عراق کو تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر معاصر ’’ٹائم‘‘ کا خیال ہے کہ پینٹاگون کے نئے سربراہ Bob Gates کے لیے مشکل راستوں کے محدود امکانات رہ جاتے ہیں۔ یہاں چار امکانات کے حوالے سے جو مسائل زیرِ بحث آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ امریکی فوج کی تیز رفتار واپسی:
س: یہ منصوبہ کس چیز کا تقاضا کرتا ہے؟
ج: ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجیوں کی مکمل واپسی جس کی ابتدا آئندہ سال ہو جانی چاہیے۔
س: اس تجویز کی حمایت میں کون لوگ ہیں؟
ج: ڈیمو کریٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جس میں ایوانِ نمائندگان کے John Murtha اور سینیٹرز Barack Obama, Jon Kerry شامل ہیں۔ یہ حضرات بش انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ عراق سے امریکی فوج کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے۔ یہ کام ۴ سے ۶ ماہ کے اندر اندر شروع ہونا چاہیے جس کا انحصار زمینی صورتحال پر ہے۔
س: اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟
ج: جو لوگ فوج کی واپسی کے حامی ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی صرف دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے۔ اگر وہ عراق چھوڑ دیتے ہیں تو تشدد میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی لیکن عراق کی خونریز خانہ جنگی مزید شدید تر ہو جائے گی جس سے ایران فائدہ اٹھائے گا۔
۲۔ فوج میں مزید اضافہ:
س: یہ منصوبہ کیا تقاضا کرتا ہے؟
ج: امریکا ۲۰ ہزار سے ۳۰ ہزار تک مزید اپنی افواج عراق روانہ کرے تاکہ وہ بغداد میں فرقہ ورانہ تشدد کا قلع قمع کر سکے اور مغربی عراق میں دہشت گردوں سے برسرِ پیکار رہے۔
س: اس تجویز کے حامی کون لوگ ہیں؟
ج: ڈیوٹی پر مامور فعال افسران میں سے بہت سے لوگ اس کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت دنوں سے اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ امریکا عراق کی سرزمین پر اپنی مزید افواج بھیجے لیکن سیاست دانوں کی محض ایک مٹھی بھر تعداد جن میں سینیٹر John McCain قابلِ ذکر ہیں، اس وقت مزید افواج بھیجنے کے حق میں ہیں۔
س: اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟
ج: بھاری تعداد میں فوج کی موجودگی مختصر مدت کے اندر عراق میں استحکام پیدا کرنے میں معاون ہو سکے گی۔ لیکن امریکا کو اس عمل میں زیادہ جانی نقصانات اٹھانا پڑیں گے اور جب کبھی امریکی افواج پیچھے ہٹیں گی، اس بات کا امکان ہے کہ تشدد مزید بڑھ جائے گا۔
۳۔ تربیت دو اور واپس آئو:
س: اس منصوبے کا کیا تقاضا ہے؟
ج: امریکا کو اپنے ایسے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے جو عراقی فوج کی یونٹوں کو تربیت دیں، پھر متحارب یونٹوں کو اُن اڈوں پر بھیج دینا چاہیے جو شہری علاقوںسے باہر ہیں۔
اس کے حق میں کون لوگ ہیں؟
ج: اس کے حق میں کچھ فوجی افسران اور کچھ ریٹائرڈ جرنیل ہیں۔ سینٹرل کمانڈ چیف جنرل جان ابی زید نے کانگریس میں دیے گئے بیان میں اشارہ کیا کہ وہ اس طرح کے منصوبے کی حمایت کر سکتے ہیں۔
س: اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟
ج: اگر تربیتی کوشش کامیاب رہتی ہے تو اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکا ایک سال کے اندر عراق میں اپنی فوج میں ۶۰فیصد تک کمی کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی ۵۰ ہزار کی تعداد کو عراق میں ہی رہنا چاہیے تاکہ وہ عراقیوں کی تربیت کا کام جاری رکھ سکیں اور ایسی صورت میں کہ جب امن و امان کی صورتحال بدتر ہو جائے تو پھر وہ جنگ میں شریک ہو سکیں۔
۴۔ ثابت قدم رہنا:
س: اس منصوبے کا کیا تقاضا ہے؟
ج: امریکی افواج کی موجودہ سطح کو برقرار رکھا جائے اور یہ اس وقت تک عراق میں ٹھہری رہیں جب تک عراق فوج اور پولیس ملک کی سلامتی کی ذمہ داری اٹھانے کی اہل اور پھر اس کے لیے آمادہ نہیں ہو جاتی ہے۔
س: اس کے حامی کون لوگ ہیں؟
ج: اگرچہ عراق مسئلے پر بیکر ہملٹن اسٹڈی گروپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ امریکی پالیسی میں تبدیلی کی تجویز دے گی لیکن ممکن ہے وائٹ ہائوس فیصلہ کرے کہ وہ اپنا تازہ عہد نبھائے گا۔ بعض ٹاپ کے جنرلز بھی اس تجویز کی وکالت کرتے ہیں۔ امریکی افواج جتنا طویل مدت تک قیام کر سکتی ہیں، اسے کرنا چاہیے۔
س: اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟
ج: عراق میں خانہ جنگی کے ذمہ دار جنگجو عناصر بالآخر اپنے آپ کو تھکا ہوا پائیں گے لیکن اس وقت تک امریکی فوج وہ واحد عامل ہو گی جو عراق کی تقسیم میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گی۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۴ دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply