
راج شاہی اور ناٹور میں قتل عام
عوامی لیگ کے غنڈوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور فوج کے منحرف سپاہیوں کے ہاتھوں راج شاہی میں غیر بنگالیوں کا قتل عام مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں شروع ہوا۔ تین میل چوڑے دریائے پدما کے مقابل بھارتی سرحد واقع ہے۔ بھارت نے باغیوں کو ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان سے خوب نوازا۔ بھارت کی بھرپور حمایت اور مدد سے بنگالی باغیوں نے غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر مارا۔ بھارت سے بھی بہت سے لوگ دریائے پدما کے ساتھ ساتھ واقع سرحد عبور کر کے راج شاہی اور اس سے ملحق علاقوں میں داخل ہوئے اور باغیوں کی بھرپور مدد کی۔ بنگالی باغیوں اور ان کے بھارتی مددگاروں نے مل کر غیر بنگالیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ انہوں نے ہزاروں بنگالی عورتوں اور بچوں تک کو موت کے گھاٹ اتارا۔ جب پاکستانی فوج نے غیر بنگالیوں کو بچانے کے لیے پیش قدمی کی تو عوامی لیگ کے غنڈوں اور ان کے ساتھیوں نے بھارت کی طرف سے فراہم کردہ بزوکا اور دیگر رائفلیں استعمال کیں۔ باغیوں کے پاس اسلحے کی اچھی خاصی سپلائی تھی جس کی مدد سے انہوں نے کئی دن تک فوج کا سامنا کیا۔ جب پاکستانی فوج نے باغیوں کو گھیر لیا اور اُنہیں گرفتار کرنے کی تیاری شروع کی تو بھارت نے ان کی بھرپور مدد کی۔ بھارتی توپ خانے سے راج شاہی پر حملے کیے گئے۔ اس گولہ باری کا بنیادی مقصد پاکستانی فوج کو باغیوں سے دور رکھنا تھا۔ پاکستانی فوج نے ۱۵؍اپریل ۱۹۷۱ء کو راج شاہی کا کنٹرول پھر سنبھال لیا۔ اس کے تین ہفتے بعد چھ مغربی صحافیوں نے راج شاہی کا دورہ کیا تاکہ حالات کا خود جائزہ لے کر مراسلے بھیج سکیں۔
’’رائٹرز‘‘ نیوز ایجنسی کے نمائندے مارس کوئنٹنس نے راج شاہی سے بھیجے گئے ایک مراسلے میں لکھا: ’’عینی شاہدین نے بتایا کہ باغیوں کی صفوں میں ایسٹ پاکستان رائفل کے منحرف سپاہی بھی تھے اور انہیں بھارت کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل تھی۔ عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا کہ بنگلا دیش کے قیام کے حامیوں نے ہزاروں غیر بنگالیوں کے مکانات اور دکانیں لوٹ لیں اور پھر انہیں آگ بھی لگا دی۔ چند دیہاتیوں نے بیرونی صحافیوں کو ایک کنویں میں گلی سڑی لاشیں بھی دکھائیں۔ بتایا گیا کہ پاکستانی فوج کی پیش قدمی سے گھبرا کر باغیوں نے مغوی غیر بنگالیوں کو قتل کر کے لاشیں کنویں میں پھینک دی تھیں۔ اس علاقے میں ۷۰۰ سے زائد غیر بنگالی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔‘‘
’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے میلکم براؤن نے ۹ مئی ۱۹۷۱ء کو اپنے ایک مراسلے میں لکھا کہ شواہد سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جب بنگالیوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ عوامی لیگ کی حکومت جلد قائم ہونے والی ہے تو بہت سے علاقوں میں بنگالی کمیونٹیز نے بہاریوں کے مکانات اور دکانیں لوٹنے کے ساتھ قتل کا بازار بھی گرم کیا۔
۲۴ سالہ محمد امین راج شاہی یونیورسٹی کیمپس میں جناح ہال کے نزدیک رہتا تھا۔ اُس نے بتایا کہ تین ہزار سے زائد باغیوں نے ۲ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ جج کے دفتر پر دھاوا بول کر پاکستانی پرچم نذر آتش کر دیا اور آفس کا ریکارڈ جلا ڈالا۔ باغیوں نے جے بنگلا کا نعرہ لگاتے ہوئے چند غیربنگالیوں کی دکانیں بھی لوٹ لیں۔ محمد امین نے اُسی رات دیکھا کہ غیربنگالیوں کے مکانات اور دکانوں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا گیا۔ بنگالی ڈسٹرکٹ جج نے غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دفتر جانے کی کوشش کی۔ باغیوں نے انہیں دھمکایا اور اُنہیں دفتر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پٹرول چھڑک کر دفتر کو آگ لگا دی۔ بنگالی ڈپٹی کمشنر راشدالحسن نے بھی حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے دفتر جانے کی کوشش کی مگر انہیں بھی روک دیا گیا۔ ۲۶ مارچ کو راج شاہی میں پولیس نے بغاوت کر دی اور شہر میں تمام غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکی دی۔
باغیوں کی گولی سے ایک فوجی کے زخمی ہونے پر فوج کے ایک دستے نے پولیس لائنز میں منحرف پولیس سپاہیوں پر حملہ کیا۔ ایک گھنٹے کے مقابلے کے بعد پویس کے باغی سپاہی بھارت کی طرف بھاگ گئے۔ بھارت کا فراہم کردہ اسلحہ اور گولہ بارود اُن کے ٹھکانوں سے ملا۔ چند باغی پولیس اہلکار پکڑے گئے جنہوں نے بتایا کہ باغی پولیس اہلکاروں کی معاونت کے لیے بھارت کے چند فوجی بھی سرحد پار کر کے آئے ہیں۔
محمد امین نے مزید بتایا کہ ۳۱ مارچ کو ایسٹ پاکستان رائفلز کے چند باغیوں نے نواب گنج کے ڈپٹی کمشنر کو اغوا کر کے مقامی جیل میں بند کر دیا۔ یہ جیل راج شاہی سے تیس میل دور تھی۔ ۱۵؍اپریل کو باغیوں کے ایک گروہ نے جیل میں موجود ۱۷۵؍ سے زائد غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ان تمام بدنصیبوں کی لاشیں دریا کے کنارے ایک بڑے گڑھے میں ڈال دی گئیں جہاں پہلے ہی سے بہت سی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ جب پاکستانی فوج نے اس علاقے کا رُخ کیا تو باغی راج شاہی کے ڈپٹی کمشنر کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھارتی علاقے مالدہ لے گئے جہاں انڈین بارڈ سکیورٹی فورس نے ان کا خیرمقدم کیا اور ڈپٹی کمشنر کو جیل میں ڈال دیا۔ ڈپٹی کمشنر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل سے فرار ہو کر دریائے پدما میں تیرتے ہوئے ۶ مئی کو مشرقی پاکستان پہنچے۔ راج شاہی یونیورسٹی کے غیر بنگالی اساتذہ کو باغیوں نے بہت ڈرایا دھمکایا اور ان کے مکانات کو تہس نہس کر دیا تاہم اُس پورے دورِ ابتلا میں ان اساتذہ کے بنگالی ساتھیوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اِن کی حفاظت کی اور اِنہیں کیمپس میں محفوظ رکھا۔ محمد امین بنگالی بہت روانی سے بولتا تھا۔ اُس نے بہت سے باغیوں کو یہ کہتے ہوئے دھوکا دیا کہ وہ بنگالی ہے۔
۳۵ سالہ افسر علی کے بھائی ریڈیو پاکستان کے راج شاہی اسٹیشن میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کے مکان کو بھی باغیوں نے اپریل کے پہلے ہفتے میں تباہ کر دیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کی عمارت پر بھی گولہ باری کی اور اسے شدید نقصان پہنچایا۔ افسر علی نے بتایا: ’’باغیوں کے ایک گروہ نے ۷؍اپریل کو ریڈیو پاکستان راج شاہی کے بنگالی ریجنل ڈائریکٹر کو اسلحے کی نوک پر حکم دیا کہ وہ جے بنگلا کے نام پر نشریات شروع کریں۔ باغیوں کی گولہ باری سے کرسٹل تباہ ہوچکا تھا اور بہتر نشریات کے لیے نیا کرسٹل درکار تھا۔ نشریات کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی بیشتر مشینری ناکارہ ہوچکی تھی۔ اگلے دن کلکتہ سے آل انڈیا ریڈیو کا ایک انجینئر نیا کرسٹل لے کر آگیا تاہم یہ کرسٹل فٹ نہ ہو سکا اور نشریات بحال نہ کی جاسکیں۔ آل انڈیا ریڈیو کا انجینئر تمام تفصیلات لکھ کر لے گیا اور وعدہ کیا کہ جلد ہی وہ کرسٹل بھیج دے گا، مگر پھر یہ ہوا کہ ۱۴؍اپریل کو پاکستانی فوج نے راج شاہی کا کنٹرول سنبھال لیا۔‘‘
افسر علی راج شاہی کے علاقے صاحب بازار میں رہتا تھا، اُسے ایک بنگالی دوست نے پناہ دی۔ افسر علی نے بتایا کہ اس نے اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران راج شاہی کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج کے کئی اہلکاروں اور افسروں کو دیکھا۔ یہ لوگ ہندی بولتے تھے اور باغیوں کے گروہوں کو غیر بنگالیوں پر فائرنگ کا حکم دیا کرتے تھے۔ ان کی ہدایات کی روشنی میں سیکڑوں غیر بنگالیوں کے ساتھ ساتھ ایک مقامی پولیس سپرنٹنڈنٹ سمیت کئی پاکستان نواز بنگالیوں کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ان بھارتی فوجیوں نے ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں کے ساتھ مل کر شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا، اور اپنی بارڈر سکیورٹی فورس کو بھی دریائے پدما کے پار مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ٹھکانوں پر گولہ باری اور فائرنگ کی ہدایات دیں۔ افسر علی کے بیان کے مطابق عوامی لیگ کے غنڈوں نے راج شاہی کے مختلف علاقوں میں غیر بنگالیوں کی دکانوں اور مکانوں کو لوٹ کر آگ لگا دی۔ انہوں نے سیکڑوں غیر بنگالی مردوں کو دریا کے کنارے بنائے ہوئے عقوبت خانوں میں موت کے گھاٹ اتارا۔ عوامی لیگ کے غنڈے کسی بھی غیر بنگالی کے خفیہ ٹھکانے کا پتا بتانے والے کو بیس روپے دیا کرتے تھے۔ غیر بنگالیوں کو پناہ دینے والے بہت سے بنگالیوں کو بھی عوامی لیگ کے باغیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ بنگالی ڈپٹی کمشنر کی اہلیہ کو باغیوں نے سنگین نتائج کی دھمکی دی کیونکہ اُنہوں نے ایسے متعدد غیر بنگالی خاندانوں کو پناہ دی تھی جن کے مرد باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
افسر علی نے بتایا ناٹور میں بنگالی سب ڈویژنل افسر نے باغیوں سے مل کر غیر بنگالیوں کے قتل کا بازار گرم کیا۔ اُس کا حکم تھا کہ تمام بہاریوں کو قتل کر دو۔ ناٹور میں بڑے پیمانے پر غیر بنگالیوں کے قتلِ عام کا ایک اور مرکزی کردار گوماسا چوہدری نام کا ہندو تھا جو غیر بنگالی مسلمانوں بالخصوص بہاریوں سے انتہائی نفرت کرتا تھا۔ اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے ناٹور جیل اور اللہ پور جامع مسجد میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ ۵۰۰ سے زائد بہاری خواتین اور بچوں کو قتل کرنے کی تیاری کی جارہی تھی کہ اللہ نے پاکستانی فوج کو بروقت بھیج دیا جس سے اُن سب کی جان بچ گئی۔
عوامی لیگ کے غنڈوں اور ان کے ساتھیوں نے ضلع راج شاہی کے دیگر قصبوں مثلاً ساردا اور نواب گنج وغیرہ میں بھی غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا۔ پاکستانی فوج کی آمد سے قبل ضلع راج شاہی میں مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران باغیوں اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان ہے۔ باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں دریائے پدما میں پھینک دیں۔ بہت سی لاشیں خشک کنووں اور پانی کے ٹینکوں میں بھی ڈال دی گئیں۔
○○○
Leave a Reply