
جانوس بزینو نائیجیریا کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل رہ چکے ہیں، انہوں نے ڈاکٹریٹ بھی کر رکھی ہے اور وہ نائیجیریا میں قیامِ امن کی کوششوں میں شریک ہیں جبکہ ایڈم میئر امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا میں پڑھاتے ہیں ان کا یہ مضمون DATR-Review Terrorism Against Defence میں شائع ہوا ہے جس میں بوکو حرام کے آغاز سے لے کر اس کی موجودہ سرگرمیوں اور اہداف پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
خلاصہ: مئی ۲۰۱۳ء سے نائیجیریا کی وفاقی حکومت اس تگ و دو میں ہے کہ وہ بوکو حرام کا مقابلہ فوج کے ذریعے کرے، یہ آپریشن جاری ہے مگر اس کی تفصیلات خفیہ رکھی جارہی ہیں۔ ابتدائی طور پر ابھی تک وہ یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکے کہ اس سے علاقے کو فوری طور پر کوئی خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں اب بھی بوکوحرام حملوں کی استعداد رکھتی ہے۔ ہمارا مضمون نائیجیریا کے بارے میں یہ حقیقت طشت ازبام کرتا ہے کہ نائیجیریا کا علاقائی قانون وہاں کے بااثر سیاستدانوں اور جاگیرداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مغرب کی جانب سے ان عناصر کی پشت پناہی نوآبادیاتی دور سے جاری ہے مگر اب اس روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مقامی بااثر افراد کی جنہیں ’’فولانی‘‘ کہا جاتا ہے پشت پناہی کی حکمتِ عملی شاید بیسوی صدی کے اوائل یا اس کے وسط تک کارگر ثابت ہوتی رہی ہو، مگر اب یہ خود ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ فولانی اشرافیہ سے خلاصی کیسے ہوسکتی ہے اس کے لیے وہاں کے خفیہ ادارے کام کر رہے ہیں۔
تعارف
نائیجیریا کی وفاقی حکومت نے مئی ۲۰۱۳ء سے جوائنٹ ٹاسک فورس کے نام سے ایک خصوصی یونٹ قائم کررکھا ہے۔ یہ یونٹ ریاست کے شورش زدہ شمال مشرقی علاقوں یو بے، بورنو اور اداماوا میں مصروفِ عمل ہے، جہاں دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔ یہاں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہتی ہیں، یہ یونٹ جب ضروری سمجھتا ہے کرفیو کا نفاذ کر دیتا ہے، موبائل سروس معطل کر دیتا ہے تاکہ ECAL سے وابستہ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے۔ حکومتی فورسز ان کے تربیتی کیمپوں پر بمباری کرتی رہتی ہیں، اس علاقے کی حقیقی صورتحال کا تو علم نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں پر قیام امن ابھی بھی کوسوں دور ہے۔ کیونکہ بغاوت جاری و ساری ہے اور بوکو حرام ان تینوں ریاستوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی آپریشن کا جاری رہنا بھی ایک لازمی امر ہے۔ تاہم مضمون نگار کا خیال ہے کہ فوجی آپریشن کے بارے میں نہ تو خفیہ ادارے اور نہ ہی نائیجیریا کی حکومت یا اس کے دوست ممالک کو یہ معلوم ہے کہ اسے کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ مغرب وہاں پر امن کے لیے مقامی جاگیردار قبائل کے کردار پر ہی اکتفا کرتا آیا ہے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ مقامی روایات کے امین ہیں اور حالات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ نائیجیریا میں شریعت سے ہٹ کر اگر کسی کو اہمیت حاصل ہے تو وہ یہی لوگ ہیں۔ مگر موجودہ تناظر میں حالات کا دھارا بدل چکا ہے۔ اب وہاں پر انتہا پسندی کا خطرہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے مغرب کو آگے بڑھ کر کوئی حل نکالنا ہوگا۔
بوکوحرام
اسلام کے نام پر ہونے والی بغاوت ۲۰۱۳ء میں ابھر کر سامنے آئی، مگر نائیجیریا کی حکومت کی جانب سے جوائنٹ ٹاسک فورس آپریشن، فضائی حملے اور دیگر کارروائیاں ایک دہائی قبل ہی شروع کر دی گئی تھیں۔ ۲۰۰۲ء میں جب امام محمد یوسف نے (Borno Maiduguri ریاست کا دارالحکومت، جسے پہلے Yerwa کہا جاتا تھا، یہ چاڈ کی سرحد کے ساتھ ایک صحرائی علاقہ ہے) ریاست میں مسجد اور مدرسہ قائم کرنے کے بعد اپنے انتہا پسند گروپ ’’یوسفیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ تب ان کی شہرت ایک ایسے مسلمان گروپ (بوکوحرام) کی تھی جو مغربی تعلیم کو حرام اور گناہ قرار دیتا تھا۔ دنیا کے بارے میں ان کی معلومات اس قدر محدود تھیں کہ ایک بار ان کے ایک رہنما نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں کہا کہ دنیا گول نہیں بلکہ سیدھی ہے۔
انہوں نے مغربی لباس پر بھی پابندی عائد کردی۔ وہ نائیجیریا کی وفاقی حکومت کے نمائندوں سے نہ صرف نفرت کرتے تھے بلکہ انہیں مرتد اور شیطان قرار دیتے تھے۔ وہ پولیس اور مغربی باشندوں پر حملے کرتے، انہیں اغوا کرتے یا پھر قتل کر دیتے۔ ان کا نشانہ وہ لوگ بھی بنتے جو ان کی مخالفت کرتے یا جو بیوٹی پارلر یا شراب خانوں میں جاتے۔
زیر نظر مضمون میں ہم نے بوکوحرام سے درپیش خطرے کو بالکل مختلف انداز میں پرکھا ہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ عالمی برادری کو کیا کیا اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ بوکوحرام کو جو ترویج یہاں ملی ہے اس کی جڑیں شمالی نائیجیریا میں پھیلی غربت اور استحصالی نظام میں پیوست ہیں۔ مغرب اور شمالی نائیجیریا کی اشرافیہ میں ساز باز لگ بھگ ۱۱۰ سال سے جاری ہے۔ یہاں پر مروجہ سماجی اور سیاسی نظام جو ایک عرصہ تک یہاں امن کی ضمانت رہا مگر اب یہی نظام یہاں پر بدامنی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے جس کی کوکھ سے بوکوحرام نے جنم لیا ہے۔ اس لیے حالات کا تقاضا ہے کہ مغرب شمالی نائیجیریا کی اشرافیہ کے ساتھ وابستہ اپنے مفادات پرنظرثانی کرے۔
بوکوحرام: جس کی جڑیں نائیجیریا کی سماجی تاریخ میں ہیں
بوکوحرام کوئی ایسا عجوبہ ہرگز نہیں، جو راتوں رات ظہور پذیر ہوگیا ہو۔ اس کے پیچھے ایک معروف مبلغ ’’مائیتاتسن‘‘ کا گروہ تھا جس کا خمیر ۱۹۸۲۔۱۹۸۵ء کی خوں ریزی سے اٹھا تھا۔ مائیتاتسن اور بوکوحرام کو شمالی نائیجیریا کی بے آب و گیاہ زمین بہت راس آئی اور وہ خوب پھلی پھولی۔ سعودی عرب، لیبیا، مالی اور دوسرے خطوں سے بیرونی مداخلت بہت بعد میں شروع ہوئی۔ شمالی نائیجیریا کئی دہائیوں سے ایک ایسے سماجی و معاشی نظام میں جکڑا ہوا تھا جس میں جاگیرداروں کو غلبہ حاصل تھا۔ جیسا کہ انڈیا میں بھی تھا مگر وہاں ۱۹۷۰ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس نظام کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ شمالی نائیجیریا میں ۱۹۷۶ء کی اصلاحات کے باوجود جاگیرداری نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہا۔ جس کی وجہ سے وہاں پر حکومتی نظام اور جاگیرداروں کے درمیان اَن بن موجود رہی۔ مضمون نگار جاگیرداری کی اس اصطلاح سے بھی بخوبی واقف ہے، جس کے حق میں بھی بے شمار دلائل دیے جاسکتے ہیں بالخصوص جس کی ترویج ایک زمانے میں روس نے ترقی پذیر دنیا میں کی تھی۔ اب بھی دنیا میں کئی ایسے خطے ہیں جہاں یہ نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اس مضمون نگار کا خیال ہے کہ ہم اس نظام سے وابستہ خطرات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
اس سے قبل کہ ہم جائزہ لیں کہ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ بوکوحرام نے شمالی نائیجیریا کے سماجی اور معاشی نظام کی کوکھ سے جنم لیا، ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا شمالی نائیجیریا میں اس کا متبادل نظام بھی کوئی ہوسکتا ہے جو مغرب کو ’’فولانی‘‘ جاگیرداروں یا ان کے حواری سیاستدانوں کے علاوہ کوئی اور آپشن دے سکے؟ ہمارا جواب ہوگا ’’ہاں‘‘ یہ آپشن موجود ہے۔ ہمیشہ ہر شے کا متبادل ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں بالا رب موسیٰ، یوسف بالا عثمان اور دوسروں کے ساتھ عوامی نجات پارٹی کاملا امین کا نومنظر عام پر آئے تھے۔ تب انہیں روس اور اس کے حواریوں کی پشت پناہی حاصل تھی اور یہ نائیجیریا کے قدامت پسند نظام کے لیے خطرہ بن گئے تھے، ان کا یہ اقدام صحیح تھا یا غلط؟ قطع نظر اس کے انہوں نے شمالی نائیجیریا میں امن قائم کر دیا تھا۔ اگرچہ فی الوقت کسی ایسی تحریک کے آثار تو نہیں ہیں مگر یہ سفارت کاروں اور خفیہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ کسی متبادل طاقت کے ظہور کے امکانات کو دیکھیں۔ یہ بات بھی واضح ہے اور اسے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ شمالی نائیجیریا کے فالونیوں میں جدت پسندی پنپ رہی ہے۔ جن لوگوں نے شمالی علاقوں میں مغربی تعلیمی ادارے کھولے انہیں کامیابی ملی اور ان کے ساتھ تاجر، ٹریڈ یونین حتیٰ کہ حزب مخالف کے لوگ بھی آملے۔ بندوق کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ مگر صدر جو ناتھن کی فوج اور ایئرفورس نے بورنو، یوبے اور اواماوا کے علاقوں میں کافی پیش رفت دکھائی وہ یہاں جدت کے متمنی ہیں اور ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا چاہتے ہیں، جہاں روشن خیالی کی حکمرانی ہو۔
مضمون نگار کو نہ صرف نائیجیریا کے تشکیلی علم سے آگاہی ہے بلکہ وہ افریقی اور شمالی نائیجیریا کے معاملات پر مقامی اثر و نفوذ کو بھی دیکھتا ہے۔ کیونکہ لیفٹیننٹ کرنل جانوس بزینو نے مغربی صحارا، سوڈان اور افغانستان میں کافی عرصہ ملازمت کی اور اپنے مشاہدات پر کئی کتابیں اور مضامین لکھے جبکہ ایڈم مائیر نے شمالی نائیجیریا کی ایک امریکی یونیورسٹی میں تین سال تک پڑھایا۔ موخرالذکر بوکوحرام کی حالیہ کارروائیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ بوکوحرام شمالی جاگیرداروں کی ناجائز اولاد ہے۔ چنانچہ ہم قاری کو مزید معلومات دینے سے پہلے اس بات کا ہی جائزہ لیں گے۔ بوکوحرام نے پینٹ شرٹس پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل شمالی اشرافیہ نے نائیجیریا کے وفاق میں مغربی طرز کی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ سالہا سال سے جاری ان کی روایات اور ثقافت پر ایک کاری ضرب ہے۔ اس لیے اس پر حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ شمالی اشرافیہ نے نائیجیریا کی ریاستوں میں سب سے پہلے شریعت کے نفاذ کو متعارف کرایا۔ سب سے پہلے ۱۹۹۹ء میں ذمفارا اور اماوا ریاستوں میں ایسا کیا گیا۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس اسٹیٹس کو کے خلاف آواز اٹھائے۔ اس سے پہلے کہ اسٹیٹس کو کی یہ جنگ شمالی ریاستوں میں جاری شورش کو اور بڑھاوا دے۔
تاریخی حقائق
عیسائیت اور اسلام دونوں کی نائیجیریا میں ایک طویل تاریخ ہے۔ اسلام یہاں چودھویں صدی میں چاڈ سے آیا (اولین مسلمانوں کا تعلق نیم بورنو کی سلطنت کے بادشاہ ادریس الومائی کے دربار سے تھا۔ عیسائیت یہاں پندرھویں صدی میں پرتگالیوں کے ساتھ کیتھولک کی شکل میں وارد ہوئی)۔ اس کے بعد انگریز یہاں کلیسائے انگلستان کا نظام لے کر آیا۔ تقریباً سولہ کروڑ نائیجیرین (یہ تعداد تیرہ سے اٹھارہ کروڑ ہو سکتی ہے کیونکہ ۱۹۶۳ء کے بعد سے یہاں کوئی مصدقہ مردم شماری نہیں ہوسکی) میں سے آدھے عیسائی اور آدھے مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسی طرح متنازع ہیں جیسے کہ ۱۹۷۵ء میں لبنان میں تھے۔ عیسائیوں میں سے تقریباً دو کروڑ کیتھولک اور ایک کروڑ ستر لاکھ انگلستان کے چرچ کے پیروکار ہیں۔ ساٹھ لاکھ بیپٹسٹ ہیں جبکہ باقی پروٹسٹنٹ کے کئی ذیلی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی تعداد میں نائیجیریا میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں میں سے اکثریت کا تعلق سنی مکتب سے ہے، کچھ خود کو شیعہ کہتے ہیں۔ شیعہ حضرات ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد سامنے آئے ہیں۔ صوفیا کا سلسلہ شمالی افریقا میں تاریخی طور پر زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے بالخصوص اشرافیہ میں۔ ۱۸۰۴ء میں جب عثمان دون فوڈیو نے حوسی بادشاہ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور اس کے بعد سکوٹو خلافت قائم کردی جو کہ حسی اور وسطی ریاستوں کی مرکزی حکومت کا درجہ رکھتی تھی۔ ایک روشن خیال حکمراں نہ ہونے کے ناطے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ فوڈیو قادریہ سلسلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ وہابی اسلام سے بہت دور تھا جس کا محرک سعودی عرب تھا، جس نے سیاسی اسلام کو رواج دیا، جو آج بنیاد پرستی کی موجودہ شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ اسلام کی یہ شکل نائیجیریا میں ۱۹۶۰ء میں ابوبکر گمی نے متعارف کروائی جوکہ شمالی نائیجیریا کے بڑے قاضی رہ چکے تھے اور جن کو سعودی حلیف ہونے کے ناطے شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ان کو اس سلسلے میں شمالی نائیجیریا کے معروف سیاستدانوں سرداؤنا، سکوٹو اور سراحمد وبیلو کی مدد بھی حاصل تھی۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام اور عیسائیت دونوں مذاہب تبلیغ کے ذریعے پھیلے۔ یہ عمل نائیجیریا میں آج بھی جاری ہے۔ نائیجیرین باشندے مذہب کے معاملے پر بہت زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں۔ بالخصوص ایسی رسومات کو تَرک کر دیا گیا جو مذہبی شناخت سے متصادم تھیں۔ مذہب کا تعلق عقیدے اور جذبات سے ہے، جس میں نائیجیریا کا ایک عام باشندہ پوری طرح سے مغلوب ہے۔ جو چیزیں اس ماحول کو مزید تحریک دیتی ہیں ان میں روزگار کے مواقع، اچھے تعلیمی ادارروں، معاشی سرگرمیوں کا فقدان اور حتیٰ کہ زراعت کی زبوں حالی بھی ہے۔ نائیجیریا کے شمالی علاقوں میں پولیو کے واقعات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ یہاں عورتوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ پولیو کے قطروں کے ذریعے مغرب مسلمانوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتیں ختم کرنا چاہتا ہے۔ شمال میں رہنے والے لوگ دنیا کے بارے میں بہت تنگ نظر واقع ہوئے ہیں، ان کے پاس باقی دنیا کے مقابلے کی کوئی مہارت بھی نہیں۔ یہاں کے جاگیردار بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایسا ہی رہے۔ خطے میں نائیجیریا کو تیل کے وسائل سے مالامال ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔
شمالی نائیجیریا میں اسلام پسندی کا آغاز سکوٹو خلافت کے دوران ہوا تھا لیکن حیرت اس بات پر بھی ہے کہ یہ عمل برطانوی دور میں بھی جاری رہا جب یہاں عیسائیت کی تبلیغ ممنوع تھی، بعدازاں اگرچہ اس کی اجازت دے بھی دی گئی مگر مشروط طور پر، اسلامی نظام کی تشکیل میں پیش پیش فولانی قبائل، یہاں کے چرواہے، علما اور ان کے پیروکار ہی تھے جنہوں نے مقامی طور پر مضبوط حوسا اور کنوری گروہوں میں اپنی ایک چھوٹی سی اقلیت بنالی تھی۔ بیسویں صدی تک حوسیوں اور کنوریوں کی مذہب کے بارے میں رائے مختلف تھی۔ جنوب مغربی یروبا قبائل اسلام سے رغبت رکھتے تھے مگر پھر بھی بعض معاملات میں اپنی قدیم روایات سے جڑے ہوئے تھے، اگرچہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتے۔ درحقیقت نائیجیریا میں قدیم روایات کو مذہب میں مدغم کرنے پر ناپسندیدگی کااظہار کیا جاتا رہا ہے اور اسے پسماندگی اور اخلاقی ابتری قرار دیا جاتا ہے۔ نائیجیریا میں یہی روش افریقن آرٹ کے بارے میں بھی ہے مگر اس میں کچھ چیزوں کو قبول کرلیا گیا ہے جیسا کہ گلہری کی کھال پر بنائے گئے نقش و نگار، افریقن آرٹ کے ساتھ خود نائیجیرین نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ انہوں نے مذہب سے ایک ایسا بیانیہ کشید کیا ہے جس نے آرٹ اور دنیا کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
اس منظر نامے میں مزید منظر کشی اس وقت ہوئی جب یہاں پر سَلَفی اور وہابی اسلام کو ترویج ملی۔ بالکل اسی طرز پر جیسے کسی زمانے میں یہاں پر عیسائیوں نے نہایت خوبصورت چرچ آباد کیے تھے۔ آج نائیجیریا میں واحد عیسائی فرقہ کرشماتی پروٹسٹنٹ ہیں۔
امریکا کے نامور نشری مبلغ یہاں آتے رہتے ہیں، Robertson Pat Reverend کی نائیجیریا کے جنوبی علاقوں میں خاطر خواہ مقبولیت ہے۔ یہاں پر کسی توانا آواز کی عدم موجودگی کی وجہ سے صہیونیت چھائی ہوئی ہے۔یہ بات حیران کن ہے کہ ایک ہی ملک میں انتہا پسند مسلمان اور صہیونی اکٹھے رہ رہے ہیں۔ اس سے بھی اس تنازعے کی پرتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اب یہاں کے سیاسی اور معاشی معاملات کی طرف آتے ہیں۔ نائیجیریا میں ۱۹۶۰ء سے سیاستدان ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ یعنی نائیجیریا میں سیاسی افراد ملکی وسائل کو اپنی ذاتی تجوری سمجھتے ہیں اوراپنے شاہانہ انداز کو عوامی پیسے سے قائم رکھتے ہیں۔ یہاں کے جمہوری ادوار (۱۹۶۰۔ ۱۹۷۱ء۔ ۱۹۸۳۔۱۹۹۹ء) میں جب یہاں انتخابات کے نتیجے میں حکومتیں قائم ہوئیں تو وہ بھی دراصل قبائلی ہی تھیں۔ جبکہ آمریت کے ادوار میں (۱۹۶۶۔ ۱۹۷۹۔ ۱۹۸۳۔ ۱۹۸۵۔ ۱۹۹۳۔ ۱۹۹۹) اگرچہ افسر شاہی محدود تھی۔ تاہم دونوں ادوار میں شمالی اشرافیہ کو مناسب حصہ مل رہا تھا۔ نائیجیریا میں جمہوریت اور آمریت دونوں کی حالت خراب ہے، ایک فوجی آمر وردی اتارنے کے بعد بھی دو دہائیوں تک صدر رہا اور بالآخر تیسری بار منتخب ہونے سے روکنے کے لیے اس کا مواخذہ کرنا پڑا۔
ہمیں نائیجیریا کی سیاسی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈالنی پڑے گی۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کے درمیان نائیجیریا تاج برطانیہ کے ماتحت تھا اور یہ بات بھی خاصی مضحکہ خیز ہے کہ برطانوی نمائندہ Baron Lugar کی محبوبہ فلورا شاہ نے ایک دریا نائیجیر سے اس ملک کو نائیجیریا کا نام دیا۔ تب نائیجیریا کے شمال میں سکوٹو خلافت پر تاج برطانیہ کی بلواسطہ حکمرانی تھی، جبکہ Yoruba کی سلطنت کی حیثیت بھی کٹھ پتلی تھی، لسانی بنیاد پر قائم ہونے والے ہزاروں گاؤں الگ الگ حیثیت رکھتے تھے۔ لاگوس اور اگبو کے شہر اس وقت سے ہی ذراجدید نوعیت کے تھے۔ شمالی علاقے ان شہری علاقوں کی نسبت بہت پسماندہ تھے۔ شمالی نائیجیریا میں سب سے نقد آور فصل مونگ پھلی ہی تھی جسے برطانیہ بطور خراج وصول کرتا اور اسے دیگرملکوں کو فروخت کرتا۔ برطانیہ نے نائیجیریا میں ریلوے لائن بچھائی جس کی آزادی کے بعد مرمت تک نہیں کی گئی اور اب وہاں صرف ایک لائن ہی قابل استعمال ہے، جسے ۲۰۱۳ء میں دوبارہ کھولاگیاہے۔ نائیجیریا کو تاج برطانیہ سے آزادی بہت پُرامن طریقے سے مذاکرات کی میز پر ملی تھی۔
آزاد نائیجیریا کی تشکیل برطانوی طرز پر ہوئی تھی تاوقتیکہ ریاست کے فوجی سربراہ Obasanjo نے ملک کا سیاسی ڈھانچہ تبدیل کرکے اسے امریکا کی طرز پر صدارتی بنا دیا۔ نائیجیریا کے پہلے وزیراعظم سرابوبکر طفاوابالیوا تھیاس نے وفاقی امور میں شمال کی اشرافیہ کا کردار بڑھا دیا تھا۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں جنرل ارونسی جو کہ جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اور ابگو (نسلی و لسانی قبیلہ) سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا مگر جولائی میں ان کے خلاف بھی ایسا ہی ہوا جب شمال سے تعلق رکھنے والے یقوبوگاؤن نے ان کو اقتدار سے الگ کردیا۔ کیونکہ شمال کے لوگ ابگو کو اچھا نہیں سمجھتے۔ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۰ء تک جنرل اوجیکو کی سربراہی میں بہت خوں ریز جنگ ہوئی، جس میں دس سے بیس ہزار لوگ ہلاک ہوگئے۔نائیجیریا کی وفاقی حکومت کو روسی اور چیک اسلحہ ملا، جس سے اوجیکو کو شکست ہوگئی۔ مگر وہ دس سال بعد دوبارہ ملک میں واپس آکر ممبر پارلیمان بن گیا، ۲۰۱۱ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ جنگ جیتنے کے بعد نائیجیریا کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ امریکا کی جانب ہوگیا۔ ۱۹۷۰ء سے جولائی ۱۹۷۵ء میں یقوبا گاؤن کی جگہ شمالی علاقے کے ایک مسلمان اور ریاست کے فوجی کمانڈر مورتالامحمد نے لے لی۔ مورتالا کی سخت پالیسیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے جب اقتدار سنبھالا تو سرکاری ملازمین کو ساڑھے سات بجے صبح سے اگلے دن تک اپنے دفتروں میں حاضر رکھا گیا۔ وہ بہت ایماندار رہنما تھا جو ۱۹۷۶ء میں ایک بغاوت میں مارا گیا، جس کے بعد اس کا نائب الوسیگن اوبانجو جو کہ یوروبہ کا ایک عیسائی تھا وہ ریاست کا فوجی سربراہ بن گیا۔ وہ معتدل مزاج کا حامل تھا۔ ۱۹۷۸۔۱۹۷۹ء کے دوران اس نے برطانوی طرز کے سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں اور امریکی طرز پر ۱۹ ریاستوں میں صدارتی نظام لاگو کردیا، جس کا سربراہ صدر تھا۔ اوباسنجانو نے ۱۹۷۹ء میں فوجی اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے جمہوریت قائم کردی۔
عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں شمال کے ایک مسلمان الحاج شیحوشگری نے اکثریت حاصل کرلی۔ مگر اس کے چار سال بعد ہی محمد بوہاری نے شگری کے خلاف کامیاب بغاوت کردی اور پورے ملک کو ایک ہی نظام تلے چلانے کی مہم چلائی۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی ملک میں آزاد معیشت کے نظام کو رواج دیا۔ اس کے بعد پھر ۱۹۸۵ء میں ایک بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں باداماسی بابنگیدا نے بوہاری کو بھی نکال باہر کیا مگر اس کی معاشی پالیسیوں سے نائیجیریا کی مڈل کلاس بری طرح متاثر ہوئی اور معاشرے میں عدم مساوات بڑھی۔ بوہاری اور باداماسی ابھی حیات ہیں اور نائیجیریا میں انتہائی اہم اور بااثر افراد میں سے ہیں۔ باداماسی ارب پتی ہیں جبکہ بوہاری ایک کٹر قسم کے مسلمان اور فوجی ہیں اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ نائیجیریا میں جب ایسے لوگ اثر و رسوخ رکھیں گے تو وہ نظامِ حکومت کو بھی اپنے اپنے نظریات پر ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
۱۹۹۳ء میں بابنگیدا ملک میں عام انتخابات کرانے پر رضامند ہوگیا جس کے نتیجے میں مسعود ابیولا کو جو جنوبی علاقے کا ایک تاجر تھا، نے فتح حاصل کرلی۔ مگر بابنگیدا نے مسعود کی حمایت نہیں کی اور اس کی جگہ ایمسٹ شوکین کو صدر بنا دیا۔ اس کے بعد وزیر دفاع سنی اباچہ نے کامیاب بغاوت کرتے ہوئے دونوں کو گرفتار کرلیا مگر وہ نائیجیریا کا سب سے غیر مقبول آمر قرار پایا۔ اپنے آپ میں مگن رہنے والے اباچہ کے پاس ملک چلانے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ نائیجیریا باقی دنیا سے کٹ کے رہ گیا، اقربا پروری اور من مانی کو رواج ملا۔ اس کی وفات کے بعدعبدالسلام ابوبکر نے اقتدار حاصل کرلیا مگر جب اوبسانجو دوبارہ متحرک ہوا تو وہ اس کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اس وقت بھی نائیجیریا ۳۶ ریاستوں میں منقسم تھا۔ اس موقع پر ۱۹۹۹ء میں ذمفارا ریاست نے شریعت نافذ کردی۔ اوبسانجو کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو ۱۹۹۹ء میں اقتدار ملا۔ اس نے ۲۰۰۷ء کے عام انتخابات جیت کر دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا لیکن جب اوبسانجو کو تیسری بار انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تو شمال سے ہی ایک مسلمان عمروموسیٰ یار صدر بن گیا۔ مگر وہ ۲۰۱۰ء میں انتقال کرگیا جس کے بعد نائب صدر گڈلک جو ناتھن جو کہ نائیجیر کے ساتھ والے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک عیسائی تھا وہ صدر بن گیا۔
۲۰۱۱ء میں جب انتخابات ہوئے تو جوناتھن نے یہ معرکہ مار لیا اسی کی کامیابی نے شمال کو ہلا کر رکھ دیا، جن کا خیال تھا کہ صدارت پر حق صرف ان جیسے مسلمانوں کا ہی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ان کا ایک زبانی معاہدہ بھی اسی نوعیت کا تھا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو وفاق اور شمال کے درمیان کھنچاؤ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ اس کے بعد ہزاروں لوگ بوکوحرام کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ شمال کے سیاسی رہنماؤں نے جوناتھن سے مطالبہ کیا کہ وہ بوکوحرام کے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کریں۔
بوکوحرام کی کارروائیاں
بوکوحرام کو شاید اس بات سے غرض ہی نہ ہو کہ نائیجیریا کی سیاست میں کتنے مختلف الخیال لوگ موجود ہیں۔ بوکوحرام کے لوگ سخت گیر ہیں ان کے نظریات بھی الگ تھلگ ہیں اور ان کے حملے بھی وحشیانہ اور قابل مذمت ہیں۔ وہ بے رحم حربے استعمال کرتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان ہو حتیٰ کہ انہوں نے اپنے الگ ہونے والے دھڑے انصار و کے ساتھ بھی یہی کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ امہ کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بوکوحرام نے کسی کو بھی نہیں بخشا، جو ہتھے چڑھا جان سے گیا۔
بوکوحرام اور مایتستائن میں جس کا ظہور ۱۹۸۲ء میں ہوا، کافی قدر مشترک ہیں۔ مایتستائن تحریک کے امام بابومروا ایک خود ساختہ پیغمبر تھے جس کی وجہ سے فسادات پھیل گئے اور پانچ ہزار لوگ مارے گئے۔ اس نے کئی ریاستوں کو متاثر کیا اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ شمالی نائیجیریا کے ایک بڑے تاریخ دان یوسف بالاعثمان نے نائیجیریا میں مذہب کی سازباز پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں اس تحریک پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مایتستائن کی طرح بوکوحرام کو بھی بعض سیاسی طاقتوں نے فنڈنگ کی جس سے یہ تیزی کے ساتھ پھیل گیا۔
بوکوحرام ۲۰۰۹ء سے ہی ملک بھر میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کررہی ہے، جس میں جنوب کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں عیسائی اکثریت ہے۔ تقریباً آٹھ کروڑ جنوب کے لوگوں پر شریعت کا نفاذ کیسے کیا جاسکتا ہے، جہاں کی آبادی سیاسی طور پر باشعور اور متحرک بھی ہے۔ بوکوحرام چاہتی ہے کہ انہیں ڈرایا دھمکایا جائے تاکہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے وہابی اسلام قبول کرلیں۔ وہ نائیجیریا کی ریاست کو کرپٹ اور برائی کا منبع قرار دیتے ہیں۔ بوکوحرام شمالی علاقوں سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو نکال رہی ہے اور انہیں کہا جارہا ہے کہ دوبارہ لوٹ کر نہ آئیں۔
۲۰۱۰ء میں بوکوحرام نے بوچی میں ایک جیل توڑ کر سیکڑوں قیدیوں کو رہا کروا لیا۔ دسمبر میں انہوں نے بم دھماکوں کے ذریعے ۸۰ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے۔ نئے سال کی رات کو انہوں نے ابوجا پر حملے کیے، ۲۰۱۰ء کے بعد پہلے میدوگیری پھر موبی کو میدان جنگ بنا دیا۔ جب ۲۰۱۰ء میں جوناتھن صدر منتخب ہوا تو اس موقع پر بوکوحرام نے شمال کی ریاستوں کے دارالحکومتوں میں دھماکے کیے۔ اسی سال انہوں نے اباجا کے پولیس ہیڈکوارٹر اور اقوام متحدہ کے مشن کو بھی نشانہ بنایا۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں انہوں نے یوبے اور بورنو کی ریاستوں کے چرچوں، مارکیٹوں، ابگو کی ملکیتی مارکیٹوں، شراب خانوں، بیوٹی پارلروں اور ابگو کے ہالوں پر حملے کیے۔ جنوری ۲۰۱۲ء میں نائیجیریا کے میڈیا نے قوم کو خانہ جنگی سے خبردار کرنا شروع کردیا۔ بہار کے شروع ہوتے ہی مغربی شہریوں کے اغوا اور قتل کے واقعات شروع ہوگئے۔ جیلوں، سرکاری عمارتوں اور چرچوں پر خودکش حملے کیے گئے۔ اکتوبر میں موبے کی ایک یونیورسٹی میں ۴۱ طلبہ کو ذبح کردیا گیا۔ صرف ۲۰۱۲ء میں بوکوحرام نے ۱۲۰۰ لوگوں کو ہلاک کیا۔ مگر ۲۰۱۳ء مئی تک بوکوحرام کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد ۴۰۰۰ تک پہنچ گئی۔ بوکوحرام نے اپنی خارجہ پالیسی بنائی اور اپنے جیسی عالمی تنظیموں کے ساتھ رابطے استوار کرلیے۔ انہوں نے فرانس کے زیرانتظام مالی آپریشن میں حصہ لینے والے دو نائیجیرین فوجیوں کو بھی مار ڈالا۔ القاعدہ، اسلامک مغرب اور ان جیسی دوسری تنظیموں کے رابطے بوکوحرام سے ہوگئے اور انہوں نے بوکوحرام کو اپنی چھتری فراہم کی۔ شاید یہ اسی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا کہ بوکوحرام نے یوبے کے ایک اسکول میں جولائی ۲۰۱۳ء میں ۲۹ بچوں کو زندہ جلادیا۔ مئی ۲۰۱۳ء میں صدر جوناتھن نے فیصلہ کیا کہ بوکوحرام کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کیا جائے تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے۔ یہ آپریشن ہنوز جاری ہے اور اس کے نتائج کا بھی کچھ پتا نہیں۔
قطع نظر اس کے کہ موجودہ آپریشن کا فوری نتیجہ نکلتا ہے، اگر شمالی نائیجیریا میں حالات جوں کے توں رہے اور بوکوحرام اور اس جیسی تنظیموں کی کارروائیاں جاری رہیں تو وہ نائیجیریا اور عالمی برادری کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوں گی۔ اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ شمالی نائیجیریا کو ترقی دی جائے اور وہاں جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے۔ کیونکہ شمالی نائیجیریا کے جاگیرداروں اور مغرب کے مفاد پرستوں کے گٹھ جوڑ سے ہی علاقہ پسماندہ ہوتا چلا گیا، جس کا نتیجہ بوکوحرام کی صورت میں نکلا۔ دوسرے لفظوں میں شمالی نائیجیریا کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ نائیجیریا کی مزدور تنظیموں کے نمائندوں کو بھی کوئی کردار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے سرد جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں نائیجیریا کی لیبر کانگریس بھی شامل ہے۔ یہ شمالی نائیجیریا میں جدت کی علمبردار بن سکتی ہیں۔
آنے والا کل
امریکا کے سابق سفارت کار اور کونسل آن فارن ریلیشنز میں نائیجیریا کے امور کے ماہر جان کیمپ بیل کا کہنا ہے کہ بالآخر نائیجیریا کی تقسیم ہو کر رہے گی اور یہ دو الگ ریاستوں میں بٹ جائے گا۔ شاید یہ ہمارا بھی خیال ہو، لیکن ہمیں اس کے لیے جنوبی ایشیا میں ۱۹۴۷ء میں پاک و ہند کی تقسیم کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا جس کی تقسیم مسلمان اور غیر مسلمان کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی بلکہ دس لاکھ لوگ فسادات کی نظر بھی ہوگئے۔ لیکن اس کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں جو اب ایٹمی خطرے کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے تقسیم اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کیونکہ مسئلہ صرف انسانی نہیں بلکہ سلامتی کا بھی ہے۔ پھر تیل کی پیداوار میں دنیا کا دسواں بڑا ملک اور امریکا کو برآمد کرنے والوں میں پانچویں نمبر پر ہونے کے ناطے پورے مغربی افریقا میں اس کی کوئی ہمسری نہیں کرسکتا۔
اسی طرح نائیجیریا میں محققین بہت کم ہیں اور جو باہر سے آتے ہیں وہ یہاں کے روزمرہ معاملات میں پیش آنے والی تکلیفیں نہیں سہار سکتے۔ یہاں عام نائیجیرین باشندوں کے لیے بھی کوئی خاص سہولتیں موجود نہیں۔ نائیجیریا کو آزاد ہوئے ۵۳ سال ہوچکے ہیں مگر ابھی تک یہاں کی اکثر آبادی کو بجلی کی سہولت تک دستیاب نہیں، جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنی ضروریات ڈیزل جنریٹر سے پوری کر رہے ہیں۔ دوسرے لوگ سستے اور چھوٹے چینی جنریٹر استعمال کرتے ہیں جو دن میں ایک یا دو گھنٹے ہی چلتے ہیں۔ ان حالات میں کاروبار کیسے چل سکتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ہر ضرورت کی چیز باہر کے ممالک بالخصوص چین سے منگوائی جاتی ہے۔ یہاں ملنے والی چیزوں کا معیار بھی بہت ناقص ہے مگر پھر بھی یہ یورپ سے مہنگی ہیں۔ جن میں اشیائے خورونوش بھی شامل ہیں۔ یہاں غربت بہت زیادہ ہے، یہاں جو پڑھتا لکھتا ہے باہر چلا جاتا ہے، امریکا میں جتنے نائیجیرین ڈاکٹرز ہیں اتنے نائیجیریا میں نہیں۔ پھر لوگوں کے پاس بالخصوص شمالی نائیجیریا میں نہ تو اچھی تعلیم ہے نہ ہی کسی چیز کی مہارت، یہاں تعلیمی ادارے بہت بعد میں کھلے کیونکہ لوگ ان کے مخالف تھے۔ مسئلہ صرف بوکوحرام کانہیں، بوکوحرام تو ابھی حالیہ سالوں میں سامنے آئی مگر یہاں کے اسلام پسندوں کا رویہ شروع ہی سے ایسا تھا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ مغرب شمالی نائیجیریا کے بارے میں سوچ بچار کرے اور جوکچھ اس نے پہلے کیا ہے اس سے ہٹ کر کوئی نئی حکمت عملی اپنائی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو موجودہ حالات مزید دگرگوں ہو جائیں گے۔
ماحاصل
موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے شمالی نائیجیریا کو خود بھی کچھ کرنا ہوگا اور ان حالات کا دھارا بدلنا ہوگا، جن سے بوکوحرام جیسی تنظیمیں پیدا ہوئی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ تنظیمیں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ امراء کے لیے اور قانون ہے اور غریبوں کے لیے اور۔ اس روش کو بدلنا پڑے گا اور یہ کام باہر سے جاکر کوئی نہیں کرے گا، یہ نائیجیرین کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ تاہم مغرب کی نائیجیریا کے بارے میں یہ روش روایتی ضرور ہے کہ وہ نائیجیریا کے معاملات کو انہی روایتی انداز میں دیکھ رہے ہیں جن کی موجودہ حالات سے کوئی مطابقت نہیں۔ یہ پالیسی برطانوی دور سے ہی چلی آرہی ہے جنہوں نے اسی طرح یہاں پر بالواسطہ حکمرانی کی۔ لیکن اب یہاں پر ایک موثر حکومت کی اشد ضرورت ہے۔ شمالی نائیجیریا کے روایتی امیر اپنے طرزِحکمرانی میں جدت نہیں لانا چاہتے جس کی وجہ سے ہی بغاوت نے جنم لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون نگار نے مغرب پر زور دیا ہے کہ وہ بھی شمالی نائیجیریا کے بارے میں اپنے رویے بدلیں اور ان سیاستدانوں سے بات چیت کریں جو جدت کے حامل ہیں۔ یہ کردار انٹیلی جنس اداروں، فوج اور عام شہریوں کا ہے کہ وہ ایسی جدت پسند قوتوں کی نشاندہی کریں جو ابھی بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جوائنٹ ٹاسک فورس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا یہ مشن پورا کرے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’تجزیات‘‘اسلام آباد۔ اپریل۔جون ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply