
میمن سنگھ میں قتلِ عام
۵۵ سالہ مجیب الرحمن شنکی پاڑہ (میمن سنگھ) کے بلاک نمبر ۱۲ کے کوارٹر نمبر ۸ میں رہتے تھے۔ اُن کی کپڑے کی دکان تھی۔ مجیب الرحمٰن نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں ایک دن میں گھر کے پاس مسجد میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک علاقے میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ عوامی لیگ کے غنڈوں، ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں پر مشتمل ۲۰۰ سے زائد باغیوں نے ہمارے علاقے پر دھاوا بول دیا تھا۔ اُنہوں نے مسجد میں نماز پڑھنے والوں پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کردیں۔ مسجد میں کم و بیش ۸۰ نمازی شہید ہوگئے۔ فائرنگ کے دوران مسجد میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ وہ لوگ یہ سمجھے کہ شاید میں بھی مرچکا ہوں۔ رات گئے مجھے ہوش آیا تو میں مسجد سے نکل کر گھر گیا۔ باغی سب کچھ لوٹ کر لے گئے تھے۔ میرے بیٹے اور بہو کا کچھ پتا نہ چلا۔ چند مکانات میں آگ لگی ہوئی تھی۔ بعض مقامات پر غیر بنگالی عورتیں بیٹھی ہوئی اپنے پیاروں کی موت کا ماتم کر رہی تھیں۔ کہیں دور سے فائرنگ کی آوازیں آتی تھیں اور شہر کے سنّاٹے کو چیر دیتی تھیں۔ ہمارے علاقے کے تمام غیر بنگالی مردوں کو قتل کرنے کے بعد عورتوں اور بچوں کو ہانک کر ایک مسجد میں بھردیا گیا۔ اِن بدنصیبوں کو اُس وقت نجات ملی جب اپریل ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج کے دستوں نے میمن سنگھ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا۔ میں اپنے تمام رشتہ داروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر ۱۹۷۱ء میں میمن سنگھ کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہتے ہوئے میں کراچی منتقل ہوگیا‘‘۔
۳۸ سالہ نسیمہ خاتون کے شوہر سید طاہر حسین اختر، میمن سنگھ ریلوے اسٹیشن پر کلرک تھے۔ نسیمہ خاتون نے اپنی رام کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’شنکی پاڑہ کے بلاک سی میں ہمارا ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ یہ غیر بنگالیوں کا علاقہ تھا۔ مارچ کے وسط ہی سے ہمارے علاقے میں خوف کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ مارچ کے اواخر میں مسلح باغیوں کے جتھوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کرکے غیر بنگالی مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اُنہوں نے عورتوں کو اور بچوں کو یرغمال بنایا۔ ۱۷؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ہزاروں مسلح باغیوں نے ایک بار پھر ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ اُنہوں نے مردوں اور بچوں کو گھروں سے گھسیٹ کر نکالا اور گولی مار دی۔ میرے شوہر اور بیٹے کو بھی باغیوں نے گھسیٹ کر نکالا اور میری التجاؤں کے باوجود میری آنکھوں کے سامنے گولی مار دی۔ جب میں اپنے شوہر اور بیٹے کی زندگی کے لیے گڑگڑا رہی تھی تب ایک حملہ آور نے میری پیشانی پر رائفل کا بٹ مارا۔ مجھے اپنے شوہر اور بیٹے کی لاشوں پر رونے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ وہ درندے مجھے ہانکتے ہوئے ایک اسکول کی عمارت میں لے گئے جہاں مجھ جیسی سیکڑوں بدنصیب عورتیں اور ان کے بچے جمع کیے گئے تھے۔ اِس اسکول میں زندگی جہنم جیسی تھی۔ عورتیں اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتی رہتی تھیں اور بچے بھوک پیاس کی شدت سے بلکتے رہتے تھے۔ اس جہنم میں بہت سی عورتوں اور بچوں نے دم توڑ دیا۔ وہاں نوجوان لڑکیاں برائے نام تھیں۔ بیشتر لڑکیوں کو غنڈے ساتھ لے گئے تھے۔ ہمیں اسکول کی عمارت میں جانوروں کی طرح رہتے ہوئے چار دن ہی گزرے تھے کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ اللہ کی رحمت بن کر نازل ہوا اور ہمیں نجات دلائی۔ فوجیوں نے مجھے ڈھاکا کے ایک ریلیف کیمپ میں پہنچایا جہاں میرے والد نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور اپنے ساتھ چاٹگام لے گئے۔ چاٹگام سے میں فروری ۱۹۷۳ء میں کراچی منتقل ہوئی‘‘۔
۶۰ سالہ شیخ حبیب الرحمن شنکی پاڑہ کے علاقے کشتوپور کے دولت منشی روڈ پر مکان نمبر ۱۴ میں رہتے تھے۔ وہ سائیکل رکشا چلاتے تھے۔ جب اُنہوں نے اپنے چار جوان بیٹوں کے قتل کی داستان سُنائی تو پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگے۔ وہ فروری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوئے۔ شیخ حبیب الرحمن اور ان کے چاروں بیٹے بنگالی پوری روانی سے بولتے تھے مگر اِس کے باوجود اُنہیں بہاری کے نام ہی سے شناخت کیا جاتا تھا۔ شیخ حبیب الرحمن نے بھارت کی مشرقی ریاست بہار سے ہجرت کرنے کے بعد مشرقی پاکستان یعنی بنگال کی سرزمین کو اپنالیا تھا۔ اُنہیں اردو نہیں آتی تھی۔ اس کتاب کے لیے اُنہوں نے جو بیان دیا اُس کی کاپی پر دستخط بھی اُنہوں نے بنگالی میں کیے۔ شدید پریشانی اور دل شکستہ حالت میں شیخ حبیب الرحمٰن نے بتایا: ’’میمن سنگھ میں مارچ ۱۹۷۱ء کے وسط ہی سے شدید کشیدگی پائی جاتی تھی۔ ہر طرف خوف و ہراس تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو دھمکانا اور اُن کی تذلیل کرنا شروع کردیا۔ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے جو اسلحہ پولیس کے اسلحہ خانے سے لوٹا ہے اُس کی مدد سے وہ غیر بنگالیوں کو لوٹ کر قتل کردیں گے۔ باغیوں کو بھارت سے بھی اسلحہ ملا تھا۔ شنکی پاڑہ کے غیر بنگالیوں پر باغیوں نے پہلا حملہ ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو کیا۔ مارچ کے آخری اور اپریل کے پہلے ہفتے کے دوران عوامی لیگ کے غنڈوں اور باغی فوجیوں نے شنکی پاڑہ اور میمن سنگھ کے دیگر علاقوں کے غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹنے اور تمام مردوں اور بچوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپریل کے اوائل میں ۵۰ سے زائد غنڈوں نے میرے گھر پر بھی حملہ کیا۔ میرے چاروں بیٹے (ثناء اللہ، شفیع احمد، علی احمد اور علی اختر) گھر پر تھے۔ باغیوں نے جب اُن پر بندوقیں تانیں تو میرے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ میں ایک باغی سے اُلجھ گیا تاکہ اُس سے بندوق چھین لوں۔ اُس نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا۔ اِس سے پہلے کہ میں بے ہوش ہوتا، مجھے گن فائر کی آوازیں سنائی دیں۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ میرے چاروں بیٹے خون میں نہاچکے تھے۔ ثناء اللہ اور شفیع کی بیویاں اپنے شوہروں کی طرف لپکیں۔ اگلی صبح جب مجھے ہوش آیا تو میرے چاروں بیٹوں کی لاشیں میرے سامنے پڑی تھیں۔ میں نے دیوانہ وار اُن کی دھڑکنیں چیک کیں مگر وہ زندگی سے بہت دور جاچکے تھے۔ میری دونوں بہوؤں کا کچھ پتا نہ تھا۔ گھر کی ایک ایک چیز لوٹی جاچکی تھی۔ میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ اپنے بیٹوں کی لاشیں قبرستان لے جانے کا تصور بھی نہیں کر پایا۔ اڑوس پڑوس میں کوئی نہ تھا۔ میرے محلے میں لاشیں ہی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ دور کہیں کتوں کے بھونکنے سے زندگی کا کچھ سُراغ ملتا تھا۔ کبھی کبھی دور کہیں کسی فائر کی آواز گونجتی تھی‘‘۔
’’بہت سے بدنصیب غیر بنگالیوں نے علاقے کی ایک مسجد میں پناہ لی تھی۔ عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے اِس مسجد کے دروازے توڑ کر ۱۷۵ سے زائد بہاریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ۳۰۰ سے زائد غیر مسلح غیر بنگالیوں نے علاقے کے ایک اسکول میں پناہ لی تھی مگر اُنہیں بھی نہ بخشا گیا۔ اپریل کے اوائل میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے اُن پر حملہ کیا۔ جب پاکستانی فوج نے میمن سنگھ کا کنٹرول حاصل کیا تب میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دفن کیا۔ میں نے غیر بنگالیوں اور بالخصوص بہاریوں کی اکثریت والی آبادیوں چالیس باری، چھتیس باری، اسلام آباد اور اِکیا کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ مجھ جیسے چند بوڑھوں کے سِوا سبھی غیر بنگالی مرد قتل کیے جاچکے تھے۔ گلی سڑی لاشوں سے اٹھنے والے شدید تعفن کے باعث اِن علاقوں میں چند منٹ گزارنا بھی قیامت سے کم نہ تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ مکانات کو لوٹنے کے بعد باغیوں نے شنکی پاڑہ میں ۱۵۰۰ سے زائد غیر بنگالی خواتین کی بے حرمتی کی۔ اِن میں سے بیشتر کو بعد میں قتل کردیا گیا۔ بہت سی بہاری خواتین نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنووں میں کود کر جان دی‘‘۔
شیخ حبیب الرحمن نے مزید بتایا: ’’ہمارے علاقے میں پولیس اسٹیشن کے نزدیک واقع بڑی مسجد کے پیش امام مشکل کی اس گھڑی میں اللہ کی رحمت ثابت ہوئے۔ انہوں نے کم و بیش ۵۰۰ غیر بنگالیوں کو مسجد میں پناہ دی۔ جب باغی اُنہیں قتل کرنے آئے تو کسی نہ کسی طرح قائل کیا کہ اُنہیں قتل نہ کریں۔ پیش امام صاحب بنگالی تھے اور اُنہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ غیر بنگالیوں کی جان بچا کر وہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں مگر اس کے باوجود اُنہوں نے اپنی سی کوشش کی اور اُس میں کامیاب رہے۔ مسجد میں جن لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی، اُن کے لیے کھانے پینے کا انتظام بھی پیش امام صاحب نے کیا۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کو لے کر علاقے کے خدا ترس بنگالیوں کے پاس گئے اور مخیّر لوگوں سے بھی رابطہ کیا۔ یوں وہ کسی نہ کسی طرح مسجد میں پناہ لیے ہوئے ۵۰۰ غیر بنگالیوں کو بچانے میں کامیاب ہوئے۔ ۲۱؍اپریل کو جب پاکستانی فوج کے دستے وہاں پہنچے تو مسجد میں پناہ لیے ہوئے غیر بنگالیوں کو منتقل ہونے کا موقع ملا۔ میں چونکہ سائیکل رکشا چلاتا تھا، اس لیے کنٹونمنٹ کے علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ چند پنجابی اور پٹھان فوجیوں سے میری دعا سلام تھی۔ جب فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تو میں دو تین مرتبہ کنٹونمنٹ میں گیا، تب مجھے معلوم ہوا کہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے مل کر ۲۶ اور ۲۷ مارچ کی شب کنٹونمنٹ پر قیامت ڈھائی تھی۔ بیسیوں فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کردیا گیا تھا۔ میں جن فوجیوں کو جانتا تھا، اُن کا کچھ پتا نہ چلا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے کراچی منتقل کردیا گیا۔‘‘
۳۱ سالہ انور حسین ’میمن سنگھ‘ کی ایک تجارتی فرم میں ملازم تھے۔ ان کی جان ایک بنگالی دوست نے بچائی۔ انور حسین نے بتایا: ’’۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے کارکنوں نے میمن سنگھ میں ایک بڑا جلوس نکالا۔ جلوس کے شرکا رائفلوں، پستولوں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔ یہ لوگ غیر بنگالیوں کے خلاف پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ میرے بنگالی دوستوں نے بتایا کہ جلوس کے چند شرکا میمن سنگھ کے رہنے والے نہیں تھے۔ یہ جلوس ہمارے علاقے سے بھی گزرا۔ شرکا نے بہاریوں کے خلاف نعرے لگائے۔ جلسے کی قیادت کرنے والوں نے میگا فون پر اعلان کیا کہ علاقے کے تمام غیر بنگالی اپنے ہتھیار رضاکارانہ طور پر جمع کرا دیں اور یہ کہ گھر گھر تلاشی کے دوران جس کے پاس سے ہتھیار برآمد ہوگا، اُسے موقع ہی پر گولی مار دی جائے گی۔ ہمارے علاقے کے تمام بہاریوں نے اپنے ہتھیار جمع کرا دیے، جن میں بندوقیں، لاٹھیاں اور بھالے وغیرہ تھے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کو ایک کھلے میدان میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ ایک گھنٹے بعد باغی علاقے میں واپس آئے اور غیر بنگالیوں کے گھروں کو لوٹنا اور مردوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ تمام عورتوں کو گن پوائنٹ پر ایک اسکول میں جمع کیا گیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ بنگالی باغی غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میں نے ایک بنگالی دوست سے مدد مانگی تو اُس نے ہاں کر دی۔ میں اپنے اہل خانہ کو لے کر اُس کے ہاں منتقل ہوگیا۔ اِس کے محض ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ہمارے علاقے میں غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ جب فوج نے دوبارہ قصبے کا نظم و نسق سنبھالا، تب میں اپنے گھر گیا۔ اُس کا ایک حصہ خاکستر ہوچکا تھا۔ علاقے میں چند ہی غیر بنگالی بچے تھے۔ جہاں کچھ دن پہلے ہنستی گاتی بستی تھی، وہاں اب ویرانی اور بربادی کا راج تھا‘‘۔
انور حسین ۱۹۷۱ء کے موسمِ خزاں میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ڈھاکا منتقل ہوئے۔ جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا، تب انور حسین نے بھی دیگر غیر بنگالیوں کی طرح شدید خوف کے عالم میں دن گزارے۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں اقوام متحدہ کی وساطت سے انور حسین اور ان کے اہلِ خانہ کراچی منتقل ہوئے۔
۳۶ سالہ فہیم صدیقی میمن سنگھ کی ایک تجارتی فرم میں ملازم تھے اور دو بھائیوں کے ساتھ میمن سنگھ کے علاقے سیتا رام پور میں کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ فہیم صدیقی نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میں نے جب فروری ۱۹۷۴ء میں ایک روسی جہاز پر کراچی کے لیے سفر شروع کیا، تب یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ بھی مجھ پر میمن سنگھ میں بیتی اُسے مکمل طور پر فراموش کردوں گا۔ میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ میمن سنگھ میں گزارا تھا۔ میمن سنگھ ایک خوبصورت شہر تھا جس سے میں بے حد محبت کرتا تھا۔ وہاں میرے کئی بنگالی اور غیر بنگالی دوست تھے۔ میں بنگالی روانی سے بول سکتا ہوں۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری دنوں میں باغیوں نے ہمارے علاقے میں غیر بنگالیوں کے مکانات کو لوٹنا اور مردوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ وہ مکانات کو لوٹ کر آگ لگا دیا کرتے تھے اور جو غیر بنگالی ہاتھ لگتا تھا، اُسے مار ڈالتے تھے۔ بنگالی باغیوں نے میرے دونوں بھائیوں کو قریبی کھیتوں میں لے جاکر قتل کر دیا۔ یہ کھیت اُس زمانے میں غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ہمارے علاقے پر باغیوں کے حملے کے چند ہی لمحوں بعد میں علاقے سے نکل گیا۔ میں نے ایک اُجڑی ہوئی عمارت میں پناہ لی اور پاکستانی فوج کے آنے تک وہاں چُھپا رہا۔ ہمارے علاقے میں چند ہی غیر بنگالی بچ پائے تھے‘‘۔
۳۵ سالہ انوری بیگم میمن سنگھ کی ریلوے کالونی کے کوارٹر نمبر ٹی۔۵۶ میں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل کر دیا تھا۔ کراچی پہنچنے پر انوری بیگم نے اپنی داستانِ الم اِن الفاظ میں سنائی: ’’جب ہمارے علاقے پر بنگالی باغیوں نے قبضہ کرلیا تو ایک دن عوامی لیگ کے چند کارکن ہمارے گھر پر آئے اور کہا کہ اگر ہم اپنے گھر میں موجود تمام نقدی اور زیورات اُن کے حوالے کر دیں تو وہ ہماری جاں بخشی کردیں گے۔ ہم نے اُن کی ہدایت پر عمل کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ اب یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں، کیوں نہ ہم نزدیکی شہر میں اپنے جاننے والے بنگالی کے ہاں پناہ لے لیں؟ میرے شوہر نے میری تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب ہمیں قتل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے تو پھر خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اگلے ہی دن ایک درجن سے زائد باغیوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا۔ اِن میں سے چند ایک نے ایک دن قبل ہمارے گھر سے زیورات اور نقدی وغیرہ بٹوری تھی۔ تین باغیوں نے لال ٹوپی پہن رکھی تھی۔ وہ ہندو تھے۔ میرے شوہر نے مزاحمت کی تو اُن کے سینے میں گولی مار دی گئی۔ ہمارے ایک غیر بنگالی پڑوسی اور اُن کے بیٹے نے جب میرے شوہر کو بچانے کی کوشش کی تو اُن پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔
میں نے اپنے ۹ سالہ بڑے بیٹے کو کباڑ خانے میں چھپا دیا تھا۔ جب باغی چلے گئے تو میں اپنے چھوٹے دس ماہ کے بیٹے کو گود میں لیے شوہر کے پاس پہنچی۔ اُن کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے پانی سے اُن کے زخم دھوئے۔ وہ شدید اذیت کے عالم میں تھے۔ اِس جاں کُنی کی حالت میں بھی اُن کی ہمت جوان تھی۔ اُنہوں نے مجھے ہدایت کی کہ ہر حال میں اللہ پر بھروسا رکھوں، وہی ہماری حفاظت کرنے والا ہے۔ ہمارا پڑوسی اور اُس کا بیٹا دونوں دم توڑ چکے تھے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ باغی ایک بار پھر ہمارے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے مجھ پر بندوق تان لی اور ساتھ چلنے کو کہا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ میرے شوہر کی تدفین کر دیں گے۔ میں نے دونوں چھوٹے بچوں کو ساتھ لیا اور اُن کے ساتھ ہولی۔ میرا بڑا بیٹا چھت پر کباڑ خانے میں چھپا ہوا تھا۔ باغی ہمیں گن پوائنٹ پر ایک مسجد میں لے گئے۔ وہاں سیکڑوں غیر بنگالی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ ان میں سے بیشتر کے شوہر اَب اس دنیا میں نہیں تھے۔ اُن کے بین سُن کر دل دہل جاتا تھا۔ میں اپنے بیٹے کے لیے فکر مند تھی۔ اللہ نے میری التجائیں سُن لیں۔ ہمارے ایک بنگالی پڑوسی نے اُسے بحفاظت مسجد تک پہنچایا۔ چند روز ہم مسجد ہی میں رہے۔ پاکستانی فوج کے آنے پر ہماری جان بچ پائی‘‘۔
***
Leave a Reply