
نوا پاڑا میں قتلِ عام
نوا پاڑا ضلع جیسور میں ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ اس قصبے نے عوامی لیگ کے کارکنوں کی برپا کی ہوئی بغاوت کا مزہ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں چکھا۔ اس قصبے میں غیر بنگالی کم تعداد میں سکونت پذیر تھے۔ ان میں سے بیشتر مقامی جوٹ مل میں کام کرتے تھے یا اس سے متعلق ہی کاروبار کرتے تھے۔ جوٹ مل کا مالک غیر بنگالی تھا، اس لیے جب بغاوت کی لہر اٹھی تو یہ مل خاص طور پر بنگالی قوم پرستوں کے عتاب کا نشانہ بنی۔
۲۹ سالہ شیخ عزیز اس جوٹ مل میں گارڈ کی حیثیت سے ملازم تھا۔ اس نے ۲۱ مارچ ۱۹۷۱ء کو جوٹ مل کی حدود میں غیر بنگالی ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کا بہیمانہ قتلِ عام دیکھا۔ شیخ عزیز کے ایک چچا بھی قتل کر دیے گئے۔ ان کی بیوی اور بچے کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ شیخ عزیز انہیں لے کر کسی نہ کسی طرح ڈھاکا پہنچا اور وہاں سے نیپال ہوتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں کراچی پہنچا۔
شیخ عزیز نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میں کارپیٹنگ جوٹ مل (نوا پاڑا) کے چھ غیر بنگالی گارڈز میں سے تھا۔ دیگر ۱۳؍گارڈ بنگالی تھے۔ ہمارا سیکورٹی انچارج فرید احمد، اللہ کا خوف رکھنے والا، رحم دل غیر بنگالی تھا۔ اس کی بیوی بنگالی تھی۔ فرید احمد نے کئی مقامی بنگالیوں کو مل میں ملازمت دلائی تھی‘‘۔
’’۲۱ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں کے ایک گروہ نے کارپیٹنگ جوٹ مل پر دھاوا بولا۔ انہوں نے مل میں کام کرنے والے چند بنگالیوں کی مدد سے بھرپور منصوبہ تیار کیا کہ کس طور مل کو لوٹنا ہے اور اس کی عمارت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ غیر بنگالی ملازمین کو ٹھکانے لگانا ہے۔ اِن جنونیوں کا پہلا نشانہ فرید احمد تھا۔ فرید احمد کو انہوں نے آفس سے کھینچ کر نکالا۔ اس پر انتہائی تشدد کیا گیا۔ لوہے کی سلاخوں اور خنجروں سے ان کے جسم پر اَن گِنَت وار کرنے کے بعد ایک ایسے بنگالی گارڈ نے گولی ماری جسے انہوں نے چند سال قبل ملازمت دی تھی۔ فرید احمد کو قتل کرنے کے بعد باغیوں نے مل کا مرکزی دروازہ بند کردیا۔ اب مل کی حدود میں موجود کسی بھی غیر بنگالی کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ میرے چچا بھی مارے گئے۔ میری جان یوں بچی کہ میں ایک اسٹور روم میں دو دن تک چھپا رہا‘‘۔
’’مل کی حدود میں تمام غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے بعد باغیوں نے مل سے ملحق کالونی کا رُخ کیا جہاں غیر بنگالی ملازمین کے اہلِ خانہ رہتے تھے۔ انہوں نے پختہ عمر کے تمام غیر بنگالی مردوں کو شہید کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی اور بہت سی لڑکیوں کو اغوا کرکے لے گئے۔ میری چچی اور ان کے بچے معجزانہ طور پر بچ گئے جنہیں لے کر میں ڈھاکا پہنچا‘‘۔
۲۰ سالہ حسنٰی بیگم کے والد طاہر حسین نوا پاڑا کی جوٹ مل میں ملازمت کرتے تھے۔ حسنٰی اور اُس کی والدہ کو اُس کے ماموں کے ایک بنگالی دوست نے اپنے ہاں پناہ دی اور جتنے دن بغاوت کی لہر رہی، اُنہیں اپنے ہاں رکھا۔ جب پاکستانی فوج نے علاقے کا کنٹرول سنبھالا تو اُنہوں نے حسنٰی اور اُس کی والدہ کو چاٹگام منتقل ہونے میں مدد دی۔ حسنٰی اور اس کی والدہ اقوام متحدہ کی وساطت سے فروری ۱۹۷۴ء میں بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچیں۔ حسنٰی کے والد کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ اُس نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے والد کا تعلق بِہار سے تھا۔ وہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں بہار سے نریل منتقل ہوئے تھے۔ میں نریل ہی میں پیدا ہوئی۔ اسکول میں میری تعلیم بنگالی میڈیم سے ہوئی۔ میں اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتی۔‘‘
’’عوامی لیگ کے غنڈوں نے ۲۲ مارچ کو جوٹ مل پر حملہ کیا اور میرے والد کو بھٹی میں پھینک دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کیا۔ وہ مجھے اور میری والدہ کو تلاش کر رہے تھے۔ ہمیں تو ماموں کے ایک بنگالی دوست نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔ باغی ہمیں تو تلاش نہ کرسکے مگر ہاں، انہوں نے ہمارے گھر کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی۔ والد کے قتل کی اطلاع ہمیں اگلے دن ملی‘‘۔
’’ہمارے علاقے میں ایک غیر بنگالی تاجر تھے۔ باغیوں نے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ تاجر اور ان کی اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد باغیوں نے اُن کی تینوں بیٹیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ نوا پاڑا کے مرکزی بازار میں تینوں بدنصیب لڑکیوں کو برہنہ پریڈ کرانے کے بعد اُنہیں قریبی کھیتوں میں لے جاکر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہم نے جن کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی، ان کے ایک شناسا بنگالی نے یہ منظر دیکھا تھا۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا‘‘۔
باریسال میں قتل و غارت
عوامی لیگ کے باغیانہ رجحانات نے مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں ضلع باریسال کے مختلف علاقوں میں بنگالی اور غیر بنگالی آبادی کے درمیان نفرت کے بیج بو دیے تھے۔ کشیدگی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ عوامی لیگ کے شرپسندوں نے سازش کے تحت یہ پروپیگنڈا کیا کہ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کو قتل کیا جارہا ہے اور پاکستانی فوج ڈھاکا میں بنگالیوں کو چُن چُن کر قتل کر رہی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد عام بنگالی کو سابق مشرقی پاکستان کی سرزمین پر آباد تمام غیر بنگالی پاکستانیوں کے خلاف اُکسانا تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں غیر بنگالیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے اِکّا دُکّا واقعات رونما ہوتے رہے۔ پھر اِن واقعات کی تعداد بڑھی اور مارچ کے آخری ہفتے میں غیر بنگالیوں کو تشدد کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ چل پڑا۔ غیر بنگالیوں کی آبادیوں کو گھیر کر قتل کرنا اور اُن کی متاع لُوٹ کر گھروں کو آگ لگانا عام ہوتا گیا۔ اِس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران موت کے گھاٹ اتارے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد کم و بیش ۱۵؍ہزار تھی۔
۲۳ سالہ احمد عالم نے یہ پُرآشوب دور ضلع باریسال کے مختلف علاقوں میں گزارا۔ اُنہیں اکتوبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا۔ احمد عالم نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو باریسال اسٹیمر جیٹی پر ۶۰ غیر بنگالی خاندانوں کے قتل کی داستان اِن الفاظ میں سُنائی: ’’عوامی لیگ کے عہدیداروں اور رضاکاروں نے علاقے کے غیر بنگالی لوگوں کو مقامی امن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور بھرپور یقین دلایا کہ اُنہیں ہر حال میں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یہ اجلاس رات نو بجے شروع ہوا۔ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے اجلاس کے شرکا پر اچانک فائر کھول دیا۔ بہت سے موقع ہی پر دم توڑ گئے۔ متعدد غیر بنگالی تیزی سے بھاگ نکلے تاکہ اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقام پر منتقل کرسکیں‘‘۔
’’اُسی رات بارہ بجے کے بعد عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں، منحرف پولیس اہلکاروں اور غنڈوں نے مل کر غیر بنگالیوں کی کالونی پر حملہ کیا۔ اُنہوں نے غریبوں کی جھونپڑیوں میں موجود سارا سامان لوٹ لیا۔ پھر اُنہوں نے بڑی تعداد میں غیر بنگالیوں کو قتل کرکے جھونپڑیوں کو آگ لگا دی۔ پچاس سے زائد عورتوں کو اغوا کرلیا اور ان میں سے بیشتر کو ہوس کا نشانہ بنایا۔ چند دن بعد جب فوج آئی تو اس نے جلی ہوئی جھونپڑیوں کے ملبے سے ۱۱۲؍ غیر بنگالیوں کی لاشیں برآمد کیں۔ بہت سی غیر بنگالی عورتوں کی لاشیں ایک تالاب سے ملیں۔ متعدد بنگالی عورتوں کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ محض درجن بھر لوگ اِس قتل و غارت کی نذر ہونے سے بچ سکے‘‘۔
۲۷ سالہ فرزانہ خاتون کے شوہر ضلع باریسال کے قصبے فیروز پور میں محکمہ ڈاک کے ملازم تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں فرزانہ خاتون کے شوہر کو ایک موٹر لانچ میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل کر دیا۔ فرزانہ خاتون نے بتایا: ’’ہم نے ۲۰ مارچ کو فیروز پور چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور کُھلنا جانے والی مسافر لانچ میں بیٹھ گئے۔ یہ موٹر لانچ کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ اِس میں ۶۰ سے زائد غیر بنگالی مرد، خواتین اور بچے تھے جو شدید عدم تحفظ کے احساس سے فیروز پور چھوڑ رہے تھے۔ ہم اِن میں سے چند ایک کو جانتے تھے‘‘۔
’’دو گھنٹے بعد ہماری کشتی ایک چھوٹی سی جیٹی پر لگی تو عوامی لیگ کے پچاس ساٹھ غنڈوں نے جیے بنگلہ اور عوامی لیگ زندہ باد کے نعروں سے ہمارا ’خیر مقدم‘ کیا۔ اُن کے ہاتھوں میں مختلف ہتھیار لہرا رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے کشتی پر چڑھ گئے۔ اُنہوں نے غیر بنگالی مردوں کو پکڑ لیا اور چند غیر بنگالی لڑکیوں کو بے لباس کرنا شروع کیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے تمام بنگالیوں کو کشتی سے اُتر جانے کا حکم دیا تاکہ غیر بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کرنا اُن کے لیے آسان ہو جائے۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے کشتی پر موجود تمام غیر بنگالی مردوں کو قتل کر ڈالا اور بچوں کو دریا میں پھینک دیا۔ بہت سی ماؤں نے جب اپنے بچوں کو دریا میں ہاتھ پاؤں مارتے دیکھا تو اُنہیں بچانے کے لیے دریا میں کود گئیں۔ اُن درندوں نے دریا میں ڈوبتی ہوئی ماؤں اور اُن کے بچوں پر بھی گولیاں برسائیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے چند غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرلیا۔ کشتی کا کپتان ایک رحم دل بنگالی تھا جو میرے شوہر کو جانتا تھا۔ اُس نے مجھے اور میرے بیٹے کو اپنے کیبن میں چٹائیوں کے بنڈل کے پیچھے چھپا دیا۔ کشتی کے کپتان نے مجھے کُھلنا پہنچایا جہاں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں چند ماہ رہی۔ اُن کے ساتھ رہنے کے طفیل ہی میں قتل و غارت سے محفوظ رہی۔ میں نے اپنے زیور بیچے اور بیٹے کو لے کر نیپال پہنچی۔ یہ بہت تکلیف دہ سفر تھا۔ وہاں سے جولائی ۱۹۷۳ء میں ہم کراچی پہنچے‘‘۔
۵۰ سالہ عبدالشکور کی بنگالی بیوی اور دو بیٹوں کو مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے کرمی ٹالا کے علاقے میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ کرمی ٹالا ضلع باریسال میں جھالو کاٹھی کے نزدیک ایک قصبہ ہے۔ عبدالشکور نے بتایا: ’’میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد بہار سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں آباد ہوگیا تھا۔ میں نے تقسیمِ ہند سے پہلے کے بنگال میں حسین شہید سہروردی، مولوی تمیز الدین، نورالامین، فضل الحق اور خواجہ ناظم الدین کی تقریریں سنی تھیں۔ میرا نظریۂ پاکستان پر مکمل یقین تھا۔ مشرقی پاکستان میں قیام کے بعد میں نے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا اور ایک بنگالی لڑکی سے شادی کی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا کاروبار دن بہ دن ترقی کرتا گیا اور میری زندگی میں خوش حالی آتی چلی گئی۔ میں جہاں بھی رہتا تھا، وہاں کے بنگالیوں سے میرے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں بھی ویسی ہی روانی سے بنگالی بولتا تھا جیسی روانی سے وہ لوگ یا میری بیوی بولتی تھی۔ ہمارے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ یہ تینوں پیدائشی بنگالی تھے اور ان کی مادری زبان بھی بنگالی ہی تھی‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے ہی سے ہمارے علاقے میں کشیدگی بڑھنے لگی تھی۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ماحول میں کشیدگی پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کردی تھیں۔ افواہوں کے ذریعے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں پر حملے کرنے پر اُکسایا جاتا تھا۔ ۲۴ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور انصار ملیشیا کے کارکنوں نے ہمارے قصبے میں غیر بنگالیوں کے علاقے پر دھاوا بول دیا۔ اُنہوں نے میرے دونوں بیٹوں کو گھر سے گھسیٹ کر نکالا، ایک کھمبے سے باندھا اور گولی مار دی۔ چند غنڈے میری بیٹی کو گن پوائنٹ پر لے گئے۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والے چند رحم دل بنگالیوں نے عوامی لیگ کے غنڈوں کے آگے گڑگڑا کر ہماری زندگی کی بھیک مانگی جس پر ہمیں معافی ملی۔ ہماری بیٹی کا کچھ پتا نہ چلا۔ میری بیوی اپنے دونوں بیٹوں کی موت اور بیٹی کے اغوا کا صدمہ برداشت نہ کرسکی اور اپریل ۱۹۷۱ء میں انتقال کرگئی۔ ہمارے علاقے میں کم و بیش ۲۵۰ غیر بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں پر کون سا پاگل پن سوار تھا، آج تک اِس کا اندازہ نہیں ہوسکا۔ میں نے اِس نوعیت کا پاگل پن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں چاٹگام چلا گیا، جہاں سے فروری ۱۹۷۳ء میں ریڈ کراس والوں نے مجھے پاکستان پہنچایا‘‘۔
۲۴ سالہ نسرین ضلع باریسال کے قصبے جھالو کاٹھی کے اللہ رکھا کی بیوہ ہے۔ اُس نے اپنی داستانِ الم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے ہی سے ہمارے چھوٹے سے قصبے میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ ہمیں مختلف ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ عوامی لیگ کے غنڈے اِس قصبے میں غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ غیر بنگالیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے اِکّا دُکّا واقعات رونما ہونے لگے تھے۔ ہم سب انتہائی خوفزدہ تھے۔ ہمارے علاقے پر کسی بھی وقت عوامی لیگ کے غنڈوں کے حملے کا خدشہ تھا اور یہ خدشہ بِلاسبب یا بِلاجواز نہ تھا۔ میرے شوہر ایک تجارتی فرم میں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم تھے۔ اُنہوں نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قصبے میں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
’’۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو جھالو کاٹھی میں غیر بنگالیوں کے خلاف شدید نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا۔ ہمارے قصبے میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی رہتے تھے۔ اُن میں سے بیشتر مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قاتلوں کا ایک گروہ رات کو دروازہ توڑ کر ہمارے گھر میں داخل ہوا۔ اُنہوں نے میرے شوہر اور دو چھوٹے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اُن غنڈوں نے میرے جسم پر بھی رائفل کے بٹ مارے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے بھی قتل کر دیں۔ اُنہوں نے میری ساڑھی پھاڑ دی اور ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ قصبے کے مرکزی بازار میں مجھے اور بھی بہت سی غیر بنگالی عورتیں دکھائی دیں جو مجبوری کی حالت میں غنڈوں کے ساتھ جارہی تھیں۔ چند لڑکیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو علیحدگی پسند غنڈوں نے اُنہیں گولی مار دی۔ اُن غنڈوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم اُن کی غلامی میں رہیں گی‘‘۔
مجمع میں ایک ادھیڑ عمر بنگالی کو مجھ پر رحم آگیا۔ اُس نے غنڈوں سے کہا کہ اُسے گھر کے کام کاج کے لیے نوکرانی کی ضرورت ہے، اِس لیے مجھے اُس کے ساتھ جانے دیں۔ غنڈوں نے اِس کی اجازت دے دی۔ یوں میں اُس بنگالی کے ساتھ چل دی۔ وہ شخص میرے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا۔ وہ مجھے گھر لے گیا اور اپنی ماں کے حوالے کرکے مجھے یقین دلایا کہ میں اُس کے گھر میں حقیقی بہن کی طرح رہوں گی۔ میں اُس گھر میں دو ہفتے رہی۔ اِس دوران میں اُن کے لیے بخوشی کھانا پکاتی رہی۔ کچھ دن بعد جب فوج نے جھالو کاٹھی اور اُس سے ملحق علاقوں کا کنٹرول سنبھالا تو میں نے اپنی بہن اور بہنوئی کو ڈھونڈ نکالا۔ اُنہوں نے ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے بحری جہاز کے ذریعے چاٹگام سے کراچی منتقل کیا گیا‘‘۔
○○○
Leave a Reply