
پکسے میں قتلِ عام
حالات کے ابتر ہونے سے قبل ریلوے کے اہم مرکز پکسے میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی خاندان رَہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ پولیس، ایسٹ پاکستان رائفلز اور سول انتظامیہ نے بھی وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب عوامی لیگ کے کارکن بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر طاقت کا مظاہرہ اور ہتھیاروں کی نمائش نہ کرتے ہوں۔ اس دوران متعدد غیر بنگالی نوجوانوں کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور غیر بنگالیوں کی دکانیں لوٹ لی جاتی تھیں۔
مارچ کے آخر اور اپریل کے اوائل میں غیر بنگالیوں کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ گئی۔ ریلوے کالونی کے غیر بنگالی مکینوں کو ڈرایا دھمکایا جانے لگا۔ ریلوے کالونی کے تمام مکین ریلوے کے ملازمین اور ان کے اہل خانہ تھے۔ پکسے کی ریلوے کالونی میں ۹؍اپریل ۱۹۷۱ء کو قتل عام ہوا جس میں کم و بیش دو ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ قیامت شہر میں پاکستانی فوج کے آنے سے ایک دن قبل برپا ہوئی۔
۵۲ سالہ ابو محمد ریلوے کے ملازم تھے اور ریلوے کالونی میں رہتے تھے۔ ان کے خاندان کے سات ارکان کو انتہائی سَفّاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ انہوں نے اپنی داستانِ غم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’جدید ہتھیاروں سے مسلح عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں اور دیگر بنگالی باغیوں کے ایک بڑے گروہ نے مارچ کے آخر میں پکسے کے ریلوے اسٹیشن اور ریلوے کالونی پر حملہ کردیا۔ ریلوے یارڈ میں انہوں نے تمام غیر بنگالی ملازمین کو قطار بند کیا اور گولی مار دی۔ میں اُس وقت وہیں تھا مگر نصیب اچھا تھا کہ بچ گیا۔ میرے ایک بازو پر گولی لگی۔ گولی لگنے کے بعد میں گرا اور ادھ موا سا ہوگیا۔ میرے زخم سے خاصا خون بہہ گیا۔ باغیوں کا گروہ ریلوے یارڈ پر قیامت ڈھانے کے بعد ریلوے کالونی کی طرف گیا اور پھر وہاں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ فائرنگ کی آواز بہت دیر تک آتی رہی۔‘‘
’’میرا کوارٹر تو ریلوے کالونی میں تھا، جو کچھ دور تھا۔ مگر مسجد نزدیک تھی، جہاں میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ میں رات کی تاریکی میں کھسکتا ہوا مسجد تک گیا۔ وہاں روشنی کا نام و نشان نہ تھا۔ مسجد کی حدود میں داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ وہاں غیر بنگالی عورتیں جمع ہیں۔ ان میں سے بہت سی قابلِ رحم حالت میں تھیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو وہ مزید خوفزدہ ہوگئیں۔ وہ سمجھیں کہ میں بھی اُنہی بنگالی باغیوں میں سے ہوں، جنہوں نے اِن کی آبرو ریزی کی ہے۔ جب میں نے بتایا کہ میں باغی نہیں ہوں تو انہوں نے سکون کا سانس لیا اور بتایا کہ کس طرح ان کے مردوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا اور خود ان کی آبرو ریزی کی گئی۔ یہ ساری تفصیل دل دہلا دینے والی تھی۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ایک اسکول میں انہیں بھی دیگر خواتین کے ساتھ ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد مسجد منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دو لڑکیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کی لاشیں کمپاؤنڈ میں پڑی ہیں۔ ان میں سے بیشتر خواتین میرے ریلوے کے ساتھی ملازمین کی بیویاں، بیٹیاں اور بہنیں تھیں۔‘‘
’’اگلے دن پاکستانی فوج نے پکسے کا کنٹرول سنبھال لیا جس پر باغی پسپائی اختیار کرگئے۔ فوج نے مجھے اور دیگر غیر بنگالیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ ہماری بستی تباہ ہوچکی تھی۔ میرے گھر کے تمام افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے تھے۔ مجھے اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ جن خواتین کے گھروں کے تمام مرد قتل کیے جاچکے تھے، انہیں ڈھاکا کے ریلیف کیمپ منتقل کردیا گیا۔‘‘
ابو محمد کو بھی ڈھاکا منتقل کیا گیا۔ وہاں سے وہ فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی منتقل ہوئے۔
