
سنتاہار میں قیامت
۳۰ سالہ نفیسہ خاتون کے شوہر ظہیرالدین کی سنتاہار میں کپڑے کی دکان تھی۔ ظہیرالدین کو باغیوں نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ نفیسہ خاتون نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’جو کچھ پورے مشرقی پاکستان میں ہو رہا تھا، وہی کچھ سنتاہار میں بھی ہوا۔ پورے شہر میں شدید کشیدگی تھی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو شہر کی حالت غیرمعمولی طور پر کشیدہ تھی، اِس لیے میرے شوہر اُس دن دکان نہیں گئے۔ پہلے یہ اطلاع آئی کہ چند شرپسندوں نے ہماری دکان لُوٹ لی ہے۔ پھر کچھ ہی دیر میں ایک درجن سے زائد مسلح باغی ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ میرے شوہر اُن کے سامنے گڑگڑائے اور گھر میں موجود نقدی اور زیورات وغیرہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ میں نے بھی اُن درندوں کے پیروں میں گر کر رحم کی بھیک مانگی مگر اُنہیں ہم پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ میرے دونوں چھوٹے بچے خوف کے مارے پیلے پڑگئے اور ایک میز کے نیچے چھپ گئے۔ باغیوں نے میرے شوہر کو پکڑ کر آنگن میں کھڑا کیا اور اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کٹے ہوئے درخت کی مانند گرے۔ ان کے سَر اور سینے سے خون کا فوّارہ اُبل پڑا۔ میں یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے دونوں بچے اپنے باپ کی لاش پر رو رہے ہیں‘‘۔
’’باغیوں نے ہمارے گھر سے ہر قیمتی چیز لُوٹ لی۔ اُس رات میں نے اپنے شوہر کی لاش کو بستر کی چادروں میں لپیٹا۔ ہمارا ایک پڑوسی میت کو قبرستان لے گیا۔ اگلی صبح میں نے بنگالی عورتوں کی طرح ساری باندھی اور بچوں کو لے کر پاربتی پور روانہ ہوگئی۔ وہاں میرے کچھ عزیز رہتے تھے۔ راستہ بہت دشوار تھا۔ ہمارے پیروں میں چھالے پڑگئے۔ جگہ جگہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ سڑک کے کنارے ہی نہیں بلکہ ندی نالوں میں بھی ہم نے لاشیں دیکھیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اُنہیں قتل و غارت کی کھلی چُھوٹ دے دی گئی تھی۔ راستے میں ہمارا بھوک اور پیاس سے بُرا حال ہوگیا۔ جب ہم پاربتی پور پہنچے تو بھوک اور پیاس کے مارے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارا دم نکل جائے گا۔ تھکن ایسی تھی کہ پورا جسم دُکھ رہا تھا۔ میں نے وہاں رشتہ داروں کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔ باغیوں نے پاربتی پور میں بھی غیرمعمولی قتلِ عام کیا تھا۔ ہماری خوش بختی یہ تھی کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا تھا۔ فوجیوں کو دیکھتے ہی باغی بھاگ کھڑے ہوئے۔ فوجیوں نے دو دن تک ہمارا خیال رکھا اور ہمیں ڈھاکا منتقل کیا جہاں ہم محمد پور میں واقع پناہ گزین کیمپ میں رہے‘‘۔
’’مشکلات کم ہوئی تھیں، ختم نہیں ہوئی تھیں۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا تب مکتی باہنی نے ایک بار پھر غیربنگالیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔ ہمارے لیے ڈھاکا کے پناہ گزین کیمپ میں حالات مزید بُرے ہوگئے۔ مجھے اور بچوں کو ملنے والی یومیہ خوراک انتہائی ناکافی تھی مگر کسی نہ کسی طور ہم نے گزارا کیا اور زندگی کا سفر جاری رہا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مجھے اور میرے بچوں کو اقوام متحدہ کے ایک طیارے کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر بالکل محفوظ ہیں‘‘۔
پندرہ سالہ محمد شکور کے والد محمد شفیق کو باغیوں نے شہید کردیا تھا۔ محمد شکور نے اپنی رام کہانی اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے والد سنتاہار میں ٹرک ڈرائیور تھے۔ وہ بنگالی بہت روانی سے بولتے تھے اور اُنہوں نے مجھے بنگالی میڈیم اسکول میں داخلہ دلایا تھا۔ علاقے کے تمام بنگالیوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہم شہر کے مضافات میں رہتے تھے۔ قبرستان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو اسکول گیا۔ اسکول میں میرے ہم جماعت مجھے بہاری کہتے تھے گو کہ میں بنگالی روانی سے بولتا تھا۔ دن کے دو بجے میں اسکول سے گھر کی طرف چلا۔ میں نے دیکھا کہ چند شرپسند ہمارے جھونپڑا نما مکان پر حملہ کر رہے ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا اور ایک قبر کے پیچھے چھپ گیا۔ اِتنے میں مجھے اپنے والد کی آواز سُنائی دی۔ میں نے ایک دیوار کے سُوراخ سے دیکھا کہ شرپسندوں نے میرے والد کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا۔ اُن کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ اُن درندوں نے میرے والد کو ایک درخت سے باندھا اور پھر اُن کے سَر اور پیٹ میں چُھریوں کے وار کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے دم توڑ دیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ہمارے گھر کا سامان لُوٹ لیا۔ پھر اُنہوں نے میری والدہ اور بہن کو گن پوائنٹ پر لیا اور قریبی گاؤں کی طرف چلے گئے۔ اِس کے بعد میں نے اپنی والدہ اور بہن کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ میں ایک ماہ تک قبرستان میں چُھپا رہا۔ جب پاکستانی فوج کا دستہ سنتاہار پہنچا تو اُس نے میرے والد کی باقیات کو دفنایا۔ فوجیوں نے میری والدہ اور بہن کو تلاش کرنے میں میری مدد کی مگر اُن دونوں کا کہیں پتا نہ چلا۔ فوجیوں نے مجھے ڈھاکا پہنچایا۔ جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا، تب میرے لیے زندگی پھر امتحان ہوگئی۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر دن میرے لیے آزمائش جیسا تھا۔ ۲۹ جنوری ۱۹۷۴ء کو اقوام متحدہ کے طیارے کے ذریعے میں نے پاکستان میں قدم رکھا۔ اب میں محفوظ ہوں‘‘۔
محمد شکور پر حالات نے غیرمعمولی اثرات مرتب کیے تھے۔ وہ جب اپنی کہانی سُنا رہا تھا، تب بھی کانپ رہا تھا۔ جو کچھ اُس پر بیتی، اُسے سُن کر کسی کی بھی آنکھ پُرنم ہوسکتی ہے۔
۲۷ سالہ قمرالنسا کے شوہر محمد ماجد کو باغیوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں شہید کردیا تھا۔ جو کچھ قمرالنسا پر بیتی وہ اُنہی کی زبانی سُنیے: ’’مارچ کے آخری ہفتے میں عوامی لیگ کے کارکنوں اور اُن کے حامیوں نے ایک نام نہاد امن کمیٹی قائم کی تھی۔ اُنہوں نے شہر کے تمام غیر بنگالیوں سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار اور آتشیں اسلحہ امن کمیٹی کے حوالے کردیں۔ عوامی لیگ کی مقامی قیادت نے یقین دلایا تھا کہ غیربنگالیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ عوامی لیگ کے وعدے پر یقین کرتے ہوئے غیربنگالیوں نے اپنے ہتھیار اور اسلحہ امن کمیٹی کے حوالے کردیے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو باغیوں کا ایک مسلح گروہ ہمارے گھر میں گھس آیا۔ اُنہوں نے میرے شوہر، سُسر، تین دیوروں اور ایک بھتیجے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ہم عورتوں نے اُن کے پیروں پر گر کر اپنی اور بچوں کی زندگی کی بھیک مانگی۔ میں اپنے شوہر کی لاش سے لپٹ کر رونے لگی تو عوامی لیگ کے ایک درندے نے رائفل کا بٹ میرے ہاتھ پر اِتنے زور سے مارا کہ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ عوامی لیگ کے ایک غنڈے نے مجھے بالوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور گھر سے باہر لے گیا۔ وہاں علاقے کی دوسری غیربنگالی اور پنجابی عورتیں تھیں۔ ہمیں بندوق کی نوک پر ریلوے اسٹیشن لے جایا گیا۔ اِس دوران باغیوں نے ہم سے زیورات اُتروالیے۔ ہم میں چند لڑکیاں بھی تھیں جن سے اُن درندوں نے زیادتی کی‘‘۔
’’ایک دن میں چند دوسری غیربنگالی عورتوں کے ساتھ باغیوں کی قید سے بھاگ نکلی۔ ہم سب نے تیزی سے دریا کے کنارے درختوں کے جُھنڈ میں پناہ لی۔ باغی ہماری تلاش میں نکلے مگر اللہ کا کرم ہوا کہ اچانک آندھی سی آگئی اور وہ درندے ہماری تلاش میں زیادہ دور تک نہ آسکے۔ اللہ کا مزید کرم یہ ہوا کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ ہماری طرف آنکلا۔ فوجیوں نے ہمارا علاج کرایا اور پھر ہمیں ڈھاکا میں قائم ایک ریلیف کیمپ میں پہنچادیا‘‘۔ جہاں فروری ۱۹۷۴ء میں قمرالنسا کو پاکستان منتقل کیا گیا۔
Leave a Reply