
نائیجیریا میں ۲۰۰ لڑکیوں کے اغوا کی خبر دنیا بھر کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی؟ معاملہ تھا ہی ایسا سنسنی خیز کہ نمایاں طور پر شائع کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ ایک طرف تو یہ شمالی افریقا کا مقامی مسئلہ تھا اور پھر لڑکیوں کے اغوا نے واقعے کی سنسنی خیزی میں غیر معمولی اضافہ کیا۔
تیسری دنیا کے کئی انتہا پسند افراد نے بہت سے غیر معمولی بیانات اور سرگرمیوں کے ذریعے تیزی سے عالمگیر حیثیت پائی۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں یہ سلسلہ ہیٹی کے سِفلی علوم کے ماہر پاپا ڈاک سے شروع ہوا تھا۔ حکومت اور نظام سے ٹکرانے والے یہ آمادہ بہ بغاوت قسم کے لیڈر انتہائی بھڑکیلے بیانات، دھمکیوں اور واقعات کے ذریعے بہت تیزی سے نمایاں ہو جایا کرتے تھے۔
نائیجیریا کی تنظیم بوکو حرام کی سربراہی ابو بکر شیکاؤ کے ہاتھ میں ہے۔ اس گروپ نے حال ہی میں اسکول کی ۲۰۰ طالبات کو اغوا کیا۔ اِن لڑکیوں نے وڈیوز کے ذریعے اپنی رہائی کی جو اپیل کی، وہ انتہائی دردناک ہے۔ ابو بکر شیکاؤ نے اِن لڑکیوں کو شادی کے نام پر کنیز کی حیثیت سے فروخت کرنے کی دھمکی بھی دی۔
بوکو حرام نے جو کچھ کیا، وہ مغرب میں ہلچل مچا دینے کے لیے انتہائی کافی تھا۔ امریکا اور یورپ میں حقوقِ نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والی خواتین کے لیے تو یہ موقع تھا ہی ایسا کہ خاموش رہنے سے کام بگڑ جاتا۔ اوباما انتظامیہ کی جو خواتین حقوق نسواں کے لیے متحرک ہیں، اُن میں سوزین رائس اور اقوام متحدہ میں امریکی مندوب سوزین پاورز نمایاں ہیں۔ ان دونوں نے بر وقت ردعمل ظاہر کیا۔ ہیلری کلنٹن بھلا کیسے چُپ رہتیں؟ اُنہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اِس موضوع پر بول کر وہ ووٹرز کی توجہ تیزی سے اپنی جانب مرکوز کرسکتی تھیں۔
بوکو حرام نے جو کچھ کیا ہے اُس حوالے سے بڑی طاقتوں کے درمیان رسّہ کشی شروع ہوگئی ہے۔ چین نے کہا ہے کہ وہ لڑکیوں کا سُراغ لگانے کے لیے خصوصی امداد فراہم کرے گا۔ چین کو تو یہ اعلان کرنا ہی تھا کیونکہ افریقا کے وسائل کے حوالے سے وہ بڑی ریس کا گھوڑا ہے۔ دوسری طرف امریکا نے لڑکیوں کو بازیاب کرانے کے لیے خصوصی فوجی دستہ بھیجنے کا اعلان کردیا۔
معاملہ اسکول کی طالبات کا تھا، اس لیے اس قدر اچھالا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بڑی طاقتیں اپنی اصلیت دکھانے پر تُلتی ہیں، وہاں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا ہے۔ افغانستان میں مٹی کے تودے گرنے سے ہزاروں افراد زندہ دفن ہوگئے مگر اُن کی کسی کو پروا نہیں تھی۔ نائیجیریا میں بوکو حرام نے مختلف واقعات میں سیکڑوں افراد کو قتل کیا لیکن اُس بارے میں کسی نے کب سوچا۔ اور نائیجیریا کی فوج اور پولیس کیا کم سِتم ڈھاتی رہی ہے؟ اِن دونوں نے مل کر ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے مگر اُن کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔
مغرب کے چند عجیب و غریب ذہن اچھی طرح جانتے ہیں کہ افریقا کے بعض حصوں اور بالخصوص صحرائے صحارا کے زیریں خطوں میں لڑکیوں کا اغوا اور انہیں شادی کے نام پر فروخت کرنا اور کنیز بنانا روایت سی ہے۔ اِس معاملے میں اُن سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ واشنگٹن میں کم ہی لوگ سمجھ پائیں گے کہ جنوبی سوڈان میں ڈِنکا اور نوئر قبائل کے درمیان جاری لڑائی دراصل مویشیوں اور عورتوں کے حصول کے لیے جاری روایتی کشمکش کا اظہار ہی ہے۔ امریکا نے جب جنوبی سوڈان کو تیل کی دولت سے مالامال خطے کی حیثیت سے سوڈان سے الگ کرکے باضابطہ ریاست کا درجہ دلایا، تب اِس روایتی لڑائی کو نظر انداز کردیا تھا۔
امریکا تیل اور گیس سے مالامال خطوں کے معاملے میں انتہائی جذباتی واقع ہوا ہے اور فوری ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ نائیجیریا کے سابق نوآبادیاتی مالک برطانیہ نے بھی امریکا کی طرح افریقا کے سب سے بڑے ملک، یعنی ۱۷؍کروڑ کی آبادی والے نائیجیریا میں اسکول کی طالبات کا سُراغ لگانے اور اُنہیں بازیاب کرانے کے لیے خصوصی دستے اور انٹیلی جنس یونٹ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی مشنز کی آڑ میں تیسری دنیا میں مداخلت امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کا پرانا وتیرہ رہا ہے۔ لیبیا اور شام کی مثال بہت نمایاں ہے۔ امریکا نے جبوتی اور یوگنڈا میں بہبودِ عامہ کے نام پر انتہا پسند گروپ لارڈز ریزسٹنس آرمی کے خلاف کارروائی کے لیے وہاں خوب قدم جمائے ہیں۔ باغی گھنے جنگلات میں چُھپے ہوئے ہیں جہاں اُن کا پیچھا کرکے اُنہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ اب امریکا نے جبوتی میں اپنی ایئر بیس کو وسعت دی ہے تاکہ وہاں کم و بیش چار ہزار فوجیوں کو آسانی سے تعینات کیا جاسکے۔ اس اقدام کا ایک بنیادی مقصد ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے۔
نائیجیریا تیل اور گیس سے مالامال ہے۔ اِس کی پیداوار کا ۴۰ فیصد امریکا جاتا ہے۔ یہ امریکا کی توانائی کی ضرورت کا ۱۰ فیصد ہے۔ اب انگولا بھی تیل کے بڑے برآمد کنندہ کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔
نائیجیریا تیل، گیس اور معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود انتہائی افلاس سے دوچار ہے۔ زمین زرخیز ہے مگر بھرپور پیداوار کا حصول ممکن نہیں ہو پارہا۔ تیل اور گیس کے ذخائر پر چند گروپ قابض ہیں۔ ملک کی دولت صرف ایک فیصد لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق نائیجیریا کو تیل اور گیس کی فروخت سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے، وہ پورا کا پورا سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع ہو جاتا ہے یعنی تیل کی برآمدات سے معیشت بہتر ہوتی ہے، نہ نائیجیریا کے عوام کا معیار زندگی بلند ہو پاتا ہے۔ نائیجیریا میں تیل اور گیس کے جتنے بھی ذخائر ہیں، وہ حکومت کی ملکیت ہیں۔ انتہائی طاقتور گورنرز اِس دولت کو اپنی جیب بھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر نائیجیریا کے عوام پر کچھ برستا ہے تو وہ صرف بارش کا پانی ہے۔
شمالی نائیجیریا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو انتہائی عُسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جنوبی نائیجیریا کے عیسائی تیل اور دیگر معدنیات کی آمدنی سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شمالی نائیجیریا کے ہوزا اور فیولانی قبائل کے لوگوں نے ملک کی دولت کو جنوبی نائیجیریا کے لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز کردیے جانے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ جنوبی نائیجیریا کے عیسائیوں کو نو آبادیاتی دور میں مضبوط کردیا گیا تھا۔ انہیں اب بھی بڑی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائیجیریا کو لسانی اور نسلی بنیاد پر پائی جانے والی موجودہ تفریق سے برطانیہ نے ہی دوچار کیا جیسا کہ عراق اور برما میں کیا گیا۔
بوکو حرام نے جو کچھ کیا ہے، وہ انتہائی غلط اور شرمناک سہی مگر اُسے نائیجیریا کے طول و عرض میں پائی جانے والی غیر معمولی کرپشن اور استحصال کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بوکو حرام اسلامی تناظر استعمال کرتی ہے مگر اِس تنظیم کے مقاصد اور کارکردگی میں اسلام نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہ تو عدم مساوات، نا انصافی، کرپشن اور استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ مسلم ممالک میں نوآبادیاتی قوتوں کی پیدا کردہ کرپشن، عدم مساوات اور دیگر خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جب بھی کوئی گروپ کھڑا ہوتا ہے تو اسلامی قوانین کو متبادل کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔
’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا شور مچاکر نائیجیریا کو آنے والی خرابیوں سے بچایا نہیں جاسکتا۔ نائیجیریا کے حکومتی سیٹ اپ کا شمار بدعنوان ترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ اگر ملک کو سلامت رکھنا ہے تو اِس نظام کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہی ہوگا۔
“Boko Haram V. Nigeria’s Crooks”. (“ericmargolis.com”. May 10, 2014)
Leave a Reply