
میمن سنگھ میں قتل عام
۵۰ سالہ قمر النساء کے شوہر محمد قاسم اور بڑے بیٹے کو باغیوں نے مارچ ۱۹۷۱ء میں مکمل بغاوت کے دوران قتل کر دیا تھا۔ میمن سنگھ کے علاقے شنکی پاڑہ کی قمرالنساء اپنی بپتا سُناتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اُنہوں نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے کے دوران اِس افواہ کو سُن کر ہمارے دل لرز جاتے تھے اور ایک سرد لہر ہماری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ جایا کرتی تھی کہ باغیوں نے میمن سنگھ میں آباد تمام غیربنگالیوں اور بالخصوص اردو بولنے والوں کو قتل کرنے کی تیار کر رکھی ہے۔ چند علاقوں میں غیربنگالیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع بھی کیا جاچکا تھا۔ روزانہ سیکڑوں باغی مسلح ہوکر غیربنگالیوں کے علاقوں میں پریڈ کرتے ہوئے گزرتے تھے۔ ان کی زبان پر جے بنگلا کا نعرہ ہوا کرتا تھا اور ہتھیار لہراتے ہوئے وہ اپنے عزائم کا بھرپور مظاہرہ کرتے تھے۔ ایک دن شام کو چند بنگالی لڑکوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے شوہر نے جیسے ہی دروازہ کھولا، لڑکوں کے ارد گرد کھڑے ہوئے مسلح باغی ہمارے گھر میں گھس گئے اور انہوں نے میرے شوہر اور میرے بڑے بیٹے کو گن پوائنٹ پر ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ میں اُن مسلح باغیوں کے آگے گڑگڑائی اور اپنے پیاروں کی جاں بخشی کی التجا کی مگر اُن کے دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اُس دن کے بعد میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔ باغی مجھے بھی گن پوائنٹ پر ایک قریبی اسکول کی عمارت میں لے گئے، جہاں سیکڑوں غیربنگالی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ بے یار و مددگار پڑی تھیں۔ راستے میں ہم نے بہت سے غیربنگالیوں کی خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں دیکھیں۔ میں نے ایک باغی کو جلتی سگریٹ ایک مُردے کے بازو سے لگاتے دیکھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کہیں اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی تو نہیں۔ اسکول میں موجود تمام عورتوں اور بچوں کو رات کے وقت ایک بڑی مسجد میں لے جایا گیا جہاں پہلے ہی سیکڑوں عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ مسجد کے پیش امام بہت خدا ترس انسان تھے۔ انہوں نے ہماری بھرپور مدد کی اور ڈھارس بندھائی۔ اُنہوں نے مسلح باغیوں کو ہمارے قتل سے بھی باز رکھا۔ ۲۱؍اپریل کو جب پاکستانی فوج نے میمن سنگھ پر اپنا تصرف قائم کیا، تب ہماری مشکلات کا دور کسی حد تک ختم ہوا۔ فوج نے ہمیں ڈھاکا میں قائم کیے جانے والے ایک ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ وہاں ہم نے کسی نہ کسی طرح مصیبت کے دن گزارے۔ ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا، تب ہماری مشکلات کا نیا دور شروع ہوا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں مجھے ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا۔‘‘
میمن سنگھ کے نواح میں رہائش پذیر ۶۰ سالہ غفورالنساء کی دکھ بھری کہانی جس نے بھی سُنی، اُس کا دل بھر آیا۔ اُنہوں نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں میمن سنگھ کے بیشتر علاقوں میں مکتی باہنی کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے دہشت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمارے علاقے میں آباد ۷۰ پنجابی گھرانوں کے تمام مَردوں کو منتخب کیا اور اُنہیں ایک قریبی اسکول میں بنائے ہوئے عقوبت خانے میں قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد باغیوں نے اپریل کے دوسرے ہفتے کے اوائل میں ہمارے علاقے کے تمام غیربنگالی مردوں اور نوجوانوں کو قتل کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی کی۔ ایک دن انہوں نے میرے گھر پر بھی دھاوا بولا اور میرے شوہر اور میرے شادی شدہ بیٹے کو گن پوائنٹ پر قریبی میدان میں لے گئے‘‘۔
’’جن غیربنگالی مردوں کو گن پوائنٹ پر لے جایا جارہا تھا، اُن میں مجھے اپنا بھائی اور بھانجا بھی دکھائی دیا۔ باغیوں نے اُن سب سے کہا کہ وہ بنگلا دیش کے پرچم کو سلام کریں۔ چند افراد نے پرچم کو سلام کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اُن تمام افراد کو اُسی وقت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ایک ایک کرکے تمام افراد کو شہید کر ڈالا۔ سب کو ختم کرنے کے بعد وہ لوگ دوبارہ غیربنگالیوں کی بستیوں کی طرف پہنچے، جہاں بہت سی عورتیں اپنے پیاروں کو یاد کر کے دل دہلا دینے والا بَین کر رہی تھیں۔ میں نے بنگالی باغیوں کے ایک گروپ لیڈر کو کہتے سُنا کہ غیربنگالی عورتوں کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ انہیں ہمارے گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ میرے ساتھ میری بیوہ بہو اور میرا ایک سالہ پوتا بھی تھا۔ باغیوں نے ہمیں گن پوائنٹ پر ایک اسکول کی عمارت میں منتقل کیا۔ وہاں سے ہمیں ایک مسجد میں جمع کیا گیا جہاں ہم نے شدید خوف کے عالم میں چھ دن گزارے۔ فوج نے جب میمن سنگھ کا کنٹرول سنبھالا، تب ہماری جان چھوٹی۔ ہمیں ڈھاکا کے ایک ریلیف کیمپ میں منتقل کیا گیا۔ جب مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا، تب ہمارے لیے نئے سِرے سے مشکلات پیدا ہوئیں۔ ہم نے محمد پور (ڈھاکا) کے ایک بہاری کیمپ میں شدید خوف کے عالم میں وقت گزارا۔ دسمبر ۱۹۷۳ء میں ہماری مشکلات کا خاتمہ اُس وقت ہوا، جب ہمیں ڈھاکا سے کراچی منتقل کیا گیا‘‘۔
۳۰ سالہ زیب النساء کے شوہر محمد ابراہیم میمن سنگھ میں ریلوے کے ملازم تھے۔ زیب النساء نے اپنی دکھ بھری کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’ہم اپنے بنگالی پڑوسیوں کے ساتھ برسوں سے بہت اچھی طرح رہتے آئے تھے۔ کہیں کوئی الجھن نہ تھی۔ کسی سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی تھی۔ میرے شوہر بہت محنتی اور ایمان دار تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں چند باغی، جنہیں میں نے اپنے علاقے میں کبھی نہیں دیکھا تھا، نے ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ وہ ہمارے گھر میں گھس آئے اور میرے شوہر کو پکڑ لیا۔ میں نے ان کے پیروں میں گر کر اپنے شوہر اور بچوں کی جاں بخشی کی التجا کی۔ مگر ان ظالموں نے مجھے اور میرے تین چھوٹے بچوں کو لاتیں مار کر ایک طرف دھکیلا۔ انہوں نے میرے شوہر کو گن پوائنٹ پر چلنے کے لیے کہا۔ جب ایک گروپ میرے شوہر کو لے کر چلا گیا، تب دوسرے گروپ نے مجھے اور میرے بچوں کو گن پوائنٹ پر ایک پرانی عمارت میں پہنچایا، جو کبھی جیل ہوا کرتی تھی۔ اُس جہنم میں جینا ہمارے لیے مرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ ہم نے وہاں تین ہفتے گزارے اور اس دوران میں نے کئی بار مرنے کی دعا مانگی۔ پاکستانی فوج نے ۱۲؍اپریل کو میمن سنگھ کا کنٹرول سنبھالا تو ہمیں اِس جہنم سے نجات ملی۔ میں بچوں کو ساتھ لے کر تین دن تک میمن سنگھ کے چپے چپے کی خاک چھانتی رہی کہ کہیں تو اپنے شوہر کا نشان پاؤں مگر کچھ پتا نہ چلا۔ فوجیوں نے میری ڈھارس بندھائی اور مجھے تینوں بچوں سمیت ڈھاکا کے ریلیف کیمپ منتقل کیا۔ ہمارے دکھوں کا خاتمہ فروری ۱۹۷۴ء میں ہوا، جب اقوامِ متحدہ کی وساطت سے ہمیں کراچی منتقل کیا گیا۔‘‘
☼☼☼
Leave a Reply