بائیس سالہ محمد فرید نے عینی شاہد کی حیثیت سے بتایا کہ ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے علاقے نیو کالونی کے آدم جی نگر میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ محمد فرید آدم جی فیکٹری کے اسپننگ سیکشن کا ملازم تھا۔ اس قتل عام سے محمد فرید اگر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تو یہ بس خوش نصیبی ہی تھی۔ وہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش سے کراچی سے پہنچا۔ اس نے بتایا کہ ’’آدم جی نگر میں پہلے بھی بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی تھی اور اس کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کو خاصا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ آدم جی نگر کے بنگالی مکینوں میں عوامی لیگ نے اپنی بنیاد مضبوط کرلی تھی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی سے عوامی لیگ کے کارکنوں نے آدم جی نگر کے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں کے خلاف اکسانا شروع کردیا تھا۔ ۱۹ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈے مختلف ہتھیاروں سے لیس ہوکر آدم جی نگر پہنچے۔ آدم جی فیکٹری کے بنگالی گارڈ ان سے مل گئے اور پھر انہوں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ غیر بنگالیوں کو جس قدر نقصان پہنچایا جاسکتا تھا، پہنچایا گیا‘‘۔
’’عوامی لیگ کے غنڈوں نے آدم جی فیکٹری کے ویونگ سیکشن پر حملہ کیا اور نصف گھنٹے کے اندر درجنوں غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس ’’آپریشن مرڈر‘‘ سے بچ نکلنے کی کوشش کرنے والے بہت سے شدید زخمی غیر بنگالیوں کو میں نے اپنے (اسپننگ) سیکشن کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ہال کے کونے میں نصب ایک بڑی مشین کے پیچھے پناہ لی۔ عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے میرے سیکشن میں گھس کر غیر بنگالیوں کو مارنا شروع کیا۔ جو لوگ باہر بھاگے ان کا پیچھا کیا گیا اور پھر ان پر فائر کھول دیا گیا۔ یہ قتل و غارت تقریباً تین گھنٹوں تک چلتی رہی۔ جب میں رات کو پناہ گاہ سے باہر آیا تو دیکھا کہ فیکٹری میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے فیکٹری کے اندر بنے ہوئے مکانات لوٹ لیے تھے اور کئی ایک کو آگ بھی لگادی تھی۔ انہوں نے سیکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے جلتے ہوئے مکانات میں پھینک دیا تھا۔ بڑے ٹینک کے پاس کئی غیر بنگالی لڑکیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ مجھے عینی شاہدین سے معلوم ہوا کہ قتل کرنے سے پہلے اُن کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ بہت بھیانک منظر تھا‘‘۔
ڈھاکا کے نواحی علاقے ٹونگ میں سکونت رکھنے والی ۲۲ سالہ روشن آرا بیگم نے دسمبر ۱۹۷۳ء میں کراچی منتقل ہونے پر اپنی کہانی ان الفاظ میں بیان کی: ’’میرے والدین کا تعلق بہار سے تھا مگر میں، میرے بھائی اور بہن ڈھاکا میں پیدا ہوئے تھے۔ میرے والد بھارت میں محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے اور انہوں نے آپشن ملنے پر مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینا قبول کیا تھا۔ میرے والد نے ٹونگی میں ایک پلاٹ خرید کر سادہ سا مکان بنایا تھا۔ ہم بہت اچھی زندگی بسر کر رہے تھے۔ بنگالی پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے ہی سے بنگالیوں میں غیر بنگالیوں کے خلاف شدید نفرت ابھارنا اور انہیں تشدد پر اکسانا شروع کردیا تھا۔ صورتِ حال بہت کشیدہ تھی۔ ہم نے دوسرے علاقوں میں غیر بنگالیوں پر حملوں کے بارے میں سُن رکھا تھا۔ ہم بنگالیوں کے درمیان رہتے تھے۔ وہ بہت اچھے لوگ تھے اور انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہم ہر طرح کے حالات میں محفوظ رہیں گے۔ ہماری مادری زبان اردو تھی مگر ہم بنگالی زبان روانی سے بولتے تھے۔ ہمیں عرفِ عام میں بہاری کہا جاتا تھا۔ اسکول میں ہم بنگالی پڑھتے تھے‘‘۔
’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کی رات مسلح غنڈوں نے ہمارے مکان پر حملہ کردیا اور لوٹنے کے بعد اسے آگ لگادی۔ میرے والد، شوہر اور دو چھوٹے بھائیوں کو انہوں نے گولی مار دی۔ اور میری پندرہ سالہ بہن کو ساتھ لے گئے۔ میں نے اور میری والدہ نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ خوفِ خدا رکھنے والے ایک پڑوسی بنگالی نے ہمیں پناہ دی اور غنڈوں سے محفوظ رکھا۔ جب فوج نے آپریشن کیا تب میں نے اپنی بہن کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکی۔ مسلح غنڈوں نے سیکڑوں غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کیا اور بے حرمتی کے بعد انہیں قتل کرکے پھینک دیا۔ میرے پاس میرے شوہر، فیروز احمد، کی بس ایک ہی نشانی بچی ہے اور وہ ہے میرا ڈھائی سال کا بیٹا۔ یہ بیٹا میرے شوہر کے انتقال کے دو ماہ بعد پیدا ہوا تھا‘‘۔
ڈھاکا کی ایک تجارتی فرم میں ملازمت کرنے والے ۲۴ سالہ زاہد حامدی نے ڈھاکا کے خونیں واقعات کا آنکھوں دیکھا حال اِس طور بیان کیا: ’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو میں بس میں بیٹھ کر نیو مارکیٹ جارہا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ عوامی لیگ کے مسلح غنڈے لوٹ مار کر رہے ہیں اور دکانوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ بس کے رکنے سے پہلے ہی میں کود گیا اور ایک بغلی گلی میں جا گھسا۔ میں نے سنا تھا کہ کئی علاقوں میں غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہتوں کو قتل کرکے پھینک دیا گیا تھا۔ میں نے جس گلی میں گھس کر جان بچائی تھی وہاں کئی غیر بنگالی شدید زخمی پڑے تھے۔ میں ایک بنگالی دکاندار کو کئی سال سے جانتا تھا۔ اسے مجھ پر رحم آگیا اور اس نے مجھے اپنی دکان میں پناہ دی۔ جب اس نے دیکھا کہ کچھ غنڈے اس کی دکان کی طرف آ رہے ہیں تو اس نے دکان کو تالا لگایا اور خود محافظ بن کر باہر بیٹھ گیا۔ جب غنڈے وہاں پہنچے تو اس نے بتایا کہ وہ بنگالی ہے اور خراب حالات کے باعث دکان بند کردی ہے۔ رات کے پچھلے پہر میں نے دکان کے پچھلے حصے میں ایک لڑکی کی چیخیں سُنیں جو اردو میں مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ چار غنڈوں نے اُسے پکڑ رکھا تھا۔ اُن سب نے اُسے باری باری ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کرکے فرار ہوگئے۔ دن ڈھلے جب مجھے بچانے والے بنگالی نے دکان کھولی تو میں نے بتایا کہ رات کو کسی لڑکی سے زیادتی کی گئی اور بعد میں اُسے قتل کردیا گیا۔ ہم نے بہت ڈھونڈا مگر اس لڑکی کی لاش کا پتا نہ چلا۔ بہت سا خون اور لڑکی کے کپڑے البتہ وہاں پڑے ہوئے تھے۔ اس بنگالی دکاندار نے روتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ رات شہر بھر میں سیکڑوں غیر بنگالی لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا‘‘۔
زاہد حامدی کا اندازہ ہے کہ صرف نیو مارکیٹ کے علاقے میں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں کے ہاتھوں کم و بیش دو ہزار غیر بنگالی موت کے گھاٹ اترے۔ غنڈوں نے اس علاقے میں کسی بھی غیر بنگالی کی ایک بھی دکان نہ چھوڑی اور جو بھی کام کی چیز دکھائی دی وہ لوٹ لی۔
ڈھاکا کی ایک تجارتی فرم میں کام کرنے والے ۲۶سالہ انیس الرحمٰن کا کہنا تھا: ’’فوج کو چاہیے تھا کہ مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہی ہفتے میں عوامی لیگ کے غنڈوں کو، جو ریاستی عملداری کو چیلنج کر رہے تھے، پوری طاقت سے کچل دیتی۔ اس صورت میں غیر بنگالیوں کو شاید وہ نقصان نہ پہنچتا جو بعد میں اُنہیں اٹھانا پڑا۔‘‘ انیس الرحمن نے ڈھاکا یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی۔ اس کی رہائش نواب پور کے علاقے میں تھی۔ وہ ۱۹۷۴ء میں بنگلہ دیش سے کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ انیس الرحمن نے بتایا: ’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے نواب پور کے علاقے پر حملہ کردیا۔ انہوں نے پہلے تو لوٹ مار کی اور پھر غیر بنگالیوں کو چُن چُن کر نشانہ بنانے لگے۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کی تمام دکانیں لوٹ لیں۔ میرے بعض رشتہ دار بھی اس قتلِ عام کی نذر ہوئے۔ میرا بچ نکلنا معجزے سے کم نہ تھا‘‘۔
’’عوامی لیگ کے غنڈوں کے پاس جدید ہتھیار اور گولیوں کا ذخیرہ تھا۔ ان میں چند ہندو بھی تھے جو آتشیں اسلحے کے استعمال میں تربیت یافتہ معلوم ہوتے تھے۔ ۹ مارچ کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے تمام غیر بنگالیوں سے ان کا لائسنس والا اسلحہ چھین لیا تھا۔ اس کے بعد تمام غیر بنگالی ہر اعتبار سے عوامی لیگ کے غنڈوں کے رحم و کرم پر تھے۔ لوٹ مار کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت کا بازار بھی ایک ماہ تک گرم رہا۔ شہر بھر میں جواں سال غیر بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں غنڈے بے لگام تھے۔ کوئی نہ تھا جو انہیں روک یا ٹوک سکتا۔ انسانیت تو جیسے بچی ہی نہیں تھی۔ شریف النفس اور خوفِ خدا رکھنے والے بنگالی بھی اس صورتِ حال سے بہت خوفزدہ تھے۔ ان میں سے کم ہی تھے جو مصیبت کی گھڑی میں گھر سے باہر نکل کر کسی غیر بنگالی کی مدد کو پہنچ سکے۔ عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے تھے۔ وہ رقوم نکلوانے سے قاصر تھے۔ اگر کوئی غیر بنگالی بڑی رقوم نکلوانا چاہتا تھا تو اسے عوامی لیگ کے کارکنوں کو ایک بڑا حصہ دینا پڑتا تھا۔ بہت سے متمول غیر بنگالیوں کو اغوا کرنے کے بعد عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان کی کاریں تاوان میں وصول کیں۔ یکم سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ڈھاکا میں کوئی انتظامیہ نہیں تھی، کوئی حکومت نہیں تھی اور ریاست کی عملداری و حاکمیت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ہر طرف صرف غنڈوں کا راج تھا۔ وہ جسے چاہتے لوٹ لیتے اور جسے چاہتے موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ بہت سے بنگالی سول سرونٹس اب بھی پاکستان کے وفادار تھے۔ وہ کام پر جانا چاہتے تھے مگر عوامی لیگ کے غنڈوں نے انہیں خبردار کیا کہ اگر وہ شیخ مجیب الرحمن کی کال پر ہونے والی ہڑتال کے دوران کام پر گئے تو ان کا اور ان کے اہل خانہ کا قیمہ بنادیا جائے گا‘‘۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ڈھاکا کے نور جہاں روڈ پر واقع اپنے مکان تک محدود رہنے والے ۵۵ سالہ محمد طٰحہ نے بتایا کہ اس ایک ماہ کے دوران ڈھاکا خوف اور دہشت کا شہر تھا۔ سبھی خوفزدہ تھے۔ کسی کو کسی پر بھروسا نہ تھا۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ کب کیا ہوجائے۔ لاقانونیت نقطۂ عروج پر تھی۔ محمد طٰحہ نے مکتی باہنی سے جان بچانے کے لیے سابق مشرقی پاکستان سے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو تک کا سفر کیا۔ وہاں سے وہ مارچ ۱۹۷۴ء میں پاکستان پہنچے۔ محمد طٰحہ نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں ڈھاکا کے حالات تیزی سے خراب ہوئے۔ رات دن خرابیاں بڑھتی گئیں۔ قتل و غارت اور لوٹ مار میں اضافہ ہوا۔ سیاست سے برائے نام بھی تعلق نہ رکھنے والے لاکھوں غیر بنگالیوں کے لیے زندگی بھیانک خواب بن کر رہ گئی۔ آتشزنی، لوٹ مار، اغوا، زیادتی اور قتل تو جیسے معمول بن کر رہ گیا۔ تقریباً ایک ماہ تک ڈھاکا میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میرے تین قریبی رشتہ دار بھی اس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوئے۔ غیر بنگالیوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ پولیس تماشائی بنی رہی۔ کہیں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جب فوج نے عوامی لیگ کے غنڈوں کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع کیا تو غیر بنگالیوں نے سکون کا سانس لیا۔ مگر جب ۱۶ دسمبر کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے اور ڈھاکا پر مکتی باہنی اور بھارتی فوج کا کنٹرول قائم ہوگیا تو غیر بنگالیوں پر پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لاکھوں غیر بنگالیوں کو لوٹ مار اور قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔
۳۰ سالہ شاہ امام ڈھاکا میں کاروبار کرتا تھا۔ اس کی رہائش بکرم پورہ میں تھی۔ شاہ امام نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں ڈھاکا کے حالات یکسر غیر یقینی ہوگئے۔ تمام شر پسند بے لگام گھوم رہے تھے۔ کوئی انہیں روکنے والا نہ تھا۔ بنگالی قاتلوں کے ایک گروہ نے اُنہی دنوں میرے چچا، میرے بڑے بھائی اور ان کے چھوٹے بیٹے کو اس وقت قتل کردیا جب وہ ایک کشتی میں بریسال سے ڈھاکا جارہے تھے۔ مجھ ایک ملاح نے بتایا کہ سفر کے دوران مسلح غنڈوں نے جے بنگلہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے غیر بنگالیوں پر حملہ کردیا۔ انہوں نے کشتی چلانے والوں سے کہا کہ ایک ویران کنارے پر لنگر انداز ہوں۔ وہاں انہوں نے کشتی کے تمام غیر بنگالی مسافروں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی مار دی۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ تمام مسافروں کی قیمتی اشیا لوٹنے کے بعد انہوں نے لاشیں دریا میں پھینک دیں۔ جب فوج نے آپریشن کیا تب میں وہاں گیا اور لاشیں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی۔ مگر کچھ پتا نہ چلا‘‘۔
شاہ امام مارچ ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچا تھا۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ڈھاکا میں انسانیت سوز مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور جھیلنے والے ۴۳ سالہ مختار احمد نے جنوری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے کے بعد بتایا کہ اُس کی بیٹی اُس دن سے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے جب اُسے اُس کے شوہر کا بہیمانہ قتل دیکھنے پر مجبور کیا گیا!
مختار احمد نے بتایا: ’’ہم ڈھاکا کی عبدالعزیز لین میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ میں وہاں کاروبار کرتا تھا اور ہم بہت اچھی، خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ میں نے وہیں بیٹی کی شادی بھی کردی‘‘۔
’’مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے ایک گروہ نے میرے داماد کے گھر پر حملہ کیا۔ میرا داماد بہت باہمت تھا۔ اس نے بھرپور مزاحمت کی۔ میری بیٹی نے بھی آسانی سے ہار نہیں مانی۔ مگر غنڈے زیادہ تعداد میں تھے۔ انہوں نے دونوں کو باندھ دیا اور پھر میری بیٹی کے سامنے ہی میرے داماد کا گلا کاٹ ڈالا۔ پھر اس کا پیٹ چاک کر ڈالا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میری بیٹی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ جیسے ہی ذہن میں یادیں تازہ ہوتی ہیں، وہ لرزنے، کانپنے لگتی ہے۔ اس سانحے نے اس کی زندگی برباد کردی‘‘۔
فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر ۲۲ سالہ عائشہ خاتون نے بتایا کہ اس نے اپنے زخمی والد اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ ڈھاکا کے نواح میں ٹونگی کے جنگل میں پناہ لی اور تین دن صرف پانی اور جنگلی پھلوں پر گزارا کیا۔ اس نے اپنی کہانی یوں سُنائی: ’’۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی رات چند مسلح غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور تمام قیمتی سامان لوٹ لیا۔ میرے والد، نورالدین، بزنس مین تھے۔ جب انہوں نے مزاحمت کی تو غنڈوں نے ان کے سینے میں خنجر اتار دیا اور سارا سامان ٹرک میں بھر کر چلے گئے‘‘۔
’’جاتے وقت غنڈوں نے کہا تھا کہ وہ واپس آئیں گے۔ ہمیں جان بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔ ہم نے زخمی والد کو سہارا دیکر کھڑا کیا اور کسی نہ کسی طرح قریبی جنگل میں پہنچے جہاں ہم تین دن تک چھپے رہے۔ والد کو طبی امداد دینا بھی ممکن نہ رہا تھا۔ ہم نے ایک چادر بچھائی اور اُس پر انہیں لِٹادیا۔ میرا بھائی قریبی تالاب سے پانی اور کچھ جنگلی پھل لے آیا۔ ہم لوگ تین دن تک پانی اور جنگلی پھلوں پر گزارا کرتے رہے۔ جب میرے بھائی نے چند پاکستانی فوجیوں کو دیکھا تو دوڑتا ہوا ان تک پہنچا۔ فوجیوں نے ہمیں ہمارے گھر پہنچایا۔ اور پھر ہم نے والد کا مکمل علاج کرایا‘‘۔
’’یہ ہماری پریشانیوں کا خاتمہ نہ تھا۔ ہمارے نصیب میں اور بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ نو ماہ بعد عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے ایک بار پھر ڈھاکا سمیت پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھائی۔ جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آگیا۔ ایک دن غنڈے ہمارے گھر میں آ دھمکے۔ انہوں نے میرے شوہر ظفر عالم کو پکڑ لیا اور کہا کہ گھر میں جس قدر بھی نقد اور زیورات وغیرہ ہیں، وہ ان کے حوالے کردیے جائیں۔ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ داماد کی زندگی چاہتے ہو تو ایک دستاویز پر دستخط کردو کہ یہ مکان تم نے فروخت کردیا تھا۔ یہ دستاویز غنڈوں کے سرغنہ کے نام تھی۔ میرے والد نے بخوشی کاغذات پر دستخط کردیے مگر اس پر بھی ہماری مصیبت ختم نہ ہوئی۔ وہ لوگ میرے شوہر کو لے گئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے کہ دو تین گھنٹوں بعد چھوڑ دیں گے۔ اب دو سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے مگر میرے شوہر کا کچھ پتا نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ انہیں قتل کرکے پھینک دیا گیا ہوگا۔ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ اس طرح عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے بھارتی باشندوں کے ساتھ مل کر ہزاروں غیر بنگالیوں کو لوٹا اور پھر قتل کردیا‘‘۔
ڈھاکا کے علاقے محمد پور میں رہنے والی ۴۰ سالہ عالیہ بی بی نے جنوری ۱۹۷۴ء میں بتایا: ’’میں اپنے سولہ سالہ بیٹے کے ساتھ فلیٹ میں تھی کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں نے حملہ کردیا۔ انہوں نے ہمارے فلیٹ سے کام کی ہر چیز لوٹ لی۔ میرا بیٹا ایک گھنے درخت پر چڑھ کر چھپ گیا۔ عوامی لیگ کے غنڈے اسے نہ دیکھ پائے۔ مگر پھر دسمبر ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں میرے بیٹے کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے قتل کردیا۔ تب سے اب تک میری زندگی موت سے بدتر ہے‘‘۔
ڈھاکا کے علاقے میرپور میں رہنے والی ۳۵ سالہ سائرہ خاتون نے بتایا: ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ہنگامہ آئی میں میرے شوہر عبدالحمید کو قتل کردیا گیا۔ میرے شوہر شہر میں ایک کاروباری میٹنگ میں شرکت کے لیے گھر سے چلے تو عوامی لیگ کے غنڈوں نے انہیں گھیر کر قتل کردیا۔ میں نے اُن کی لاش نہیں دیکھی۔ جب فوج نے آپریشن شروع کیا تو میں نے فوجیوںکی مدد سے شوہر کی لاش حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ساری کوشش اور محنت اکارت گئی۔ اب میرے پاس یہ مان لینے کے سِوا کوئی چارا نہیںکہ میرے شوہر کو بھی عوامی لیگ کے غنڈوں نے قتل کردیا تھا۔ سیکڑوں غیر بنگالی لڑکیوں کو اغوا کرکے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا‘‘۔
۳۳ سالہ زیب النساء بھی ڈھاکا کے علاقے محمد پور کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر عبدالسلام ڈھاکا میں پی آئی اے کے دفتر میں ڈرائیور تھا۔ فلیٹ پر حملے اور شوہر کے قتل کا حال زیب النساء نے یوں بیان کیا: ’’۲۵ مارچ کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں نے ہمارے فلیٹ پر دھاوا بول دیا۔ میرے شوہر نے مزاحمت کی مگر یہ مزاحمت لاحاصل رہی۔ میرے شوہر پر قابو پانے کے بعد انہوں نے خنجر کے وار کیے اور پھر گھر کا سامان لوٹ کر چلے گئے۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے شوہر کی سانسیں چل رہی ہیں تو میں اُنہیں لے کر اسپتال پہنچی مگر وہاں طِبّی عملے نے فوری امداد پر توجہ نہیں دی۔ اس کے نتیجے میں میرے شوہر چل بسے‘‘۔ ’’۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد میرے لیے پھر مشکلات پیدا ہوئیں۔ مکتی باہنی والے میرے دس سالہ بیٹے کو اغوا کرنا چاہتے تھے۔ میں نے اسے کئی دن چھپاکر رکھا۔ اور اس کے بعد ہم ریڈ کراس کیمپ میں منتقل ہوگئے۔ کیمپ میں بھی سب محفوظ نہ تھے۔ وہاں سے بھی مکتی باہنی والے غیر بنگالی لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کرکے لے جاتے تھے‘‘۔ دسمبر ۱۹۷۳ء میں زیب النساء اور اس کے بیٹے کو ڈھاکا سے کراچی منتقل کردیا گیا۔
۲۸ سالہ شمیم اختر کے شوہر فصیح الدین ڈھاکا میں ریلوے کے ملازم تھے۔ یہ لوگ ڈھاکا کے نواحی علاقے میر پور میں رہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران جب عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان کے علاقے پر حملہ کیا تو بہاری نوجوانوں کی طرف سے شدید مزاحمت کی بدولت یہ لوگ بہت حد تک محفوظ رہے۔ مگر دسمبر ۱۹۷۱ء کے آخری ہفتے میں جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے ڈھاکا کا کنٹرول سنبھال لیا تب فصیح الدین، شمیم اختر اور ان کے تین بچوں کے لیے زندگی خاصی بڑی آزمائش میں تبدیل ہوگئی۔
شمیم اختر نے اپنی بپتا اِن الفاظ میں سُنائی: ’’۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو مکتی باہنی والوں نے ہمارے گھروں کا واٹر کنکشن کاٹ دیا۔ ہمیں قریبی تالاب سے پانی لانا پڑتا تھا۔ یہ تالاب انتہائی آلودہ تھا اور پانی سے بدبو کے بھپکے اٹھتے رہتے تھے۔ اُن دنوں میرے ہاں ولادت ہونے والی تھی۔ ۲۳ دسمبر کو میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ کسی دائی کی خدمات میسر نہ تھیں۔ زچگی میں میرے شوہر میرے معاون رہے۔ اُسی رات مسلح غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ وہ میرے شوہر کو ساتھ لے گئے۔ میں اللہ کا واسطہ دیتی اُن سے رحم کی بھیک مانگتی رہی۔ میں چلنے پھرنے کے قابل بھی نہ تھی اور میرے دونوں بچے بھی بہت چھوٹے تھے۔ جن غنڈوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا تھا اُن میں سے کسی کے بھی سینے میں شاید دِل نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ مجھے جلد معلوم ہوگیا کہ میرے شوہر کو قتل کردیا گیا ہے۔ پانچ دن بعد وہ لوگ آئے اور کہا کہ مکان خالی کردو کیونکہ اب یہ مکان اُن کی ملکیت ہے۔ غنڈوں کے سرغنہ کا کہنا تھا کہ بہاریوں کو بنگلہ دیش میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے گن پوائنٹ پر مجھے اور میرے تینوں بچوں کو گھر سے نکالا اور ایک خالی پلاٹ پر چھوڑ دیا۔ وہاں ہم تین دن تک کھلے آسمان تلے پڑے رہے۔ میں تو زچگی کے بعد ہلنے کے قابل بھی نہ تھی۔ ریڈ کراس کی ایک ٹیم کو ہم پر رحم آیا اور اُس نے ہمیں محمد پور میں واقع ریڈ کراس کیمپ میں منتقل کیا‘‘۔
شمیم اختر اور ان کے تینوں بچے جنوری ۱۹۷۴ء میں ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوئے۔
۳۰ سالہ زیب النساء معروف صحافی اور کالم نگار اظہارالحق کی بیوہ ہیں۔ ان کے شوہر ڈھاکا کے اردو اخبار ’’وطن‘‘ میں کام کرتے تھے۔ زیب النساء نے اپنی بپتا یوں سُنائی: ’’ہم ڈھاکا کے علاقے محمد پور کے رضیہ سلطان روڈ پر اپنے مکان میں رہتے تھے۔ میرے شوہر روزنامہ ’وطن‘ سے قبل روزنامہ ’پاسبان‘ میں کام کرچکے تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی رات عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور دیگر غیر بنگالیوں کے ساتھ ساتھ ہمارا گھر بھی لوٹ لیا۔ میرے شوہر گھر پر نہیں تھے، ورنہ وہ انہیں بھی ساتھ لے جاتے۔ بعد میں جب مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے ڈھاکا میں اپنا راج قائم کیا تب تو غیر بنگالیوں پر گویا قیامت ہی ڈھادی گئی۔ محمد پور اور میر پور کے رہنے والے زیادہ نشانہ بنے۔ میرے شوہر اور علاقے کے بہت سے بہاری نوجوان رات کو باری باری پہرہ دیتے تھے تاکہ حملہ آوروں کو روکا جاسکے۔ ۱۹ دسمبر ۱۹۷۱ء کی رات مسلح غنڈوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا اور میرے شوہر کو گولیوں سے بھون دیا۔ میری تو دنیا ہی اُجڑ گئی۔ ان کی شہادت پر علاقے میں ہر آنکھ اشک بار تھی کیونکہ وہ سب کا تحفظ یقینی بنانے پر غیر معمولی توجہ دیتے تھے‘‘۔
☼☼☼
Leave a Reply