
پسِ لفظ
شہادتوں اور دستاویزی ثبوتوں سے یہ بات تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے جو آپریشن ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو شروع کیا، اُس سے بہت پہلے ہی وہاں غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع ہوچکا تھا۔ نہتے شہریوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جارہا تھا اور یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ عوامی لیگ نے بہت پہلے ہی قتل و غارت کا سلسلہ شروع کردیا تھا یعنی یہ کہ قتل و غارت کی ابتدا عوامی لیگ کی طرف سے ہوئی، نہ کہ فوج کی طرف سے، جیسا کہ اب تک دعویٰ کیا جاتا ہے۔
بہت سوں کا یہ خیال ہے کہ باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی بہت تاخیر سے ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں صرف ۳۸ ہزار افسران اور جوانوں نے محض ایک ماہ کے دوران عوامی لیگ کی بغاوت کو کچل کر رکھ دیا تھا۔
بغاوت کی منصوبہ بندی عوامی لیگ نے کی تھی جو بھارت کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اور اس کی مدد سے چلائی جانے والی علاقائی جماعت تھی۔ اس علاقائی جماعت نے بھرپور انتخابی کامیابی کے بعد ملک سے علیٰحدگی کی بات شروع کی۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لیے قومی اسمبلی میں مختص تمام نشستیں جیت لیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بھی بھرپور کامیابی حاصل کی۔ ووٹروں کو لبھانے کے لیے عوامی لیگ نے اپنے انتخابی منشور میں پاکستان کے وفاق پر غیرمتزلزل یقین ظاہر کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ کامیاب ہونے کی صورت میں ہر وفاقی اکائی کو کھل کر کام کرنے دیا جائے گا۔ پاکستان کی حدود میں رہ کر کام کرنے پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرنے والی عوامی مسلم لیگ نے جب انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تو اس میں موجود عسکریت پسند عناصر نے پارٹی کی پالیسی کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا اور علیحدگی کی باتیں کرنے لگے۔ ان لوگوں نے تمام غیر بنگالیوں کو بہاری کے نام سے شناخت کرتے ہوئے قتل کرنا اور ان کی املاک کو لوٹنا شروع کیا۔ جب فوج نے کارروائی کی تو باغی اور ان کے لیڈر اپنے سرپرست اور پشت پناہ بھارت کی گود میں جا بیٹھے۔ وہاں سے وہ مزید رقوم اور ہتھیار لے کر واپس آئے اور مشرقی پاکستان کو ملک سے الگ کرنے کی باضابطہ تحریک شروع کی۔
بھارت کے لیے پاکستان سے تمام بدلے چکانے کا یہ سنہری موقع تھا۔ اس نے بنگالی باغیوں کو خوب نوازا۔ فنڈز بھی دیے گئے اور اسلحہ بھی۔ جب مسلح بنگالی باغیوں نے پاکستانی فورسز کی دفاعی صلاحیت کو خاصی ضرب لگا دی، تب ۲۲ نومبر ۱۹۷۱ء کو بھارتی فوج نے بھی مشرقی پاکستان پر باضابطہ دھاوا بول دیا۔ جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور بنگلا دیش کے قیام کا باضابطہ اعلان ہوگیا، تب بھارت نے کلکتہ میں قائم جلا وطن بنگلا دیشی حکومت سے تعلق رکھنے والے اپنے ایجنٹوں کو ڈھاکا میں نئی حکومت سونپ دی۔ جنہیں حکومت دی گئی تھی، وہ بھارت کے حاشیہ بردار تھے۔ اِس لیے اُس کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے تھے۔
پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب الرحمن کو رہا کرکے راولپنڈی سے لندن روانہ کیا جہاں سے وہ ڈھاکا گئے اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکا پہنچ کر علی الاعلان کہا کہ وہ کئی سالوں سے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے خود مختار ملک بنانے کے لیے کام کر رہا تھا۔
۱۹۷۱ء کے اوائل سے مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا تھا، اس کے بارے میں پاکستان کی حکومت نے ایک وائٹ پیپر شائع تو کیا مگر بہت تاخیر سے۔ یہ وائٹ پیپر اگست میں جاری کیا گیا جس میں پوری تفصیل سے درج تھا کہ کس طور بنگالی باغیوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے الگ ریاست کا درجہ دلانے کے لیے قتل و غارت کا سلسلہ کیا۔ اس وائٹ پیپر سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستانی فوج نے جو آپریشن ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو شروع کیا، وہ عمل نہیں بلکہ ردعمل تھا۔ عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے باغی وفاقی حکومت کے خلاف بہت پہلے ہی متحرک ہوچکے تھے۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ مارچ میں اُنہوں نے غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھا دی۔ درجنوں شہروں اور قصبوں میں نہتے غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
وائٹ پیپر میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ریاست کی عملداری ختم کرنے کا جامع منصوبہ تیار کیا گیا تھا اور اس پر عمل بھی کیا گیا۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز میں بغاوت اچانک کھل کر سامنے آگئی۔ منحرف بنگالی سپاہیوں نے نہتے غیر بنگالیوں کی املاک لوٹ کر اُنہیں قتل کرنے سے ذرا بھی دریغ نہ کیا۔ کوشش یہی تھی کہ غیر بنگالیوں کا مکمل صفایا کردیا جائے۔ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی کوئی بھی واردات ایسی نہ تھی جسے ہنگامی ردعمل یا وقتی اشتعال کا نام دیا جاسکے۔ سبھی کچھ پہلے سے طے کرلیا گیا تھا۔
یہ بھی طے تھا کہ ایسٹ بنگال رجمنٹ (جو باغی ہوچکی تھی) ڈھاکا اور چاٹگام کا کنٹرول سنبھالے گی تاکہ پاکستانی فوج کو بحری جہازوں یا طیاروں کے ذریعے اترنے نہ دیا جائے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کو اہم ترین سرحدی چوکیوں پر تعینات کیا گیا تاکہ وہ بیرونی امداد کو پاکستانی فورسز اور وفاقی مشینری تک پہنچنے سے روکے۔ ضرورت پڑنے پر بھارت سے امداد لی جانی تھی اور یہ بھی طے کرلیا گیا تھا کہ جیسے ہی باغی فوجی اہم ترین مقامات اور عمارات پر قابض ہوجائیں گے، بھارت مشرقی پاکستان کی سرزمین پر اپنی فوج اتار دے گا۔
شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھی مارچ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج کی شجاعت اور بھرپور کارروائی کے باعث بھرپور کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ ۱۹۶۴ء میں تیار کیا گیا تھا۔ شیخ مجیب اور ان کے ساتھیوں پر ۱۹۶۸ء میں اگرتلہ سازش کے حوالے سے مقدمہ بھی چلایا گیا۔ اگرتلہ بھارتی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت ہے۔ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش وہیں تیار کی گئی تھی۔ فرد جرم میں بتایا گیا تھا کہ یہ سازش بھارت کی فنڈنگ سے تیار کی جارہی تھی اور اسلحہ بھی بھارت ہی کو فراہم کرنا تھا۔ اگرتلہ سازش کیس سے ہی لفظ بنگلا دیش سامنے آیا۔ شیخ مجیب نے ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے ایک جلسے میں مجوزہ بنگلا دیش کا جو پرچم لہرایا تھا، اُس کے ڈیزائن کی منظوری اگرتلہ میں ہونے والے اجلاس ہی میں دی گئی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے، اُن میں سے کسی سے بھی اُسے بری الذمہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے اپوزیشن کے دباؤ پر مقدمے کی کارروائی رکوا دی۔ اس کے بعد جب عام انتخابات ہوئے تو بھارت نے عوامی لیگ کو دل کھول کر فنڈز دیے، جن سے اُس نے انتخابی مہم ہی نہیں چلائی بلکہ تنظیمی ڈھانچا بھی کھڑا کرلیا۔
شواہد موجود ہیں کہ عوامی لیگ نے انتخابی مہم کے دوران اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے معاملے میں کوئی بھی ہتھکنڈا آزمائے بغیر نہیں رہنے دیا۔ سب کو اس قدر خوفزدہ کردیا گیا کہ وہ انتخابی مہم چلانے میں دلچسپی بھی کھو بیٹھے۔ مجموعی فضا ایسی تھی کہ کوئی بھی عوامی لیگ کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔ عوامی لیگ کے کارکن اس قدر بپھرے ہوئے تھے کہ وہ کوئی بھی ایسی ویسی بات سننے اور برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے ماحول میں انتخابی مہم کس طور چلائی گئی ہوگی اور مخالفین کے لیے اپنی بات کہنے کی کتنی گنجائش بچی ہوگی۔
مخالفین کو برداشت کرنا عوامی لیگ کے کلچر کا حصہ ہی نہیں تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے کسی زمانے میں عوامی لیگ کی سربراہی کرنے والی مسز امینہ بیگم کو جس بے دردی سے پارٹی سے نکال پھینکا، وہ کسی سے ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو بھی پارٹی قیادت کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کہتا ہوگا، اُس کا پارٹی میں کیا حشر ہوتا ہوگا۔ عوامی لیگ نے انتخابی مہم کے دوران جلسوں کے لیے سیکڑوں ٹرک کرائے پر لیے۔ کبھی کبھی تو دیہاتیوں کو ڈھاکا اور دیگر شہروں میں جلسوں میں شریک کرنے کے لیے ٹرینیں بھی چارٹر کرائی جاتی تھیں۔
عوامی لیگ کی قیادت نے مغربی پاکستان اور وفاقی حکومت کے خلاف بنگالی عوام کے ذہنوں میں زہر بھر دیا۔ جلسوں میں کی جانے والی تقریریں مشرقی پاکستان سے کی جانے والی نام نہاد زیادتیوں کے فسانوں سے بھری ہوتی تھیں۔ لوگوں کو باور کرایا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان وسائل سے مالا مال خطہ ہے جس کی ساری دولت مغربی پاکستان والے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وفاقی حکومت مشرقی پاکستان میں جو بھی ایکشن لیتی ہے، وہ سراسر زیادتی ہے۔ جلسے کے شرکا کو یقین دلایا جاتا تھا کہ پاکستان دراصل مشرقی پاکستان کے وسائل کے بل پر چل رہا ہے اور یہ کہ اگر مشرقی پاکستان نہ ہوتا تو پاکستان کا معاشی مستقبل تاریک ہوتا۔ ۱۹۷۰ء میں مشرقی پاکستان میں غیر معمولی سمندری طوفان آیا تھا۔ اس موقع پر وفاقی حکومت نے مشرقی پاکستان کے آفت زدہ لوگوں کی حتی الامکان مدد کی تھی۔ مگر عوامی لیگ نے طوفان رسیدہ لوگوں کی امداد کے حوالے سے وفاقی حکومت کے عہدیداروں پر گھپلوں کے الزامات عائد کیے اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ مشرقی پاکستان والوں سے ہر معاملے میں امتیاز برتا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طوفان کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہونے والوں کی بھرپور مدد کی گئی تھی۔
عوامی لیگ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں وسیع تر صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگاکر کامیابی حاصل کی تھی۔ مگر جب انتخابات میں فقید المثال کامیابی ملی تو عوامی لیگ اپنے نعرے یا وعدے سے پھر گئی اور مکمل خود مختاری یعنی مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لیے بنگلا دیش کے قیام کا نعرہ لگا دیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے ۲۱ ستمبر ۱۹۷۰ء کو نارائن گنج میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم اپنے چھ نکات پر اِس طور عمل کرائیں گے کہ پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگے گی نہ اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑے گی۔‘‘
بھرپور انتخابی کامیابی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات کی بنیاد پر بھیانک سیاسی کھیل شروع کیا۔ اب اُس نے اِس بات پر زور دیا کہ صوبائی خود مختاری اِس حد تک دی جائے کہ وفاقی حکومت کا عمل دخل صوبوں کے معاملات میں برائے نام بھی نہ رہے۔ اِس صورت میں ہر صوبہ اپنی مرضی کے مطابق چل سکتا تھا یا چلایا جاسکتا تھا۔ عوامی لیگ کوئی بھی معاملہ وفاق کے ہاتھ میں رکھنے کی قائل نہ تھی۔ ایکسائز اور ٹیکسز کے معاملے میں وہ وفاق کی برتری تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے مطالبے سے دست بردار ہونے کے لیے ایسی شرائط رکھیں جو علیحدگی ہی کے مترادف تھیں۔ عوامی لیگ کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش کا نام دے کر اُسے بیرونی طاقتوں سے معاہدوں اور امداد وصول کرنے کی اجازت بھی دی جائے۔
وفاقی حکومت نے عوامی لیگ کی قیادت سے مذاکرات کیے۔ مقصود یہ تھا کہ عوامی لیگ کو ہٹ دھرمی ترک کرنے پر راضی کیا جائے۔ مگر وہ اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ عوامی لیگ کے تمام مطالبات ایسے تھے کہ اُنہیں بعینہٖ مان لینے کی صورت میں پاکستان کے آئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے ایک ایسا صوبہ (مشرقی پاکستان) معرض وجود میں آتا جو ہر اعتبار سے آزاد ریاست ہی کے مترادف ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں حکومت اور عوامی لیگ کے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے۔
جنرل یحییٰ خان کی جانب سے نئی قومی اسمبلی کے اجلاس کا ملتوی کیا جانا عارضی معاملہ تھا۔ یہ اجلاس ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو بلایا جانا تھا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد سیاست دانوں کو نئے آئین پر زیادہ غور و خوض کا موقع دینا تھا تاکہ وہ نئے آئین کے مسودے کے ہر پہلو پر اچھی طرح غور کرکے اتفاق رائے کی منزل تک پہنچیں اور یوں قومی اسمبلی کے فورم پر کوئی بڑا تنازع جنم نہ لے۔ شیخ مجیب الرحمن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا پر کچھ زیادہ ہی ردعمل ظاہر کیا اور مشرقی پاکستان کی قانونی طور پر درست حکومت کا اختیار ختم کرکے اُسے اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کی۔ یہ ایک ناقابل بیان المیہ ہے کہ عوامی لیگ کی غیر معمولی قوم پرستی اور اقتدار کی لامتناہی ہوس کے ہاتھوں برصغیر کے لاکھوں افراد کو ایسے المناک حالات سے دوچار ہونا پڑا، جن کی نظیر اِس خطے میں مشکل ہی سے مل پائے گی۔
بھارت کی طرف سے حاصل ہونے والی اخلاقی، مالی اور عسکری مدد نے شیخ مجیب الرحمن کو اِس بات کا حوصلہ بخشا کہ وہ مشرقی پاکستان کی جائز اور قانونی حکومت کے خلاف بھرپور بغاوت کا آغاز کرے اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے اور اِس مقصد کے حصول کے لیے دھونس، دھمکی، دہشت اور طاقت سبھی کچھ بے دریغ استعمال کیا گیا۔ بھارت کی قیادت اِس حقیقت کو کبھی ہضم نہیں کر پائی کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ مسلم پاکستان ہندو اکثریت والے بھارت میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی باغی تحریک کو بھارت کی بے انتہا اور متواتر امداد کا ایک بڑا سبب انڈین سول سروس کے سابق افسر اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک افیئرز کے چیئرمین آر آر کپور نے ان الفاظ میں بیان کیا: ’’مجھے واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمن کے لیے ہماری بھرپور امداد کا حقیقی سبب یہ ہے کہ ہم تحت الشعور کی سطح پر پاکستان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ہم اِس حقیقت کو کبھی نہیں بھول پائے کہ ہماری سرزمین کا ایک ٹکڑا لے کر اُس پر پاکستان قائم کیا گیا تھا اور جس کی بنیاد پر پاکستان کی عمارت کھڑی ہوئی، وہ دو قومی نظریہ ہم سے کبھی برداشت اور ہضم نہیں ہوسکا۔ دو قومی نظریے کو کسی بھی سطح پر اور کسی بھی حد تک غلط ثابت کرنے والا ہر معاملہ یا واقعہ ہمارے دِل کو طمانیت پہنچنے کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہ ہے ہماری اجتماعی نفسیات ہے۔ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس پر ہمارا ردعمل اِسی نفسیاتی ساخت کے تابع ہے اور اِس کا آئینہ دار بھی۔‘‘
اِس امر کے بھی بہت سے شواہد مل چکے ہیں کہ بھارت نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج کے ایکشن سے بہت پہلے سے عوامی لیگ کے باغیوں کو اسلحہ اور رقوم ہی نہیں بلکہ مسلح اور تربیت یافتہ درانداز فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ بھارت نے مارچ کے اوائل ہی سے مغربی بنگال میں ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کو اِس ریاست میں انتخابات کے دوران سکیورٹی برقرار رکھنے کے نام پر جمع کر رکھا تھا۔ یہ فوجی تیاری کی حالت میں تھے۔ مارچ کے وسط تک بھارت نے مغربی بنگال کی مشرقی پاکستان سے ملنے والی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو تعینات کردیا تاکہ عوامی لیگ کے علیحدگی پسندوں کے حوصلے بلند ہوں۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کی آٹھ بٹالینز نے سرحدی علاقوں میں عوامی لیگ کے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مدد فراہم کی۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے اپریل ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں ایک سرحدی گاؤں میں بنگلا دیش کی جلا وطن حکومت قائم کی۔ بھارتی حکومت نے (سفارتی سطح پر انتہائی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے) کلکتہ میں پاکستانی سفارتی مشن کو دس پندرہ بنگالی علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے دیا اور پھر یہ عمارت بنگلا دیش کے قیام کی تحریک چلانے والوں کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی چاہتی تھیں کہ بھارتی فوج اپریل ۱۹۷۱ء ہی میں مشرقی پاکستان پر دھاوا بول دے مگر جرنیلوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ اِس نوعیت کا کوئی بھی اقدام انتہائی سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔ بھارتی جرنیلوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں پر حملے کے لیے موسم سرما کو موزوں ترین قرار دیا کیونکہ تب پاکستان سے چین جانے والا راستہ برف سے ڈھک جانا تھا۔ وہ اس لیے بھی تاخیر چاہتے تھے کہ پاکستان سے فُل اسکیل جنگ کے لیے فوج کو تیار کرنے کا موقع ملے اور ساتھ ہی ساتھ مشرقی پاکستان میں چھاپہ مار جنگ کے لیے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے ارکان کو تربیت بھی فراہم کرنے کے لیے بھی وقت درکار تھا۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کے باضابطہ حملے سے قبل لازم تھا کہ باغیوں کے ہاتھوں پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا جاتا۔ میجر جنرل ڈی کے پَلِت کی کتاب ’’دی لائٹننگ کیمپین‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت کی عسکری قیادت وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کو بھی باور کرا رہی تھی کہ مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے سے قبل اِس امر کو یقینی بنانا لازم تھا کہ پاکستان کو امریکا یا چین کی طرف سے کوئی مدد نہ ملے۔ بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان پر حملے کے لیے آٹھ ماہ مل گئے۔ برصغیر کی کسی بھی جنگ میں چین کی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے بھارت نے اگست ۱۹۷۱ء میں (سابق) سوویت یونین سے بھی معاہدہ کیا۔ جنگ سے پہلے امریکی عوام کو پاکستان سے متنفر کرنا لازم تھا۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے ایشو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کے نتیجے میں امریکی رائے عامہ بھارت کے حق میں ہوگئی اور یُوں امریکی مداخلت یا اسلحے کی فراہمی کے ذریعے پاکستان کی مدد کی راہ مسدود ہوئی۔
بھارت نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ افراد کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت دی۔ ان تربیت یافتہ دہشت گردوں نے پے در پے حملوں کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ شورش یا بغاوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے والوں کو کچلنے کے لیے غیر معمولی اختیارات کے تحت زیادہ فنڈز استعمال کیے گئے۔ مشرقی پاکستان سے نقل مکانی کرکے بھارت میں پناہ لینے والے بنگالیوں کو واپس لینے پر پاکستانی حکومت نے رضامندی ظاہر کی مگر بھارت نے اُنہیں آنے نہیں دیا کیونکہ اُسے تو عالمی برادری سے زیادہ سے زیادہ امداد بٹورنے کا کوئی ٹھوس بہانہ درکار تھا اور پھر اس حقیقت کو نظرانداز کرنا مشکل نہیں کہ انہی پناہ گزینوں کو جواز بناکر تو بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنا تھا۔ یہ پناہ گزین پاکستان کے خلاف بھارت کا ایک مؤثر ہتھیار تھے۔ پہلے تو بھارت نے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے ۱۰؍لاکھ افراد بھارتی سرحدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بھارت نے دیکھتے ہی دیکھتے یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ اُس کی سرزمین پر پناہ لینے والے مشرقی پاکستان کے باشندوں کی تعداد ۹۰ لاکھ تک ہے۔ یہ کہہ کر دراصل عالمی برادری کو دھوکا دینے اور پاکستان کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔ پاکستان چاہتا تھا کہ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے کے ذریعے بھارت میں موجود بنگالی پناہ گزینوں کی گنتی کرالی جائے۔ بھارتی حکومت نے اس حوالے سے کی جانے والی استدعا قبول نہ کی۔ پاکستان نے بتایا کہ جب حالات خراب ہوئے تو ۲۰ لاکھ ۲۰ ہزار افراد نے سرحد عبور کرکے بھارت میں پناہ لی۔ بھارت نے یہ تعداد کبھی قبول نہیں کی۔
بھارت نے کلکتہ میں بہت سے بے روزگار مقامی باشندوں کو بھی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں داخل کیا تاکہ ان کیمپوں کا دورہ کرنے والے غیر ملکیوں اور بالخصوص اقوام متحدہ کے عہدیداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔ اگر یہ پناہ گزین بھارت کے لیے اِتنا ہی بڑا بوجھ تھے تو پاکستانی حکومت سے گفت و شنید کے ذریعے اِنہیں مشرقی پاکستان واپس بھیجا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی حکومت اُنہیں صرف قبول کرنے ہی کے لیے تیار نہ تھی بلکہ جن لوگوں نے مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی برپا کی ہوئی شورش کے دوران لوٹ مار اور قتل و غارت کی تھی، اُنہیں معافی دینے پر بھی راضی تھی۔ بھارتی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے کہا کہ وہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کو اُسی وقت واپس جانے دیں گے جب یہ صوبہ عوامی لیگ (علیحدگی پسندوں) کے حوالے کیا جائے گا۔ جھوٹ پر جھوٹ بول کر پاکستان کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ مارچ کے وسط میں جنرل ٹکا خان مارے جاچکے ہیں۔ عالمی برادری کو دھوکا دینے کے لیے پاکستان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام تواتر سے عائد کیا جاتا رہا۔
۱۹۷۱ء کے موسم خزاں میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور مشرقی پاکستان کی سرحد پر مانیٹرز تعینات کردیے جائیں۔ پاکستان نے یہ تجویز قبول کرلی مگر بھارت نے ایک بار پھر بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تجویز مسترد کردی۔ اگر اقوام متحدہ کے مانیٹرز تعینات کردیے جاتے تو عالمی برادری پر یہ بات منکشف ہوجاتی کہ بھارت ہی مشرقی پاکستان کے باغیوں کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ اسلحہ، تربیت اور نقل و حمل کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔
بھارت کا یہ کہنا بالکل غلط تھا کہ اُس نے مشرقی پاکستان سے آنے والوں کا ریکارڈ رکھا ہے۔ جب پاکستانی فوج نے مارچ کے آخری ہفتے میں عوامی لیگ کے باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، تب بھارت نے اپنی سرحدیں کھول دیں تاکہ باغی اور ان کے سرپرست و رہنما بھی بھارتی علاقوں میں پناہ لے لیں۔ اِن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا تھا۔ بھارت کی طرف سے سرحدیں کھول دیے جانے پر ہندو بنگالی بھی بڑی تعداد میں بھارت میں پناہ لینے میں کامیاب ہوسکے۔ جون ۱۹۷۱ء میں جب اقوام متحدہ کے حکام نے پناہ گزینوں کی تعداد کے حوالے سے بھارتی دعووں کی حقیقت جاننے کی خواہش ظاہر کی، تب ریکارڈ دکھانے کی خاطر ہنگامی طور پر رجسٹر وغیرہ تیار کیے گئے۔ جب ریکارڈ سے بھارت کا یہ دعویٰ ثابت نہ کیا جاسکا کہ مشرقی پاکستان سے ۹۰ لاکھ افراد نے نقل مکانی کرکے اُس کے ہاں پناہ لی ہے، تو یہ کہا گیا کہ نقل مکانی کرکے آنے والے بہت سے لوگ بھارت میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہنے چلے گئے ہیں۔ بھارتی حکمران ہر حال میں یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان سے لاکھوں افراد نے نقل مکانی کرکے بھارتی حدود میں پناہ لی ہے کیونکہ ایک طرف تو اُنہیں عالمی برادری کی طرف سے حمایت، ہمدردی اور مالی معاونت ملتی اور دوسری طرف پاکستانی حکومت اور فوج کی بدنامی ہوتی۔
بھارت کے آزاد اور پاکستان کے قائم ہونے کے چند ماہ پہلے اور بعد کم و بیش ۸۰ لاکھ مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی اور کم و بیش ۶۰ لاکھ ہندو پاکستان سے نقل مکانی کرکے بھارت میں آباد ہوئے۔ اِس ہجرت اور نقل مکانی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دونوں ہی ممالک کے مخصوص علاقوں میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ مجموعی طور پر ایک کروڑ ۴۰ لاکھ افراد نے نقل مکانی کی جسے عالمی تاریخ میں سرحد عبور کرنے کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے علاقوں میں نئے آنے والوں کو کسی بھی طرح کی بیرونی امداد کے بغیر آسانی سے بسالیا۔ ۱۹۷۱ء میں بھارت نے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والوں کو مشرقی پاکستانی پر حملے اور قبضے کے بہانے میں تبدیل کرلیا۔ یہ بات انتہائی عجیب اور ناقابل فہم ہے کہ بھارت جن ۹۰ لاکھ افراد کو بسانے میں شدید مشکلات محسوس کر رہا تھا، وہ محض ایک ماہ کی مدت میں کہاں غائب ہوگئے۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے دعویٰ کیا کہ مشرقی بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں نے بھارت کی ریاستوں مغربی بنگال، آسام اور تری پورہ میں پناہ لی تھی، وہ بنگلا دیش کے قیام کے بعد محض ایک ماہ میں واپس جاکر اپنے گھروں میں آباد ہوگئے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ جنگ کے دوران سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، ماحول بہت آلودہ تھا، پینے کا صاف پانی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے جیسا ہوگیا تھا، جگہ جگہ سڑی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ایسے میں کون یقین کرسکتا ہے کہ ۹۰ لاکھ افراد سرحد عبور کرکے اپنے گھروں میں واپس آباد ہوگئے۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے عالمی برادری کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ حقیقت وہی ہے جو وہ بیان کر رہی ہے۔
بنگلا دیش میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے تواتر سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستانی فوج نے نو ماہ کے دوران مشرقی پاکستان میں ۳۰ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا ہوئی تو قتل و غارت بھی ہوئی۔ فوج نے جب کارروائی کی تو اُس کے ہاتھوں باغی مارے بھی گئے۔ مگر مرنے والوں کی تعداد اِتنی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے کہ اُس پر کسی بھی حالت میں اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف تو ملک کے حالات بہت دگرگوں تھے۔ دوسری طرف بھارت کی سرحد ایسی نہیں تھی جو حالتِ سکون میں قرار دی جاسکے۔ مشرقی پاکستان کے ۱۸۰۰؍میل کے پھیلاوے میں محض تین ڈویژن فوج کیا بھارت کے پروردہ ایجنٹوں سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کرسکتی تھی جو روزانہ ۱۳؍ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارتی؟
امریکی اخبار ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ کے نمائندے ولیم جے ڈرمنڈ نے جب ۱۹۷۲ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران بنگلا دیش کا دورہ کیا تو مختلف شہروں اور قصبوں کا جائزہ لینے کے بعد ۳۰ لاکھ ہلاکتوں کے دعوے کو انتہائی بے ہودہ اور بھونڈا قرار دیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے انتہائی بے شرمی سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ پاکستانی فوجیوں نے دو لاکھ سے زائد بنگالی لڑکیوں سے زیادتی کی۔ جب شیخ مجیب الرحمن نے برطانیہ سے بلائی جانے والی میڈیکل ٹیم کو اسقاط حمل کے لیے تعینات کیا تو محض سو یا اُس سے کچھ زیادہ واقعات سامنے آئے۔
***
Leave a Reply