
۲۴ سالہ شہزادی بیگم کے شوہر اختر حسین میمن سنگھ میں پوسٹ مین کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اپریل کے پہلے دو ہفتوں کے دوران باغیوں نے میمن سنگھ کے غیربنگالیوں پر جو قیامت ڈھائی، اُس کے دوران شہزادی بیگم کے شوہر، سُسر اور دیور کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اُنہوں نے اپنی دکھ بھری کہانی اِن الفاظ میں بیان کی: ’’میمن سنگھ کے نواح میں ہمارا اپنا چھوٹا سا مکان تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی سے ہم شدید خوف کے عالم میں جی رہے تھے کیونکہ یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ باغیوں نے غیربنگالیوں کو قتل کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ پہلے مرحلے میں صرف پنجابیوں کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ پنجابیوں کے قتل کی اطلاعات بھی ہمیں مل رہی تھیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں بنگالی باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے گھر پر بھی دھاوا بولا اور میرے شوہر، سسر اور نوجوان دیور کو گھسیٹ کر لے گئے۔ اُنہوں نے تمام غیربنگالی عورتوں کو گھروں کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا۔ علاقے کے تمام غیربنگالی مردوں کو قریبی میدان میں لے جا کر گولی مار دی گئی۔‘‘
’’شر پسندوں کا ایک مسلح گروپ ہمارے علاقے میں آیا اور تمام غیربنگالی عورتوں سے کہا کہ وہ بچوں کو لے کر ان کے ساتھ چلیں۔ میں بھی اپنی دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر ان کے ساتھ چل پڑی۔ ہم لوگ ایک کھیت میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ وہاں غیربنگالی مردوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ایک شخص میں جب زندگی کی رمق اور معمولی سی حرکت دیکھی تو ایک شرپسند نے اُسے گولی مار کر ٹھنڈا کر دیا۔ بہت سے لوگوں کو بیلچوں اور خنجروں سے وار کر کے ختم کیا گیا تھا۔ کھیتوں سے گزرنے پر ہم نے دیکھا کہ مرکزی سڑک پر ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ میری دونوں بچیاں شدید خوف کے مارے چیخنے لگیں۔ میں اُنہیں سینے سے لگائے چلتی رہی۔ راستے میں ہم نے درجنوں مکانات اور جھونپڑیوں کو مکمل تباہ شدہ حالت میں پایا۔‘‘
’’ہمیں ایک اسکول میں لے جایا گیا جو مقتل تھا۔ وہاں درجنوں غیربنگالیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اُس اسکول سے ہمیں ایک اور اسکول کی عمارت میں لے جایا گیا۔ وہاں سیکڑوں غیربنگالی عورتیں جمع تھیں۔ چند عورتوں نے قرآن کے نسخے اٹھا رکھے تھے اور باغیوں سے گڑگڑا کر التجا کر رہی تھیں کہ اُنہیں گھر جانے دیا جائے تاکہ وہ اپنے یتیم بچوں کو تلاش کر سکیں۔ ایک باغی نے ایک عورت سے قرآن چھین کر اُس کے چہرے پر ڈنڈا مارا۔ اِس عقوبت خانے میں ہم نے ایک ہفتہ گزارا۔ اس دوران کئی بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے۔ ۲۱؍اپریل کو جب پاکستانی فوج آئی، تب ہماری مشکلات ختم ہوئیں اور اُس عقوبت خانے سے آزادی ملی۔ بہت سی عورتوں کو ڈھاکا میں قائم ریلیف کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ میں نے میمن سنگھ میں رہنے کو ترجیح دی۔ آٹھ ماہ سکون سے گزرے۔ پھر جب ۱۶؍دسمبر کو مکتی باہنی کے غنڈوں اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا تو ہماری مشکلات کا نیا دور شروع ہوا۔ ہمیں اُس وقت راحت ملی، جب ہمیں ۱۹۷۲ء کے اوائل میں میمن سنگھ میں قائم ریلیف کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے اور میری دونوں بیٹیوں کو کراچی منتقل کیا گیا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میمن سنگھ میں غیربنگالیوں کو قتل کرنے والوں میں بھارت سے آنے والے بنگالی ہندو بھی شامل تھے‘‘۔
۴۵ سالہ امینہ خاتون کے شوہر زین العابدین بڑھئی تھے۔ انہیں اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں باغیوں نے میمن سنگھ کے علاقے شنکی پاڑا میں قتل کر دیا تھا۔ امینہ خاتون نے اپنی رام کہانی اِن الفاظ میں سنائی: ’’ہمارے علاقے پر باغیوں نے ۱۵؍اپریل کو دھاوا بولا۔ پہلے انہوں نے ہمارے گھر کا سارا سامان لوٹا، پھر اسلحے کے زور پر مجھے اور میرے شوہر کو ایک قریبی میدان میں لے گئے، جہاں درجنوں غیر بنگالی مرد موجود تھے۔ میرے شوہر بھی اُس بِھیڑ کا حصہ بنا دیے گئے۔ چند ہی لمحات کے بعد ایک شخص نے حکم دیا کہ فائر کھول دیا جائے۔ کئی مشین گنوں نے گولیاں اُگلنا شروع کردیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر عمر کے غیر بنگالی مرد زندگی سے محروم ہوگئے۔ میں نے اپنے شوہر کو گولیاں لگنے کے بعد گرتے ہوئے دیکھا تو حواس کھو بیٹھی اور ایک باغی سے بندوق چھیننے کی کوشش کی۔ اُس نے میرے سر پر بندوق کا دستہ دے مارا، جس سے میں بے ہوش ہوگئی۔ ہوش میں آنے پر مجھے پھر لاتیں ماری گئیں۔ وہ لوگ مجھ سمیت متعدد غیر بنگالی عورتوں کو ہانکتے ہوئے ایک مسجد میں لے گئے۔ وہاں پہلے ہی سیکڑوں غیر بنگالی عورتیں اور بچے موجود تھے۔ اس جہنم میں ہم سب نے چھ دن گزارے، جن میں سے چار دن صرف پانی پر گزارا تھا۔ خوراک وہاں نہیں تھی۔ اس مسجد کی نگرانی پر مامور چند رحم دل بنگالیوں نے ہماری التجا سُنی اور اُبلے ہوئے چاولوں کا انتظام کیا جو ہم نے بچوں کو کھلائے۔ اُن بنگالیوں ہی نے ہمیں بتایا کہ باغی ہم سب کو ختم کرنے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔ مگر اللہ کو ہماری زندگی منظور تھی۔ ۲۱؍اپریل کو پاکستانی فوج آئی اور اُس نے ہمیں بچا لیا۔ تمام باغی فوج کی آمد سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ مسجد میں موجود تمام بے سہارا عورتوں اور بچوں کو فوج نے ڈھاکا میں قائم کیے گئے ریلیف کیمپ میں پہنچایا۔ وہاں سے میں ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچی‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply