوامی لیگ کے غنڈوں نے بیجار ڈنگا میں ریلوے ملازمین کو دھمکانا اور ان کی اہانت کرنا شروع کر دی تھی۔ واضح دھمکیوں اور توہین کے باوجود غیر بنگالی ملازمین نے ریلوے اسٹیشن پر کام کرنا بند نہیں کیا۔ وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوتے رہے۔ بیجار ڈنگا میں غیر بنگالی ملازمین زیادہ تعداد میں نہیں تھے، اس لیے انہوں نے اپنے اہل خانہ کو اپنے رشتہ داروں کے ہاں جیسور اور کُھلنا بھیج دیا تھا۔ مجھے میری والدہ کے ساتھ ایک ماموں کے ہاں جیسور بھیج دیا گیا۔ میرے والد منصبی فرائض کے معاملے میں نظم و ضبط کے خاصے پابند اور عادی تھے۔ انہوں نے سخت نامساعد حالات میں بھی ڈیوٹی سے غائب رہنا مناسب نہ جانا۔‘‘
’’۲۰ مارچ کو بنگالی باغیوں نے بیجار ڈنگا ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا۔ انہوں نے اسٹیشن پر خاصی توڑ پھوڑ کی اور ٹریک کا ایک بڑا حصہ بھی اڑا دیا۔ انہوں نے غیر بنگالی ملازمین کو قطار بند کرکے گولیاں مار دیں۔ فوج کے آنے پر جب ہم بیجار ڈنگا پہنچے تو معلوم ہوا کہ میرے والد کو بھی باغیوں نے شہید کردیا تھا۔ ان کے جسدِ خاکی کا کچھ پتا نہ چلا۔ جیسور میں باغیوں سے ہمارا بچ نکلنا بھی معجزے سے کم نہ تھا‘‘۔
مظفر علی اور اس کی والدہ کو جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل کیا گیا۔
ضلع جیسور کی سب ڈویژن جھنیڈا میں بھی عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھائی۔ بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اور غیر بنگالیوں کے مکانات لوٹ کر انہیں آگ لگادی گئی۔ جھنیڈا میں غیر بنگالیوں کا قتل عام ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء سے شروع ہوا جو ۱۴؍اپریل کو فوج کی آمد تک جاری رہا۔ اس دوران غیر بنگالیوں کو اُسی طور قتل کیا گیا جس طور جیسور اور نریل میں قتل کیا گیا تھا۔ جھنیڈا سب ڈویژن میں کم و بیش ۵۵۰ غیر بنگالیوں کو شہید کیا گیا۔ ۵۰ سے زائد غیر بنگالی عورتوں کو اغوا کیا گیا۔ ان میں سے کئی کے ساتھ کھلے میدانوں میں زیادتی کی گئی اور پھر انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جھنیڈا کیڈٹ کالج کے ۱۹ سالہ طالب علم سید حسن جاوید نے بتایا: ’’۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہزاروں باغیوں نے پاکستان کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے جھنیڈا کیڈٹ کالج پر دھاوا بول دیا۔[ سید حسن جاوید اپنے والدین کے ساتھ ۱۹۷۱ء ہی میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) منتقل ہوگئے۔ اب وہ جامعہ کراچی میں بی اے (آنرز) کے طالب علم ہیں۔]حسن جاوید نے بتایا: ’’شیخ مجیب الرحمٰن نے ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو جو تقریر کی تھی اس کے بعد جھنیڈا کیڈٹ کالج کا ماحول بھی انتہائی کشیدہ ہوگیا تھا۔ اس نشری تقریر میں شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگالیوں پر زور دیا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کی عملداری تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ جھنیڈا کیڈٹ کالج کے ہاسٹل میں ۲۵۱ طلبہ مقیم تھے، جن میں غیر بنگالی صرف ۲۵ تھے۔ بنگالی انہیں بہاری کہا کرتے تھے۔ ۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو سیکڑوں بنگالی باغیوں نے جھنیڈا کیڈٹ کالج کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول دیا۔ وہ پاکستان اور بہاریوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے پرنسپل نے صورت حال کی نزاکت کو بھانپ لیا اور تمام طلبہ سے کہا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ ہوجائیں اور ان کے خلاف جانے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ تمام مظاہرین ۱۹۵۰ء میں بنگالی زبان کی تحریک کے لیے جان سے ہاتھ دھونے والوں کی یادگار شہید مینار تک گئے اور وہاں یہ عہد کیا کہ وہ ہر حال میں آزاد بنگالی ریاست قائم کرکے دم لیں گے۔ اگلے دن شہر میں صورت حال بہت کشیدہ ہوگئی کیونکہ عوامی لیگ کے غنڈوں کی طرف سے تشدد اور قتل و غارت کا خطرہ تھا۔ فضا میں خوف تھا۔ غیر بنگالیوں کو صاف محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل و غارت کی دھمکی دے رکھی تھی۔ ۹ مارچ کو پرنسپل نے کالج بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ہاسٹل میں سکونت پذیر تمام طلبہ سے کہا کہ وہ اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔ میرے والدین کُھلنا کے علاقے خالص پور میں رہتے تھے جو جھنیڈا سے ۶۸ میل دور تھا۔ میں کسی نہ کسی طرح کُھلنا روانہ ہوا۔ راستے سنسان تھے۔ کبھی کبھی فائرنگ کی آواز سنائی دیتی تھی، جس سے فضا مزید کشیدہ اور خوفزدہ سی ہو جاتی تھی۔ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں کس طور اپنے گھر خالص پور پہنچا۔ میری والدہ تو مایوس ہوکر یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ اب وہ کبھی میری شکل نہیں دیکھ پائیں گی۔ جب انہوں نے مجھے اپنے سامنا پایا تو خوشی کے مارے پاگل سی ہوگئیں، گلے لگایا اور فوراً شکرانے کے نوافل ادا کیے‘‘۔
حسن جاوید نے بتایا کہ انہوں نے ۱۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو خالص پور میں دیکھا کہ عوامی لیگ کے چند غنڈے ایک پٹھان چوکیدار کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس پٹھان چوکیدار نے دم توڑ دیا۔ ۱۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو بنگالی باغیوں نے حسن جاوید کے پنجابی پڑوسی کو گھر سے باہر نکال کر قتل کیا اور اس کی دو کم عمر بیٹیوں کو ساتھ لے گئے۔ دو دن بعد اُن دونوں لڑکیوں کی لاشیں ایک قریبی ٹینک میں پائی گئیں۔ حسن جاوید نے بتایا کہ ۲۸ مارچ کو ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں کے ساتھ مل کر کُھلنا کے مختلف علاقوں پر حملہ کیا۔ جن غیر بنگالیوں نے کمشنر کے حکم کے باوجود اپنے ہتھیار جمع نہیں کرائے تھے، انہوں نے باغیوں کا ڈٹ کر سامنا کیا اور مقابلہ خاصی دیر تک چلا۔ بعد میں فوج کے یونٹس نے آکر باغیوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا اور صورت حال معمول پر آئی۔‘‘
درسانا اور نوا پاڑا میں قتل عام
دَرسانا
درسانا ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے درسانا میں آباد غیر بنگالیوں کو مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے ڈرانا دھمکانا شروع کردیا تھا۔ اس قصبے میں غیر بنگالی زیادہ تعداد میں نہ تھے مگر اُن میں سے بیشتر بہت خوش حال تھے۔ اِن میں سے بیشتر ریلوے کے ملازم تھے۔ ۲۰ مارچ سے ۱۹؍اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے درسانا میں تین چوتھائی سے زائد غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ سیکڑوں غیر بنگالی عورتوں اور لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جب فوج نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا، تب اِن میں سے بیشتر بدنصیب لڑکیوں کو قتل کردیا گیا۔ بہت سی لڑکیوں کو باغی اپنے ساتھ بھارت لے گئے۔
پچاس سالہ مدینہ خاتون کے شوہر عبدالحمید ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ چاٹگام کے ایک کیمپ سے فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہونے پر مدینہ خاتون نے بتایا: ’’۲۵ مارچ کو باغیوں نے ہمارے علاقے پر بھی حملہ کیا اور غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے ہمارے گھر پر بھی دھاوا بولا۔ دروازہ توڑ کر وہ گھر میں داخل ہوئے اور میرے شوہر اور میرے بھائی کو گھسیٹ کر باہر نکالا۔ میں نے اُن کے پیروں میں گر کر اپنے شوہر اور اپنے بھائی کی زندگی کی بھیک مانگی۔ ایک باغی نے چیخ کر کہا کہ بنگال کی سرزمین پر بہاریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اُنہوں نے ایک عقوبت گاہ میں لے جاکر میرے شوہر اور بھائی کو قتل کردیا‘‘۔
’’بنگالی باغیوں نے درسانا میں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر ختم کیا۔ اُنہوں نے معذور غیر بنگالیوں کو بھی نہ بخشا۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ غیر بنگالی کہاں کہاں رہتے ہیں اور کس کی مالی حیثیت کیا ہے۔ کئی کاروباری غیر بنگالیوں سے اُنہوں نے جاں بخشی کے نام پر خطیر رقوم بٹور لیں۔ اُنہوں نے غیر بنگالیوں کے فرار کی تمام کوششیں بھی ناکام بنائیں۔ اُن کا خفیہ نیٹ ورک بہت مضبوط تھا۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کون کہاں رہتا ہے اور کِس راستے سے فرار ہوسکتا ہے۔ ۱۵؍مارچ سے اپریل ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے تک بنگالی باغیوں نے غیر بنگالیوں کو کئی مراحل میں قتل کیا۔ اِن بدنصیب انسانوں کی لاشیں مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں میں پڑی رہتی تھیں‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply