
ہیلی میں قتل عام
ضلع دیناج پور کے جن علاقوں میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارے گئے ان میں ہیلی، جمال گنج، پونچا گڑھ اور چوڑ کائی شامل تھے۔ ان علاقوں میں مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے نصف سے اپریل ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے تک کم و بیش چار ہزار غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔ لندن کے روزنامہ ’’دی ٹائمز‘‘ نے ۶؍اپریل ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں لکھا: ’’تقسیم ہند کے وقت بھارت سے جن لوگوں نے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں پناہ لی تھی انہیں چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ بہاریوں کے قتل عام کی تصدیق برطانیہ کے ایک نوجوان ٹیکنیشین نے بھی کی ہے، جس نے آج ہی ہیلی کے مقام پر سرحد عبور کی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ہیلی میں سیکڑوں غیر بنگالی پاکستانیوں کو قتل کردیا گیا ہے‘‘۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ بیشتر ہلاکتیں ایسٹ پاکستان رائفلز، ایسٹ بنگال رجمنٹ اور عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ طریقہ وہی تھا جو دیناج پور اور پاربتی پور میں اپنایا گیا تھا یعنی لُوٹو، قتل کرو اور گھروں کو آگ لگادو۔ جب پاکستانی فوج کی آمد کی اطلاعات ملیں تو باغیوں نے بھارتی علاقوں میں پناہ لی مگر پسپا ہوتے وقت وہ دیناج پور اور دیگر بہت سے علاقوں سے اغوا کی جانے والی جواں سال غیر بنگالی لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ مختلف علاقوں سے بہت سے باغی بھاگ کر ہیلی میں جمع ہوتے رہے، جہاں سے وہ بھارت بھاگ گئے۔ باغیوں نے جن لڑکیوں کو اغوا کیا تھا، ان میں پنجابی اور پٹھان گھرانوں کی لڑکیاں بھی تھیں۔ ان میں سے کئی لڑکیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں مشین گن سے فائر کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ باغیوں کو بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کی سرپرستی حاصل تھی۔ وہ انہیں ہتھیار اور گولہ بارود بھی فراہم کرتی تھی اور ضرورت پڑنے پر پناہ بھی دیتی تھی۔ پُھلباری، پونچا گڑھ، جمال گنج اور چوڑ کائی میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اور قاتلوں نے انسانیت کی معمولی سی بھی رمق نہیں دکھائی۔ چند ایک بہاریوں نے باغیوں سے بچنے کے لیے بھارتی سرحد عبور کی تو انہیں پولیس اور فوج نے گرفتار کرلیا۔ ان میں سے بہت سے اب بھی بھارتی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پونچا گڑھ میں آباد ۵ ہزار سے زائد غیر بنگالیوں میں سے بمشکل ۵ فیصد ہی بچ پائے ہوں گے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور بھارت سے آنے والے در اندازوں نے مل کر انہیں قتل کیا۔
ایسٹ پاکستان ریفیوجیز ایسوسی ایشن کے صدر دیوان
وراثت حسین نے ۲۰ جون ۱۹۷۱ء کو برطانوی ہائی کمیشن میں دی جانے والی یادداشت میں بتایا کہ تقسیم ہند کے وقت ہجرت کر کے ضلع دیناج پور کے علاقوں صاحب گنج، بیر گنج، شتاب گنج، مانک پاڑا، دیوی گنج اور سال دنگا میں آباد ہونے والے ۵۰ ہزار سے زائد غیر بنگالیوں میں سے صرف ۱۵۰؍ قتل عام سے بچ پائے۔ ان کے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع دیناج پور میں کم و بیش ایک لاکھ غیر بنگالیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔
لکشم، راج باڑی، گوالونڈو اور فرید پور میں قتل عام
فروری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی پہنچنے والے ۵۹ سالہ معصوم علی نے بتایا: ’’میرا گھرانہ ۹؍افراد پر مشتمل تھا مگر قتلِ عام میں صرف میں بچ پایا۔ ہم لکشم میں رہتے تھے‘‘۔
معصوم علی کا ۲۷ سالہ بیٹا ایسٹ پاکستان ریلویز میں ٹکٹ چیکر تھا اور ان کی رہائش لکشم میں تھی۔ وہ بھی قتل عام کی نذر ہوا۔ معصوم علی بتاتے ہیں: ’’لکشم میں رہائش پذیر بیشتر غیر بنگالی ریلوے کے ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ تھے۔ ان میں سے بیشتر نے تقسیم ہند کے وقت ملازمت کے لیے مشرقی پاکستان کا آپشن قبول کرکے بہار اور مغربی بنگال (بھارت) سے ہجرت کی تھی۔ لکشم میں رہائش رکھنے والے غیر بنگالی ایک ہزار سے زیادہ نہ تھے۔ ان میں سے چند ایک کا تعلق مغربی پاکستان سے بھی تھا مگر بنگالی سب کو بِلا استثنا بہاری کہتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے ہی سے لکشم میں غیر معمولی کشیدگی تھی اور غیر بنگالی آبادی شدید خوفزدہ تھی۔ پولیس فورس کو تمام معاملات سے یکسر لاتعلق کردیا گیا تھا۔ کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی غیر بنگالی کو لوٹ مار یا قتل سے بچانے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا‘‘۔
’’ہمارے علاقے پر باغیوں نے ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب حملہ کیا۔ ۵۰۰ سے زائد باغیوں نے ریلوے کوارٹروں پر دھاوا بولا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ انہوں نے ہمارے گھر کا دروازہ بھی توڑا اور فائر کھول دیا۔ میرا بیٹا، بہو، اس کے تین بچے، ایک چھوٹی بہن اور میری بہو کا بھائی سب موقع ہی پر دم توڑ گئے۔ ایک باغی نے میرے سر پر بندوق کا دستہ مارا جس سے میں دو دن تک بے ہوش رہا۔ فوج نے جب ۱۶؍اپریل ۱۹۷۱ء کو شہر کا کنٹرول سنبھالا، تب میرے پیاروں کی تدفین کا اہتمام ہوسکا۔ چار ماہ تک میری حالت انتہائی خراب رہی۔ میں ڈراؤنے خواب دیکھ کر اٹھ جایا کرتا تھا اور پھر باقی رات سو نہیں پاتا تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے قتل عام میں لکشم کے کم و بیش ۸۰۰ غیر بنگالی موت کی نذر ہوئے۔ میں اب بھی ریلوے کا وہ کوارٹر 93/H نہیں بھولتا جہاں میرے پیاروں کو موت کی نیند سلایا گیا۔ دیواروں پر خون کے دھبے مجھے یاد ہیں۔ یہ سب کچھ کس قدر اذیت ناک تھا، میں بتا نہیں سکتا۔ کاش کہ میں نہ بچا ہوتا‘‘۔
جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہونے کے بعد ۴۶ سالہ حفیظہ بیگم نے بتایا: ’’چند ٹوٹی ہوئی چوڑیاں میری دونوں جواں سال بیٹیوںکی واحد نشانی ہیں جنہیں بنگالی باغیوں نے اغوا کرلیا تھا۔ سنگدل باغیوں نے میری آنکھوں کے سامنے میرے ۵۵ سالہ شوہر کو فائرنگ کرکے شہید کردیا اور گن پوائنٹ پر میری دونوں بیٹیوں کو گھسیٹ کر لے گئے‘‘۔
اپنے دُکھوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے حفیظہ بیگم کئی بار رو پڑیں۔ انہوں نے بتایا: ’’راج باڑی میں بنگالیوں کے ساتھ غیر بنگالی اچھی طرح رہتے تھے۔ ہم آہنگی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ نے فساد کی آگ بھڑکائی۔ اس سے قبل وہاں کسی طرح کی کشیدگی نہیں تھی۔ ہم گنیش پور میں رہتے تھے جہاں ہمارے گھر کے چاروں طرف غیر بنگالیوں کے گھر تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کی ابتدا ہی سے کشیدگی کی خبریں آنے لگی تھیں۔ ہم خوفزدہ تھے مگر ہمارے بنگالی اہل علاقہ اور دوستوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، راج باڑی میں غیر بنگالیوں کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔
’’باغیوں نے ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ میں اس وقت پڑوس کے گھر میں تھی۔ ہر طرف سے ’’جیے بنگلہ‘‘ کی صدائیں اور باغیوں کے ستم کا نشانہ بننے والوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے پڑوسی کے گھر سے نکل کر دیکھا تو باغیوں کو غیر بنگالیوں کے دروازے توڑتے ہوئے پایا۔ باغی ہمارے گھر میں بھی داخل ہوچکے تھے۔ انہوں نے میرے شوہر پر حملہ کردیا تھا اور وہ کسی نہ کسی طور مزاحمت کر رہے تھے۔ میری دونوں غیر شادی شدہ بیٹیاں شدید خوف سے چیخ رہی تھیں۔ ایک باغی نے میرے سر پر ڈندا مارا تو میں بے ہوش ہوکر گر پڑی۔ جب ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے قریب ہی میرے شوہر کی لاش پڑی ہے۔ میری بیٹیوں کی خون آلود ساریاں اور چوڑیوں کے ٹکڑے وہیں پڑے ہوئے تھے۔ میں پاگلوں کی طرح گھر سے نکل آئی اور اپنی بیٹیوں کو آواز دینے لگی۔ ہمارے محلے کی ایک بنگالی عورت نے مجھے سمجھا بجھاکر گھر میں بٹھایا اور کہا کہ باہر نہ نکلوں، ورنہ مجھے بھی مار دیا جائے گا۔ میں نے اپنے شوہر کی لاش ایک طرف رکھی۔ فوری تدفین کی کوئی صورت نہ تھی‘‘۔
’’فوج نے مارچ کے تیسرے ہفتے میں جب شہر کا کنٹرول سنبھالا تب میرے شوہر اور دیگر غیر بنگالیوں کی تدفین مقامی قبرستان میں ممکن ہوسکی۔ میں کئی دن راج باڑی کے چپے چپے پر اپنی بیٹیوں کو تلاش کرتی پھری۔ باغیوں نے بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر ڈالا تھا‘‘۔
حفیظہ بیگم کو ایک ریلیف کیمپ میں دوسرے بہت سے بے سہارا غیر بنگالی گھرانوں کے ساتھ رکھا گیا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں وہ کراچی منتقل ہوئی۔
مارچ ۱۹۷۱ء میں راج باڑی میں جو چند غیر بنگالی قتل عام سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے، ان میں ۳۵ سالہ زرینہ خاتون اور ان کے شوہر تمیزالدین بھی شامل تھے۔ تمیزالدین راج باڑی کے پاور ہاؤس میں ملازم تھے۔ یہ لوگ راج باڑی میں سکون سے رہتے آئے تھے۔ مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضے اور مکتی باہنی کی غنڈہ گردی کے رونما ہونے تک ان کی زندگی میں بظاہر کوئی پریشانی نہیں تھی۔ جب راج باڑی میں قتل عام شروع ہوا تو تمیزالدین اور زرینہ خاتون اپنے آٹھ ماہ کے بچے کے ساتھ گوالونڈو چلے گئے، جس کے بارے میں انہوں نے سن رکھا تھا کہ ریڈ کراس نے غیر بنگالیوں کے لیے ایک ریلیف کیمپ قائم کیا تھا۔ گوالونڈو میں موت تمیزالدین کی منتظر تھی۔ غنڈوں کے ایک گروہ نے زرینہ کی آنکھوں کے سامنے اُن کے شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے زرینہ اور اس کے شیر خوار کو فرید پور کی جیل میں ڈال دیا جہاں اور بھی سیکڑوں غیر بنگالی خواتین اور بچے تھے۔ زرینہ نے بتایا: ’’فرید پور کی جیل میں زندگی در حقیقت موت سے بدتر تھی۔ وہاں سیکڑوں خواتین اور بچے بھوک اور بیماری سے چل بسے۔ ہمیں دن میں بمشکل ایک وقت کھانا ملتا تھا۔ چاولوں میں کنکر ہوتے تھے۔ جو بھی کھانے کے بارے میں یا کسی اور حوالے سے شکایت کرتا تھا، اسے گارڈ بری طرح مارتے تھے۔ مجھ سمیت کئی عورتوں کو چھ ماہ بعد چھوڑ دیا گیا۔ تب تک میں ڈھانچے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ میں نے ایک دولت مند بنگالی گھرانے میں خادمہ کی حیثیت سے نوکری کرلی۔ یہ شخص ایک غیر بنگالی کی دولت پر قبضہ کرکے بزنس مین بنا تھا۔ مجھے صرف تین وقت کا کھانا ملتا تھا۔ وہ بنگالی بزنس مین کوئی تنخواہ نہیں دیتا تھا کیونکہ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ مجھے مکتی باہنی والوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے‘‘۔
’’جب ریڈ کراس نے پاکستان جانے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں مانگیں تو میں نے بخوشی درخواست دے دی اور یوں مجھے فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل کردیا گیا‘‘۔
فرید پور کی جیل میں زرینہ نے جو چھ ماہ گزارے تھے، اس نے اُن کی نفسیات پر شدید اثرات مرتب کیے۔ جو قتلِ عام انہوں نے دیکھا تھا اور اس کے بعد جن حالات کا سامنا کیا وہ ان کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ ان کے شوہر اور خود ان کے کئی رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ فرید پور میں زرینہ کے شوہر کی پوسٹنگ تھی۔ وہاں انہوں نے خاصا وقت گزارا تھا۔ جن غیر بنگالیوں کو وہ وہاں جانتے تھے، ان میں سے کسی کا پتا نہ چلا۔ زرینہ کو بتایا گیا کہ ان میں سے بیشتر قتل کردیے گئے تھے۔
کشتیا میں درندگی
عوامی لیگ کے غنڈوں اور سابق ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے کشتیا میں مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنا شروع کیا اور ۱۶؍اپریل کو اس قصبے پر پاکستانی فوج کے قبضے تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کشتیا میں کم و بیش دو ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ضلع کے جن دوسرے قصبوں میں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا، ان میں چوادنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی شامل ہیں۔ ان تینوں مقامات پر قتل ہونے والے غیر بنگالیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار تھی۔
۳۵ سالہ دلاری بیگم کے شوہر محمد شفیع ریلوے کے ملازم تھے اور وہ کشتیا کے علاقے ہارڈنگ برج کالونی کے کوارٹر نمبر ۱۳ میں رہتے تھے۔ دلاری بیگم نے اپنی دکھ بھری کہانی ان الفاظ میں سُنائی: ’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو بنگالی باغیوں نے ہمارے علاقے کے تمام غیر بنگالیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ایک اسکول کی عمارت میں جمع ہوجائیں۔ قصبے پر ان کا کنٹرول تھا، اس لیے ہمارے پاس ان کا حکم ماننے کے سوا چارہ نہ تھا۔ جب ہم لوگ اسکول کی عمارت میں جمع ہوگئے تو اسے مقفل کردیا گیا۔ رات کو بندوقوں، بھالوں اور دوسرے بہت سے ہتھیاروں سے مسلح باغی آئے اور غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ میرے شوہر کے سینے میں خنجر گھونپ دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ موقع ہی پر دم توڑ گئے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان سفاک درندوں نے تمام لاشیں ٹرک میں ڈالیں اور دریائے گنگا میں بہادیں۔ اگر ان میں کوئی زندہ بھی تھا تو پانی میں گرنے کے بعد بچ نہ سکا ہوگا۔ قتلِ عام رات بھر جاری رہا۔ قتل سے قبل ایذائیں دینے میں بھی ان سفاک درندوں کو راحت محسوس ہوتی تھی‘‘۔
’’صبح ہوتے ہی اُن درندوں نے اسکول کے تمام دروازوں اور کھڑکیوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ مجھ سمیت سیکڑوں بیواؤں نے دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر جان بچائی۔ ہم اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔ راستے میں کئی غیر بنگالی عورتیں اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آکر زخمی بھی ہوئیں۔ میں گھر پہنچی تو دیکھا کہ باغیوں نے اُسے لوٹ لیا تھا اور میرا آٹھ سالہ بیٹا ایک میز کے نیچے سہما ہوا بیٹھا تھا۔ چند روز بعد باغیوں نے ایک بار پھر ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ وہ میرے بیٹے کو اغوا کرنا چاہتے تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ فوج کا ایک دستہ بر وقت آن پہنچا اور باغیوں کے فرار ہوتے ہی بنی۔ فوجیوں نے مجھے اور میرے بیٹے کو اشوردی میں واقع ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ وہاں اور بھی بہت سی بیوائیں اور ان کے یتیم بچے مقیم تھے۔ اس خونیں طوفان میں میرے تمام رشتہ دار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کے قبضے کے بعد مجھے اور میرے بیٹے کو ایک بار پھر شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ ہمیں جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل کیا گیا‘‘۔
۳۰ سالہ رجب بی بی کے شوہر نور خان کشتیا کی موہنی مل میں کار ڈرائیور تھے۔ رجب بی بی نے اپنی دکھ بھری کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو بندوقوں اور دیگر ہتھیاروں سے مسلح باغیوں نے کشتیا میں موہنی ملز سے ملحق علاقے اروا پاڑہ میں غیر بنگالیوں کے مکانات پر حملہ کیا۔ ہم کرائے پر رہتے تھے۔ باغیوں نے تمام غیر بنگالیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کرادیں۔ چند ایک غیر بنگالیوں کے پاس اسلحہ تھا۔ جنہیں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہمیں سڑکوں پر غیر بنگالیوں کو درندگی کا نشانہ بنائے جانے سے متعلق خبریں بھی ملتی رہیں‘‘۔
’’باغیوں نے ۳۰ مارچ ۱۹۷۱ء کو ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ میرے شوہر بر وقت پچھلے دروازے سے فرار ہوکر کھیتوں میں چلے گئے۔ میرا بھائی، جس کی جسمانی ساخت اچھی تھی، حیرت انگیز طور پر غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھ باغیوں پر ٹوٹ پڑا۔ میری والدہ نے جب بیٹے کو لڑتے دیکھا تو باغیوں کو روکنے دوڑیں۔ ایک باغی نے اُن کی ضعیف العمری کا بھی خیال نہ کیا اور ان کے سر پر ڈنڈا دے مارا جس کے نتیجے میں ان کے سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئیں۔ دوسری طرف میرا بھائی باغیوں سے لڑتا رہا اور دو تین کو زخمی کرنے کے بعد گھر سے نکل کر کھیتوں میں روپوش ہوگیا۔ میں چار دن تک اپنی زخمی والدہ کے ساتھ لُٹے ہوئے گھر میں سہمی پڑی رہی۔ ۴؍اپریل کو ایک بار پھر بنگالی باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور ۶۰ غیر بنگالی مردوں کو جبری مشقت کے لیے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو درجن بھر باغیوں نے مشین گنوں سے فائرنگ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب فوج نے کشتیا کا کنٹرول سنبھالا تب میرے شوہر اور بھائی بھی روپوشی ترک کرکے گھر آگئے۔ میرے بھائی کے زخم بھر نہ سکے تھے۔ ہسپتال میں علاج سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا اور وہ انتقال کرگیا‘‘۔
دسمبر ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں کشتیا پر بھارتی فوج کی بمباری سے رجب بی بی کی والدہ جاں بحق ہوگئیں۔ رجب بی بی کے شوہر نور خان کو مکتی باہنی والوں نے جیل میں ڈال دیا۔ ۱۹۷۲ء کے اوائل میں باغیوں نے نور خان اور دوسرے بہت سے بہاریوں کو جیل ہی میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ رجب بی بی اپنی تین سالہ بیٹی کے ساتھ فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہوئیں۔
۴۰ سالہ رسولن کے شوہر محمد شکور ٹیلی گراف ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ انہیں باغیوں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے اوائل میں قتل کردیا تھا۔ رسولن نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں اور منحرف فوجیوں نے مسلح ہوکر ہمارے علاقے پر دھاوا بولا اور تمام غیر بنگالی مردوں کو گن پوائنٹ پر کشتیا جیل لے گئے۔ باغیوں نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کیا اور میرے شوہر کو لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میرے شوہر کو جیل میں ڈال دیں گے۔ میں نے اور میری والدہ نے باغیوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر اُن کی جاں بخشی کی درخواست کی مگر انہوں نے ہماری ایک نہ سُنی‘‘۔
’’ہم نے گھر کے دروازے اچھی طرح بند کر لیے اور اللہ سے مدد مانگتے رہے۔ ہمارے گھر میں اناج کم تھا۔ بنگالی دکانداروں نے بورڈ لگا رکھے تھے کہ غیر بنگالیوں کو اناج فروخت نہ کیا جائے۔ تین دن تک ہم نے پانی پر گزارا کیا۔ میرے دو چھوٹے بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان کو میں نے کچے چاول اور کچی سبزیاں کھلائیں۔ ہم چولہا نہیں جلاتے تھے تاکہ لوگ یہی سمجھیں کہ اس مکان میں اب کوئی نہیں رہتا۔ ہم نے ہنگامی حالت میں بھاگ نکلنے کے لیے راستہ بھی ڈھونڈ نکالا تھا‘‘۔
’’اپریل کے اوائل میں باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ جب انہوں نے ہمارے دروازے پر دستک دی تو ہم پچھلے دروازے سے نکل کر گنے کے کھیتوں میں چلے گئے۔ وہاں ہم مٹی کے ٹیلوں کے پیچھے کئی دن تک سہمے ہوئے چھپے رہے۔ دن بھر فائرنگ ہوتی رہتی تھی۔ باغی قتل عام میں مصروف تھے۔ رات کو میں قریبی تالاب سے اپنے تینوں بچوں اور والدہ کے لیے پانی لے آیا کرتی تھی۔ یہ تالاب انتہائی آلودہ تھا مگر خیر، اس کے پانی سے ہماری پیاس تو بجھ ہی جاتی تھی۔ جب فوج نے کشتیا کا کنٹرول سنبھالا اور ہمیں جیے بنگلہ کے بجائے پاکستان زندہ باد کی آوازیں سنائی دیں تب ہم نے روپوشی ترک کی۔ فوج کا رویہ ہم سے بہت اچھا تھا۔ انہوں نے میرے شوہر کو تلاش کرنے میں میری بھرپور مدد کی۔ ہمیں پتا چلا کہ جتنے بھی غیر بنگالی مردوں کو جیل میں ڈالا گیا تھا انہیں بعد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا‘‘۔
۲۰ سالہ سعیدہ خاتون اپنے شوہر ظفر عالم ملک کے ساتھ کشتیا کے علاقے تھانہ پاڑہ میں رہتی تھیں۔ جب ان کے علاقے پر باغیوں نے حملہ کیا تو انہوں نے ایک بنگالی خاندان کے ہاں پناہ لے کر جان بچائی۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں جو کچھ ہوا وہ سعیدہ خاتون نے ان الفاظ میں بیان کیا: ’’عوامی لیگ کے غنڈوں نے جن غیر بنگالیوں کو گن پوائنٹ پر جیل میں ڈالا تھا، ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ جب پاکستانی فوج نے کشتیا کا کنٹرول سنبھالا تب چند خدا ترس بنگالیوں نے مجھے بتایا کہ جتنے بھی غیر بنگالیوں کو جیل میں ڈالا گیا تھا انہیں باغیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جن غیر بنگالیوں کو جیل میں رکھا گیا تھا انہیں کئی دن تک نہ کھانا دیا جاتا نہ پانی۔ اگر کوئی احتجاج کرتا تو اسے انتہائی غلیظ کمروں میں لے جاکر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ وہ سفاک درندے قیدیوں کو برہنہ کرنے میں بہت لطف لیتے تھے۔ جب بے لباس قیدی مدد کی فریاد کرتا تو وہ اس کے جسم کو جلتے ہوئے سگریٹ سے داغتے تھے‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء سے قبل میں جن غیر بنگالی عورتوں کو جانتی تھی، ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ انہیں قتل کردیا گیا۔ چند حاملہ خواتین کو بھی انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان کے پیٹ چیر کر بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ چند زخمی باغیوں کا کشتیا ہسپتال میں علاج کیا گیا۔ جن غیر بنگالیوں کو باغیوں نے پکڑ رکھا تھا، ان کے جسم سے خون نکال کر ان زخمی بنگالی باغیوں کا علاج کیا گیا۔ جن لوگوں کو خون کا ’عطیہ‘ دینے کے لیے گن پوائنٹ پر لایا گیا تھا انہیں مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر جب کام ہوگیا تو انہیں انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘‘۔
سعیدہ خاتون نے چند ماہ کشتیا میں گزارے اور دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کے قبضے سے کچھ دن قبل ڈھاکا منتقل ہوگئیں، جہاں سے انہیں ۱۹۷۳ء میں پاکستان منتقل کیا گیا۔
چوا دنگا میں قتل و غارت
۳۸ سالہ محمد حنیف ضلع کشتیا کے قصبے چوا دنگا میں ریلوے کے ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء میں قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا اس میں چوا دنگا کے ۹۵ فیصد غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ محمد حنیف کا اس قتل عام میں بچ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کم و بیش ۲۲ سال گزارے تھے۔ چوا دنگا کے علاقے مُرغی پٹی میں ان کا مکان تھا۔ وہ بنگالی بہت روانی سے بولتے تھے۔ ۱۹۷۲ء میں وہ فرار ہوکر نیپال پہنچے جہاں سے ۱۹۷۳ء کے اوائل میں انہیں پاکستان بھیجا گیا۔ محمد حنیف نے چوا دنگا میں قتل و غارت کا احوال ان الفاظ میں بیان کیا: ’’مجھے مشرقی پاکستان بہت پسند تھا۔ میں بنگالی دوستوں کی محبت اور خلوص کا معترف تھا۔ مگر ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں کی درندگی نے مشرقی پاکستان میں مجھ سمیت بیشتر غیر بنگالیوں کا جینا حرام کردیا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی غیر بنگالیوں سے غنڈہ گردی اور انہیں اغوا کرنے کے واقعات کی خبریں ملنے لگیں تھی مگر ۲۵ مارچ کو باغیوں نے غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنا شروع کردیا۔ باغیوں نے ۲۵ مارچ کو چوا دنگا ریلوے اسٹیشن پر حملہ کردیا اور جو بھی غیر بنگالی ہاتھ لگا اسے قتل کر ڈالا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کی دکانیں بھی لوٹ لیں۔ شام کو انہوں نے ریلوے کالونی پر حملہ کرکے غیر بنگالی مکینوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کیا۔ انہوں نے بچوں تک کو نہیں چھوڑا۔ بہت سی نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ سفاک باغیوں نے اسپتال پر حملہ کرکے غیر بنگالی مریضوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اپریل ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں باغیوں نے اسپتال کے غیر بنگالی انچارج ڈاکٹر رحمن کو بالکنی سے پھینک دیا۔ وہ سَر کے بل گرا اور چند لمحوں میں چل بسا‘‘۔
’’باغیوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹ لیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کی لاشوں کو دفن نہیں کیا۔ چند لاشوں کو انہوں نے جلتے ہوئے مکانات میں پھینک دیا۔ میں نے بنگالی کسان کا بھیس بناکر کئی دن کھیتوں میں گزارے۔ پاکستانی فوج نے ۱۷؍اپریل کو چوا دنگا کا کنٹرول سنبھالا اور ہمیں رو پوشی ترک کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ڈھونڈا تو پتا چلا کہ چوا دنگا میں میرے بیشتر غیر بنگالی دوستوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply