
برٹش سامراجیت نے ہمارے دل و دماغ کو ایسا محصور رکھا تھا کہ ہم اپنا سب کچھ بھول چکے تھے اور اب لگتا تھا کہ دنیا میں جو کچھ بھی کارنامے انجام دیے جارہے ہیں وہ سب انگریزوں کی دین ہیں اور مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن اب یہ اثر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ طب جس کا جنم یونان میں ہوا‘ اس کو مسلمانوں نے اپنی کاوشوں سے پروان چڑھایا جو آج پوری مسلم دنیا سے مفقود ہو چکی ہے اگر باقی ہے اور باقی رکھا ہے تو اس کا سہرا ہندوستان و پاکستان کے سر ہے۔ اب ہم ان بزرگوں کو یاد کر رہے ہیں جنہوں نے علمی دنیا کی بقا کے لیے اہم کارنامے انجام دیے۔ بو علی سینا پر یہ سیمینار اسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔
جب میں جولائی ۲۰۰۳ء میں تہران گیا تو پہلی مرتبہ ڈاکٹر ایم کریم کے ساتھ اپنے چوتھے وطن ہمدان گیا۔ میرے مورث اعلیٰ میر سید علی ہمدانی ۱۳۷۰ میں ہمدان سے ہجرت کر کے سنٹرل ایشیا میں اسلام کی تبلیغ کی خاطر آئے اور پھر کشمیر میں اسی کام میں مشغول رہے۔ ان کے نبیرگان میں میر کمال الدین ہمدانی مغل بادشاہوں ہمایوں کے عہد میں جلالی تشریف لائے اور کبرویہ سلسلہ کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح اس خطہ میں تبلیغِ اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ میر کمال الدین ہمدانی نے کول (علی گڑھ) میں کبرویہ سلسلہ کی بنیاد کیوں نہ ڈالی لیکن بعد میں مطالعہ سے پتا چلا کہ کول تو چشتی صوفیاں کی ولادت میں تھا۔ ان صوفیا میں بڑی تعداد ان کی تھی جن کا تعلق سادات سے تھا۔ اس لحاظ سے سادات سے سینٹرل ایشیا اور ہندوستان میں تبلیغِ اسلام کے لیے زبردست کارنامے انجام دیے ہیں۔ ہندوستان میں جن مقامات پر ان صوفیا نے قیام کیا وہاں صرف قلعہ تھا اور سلاطین دہلی کی فوج تھی اور ان کا کوئی تعلق مقامی لوگوں سے قطعی نہیں تھا۔ ان صوفیا نے مقامی لوگوں سے تعلقات قائم کیے جس سے ان قصبات و شہروں کی سماجی و ثقافتی شکل ہی بدل گئی۔ ۱۳۷۰ء کے بعد میر سید علی ہمدانی کی نسل مسکونہ جلالی ضلع علی گڑھ کا میں پہلا شخص تھا جو ۲۰۰۳ء میں ہمدان گیا۔ وہاں آقائی عبداﷲ عطائی‘ پرووائس چانسلر دانش گاہ پیام نور‘ ہمدان اور دکتور منصور غلامی وائس چانسلر بو علی سینا یونیورسٹی ہمدان سے ملاقات ہوئی۔ پھر ان حضرات کے ساتھ آقائی علی اصغر زبردست‘ گورنر ہمدان سے ملنے گئے۔ انہوں نے مجھے بو علی سینا سیمینار میں آنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ میر سید علی ہمدانی پر بھی ہمدان میں سیمینار ہونا چاہیے انہوں نے وعدہ کیا کہ یہ سیمینار ۲۰۰۵ء میں ہمدان میں ہو گا۔
بو علی سینا سیمینار میں شرکت کے لیے ہم لوگ ۲۱ اگست ۲۰۰۴ء کو دوپہر سوا بارہ بجے مہمان ایر سے مہرآباد پہنچے۔ وہاں بو علی سینا یونیورسٹی کے لوگ موجود تھے ان کے ساتھ ہم لوگ ہوٹل استقلال پہنچے۔ ہندوستان سے جانے والے لوگوں میں حکیم سید محمد کمال الدین حسین ہمدانی‘ حکیم سید ظل الرحمن‘ ڈاکٹر چندر شیکھر‘ ڈاکٹر علیم اشرف اور میں تھا۔ پہلے دو لوگوں کا تعلق طب سے اور بعد کے دو لوگوںکا تعلق فارسی ادب سے اور میرا تعلق تاریخ سے۔ ایک بات کی کمی رہی کہ ایک یا دو لوگوں کو عربی ادب سے بھی ہونا چاہیے تھا اس لیے کہ بو علی سینا کا تمام تر کام عربی زبان میں ہی ہے‘ انہوں نے کوئی کتاب فارسی زبان میں نہیں لکھی۔ شام کو ہوٹل استقلال سے ہمدان کے لیے روانہ ہوئے اور رات کو ۱۲ بجے وہاں پہنچے وہاں قیام کا انتظام ہوٹل ارم میں تھا۔
۲۲ اگست کی صبح بو علی سینا یونیورسٹی پہنچے وہاں افتتاحی جلسہ ہونا تھا۔ ساڑھے نو بجے افتتاحی جلسہ کا آغاز ہوا اور آقائی سید محمد خاتمی‘ صدر جمہوریہ اسلامی ایران نے حجۃ الحق بو علی سینا کی قبر کی گل پوشی کی۔ بو علی سینا کے مقربے کی تعمیر زیادہ پرانی نہیں۔ اس کے فن تعمیر میں شرقیت کے بجائے مغربی تعمیر کی خصوصیات غالب ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت ایران پوری طرح عربی فکر سے متاثر تھا۔ معلوم نہیں اس جدید عمارت سے پہلے مقبرہ کس طرح کا بنا ہوا تھا۔ فن تعمیر بھی تاریخ کا ماخذ ہے جو اس دور کے ذہن و فکر کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی دن سہ پہر تین بجے سے اکیڈمک سیشنز کی ابتدا ہوئی اور یونیورسٹی کے چار بڑے کمروں میں یہ اجلاس شروع ہوئے۔ ان نشستوں میں طلبا طالبات‘ اساتذہ اور بزرگ دانشوروں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور صبح سے لے کر رات تک تینوں دن لوگ موجود رہے۔ یہ بات ایرانیوں کی علم دوستی کی عکاسی کرتی ہے۔ ہندوستان میں میرا تجربہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی یونیورسٹی‘ جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘ علی گڑھ یونیورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں رہا ہے‘ جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت کم دانشور سیمینار کے اکیڈمک سیشنز میں موجود رہتے ہیں اور دوپہر کے کھانے کے بعد تو شرکا کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔ بو علی سینا یونیورسٹی کا انتظام ہر نوعیت سے بہت اچھا تھا۔
اس بین الاقوامی سیمینار میں ہندوستان‘ جاپان‘ چین‘ امریکا‘ شام‘ روس‘ ازبکستان اور فرانس کے دانشور حضرات نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ایران کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے بھی مقالے پیش کیے۔ ۲۳ اگست کو حکیم سید محمد کمال الدین حسین اور حکیم سید ظل الرحمن کو بو علی سینا ہر سب گارڈن جانے کی دعوت دی گئی۔ وہاں دانشوروں کے ساتھ ایران میں طب کے احیا کے سلسلے میں بات چیت ہوئی۔ اس لیے کہ تمام مسلم دنیا میں طب کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ صرف ہندوستان و پاکستان میں اس پر کام ہوا اور متعدد و طبیہ کالج موجود ہیں‘ اسی کے ساتھ طبی دوائوں کی کمپنیاں بھی موجود ہیں۔ حکومت ہند کی طرف سے سینٹرل کونسل آف ریسرچ ان یونانی میڈیسن بھی قائم ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ اب ہندوستان میں گنتی کے چند اطبا رہ گئے ہیں جو طب کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ موجودہ ہندوستانی اطبا فارسی نہیں جانتے انہوں نے طب اردو میں پڑھی اور پڑھائی ہے۔ ایرانی دانشور اردو سے واقف نہیں تو بات چیت کیسے ہو گی؟ اس دن شام کو میں اور میرے والد حکیم سید محمد کمال الدین حسین آقائی عبداﷲ عطائی کے ساتھ گنبد علویان گئے جہاں ہمارے بزرگوں نے عبادت کی تھی۔
۲۴ اگست کی صبح ہندوستانی دانشوروں کی آقائی علی اصغر زبردست گورنر ہمدان سے ملاقات کی دعوت ملی۔ انہوں نے بھی ایران میں طب کے احیا کے سلسلے میں گفتگو کی اور ہندوستانی اطبا سے ایرانی دانشوروں کی اس سلسلے میں مدد کرنے کے لیے کہا تھا کہ یہ کام جلد شروع ہو سکے۔ اسی روز شام کو بو علی سینا سیمینار کا اختتامی جلسہ ہوا جس کی صدارت ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر آقائی غلام علی حداد عادل نے کی اور نہایت جامع تقریر فرمائی۔ اسی کے ساتھ حکومت ایران کے اس فیصلے کا اعلان کیا گیا کہ اب حکومت ایران طب کے فروغ کے لیے کام کرے گی۔ دوسرے روز یعنی ۲۵ اگست کو ہم تہران واپس آگئے اور ہوٹل استقلال میں قیام کیا۔ شام کو آقائی محمد حسن مظفری ڈائریکٹر سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی ہم لوگوں سے ملنے ہوٹل تشریف لائے اگلے روز وہ ہمیں امام زادہ صالح فرزند امام موسی کاظم کے روضے کی زیارت کے لیے لے گئے۔ اس کے اگلے روز آقائی مظفری کے ساتھ ہم لوگ حضرت معصومہ قم کے روضے کی زیارت کے واسطے گئے۔ وہاں ہندوستان کے عالم جناب مختار حسین صاحب سے ملاقات ہوئی آج کل ان کا قیام قم میں ہے۔ روضہ کی زیارت کے بعد آقائی مظفری آیت اﷲ بروجردی اور دوسرے علما کی قبور کی زیارت کرائی۔ میں نے آقائے مظفری سے کہا کہ بچپن میں میں نے آیت اﷲ برو جردی کا فوٹو اپنے نانا سید مستجاب حسین کے گھر دیکھا تھا جو دالان میں نصب تھا۔ ان علما کا کیا احترام تھا کہ ہندوستان کے ایک قصبہ تک میں لوگ مان کا فوٹو رکھتے تھے۔ قم سے واپسی پر ہم لوگ مہمان سرائی دانشگاہ پیام نور تہران میں مقیم رہے یہ انتظام آقائی دکتور محمد رضا نصیری وائس چانسلر دانشگاہ پیام نور نے ازراہِ کرم فرمایا تھا۔ ۲۹ اگست کی صبح مہرآباد ایئرپورٹ سے روانہ ہو کر تقریباً دو بجے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ ہم لوگ تمام ایرانی بزرگوں اور دوستوں کے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس سیمینار میں آنے کی دعوت دی اور اتنا اچھا انتظام کیا کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ان احباب کا شکریہ ادا کر سکیں۔
اس سیمینار میں میرے مقالے کا موضوع تھا بو علی سینا کی وراثت کی ہندوستانی دانشوروں میں اتباع۔ اسلام نے حصولِ علم پر کافی زور دیا ہے اور مسلمانوں نے حصولِ علم کے لیے ازحد کوششیں کیں‘ جس کے نتیجے میں بو علی سینا جیسے دانشور پیدا ہوئے۔ لیکن بعد کے دور میں مسلمانوں نے علومِ مشرقی کے مقابلے میں علومِ معقولات پر زیادہ زور دینا شروع کیا اور نہ صرف علومِ معقولات سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ اس کی مخالفت میں تحریک بھی چلائی۔ ان علما کے خطوط‘ کتابیں اور ان کے اشعار اس کابین ثبوت ہیں۔ علما و مشائخ کی ایک بڑی اکثریت نے علوم معقولات اور علمائے معقولین کی مخالفت کی تھی۔ مشہور مورخ مولانا ضیا الدین برنی کا کہنا تھا کہ فلسفیوں کو دہلی سلطنت سے باہر نکال دینا چاہیے۔ یا شیخ شہاب الدین سہروردی کا وہ شعر کہ ان علما کو کسی طرح سمجھایا جائے کہ تمام امراض کا علاج یہ قبر ہے۔ برنی نے بو علی سینا کے لیے لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے کہا تھا کہ ’’بو علی سینا اگر میری حدود ریاست میں آجائے تو اس کی بوٹی بوٹی علیحدہ کرا دوں اور اس کا گوشت گدوں کو کھانے ڈال دوں‘‘۔ لیکن قدرت کا نظام دیکھیے کہ بو علی سینائی دانشوری کا سکہ آج پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ اس کی کتابوں کے تراجم زیادہ تر یورپین زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یورپین دانشوروں نے بو علی سینا کی تحقیقات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان ہی تحقیقات کا نتیجہ دل کی بائی پاس سرجری ہے اور ان ہی علما مشائخ کے ورثا قبر کو دور رکھنے کے لیے ہارٹ سینٹر میں دل کی بائی پاس سرجری کرا رہے ہیں۔ بو علی سینا کے ان ہی کارناموں کو سراہتے ہوئے یونیسکو بھی ایران کے ساتھ اس انٹرنیشنل سیمینار میں برابر کا شریک تھا۔
دہلی سلاطین کے دور میں علوم معقولات کا مرکز بن کر نہ ابھر سکا۔ محمد بن تغلق (۵۱۔۱۳۲۵) نے دہلی سلطنت میں علومِ معقولات کے احیا کے لیے کوشش کی لیکن علما مشائخ کی ایک بڑی اکثریت نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن ۱۵۵۵ء میں ایران کی مدد سے مغلوں نے ہندوستان میں فتح حاصل کی۔ یہ فتح سیاسی طور سے اہمیت کی حامل تھی لیکن یہ فتح علومِ معقولات کے ہندوستان میں احیا کے لیے ایک نیا پیغام لے کر آئی۔ اب ہندوستان کے دروازے ایرانی علما اور دانشوروں کے لیے کھول دیے گئے۔ یہ علومِ معقولات کے ماہر تھے جن میں اہم کردار میر فتح اﷲ شیرازی نے انجام دیا۔ مغل بادشاہ اکبر نے بھی پوری طرح علما معقولین کی سرپرستی کی‘ جس کے نتیجے میں مدارس کے نصاب میں اہم تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔ سلطنت میں مدارس کی کتابیات میں بو علی سینا کی کتابوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ شیخ مبارک نے آگرہ میں اپنے مدرسے سے بو علی سینا کی کتابوں کو پڑھانا شروع کیا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply