
چوبیس سالہ نورجہاں کے شوہر دیناج پور میں غیر بنگالیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کے دوران شہید ہوگئے تھے۔ اپنے رنج و الم کی داستان سناتے ہوئے نور جہاں کئی بار بلک بلک کر روتی رہی۔
’’ہم دیناج پور میں صوفی بزرگ شیر غازی کے مزار کے نزدیک زلم کالونی میں رہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے وسط سے لوگ ہمیں بتانے لگے تھے کہ غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور اس سلسلے میں عوامی لیگ کے کارکنوں نے مکانات پر نشان لگانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا‘‘۔
’’ہمارے علاقے میں ۲۵ مارچ کی رات نو بجے باغیوں کے ایک بڑے ہجوم نے حملہ کردیا۔ انہوں نے سیکڑوں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے سامان لوٹ کر مکانات کو آگ بھی لگادی۔ باغیوں نے ہمارے مکان پر بھی حملہ کیا جس میں میرے شوہر اور بھائی کو شہید کردیا گیا۔ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے، باغیوں نے ہمارے علاقے میں پختہ عمر کے ایک بھی غیر بنگالی مرد کو زندہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے لڑکوں کو بھی نہ بخشا۔ انہوں نے روتی سسکتی غیر بنگالی عورتوں کو قطار بند کیا اور بندوق کی نوک پر انہیں آٹھ میل دور واقع بھارتی سرحدی قصبے بارول تک لے گئے۔ ہمیں یرغمال بنانے والے شیطانوں نے ہم سے جو سلوک روا رکھا، وہ اس قدر بھیانک اور گھناؤنا تھا کہ میں اُسے دہرانے سے شدید نفرت کرتی ہوں‘‘۔
’’دیناج پور میں سب سے بھیانک قتل عام ہمارے علاقے میں ۲۵۰ سے زائد پٹھان مردوں، عورتوں اور بچوں کا تھا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں نے پٹھانوں کو رسیوں سے باندھا اور پھر ان کے جسم کو چھید کر ان پر مٹی پھینکی۔ زخم سے نڈھال ہونے والے جب چیختے تو وہ درندے خوب ہنستے اور مزید زخم لگانے پر تُل جاتے۔ میں اب بھی ان پٹھانوں کی چیخیں نہیں بھول پائی۔ وہ رو رو کر ان درندوں سے فریاد کرتے رہے کہ اگر مارنا ہی ہے تو آسان موت دے دو، یوں درندوں کی طرح موت کی طرف نہ دھکیلو۔ مگر ان کی فریاد بے اثر رہی‘‘۔
’’ہمیں یرغمال بناکر چند جھونپڑیوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ رات کو وہ درندے آتے اور بے کس عورتوں کی عزت پامال کرتے۔ جو عورتیں مزاحمت کرتیں، انہیں گولی مار دی جاتی تاکہ دوسری عورتیں سبق سیکھیں۔ جن عورتوں کو گولی ماری جاتی، ان کے جسم مسخ کر دیے جاتے، چھاتیاں کاٹ دی جاتیں۔ ان کی بے جان پیشانیوں پر خنجر کی نوک سے جے بنگلہ کرید دیا جاتا تھا۔ ۱۰؍اپریل کو پاکستانی فوج کے ایک یونٹ نے بارول قصبے کا کنٹرول حاصل کیا اور ہمیں بچایا‘‘۔
نور جہاں کو دسمبر ۱۹۷۱ء کے وسط میں ڈھاکا منتقل کرکے ایک ریلیف کیمپ میں رکھا گیا جہاں سے وہ جنوری ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی۔
بیس سالہ سکینہ بی بی کے شوہر عبدالشکور کو ۲۲ مارچ ۱۹۷۱ء کو دیناج پور کے علاقے نیل ماٹی میں ان کے مکان پر حملے کے دوران شہید کردیا گیا تھا۔ سکینہ بی بی نے اپنے غم کی داستان ان الفاظ میں سنائی: ’’ہمارے علاقے میں غیر بنگالی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ بنگالی باغیوں کے ایک قاتل گروہ نے ایک رات ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور تمام قیمتی اور کارآمد سامان لوٹنے کے بعد جھونپڑیوں کو آگ لگادی۔ انہوں نے صرف نصف گھنٹے میں ہماری آبادی میں پختہ عمر کے تمام غیر بنگالی مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میرے شوہر کو شہید کرنے سے پہلے انہوں نے برچھی سے ان کی پیشانی چھیدی‘‘۔
’’تمام مردوں کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے گن پوائنٹ پر چار سو سے زائد غیر بنگالی عورتوں کو جمع کیا اور ان کے کپڑے اتروائے۔ میں بھی ان عورتوں میں شامل تھی۔ پھر ہم سے کہا گیا کہ یونہی بے لباسی کی حالت میں پریڈ کرو۔ جن عورتوں نے مزاحمت کی کوشش کی، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ میں نے ان برہنہ عورتوں میں اپنے بھائی کی بیوی کو بھی دیکھا۔ اس نے بتایا کہ باغیوں نے اس کے شوہر اور چھوٹے بیٹے کو بھی مار ڈالا ہے۔ ہم یونہی بے لباسی کی حالت میں پریڈ کرتے پانچ میل دور نارکھل ڈنگا پہنچیں۔ تب تک صرف ڈیڑھ سو عورتیں بچی تھیں۔ ڈھائی سو میں سے کچھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور بہتوں کو دوسرے باغی لوٹے ہوئے مال میں حصہ قرار دے کر لے گئے تھے۔ ان بدنصیب عورتوں میں میری چھوٹی نند بھی شامل تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے اس دن کے بعد اسے پھر کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
’’باغیوں نے ہمیں چھ جھونپڑیوں میں رکھا تھا۔ ابتدائی تین دنوں تک تو انہوں نے ہمیں کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا۔ ہم نے پانی اور چند جنگلی پھلوں پر گزارا کیا۔ اس دوران وہ درندے ہم مجبور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ جن لڑکیوں نے مزاحمت کی، انہیں قتل کردیا گیا۔ جب پاکستانی فوج نے آپریشن کیا تو ان باغیوں نے بھاگتے بھاگتے تمام یرغمالی عورتوں کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر اللہ کا شکر ہے کہ فوج کی بروقت کارروائی سے ہماری جان بچ گئی‘‘۔
سکینہ بی بی دو سال ڈھاکا میں رہی۔ ۱۹۷۴ء میں اسے پاکستان منتقل کیا گیا۔
چھبیس سالہ عبدالماجد دیناج پور کے علاقے پہاڑ پور میں رہتے تھے۔ دیناج پور میں جب قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا، تب عبدالماجد کی جان بہت مشکل سے بچ پائی۔ کراچی پہنچنے پر عبدالماجد نے اپنی کہانی ان الفاظ میں سنائی: ’’بنگالی باغیوں نے ۳مارچ کو دیناج پور میں قتل و غارت شروع کی۔ انہوں نے ریل کی پٹڑی اکھاڑ کر ٹرین سروس معطل کردی۔ انہوں نے ریلوے کا گودام لوٹ کر چند ٹرینوں کو آگ بھی لگادی۔ جن غیر بنگالیوں نے ریلوے کی ڈیوٹی کا بائیکاٹ کرنے سے انکار کیا، ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا‘‘۔
’’مارچ کے پہلے ہفتے میں بنگالی فسادیوں نے غیر بنگالیوں کی دکانیں لوٹ لیں۔ انہوں نے اقبال ہائی اسکول کو بھی تباہ کردیا جس میں غیر بنگالی بچوں کی اکثریت پڑھا کرتی تھی۔ جن اساتذہ نے فسادیوں کو اسکول کا فرنیچر تباہ کرنے سے روکا، ان سے بھی بدسلوکی کی گئی‘‘۔
’’مارچ کے تیسرے ہفتے میں عوامی لیگ کے کارکنوں اور ان کے ساتھ دوسرے بہت سے نوجوانوں نے اسٹین گنوں اور رائفلوں سے مسلح ہوکر غیر بنگالیوں کی اکثریت والے علاقے بلواڈنگا کالونی پر حملہ کیا۔ ہزاروں غیر بنگالیوں کو دریائے کنچن کے کنارے قائم عقوبت خانوں میں لے جاکر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دیناج پور میں جن بنگالی باغیوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا، ان کے سرغنہ اسمبلی کے منتخب رکن عبدالباری، ڈاکٹر خلیل الرحمن، ریاض الرحمن ایڈوکیٹ اور میجر عثمان تھے۔ انہوں نے اس قتل عام کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کی نگرانی بھی کرتے رہے۔
جب پاکستانی فوج نے دیناج پور کا کنٹرول سنبھال لیا، تب عبدالماجد اپنے خفیہ ٹھکانے سے باہر آئے اور غیر بنگالیوں کو دفن کرنے میں فوج کی معاونت کی۔ انہوں نے مزید بتایا: ’’میں فوجیوں کو اقبال ہائی اسکول لے گیا۔ وہاں تقریباً ڈھائی ہزار لاشیں سڑ رہی تھیں۔ مرنے والوں کے جسم پر گولیاں داغی گئی تھیں اور خنجر سے زخم لگائے گئے تھے۔ ہم نے ان لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفن کردیا۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے درندوں نے بعض حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر ڈالے تھے۔ بہت سی لاشوں کے سر غائب تھے۔ میں نے بہت سے بچوں کی لاشیں دیکھیں جن کے اعضا کاٹ دیے گئے تھے۔ ہم نے دریائے کنچن کے کنارے قائم عقوبت خانے بھی دیکھے۔ وہاں ایسا لگا جیسے دریائے کنچن میں پانی نہیں بلکہ خون بہتا ہو۔ وہاں ہم نے وہ چیزیں دیکھیں جن سے وہ درندے غیر بنگالیوں کو قتل سے قبل شدید تشدد کا نشانہ بناتے تھے‘‘۔
عبدالماجد نومبر ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا سے کراچی پہنچے۔
چالیس سالہ قمر النساء بیگم کے شوہر دیناج پور میں بنگال رائس ملز کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے غم کی داستان ان الفاظ میں سنائی: ’’ہم ۱۹۴۷ء میں کلکتہ سے مشرقی پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ ہم نے ڈھاکا میں گزارا۔ پھر رنگ پور منتقل ہوگئے۔ پھر میرے شوہر نے دیناج پور میں رہائش اختیار کی اور وہاں ایک رائس مل بھی خریدی، جس میں سو سے زائد افراد ملازمت کرتے تھے۔ اس مل کی آمدنی معقول تھی۔ اس مل میں میرے شوہر کا ایک غیر فعال بنگالی شراکت دار بھی تھا، جس کی سرمایہ کاری صفر کے برابر تھی۔ جب رائس مل نے غیر معمولی منافع کمانا شروع کیا تو اس شراکت دار کی نیت بدل گئی اور وہ دھوکے سے مل ہتھیانے کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔ میرے شوہر نے خطیر رقم دے کر مل میں اس کا حصہ ختم کردیا‘‘۔
’’عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے باغیوں نے جب ۲۵ مارچ کو دیناج پور میں غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا تب میرے شوہر کا یہی غیر فعال بنگالی شراکت دار غنڈوں اور قاتلوں کو لے کر آیا جنہوں نے ہماری مل پر حملہ کردیا۔ انہوں نے میرے شوہر کو قتل کرکے ہماری مل سے سارا چاول اور دیگر قیمتی اشیا لوٹ لیں۔ میرے شوہر کو قتل کرنے کے بعد ان قاتلوں نے ہمارے گھر کو بھی لوٹ لیا۔ ہم نے ایک دیرینہ بنگالی دوست کے گھر میں پناہ لی‘‘۔
قمر النساء نے ایک بیٹی اور دو بیٹوں کے ساتھ ڈھاکا میں سخت کسمپرسی کے عالم میں وقت گزارا۔ ۱۹۷۴ء میں یہ لوگ چاٹگام سے کراچی منتقل ہوئے۔
پچیس سالہ عبدالقادر دیناج پور رائس مل کا ملازم تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مل کے ۶۹ غیر بنگالی ملازمین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ عبدالقادر نے اپنی دکھ بھری داستان ان الفاظ میں سنائی: ’’دیناج پور رائس مل کا شمار مشرقی پاکستان کے شمالی علاقوں کی بڑی رائس ملز میں ہوتا تھا۔ اس میں کم و بیش ۷۰۰ ملازمین تھے۔ مل کے مالک حاجی کریم غیر بنگالی تھے اور شفیق طبیعت کی بدولت تمام ملازمین کی بہبود کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ان کے پاس سرکاری ٹھیکہ تھا۔ وہ عمر کی چھٹی دہائی میں تھے مگر پھر بھی بہت فعال تھے اور مل کے تمام امور کی خود نگرانی کرتے تھے‘‘۔
’’۲۵ مارچ کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈے ایسٹ پاکستان رائفلز کے منحرف سپاہیوں کے ساتھ مسلح ہوکر آئے اور دیناج پور رائس مل میں رکھا ہوا سارا چاول اور نقدی لوٹنے کے بعد اس کے غیر بنگالی ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو قتل کردیا۔ ان سفاک درندوں نے بہت سے غیر بنگالی ملازمین کو پکڑ کر رسیوں سے باندھا اور اسٹیم بوائلرز میں پھینک دیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان ظالموں نے مل کے مالک حاجی کریم کو بھی بوائلر میں پھینکا۔ مل میں کام کرنے والی چند غیر بنگالی عورتوں کو بھی اسی بھیانک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا‘‘۔
’’دیناج پور مل کو لوٹنے کے بعد قاتل گروہ نے بہت سے غیر بنگالی ملازمین کے ہاتھ باندھ کر انہیں ایک بڑے ہال میں جمع کیا۔ میرے ہاتھوں کی رسی کمزور تھی جو تھوڑی سی مزاحمت سے ٹوٹ گئی۔ میں چاول کے ایک اسٹور میں چھپ گیا اور رات بھر اللہ سے دعا کرتا رہا کہ کسی طرح جان بچ جائے۔ جب فوج نے دیناج پور کا کنٹرول سنبھالا، تب میں اپنے خفیہ ٹھکانے سے باہر نکلا۔ باغیوں نے حاجی کریم کے گھر کو بھی لوٹ لیا تھا۔ اس قتل و غارت میں میری بوڑھی ماں کے سوا کوئی بھی رشتہ دار نہ بچ سکا‘‘۔
’’جن باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا تھا، ان میں بہت سے مقامی ہندو عسکریت پسند بھی تھے۔ اس قتل و غارت میں مغربی بنگال (بھارت) کے فعال کردار کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میرے لیے انتہائی حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ سب کچھ اس قدر تیزی سے رونما ہوگا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ راتوں رات دل پلٹ جائیں گے اور جن کی طرف سے معمولی سی خراش پہنچنے کا خطرہ نہ تھا، وہ اس قدر قتل و غارت پر تُل جائیں گے۔ بنگالیوں سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ یہی بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے معاملات بگاڑنے میں بھارت کا کردار بہت مستحکم اور وسیع تھا‘‘۔
چھبیس سالہ سمیدہ خاتون کے والد، بڑے بھائی اور شوہر کو باغیوں نے شہید کیا۔ انہوں نے اپنی بپتا ان الفاظ میں سنائی: ’’ہم دیناج پور کے علاقے گاڑی پاڑا میں رہتے تھے۔ میرے شوہر محمد نذیر بس ڈرائیور تھے۔ میرے والد کی شہر کے وسط میں دکان تھی۔ ۲۵ مارچ کی رات باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور چند دکانیں لوٹ لیں۔ اگلی رات وہ زیادہ تیاری کے ساتھ آئے اور غیر بنگالیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ میرے والد دکان میں تھے اور میرے شوہر بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کو باغیوں نے انتہائی بے دردی سے قتل کردیا۔ اس کے بعد باغیوں نے میرے بھائی کے مکان پر حملہ کیا۔ ان کا مکان ہمارے مکان کے نزدیک ہی تھا۔ درندوں نے میرے بھائی اور ان کے دو جوان بیٹوں کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میرے بھائی کی بیوی نے ان قاتلوں کے پیروں پر گر کر اپنے شوہر اور بچوں کی زندگی کی بھیک مانگی مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور لاٹھی سے اس پر وار کیا جس کے باعث وہ چکرا کر گر پڑی۔ اپنے بھائی اور ان کے دو بیٹوں کا بہیمانہ قتل دیکھ کر میری حالت غیر ہوگئی۔ میں زور زور سے رونے لگی۔ باغیوں نے ہمارا گھر بھی لوٹ لیا اور کہا کہ وہ چند دن بعد پھر آئیں گے اور مجھے اور میری بیٹی کو قتل کردیں گے‘‘۔
’’کسی نے بتایا کہ باغیوں نے بچی کھچی عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کو قتل کرنے کے لیے ۱۰؍اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے رہے کہ کسی طرح کوئی ہماری مدد کو آن پہنچے۔ ایک دن ہمیں فائرنگ کی آواز سنائی دی تو ہم سمجھے کہ قاتل گروہ آن پہنچا ہے۔ مگر یہ دیکھ کر ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ پاکستانی فوج کا ایک یونٹ ہمارے علاقے میں داخل ہو رہا تھا۔ فوجیوں نے ہمیں ڈھاکا منتقل کیا، جہاں ہمیں ایک ریلیف کیمپ میں رکھا گیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا تب ہمارے لیے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ مکتی باہنی والوں نے کیمپ سے متعدد جوان لڑکیاں اور عورتیں اغوا کرلیں۔ میں اپنی کمسن بچی کے ساتھ مارچ ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچی‘‘۔
اٹھائیس سالہ عبدالخالق کہتے ہیں: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ چند بنگالیوں کے دلوں میں اچانک غیر بنگالیوں کے لیے اس قدر نفرت کیوں پیدا ہوگئی کہ وہ انہیں برداشت کرنے کے لیے کسی طور آمادہ نہ ہوئے۔ عبدالخالق کا خاندان ہندوستان کی تقسیم سے بہت پہلے سے دیناج پور میں قیام پذیر تھا۔ عبدالخالق کی والدہ بنگالی تھیں۔ وہ اور خاندان کے دیگر افراد بنگالی زبان روانی سے بولتے تھے۔ عبدالخالق کے دادا نے ۱۹۲۰ء کی دہائی میں دیناج پور میں سکونت اختیار کی تھی۔ بنگالیوں میں اچھی طرح گھل مل کر رہنے اور بنگالی زبان بولنے کے باوجود اس خاندان کو بھی قتل و غارت کا نشانہ بننا پڑا۔ عبدالخالق مشن روڈ پر واقع آبائی مکان میں رہتے تھے۔ وہ اپنے بنگالی دوست کے مکان میں پناہ لینے کی بدولت بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ عبدالخالق فروری ۱۹۷۴ء میں پاکستان منتقل ہوئے۔
انہوں نے بتایا: ’’ہمارا پورا خاندان ایک طویل مدت سے مشرقی پاکستان میں سکونت پذیر تھا۔ ہم اردو اور بنگالی بھرپور روانی سے بولتے تھے۔ ہم نے بنگالی معاشرے میں خود کو ضم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ بنگالیوں میں ہم نے شادیاں بھی کر رکھی تھیں۔ ہمارے گھرانے کا ہر فرد پیدائشی بنگالی تھا اور ہم دیناج پور میں مروج لہجے کے مطابق بنگالی بولا کرتے تھے۔ مگر جب بنگالی قوم پرستی کا جنون ذہنوں پر سوار ہوا تو ہم سب کو بہاری قرار دے دیا گیا، حالانکہ ہم میں سے کسی نے بھی پاکستان کے قیام کے بعد بہار کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دیناج پور میں یا کہیں اور بنگالی باشندے غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتاریں گے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں غیر بنگالیوں سے اس قدر شدید نفرت پیدا ہوئی کہ پوری کی پوری آبادیاں صاف کردی گئیں۔ دیناج پور ضلع کے تمام قصبوں میں ۹۰ غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دیناج پور کے نزدیک چند دیہاتوں میں کچھ غیر بنگالی رہتے تھے۔ ان میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ جب فوج نے دیناج پور کا کنٹرول سنبھالا اور میں اپنے ٹھکانے سے باہر آیا تو سڑکوں پر اور مکانات میں گلی سڑی لاشیں دیکھ کر میری ذہنی حالت غیر ہوگئی۔ میں نے وہ عقوبت خانے بھی دیکھے جو دریائے کنچن کے کنارے بنائے گئے تھے۔ ان میں ہزاروں غیر بنگالیوں کو قتل کرکے دریائے کنچن میں پھینک دیا گیا۔ میرا اندازہ ہے کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران دیناج پور میں کم و بیش تیس ہزار غیر بنگالیوں کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا گیا۔ اس پورے کھیل میں سرکاری مشینری بھی ملوث تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے شہر کے پچیس نمایاں غیر بنگالی کاروباری شخصیات کو امن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اقبال ہائی اسکول بلوایا۔ جب وہ لوگ اجلاس کے لیے پہنچے تو ان میں سے ہر ایک کو باغیوں نے قتل کردیا‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply