باب وڈ ورڈ کے انکشافات

معروف امریکی صحافی باب وڈ ورڈ نے افغانستان میں امریکی صدر بارک اوباما کی حکمت عملی سے متعلق اپنی نئی کتاب ’’اوباماز وار‘‘ میں کئی چونکادینے والی باتیں بیان کی ہیں۔ زیر نظر مضمون اس کتاب کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔


امریکا میں اب کسی کو بھی افغانستان میں جاری جنگ میں فتح کا یقین نہیں۔ سیاسی اور عسکری حلقوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستانی فوج کو بھارت سے توجہ ہٹاکر افغانستان پر توجہ دینے پر مجبور نہ کیا جاسکا۔ امریکی صدر بھی اب افغان حکمت عملی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینے ٹا اور قومی سلامتی کے امور میں امریکی صدر کے مشیر جیمز جونز نے گزشتہ سال پاکستان کے دورے میں صدر آصف علی زرداری اور پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی تاہم انہیں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ یا مجبور نہ کیا جاسکا۔ امریکی ایوان صدر میں بھی افغانستان کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی نائب صدر جوزف بائڈن بھی کہتے ہیں کہ افغانستان اب ویت نام میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ امریکی سول انتظامیہ اور فوج کے درمیان افغانستان کے حوالے سے اختلافات کم تو کیا ہونے تھے، بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جیمز جونز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ قومی سلامتی کونسل میں افغانستان سے متعلق امور کے چیف کوآ رڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لیوٹ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کمزور پڑتی جارہی ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کے نئے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا ہے کہ چند علاقوں ہی میں پیش رفت ممکن ہوسکی ہے۔ بہت سوں کو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ صدر اوباما ان لوگوں کو اپنے معاونین میں کیوں شامل کر رہے ہیں جو ان کی حکمت عملی سے متفق ہی نہیں۔ افغانستان میں متعین امریکی سفیر کارل آئکنبری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

اب صدر اوباما کو خود بھی اس بات کا یقین نہیں رہا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے حوالے سے جو حکمت عملی ترتیب دی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گی یا نہیں۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح امریکی فوج کو افغانستان سے باہر نکال لیا جائے۔ انہوں نے انخلا شروع کرنے کے لیے جولائی ۲۰۱۱ء کی ڈیڈ لائن بھی سیاسی مصلحتوں کے تحت مقرر کی ہے۔ امریکا میں عام انتخابات ۲۰۱۲ء میں ہوں گے اور اس سے قبل امریکی صدر افغانستان کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت چاہتے ہیں۔ انہوں نے اجلاسوں میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ افغانستان میں جنگ کسی نہ کسی طورختم ہونی چاہیے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہو۔ دوسری جانب جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا ہے کہ افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی درکار ہے۔ ڈگلس لیوٹ کا کہنا ہے کہ اوباما نے فوج کو بھی اپنا سیاسی حلقہ سمجھ لیا ہے۔

افغانستان میں جاری جنگ پاکستان کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ امریکی مفادات پاکستان کی حکمت عملی سے وابستہ ہیں۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستانی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں نے یورپ اور امریکا سے سفید فام افراد کو بھی بھرتی کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ لوگ امریکا اور یورپ کا سفر کسی رکاوٹ کے بغیر کرسکتے ہیں۔ ۲۶ نومبر کو ایک اجلاس میں صدر اوباما نے کہا کہ کینسر پاکستان میں ہے جس کا علاج ناگزیر ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور قومی سلامتی امور میں صدر اوباما کے مشیر نے پاکستان کے دورے میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں واضح کیا کہ صدر اوباما چار امور میں پیش رفت چاہتے ہیں۔ خفیہ معلومات میں مکمل طور پر شریک کیا جائے، دہشت گردی کے خلاف قابل اعتبار اشتراک عمل کیا جائے، امریکی افسران اور اہلکاروں کے لیے ویزا کے اجرا میں حائل مشکلات دور کی جائیں اور فضائی مسافروں سے متعلق تفصیلات باقاعدگی سے فراہم کی جائیں۔

جیمز جونز نے صدر زرداری پر واضح کردیا تھا کہ اگر نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں دھماکا ہو جاتا تو پاکستان کو کسی حال میں بخشا نہ جاتا اور امریکی افواج پاکستان کی حدود میں کم و بیش ۱۵۰ مقامات کو نشانہ بناتیں۔ صدر زرداری نے کہا کہ امریکا میں کہیں بھی دہشت گردی کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم بْرے ہوگئے یا پارٹنر نہیں رہے۔ اس پر لیون پینیٹا اور جیمز جونز نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن اگر امریکا میں کہیں کوئی بڑی واردات ہوئی تو پاک امریکا تعلقات داؤ پر لگ جائیں گے۔ پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی بڑی واردات کی صورت میں امریکا ایسے اقدامات پر مجبور ہوگا جو پاکستان کو کسی طور قبول یا پسند نہ ہوں گے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور جیمز جونز نے جب القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کے خلاف ڈرون حملوں کا ذکر کیا تو شہری ہلاکتوں پر بھی بات ہوئی۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کو مارنے کی کوئی تو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ امریکی حکام نے ممبئی حملوں کے حوالے سے مشتبہ قرار پانے والی تنظیم لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان نے چند علاقوں میں ڈرون حملوں کی اجازت دی۔ ان علاقوں کو boxes کہا گیا۔ ایسا کوئی باکس جنوبی وزیرستان میں نہ تھا کیونکہ وہاں پاکستانی فورسز کے دستے بھی تعینات تھے۔

صدر زرداری کے بعد امریکی وفد نے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وہ جنرل کیانی کو بھارت سے توجہ ہٹانے پر آمادہ یا قائل نہ کرسکے۔ امریکی حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان مشرقی سرحد سے توجہ ہٹائے اور مغربی سرحد کو اہمیت دے۔ کیانی کو بتایا گیا کہ اوباما تیس دن میں پیش رفت چاہتے ہیں۔

پینے ٹا اور جیمز جونز پاکستان سے ناکام لوٹے۔ ان کا عمومی تاثر یہ تھا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ عجیب و غریب ہے۔ سی آئی اے نے تین ہزار افغانوں پر مشتمل خفیہ دستہ ’’کاؤنٹر ٹیرر ازم پرسوٹ ٹیم‘‘ کے نام سے تیار کیا تھا جو کبھی کبھی پاکستانی علاقوں میں داخل ہوکر بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرتا تھا۔ ڈگلس لیوٹ بھی پاکستان گئے تھے۔ انہوں نے صدر اوباما کو پیش کرنے کے لیے تین صفحات کی رپورٹ کی تیاری کی نگرانی کی۔ اس رپورٹ پر جیمز جونز کے دستخط ثبت تھے۔ رپورٹ خاصی مایوس کن تھی۔ اس میں پاکستان کے سول ملٹری گیپ کا بھی تذکرہ تھا۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ صدر زرداری سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ جنرل کیانی ہی کچھ بھی کر گزرنے کی پوزیشن میں تھے مگر انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کرنا آسان نہ تھا۔ جیمز جونز نے لکھا تھا کہ پاکستان کو اس بات سے غرض نہیں تھی کہ امریکا میں کہیں دہشت گردی ہوتی ہے یا نہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی سرزمین پر روزانہ حملے ہو رہے تھے اور درجنوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ جیمز جونز کا خیال تھا کہ پاکستان کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ ممبئی حملوں جیسی کسی بھی واردات کے اعادے پر بھارت کا رد عمل کیا ہوگا۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کے لیے ممبئی حملے سیاسی اعتبار سے بہت بڑا دھچکا تھے مگر خیر کسی نہ کسی طرح انہوں نے اس بحران پر بھی قابو پا ہی لیا۔ اگر آئندہ ایسا کچھ ہوا تو بھارت کے لیے ضبطِ نفس کا مظاہرہ بہت مشکل ہوگا۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*