شمس الضحیٰ نے اِشُردی میں قتل عام دیکھا تھا۔ وہ پکسے سے ۸ کلومیٹر دور رہا کرتے تھے۔ انہوں نے پکسے میں قتل عام کی روداد اِن الفاظ میں سُنائی: ’’میرے فرسٹ کزن جمال ملک ریلوے میں گارڈ کی حیثیت سے ملازم تھے اور پکسے میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کا گھرانہ ۱۲؍افراد پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ ریلوے کالونی کے کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ جمال ملک اور ان کے تمام اہل خانہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں ڈھائی جانے والی قیامت کی نذر ہوگئے۔ چند افراد کو تو کوارٹر ہی میں قتل کردیا گیا۔ دیگر کو جاں بخشی کا وعدہ کرکے اسکول کے کمپاؤنڈ میں پہنچانے کے بعد گولیاں ماری گئیں۔ قتل عام سے ایک گھنٹہ قبل خواتین کو گن پوائنٹ پر ایک اسکول میں لے جاکر ان کی آبرو ریزی کی گئی۔ باغیوں نے پسپا ہونے سے قبل ان میں سے بہت سی خواتین کو مسجد کی طرف دھکیل دیا تھا۔ ان خواتین کو فوج نے ریسکیو کیا۔‘‘
۱۵؍سالہ محمد قیوم کے والدین اور بڑی بہن کو بنگالی باغیوں نے ۹؍اپریل ۱۹۷۱ء کو پکسے میں قتل عام کے دوران شہید کردیا تھا۔ اُس نے اپنی داستانِ غم اِن الفاظ میں سُنائی: ’’مسلح باغیوں نے علی الصبح ہمارے علاقے پر حملہ کردیا۔ مکانات کو لوٹنے کے بعد ہم سب کو گن پوائنٹ پر ایک اسکول میں لے جایا گیا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہماری جان بخش دیں گے۔ انہوں نے اسکول کے کمپاؤنڈ میں تمام مردوں کو دو دو کے گروپوں میں کھڑا کیا اور ان پر تشدد ڈھانا شروع کر دیا۔ میرے والد کو جب ایک کونے میں لے جایا جارہا تھا، تب میری والدہ اور بڑی بہن سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ انہیں بچانے کے لیے آگے بڑھیں۔ ان ظالموں نے میری والدہ اور بڑی بہن کو وہیں قتل کردیا اور میرے والد کو بھالے سے شدید زخمی کرنے کے بعد گولی مار دی۔ میرے ساتھ میری آٹھ سالہ بہن کھڑی تھی۔ اچانک بھگدڑ مچی۔ نہتے لوگوں نے مشتعل ہوکر باغیوں پر حملہ کردیا تھا۔‘‘
’’میں اپنی بہن کو اٹھاکر بھاگ نکلا۔ سامنے کا مکان آدھا جل چکا تھا۔ ہم اس میں داخل ہوئے اور ایک سلگتے ہوئے میٹریس کے پیچھے چھپ گئے۔ اس تباہ شدہ مکان میں ہم چوبیس گھنٹے تک چھپے رہے۔ جب میری بہن نے بھوک اور پیاس سے رونا شروع کردیا تو میں اسے لے کر ایک قریبی کھیت میں پہنچا۔ وہاں ایک جوہڑ سے میں نے اسے پانی پلایا۔ ہم رات بھر وہیں کھیت کے سِرے پر چھپے رہے۔ اس دوران جنگلی پھلوں پر گزارا کیا اور پتوں کے بستر پر سوئے۔ اگلے دن ہمیں فوج نے ساتھ لیا اور اِشُردی لے گئی، جہاں ہم ایک مکان میں دیگر یتیم بچوں کے ساتھ رہے۔ میں دن بھر مزدوری کرتا تھا تاکہ اپنا اور اپنی بہن کا پیٹ بھر سکوں۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے اِشُردی پر بھی قبضہ کرلیا تو ہمارے لیے نئی مشکلات کا آغاز ہوا۔ جنوری ۱۹۷۴ء میں ہمیں کراچی منتقل کیا گیا۔‘‘
نواکھلی میں دہشت کا راج
نواکھلی میں غیر بنگالیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر وہ مجموعی طور پر بہت اچھے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مقامی بنگالیوں سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ غیر بنگالیوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان میں سے بہت سے تو کاروباری اداروں میں ملازم تھے۔ چند ایک کی دکانیں تھیں اور وہ بہت اچھی طرح کام کر رہے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے معاملات کی خرابی شروع ہوگئی تھی اور غیر بنگالیوں کو خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ ۲۱ سے ۲۳ مارچ تک بنگالی باغیوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں اور انصار نے نواکھلی میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نواکھلی میں دو ہزار خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ باغیوں نے بہت سی غیر بنگالی لڑکیوں کو یرغمال بنایا، ان کی آبرو پامال کی اور بعد میں جب فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھالا، تب پسپائی اختیار کرتے ہوئے اُن بدنصیب لڑکیوں میں سے بیشتر کو قتل کردیا۔
Leave a Reply