
۳۲ سالہ سائرہ کے شوہر عبدالحامد خان میمن سنگھ پولیس میں ڈرائیور تھے۔ اُنہیں باغیوں نے اپریل کے اوائل میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ کراچی پہنچنے پر سائرہ نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے شوہر پٹھان تھے۔ باغی اور پولیس فورس کے بہت سے لوگ کئی ہفتوں سے اُن کی جان کے درپے تھے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں باغیوں کا ایک گروہ ہمارے گھر میں داخل ہوا اور میرے شوہر کو پکڑ لیا۔ وہ اُنہیں ایک نزدیکی میدان میں لے جا رہے تھے۔ اس صورت حال میں میرے تینوں چھوٹے بچوں نے رونا شروع کر دیا۔ اُنہیں نظر انداز کر کے میں اپنے شوہر کو بچانے نکل کھڑی ہوئی۔ میں نے میدان میں پہنچ کر باغیوں کے سامنے ہاتھ جوڑے اور گڑگڑا کر اپنے شوہر کی زندگی کی بھیک مانگی۔ مگر اُنہیں رحم نہ آیا۔ وہ تو آئے ہی قتل کے ارادے سے تھے۔ میرے سامنے ہی اُنہوں نے میرے شوہر کا گلا کاٹ ڈالا۔ یہ منظر دیکھ کر میں سکتے میں آگئی۔ ایک لمحے کو ہوش آیا تو میں ایک باغی کی طرف لپکی تاکہ اُس سے خنجر چھین سکوں مگر اُن لوگوں نے مجھے دور پھینک دیا۔ پھر میرے شوہر کے سینے اور پیٹ میں بھی چُھرے گھونپے تاکہ وہ جلد از جلد مر جائیں۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر ہوش کھو بیٹھی۔ باغیوں کا ایک گروپ مجھے گھر لے گیا۔ گھر کا سارا سامان لوٹا جا چکا تھا۔ میرے تینوں سہمے ہوئے بچے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ وہ لوگ ہمیں لے کر ایک میدان کی طرف چلے۔ راستے میں ہم نے سیکڑوں لاشیں دیکھیں۔ بہت سے مکانات کو لوٹنے کے بعد جلا دیا گیا تھا۔ مسجد کا ماحول ہمارے لیے عذاب سے کم نہ تھا۔ ایک ہزار سے زائد عورتوں اور بچوں کو ایک چھوٹی سی مسجد میں رکھا گیا تھا۔ وہاں غیر بنگالی لڑکیاں بہت ہی کم تعداد میں تھیں۔ ہم نے وہاں چھ دن گزارے۔ مسجد کی دیکھ بھال پر مامور خدا ترس بنگالیوں نے ہمارے لیے قریبی تالاب سے پانی کا اہتمام کیا۔ ۲۱؍اپریل کو پاکستانی فوج نے آکر ہمیں نجات دلائی اور ڈھاکا کے ریلیف کیمپ منتقل کیا۔ وہاں سے میں اپنے بچوں سمیت نومبر ۱۹۷۳ء میں کراچی منتقل ہوئی۔‘‘
۲۷ سالہ نسیمہ بنگالی ہے۔ اُس کے شوہر عبدالجلیل بہاری تھے اور میمن سنگھ میں جنرل اسٹور چلاتے تھے۔ نسیمہ نے اپنی بِپتا اِن الفاظ میں سُنائی: ’’بہت سے شدت پسند بنگالی قوم پرست مجھ سے اور میرے اہل خانہ سے شدید نفرت کرتے تھے کیونکہ میں نے ایک بہاری سے شادی کی تھی۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو بنگالی باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ انہوں نے ہماری دکان لوٹ لی اور میرے شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں اس وقت گھر میں تھی۔ جب مجھے کسی نے بتایا کہ میرے شوہر کو قتل کیا جاچکا ہے تو میں بھاگتی ہوئی دکان پہنچی تاکہ اُن کے مردہ جسم کو حاصل کر سکوں۔ مگر باغی میرے شوہر کی لاش لے جاچکے تھے۔ دکان کے فرش پر خون پھیلا ہوا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں باغی ایک ٹرک میں ڈال کر قریبی دریا میں پھینکنے کے لیے لے گئے تھے۔ اپریل کے اوائل میں باغیوں نے ہمارے مکان کو بھی لوٹ لیا۔ مجھے مجبور ہو کر اپنے والدین کے ساتھ رہنا پڑا۔ وہ مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور غیر بنگالیوں کے قتل کے شدید مخالف تھے۔ عوامی لیگ اور بھارتی فوج نے مل کر جب دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا تو بہاریوں کے ساتھ ساتھ بہت سے پاکستان نواز بنگالیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ باغیوں نے ایک دن ہمارے گھر پر حملہ کیا اور میرے والد کے ساتھ ساتھ میرے دو جواں سال بھائیوں کو بھی قتل کر دیا۔ میں اس وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پڑوس کے مکان میں تھی، اس لیے بچ گئی۔ پڑوسیوں نے مجھے کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکالا اور ایک قریبی گاؤں پہنچا دیا۔ ہم وہاں دو سال رہے اور اس دوران کھیتوں میں کام کر کے گزر بسر کی۔ اس کے بعد ہم ڈھاکا منتقل ہوئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ اقوام متحدہ نے غیر بنگالیوں کو پاکستان منتقل کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے تو میں نے پاکستان منتقل ہونے کے لیے بھرپور کوشش شروع کر دی۔ بنگلا دیش میں ہمارے لیے اب کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ وہاں گزاری جانے والی زندگی ہمارے لیے سراسر عذاب تھی، اُس سے کچھ کم نہ تھی۔ ۱۱؍فروری ۱۹۷۴ء کو اقوام متحدہ کی وساطت سے میں کراچی پہنچی۔‘‘
بہت سے عینی شاہدین کے بیانات اور ثبوتوں سے معلوم ہوا ہے کہ میمن سنگھ اور اس سے ملحق علاقوں میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے عوامی لیگی کارکن اور فوج کے منحرف سپاہی اپریل ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں پاکستانی فوج کی آمد کی اطلاع پاتے ہی فرار ہو کر بھارت چلے گئے۔ فوج نے میمن سنگھ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد گلی سڑی لاشوں کی تدفین کا انتظام کیا۔ ۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو میمن سنگھ سے اپنے ایک مراسلے میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے نمائندے میلکم براؤن نے لکھا: ’’وقفے وقفے سے بہت سی کچی قبروں میں گلی سڑی لاشیں دفنائی جارہی ہیں۔ ان قبروں کو سُرخ اینٹوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ بہت سے لُٹے اور جلائے ہوئے مکانات میں بھی لاشیں پڑی ہیں جنہیں اینٹوں سے ڈھک دیا گیا ہے۔‘‘
ستم اور درندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہزاروں غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے بعد اُنہیں اجتماعی قبروں میں ڈالنے کے بعد عوامی لیگ نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ یہ لاشیں اُن بنگالیوں کی ہیں جنہیں پاکستانی فوج نے قتل کیا۔ بہت سے پاکستان نواز اور خدا ترس بنگالیوں نے پورے شواہد کے ساتھ بتایا کہ غیر بنگالیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں بنگالیوں کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ میمن سنگھ سے تعلق رکھنے والے بہت سے عینی شاہدین نے بتایا کہ کشور گنج، نرسنگھڑی، بھیراب بازار، بیگن باڑی اور سرساباڑی میں غیر بنگالیوں کو بنگالی باغیوں کے ہاتھوں جہنم جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ نرسنگھڑی میں بہاری جولاہے بڑی تعداد میں تھے جو ہینڈ لومز پر کپڑا تیار کرتے تھے۔ انہیں باغیوں نے موت کے گھات اتارا۔ بھیراب بازار میں بہت سے غیر بنگالی پٹ سن کے کاروبار سے منسلک تھے۔ اِن میں سے مالدار لوگوں کو اغوا کر کے ان کی رہائی کے عوض تاوان وصول کیا گیا اور ان کے مکانات کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی گئی۔ باغیوں نے بہت سے غیر بنگالی خاندانوں کو ڈھاکا منتقل ہونے سے روکا اور اُن کے مردوں کو قتل کر دیا۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں سرساباڑی میں ایک درجن سے زائد غیر بنگالی خاندانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
☼*☼*☼
Leave a Reply