سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے ۵ مارچ کو یہ کہتے ہوئے اپنے سفیروں کو قطر سے نکال لیا کہ اُس نے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی اجازت نہ دینے سے متعلق ’’خلیجی مجلس تعاون‘‘ کے منشور کی ایک شق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ غیر معمولی اقدام خلیجی مجلس تعاون اور علاقائی توازن طاقت میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
خلیجی مجلس تعاون کے ارکان کے درمیان اختلافات ایک زمانے سے پنپ رہے ہیں اور اب معاملہ نقطۂ کھولاؤ تک جا پہنچا ہے۔ دسمبر میں خلیجی مجلس تعاون کا سربراہ اجلاس کویت میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے شام اور دیگر ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی کے معاملے پر قطر کے خلاف آواز اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ مگر پھر میزبان ملک کو پریشانی سے بچانے کے لیے اس ارادے پر عمل سے گریز کیا تاہم نجی طور پر قطر کو انتباہ کرنے سے اجتناب نہیں برتا گیا۔ اس سے قبل ریاض میں سعودی قیادت نے قطر کے نئے امیر شیخ تمیم کو بدلتی ہوئی صورت حال کے حوالے سے متنبہ کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ اس ملاقات کا اہتمام کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد نے کیا تھا۔ شیخ تمیم سے کہا گیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں کریں اور بالخصوص شام میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپوں کی حمایت اور امداد سے گریز کریں۔ ۳۳ سالہ شیخ تمیم نے ایسا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم انہوں نے کچھ وقت بھی مانگا تھا تاکہ معاملات کو بہتر انداز سے درست کیا جاسکے۔
شیخ تمیم نے جو کہا تھا اس پر عمل کیا مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کا ملک شام کے معاملات میں ہار چکا ہے تو انہوں نے اخوان المسلمون اور خطے میں اس سے تعلق رکھنے والی تنظیموں سے رابطے بڑھانے پر توجہ دی۔ ان میں حماس بھی شامل تھی۔ ساتھ ہی قطر نے ایران اور ترکی سے تعلقات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی۔ یمن میں الحوثی باغیوں اور لبنان میں حزب اللہ ملیشیا سے رابطے بڑھائے گئے۔ یہ سب کچھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ناخوش کرنے کے لیے کافی تھا۔ یہ سب کچھ اس اعتبار سے ناقابل یقین تھا کہ سعودی عرب کی قیادت مصر میں اخوان المسلمون کے اثرات زائل کرنے اور وہاں غاصب فوجی حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی کی صدارت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اس بدلتی ہوئی صورت حال میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی قیادت نے اگر خلیجی مجلس تعاون کا قامت گھٹانے کی کوشش کی ہے تو یہ کچھ ایسا حیرت انگیز نہیں۔ شیخ تمیم کے پاس دو راستے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔ یا تو وہ سعودی عرب اور اس کے ہم خیال ممالک سے ہم آہنگ ہوجائیں مگر ایسا کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہی ملک میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے خلاف جائیں اور اپنی مرضی سے نئی خارجہ پالیسی ترتیب دیں۔ ایسی صورت میں بھی ان کے لیے خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا انتہائی دشوار ہوگا۔ اگر وہ اپنے ملک کو خلیجی مجلس تعاون کے اثرات کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کریں گے تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔
پہلا راستہ شیخ تمیم کے لیے بہت خطرناک ہوگا کیونکہ انہیں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کی شدید مخالفت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ ان کا خاندان سعودی اثرات کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ ساتھ ہی انہیں سابق وزیر اعظم حماد بن جاسم الثانی کی مخالفت بھی مول لینی پڑے گی۔ ملک کے معاملات میں حماد بن جاسم الثانی کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہے۔ دوسرا راستہ بھی آسان نہیں۔ سعودی عرب اور اس کے حلیفوں سے دور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قطر اور ایران کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ دونوں کے معاشی تعلقات پہلے ہی وسیع ہیں۔ ساتھ ہی قطر کو اومان سے قریب ہونا پڑے گا۔ اومان اور ایران کے تعلقات پہلے ہی بہت مستحکم ہیں۔ خلیجی مجلس تعاون نے ایران کے بارے میں جو پالیسی اپنا رکھی ہے، اس سے انکار کرنے والا قطر واحد ملک ہے۔ اگر قطر نے ایران اور اومان کی جانب جھکنا گوارا کرلیا، تو پھر اس کے لیے دوبارہ خلیجی مجلس تعاون کی طرف پلٹنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
اگر قطری قیادت ایران اور اومان کی طرف جھک گئی تو خلیجی مجلس تعاون کی موت واقع ہوگی اور خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کی پالیسی بھی شدید متاثر ہوگی۔ اس کے بیشتر منصوبوں پر نظر ثانی لازم ہوگی۔ امریکا نے خطے میں سلامتی یقینی بنانے کے لیے خلیجی مجلس تعاون کے ارکان سے مل کر چند اقدامات کیے ہیں۔ خلیجی مجلس تعاون کے ارکان میں بڑھتے ہوئے اختلافات سے امریکا کے لیے اپنے تمام منصوبوں پر عمل انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں امریکا کے لیے بہت سے ممالک سے کنارہ کشی لازم ہوگی۔ واشنگٹن اس مرحلے پر شاید ایسا کچھ نہ چاہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قطر کے ایران اور اومان کی طرف جھکنے سے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کا دائرہ محدود رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا اور خطے میں اس کی موجودگی برقرار رہے گی۔
ایک بڑی دشواری یہ بھی پیدا ہوگی کہ امریکا کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اسٹریٹجک تعلقات استوار رکھنا مشکل تر ہوجائے گا۔ امریکا کے اسٹریٹجک تعلقات سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے یعنی تینوں سے ہیں اور ان کے درمیان اختلافات اس کے ان تینوں ممالک سے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ یہ صورت حال منظر نامے کو انتہائی پیچیدہ بنادے گی۔ امریکا اور قطر کے اسٹریٹجک تعلقات انتہائی وسیع ہیں۔ قطر نے العبید ایئر بیس امریکا کو دے رکھی ہے۔ امریکا وہیں سے کمبائنڈ ایئر اور اسپیس آپریشنز سینٹر بھی چلاتا ہے۔ عراق اور افغانستان کے خلاف فضائی کارروائیاں اسی مرکز کے ذریعے کی جاتی رہی ہیں۔ اگر قطر سے تعلقات متاثر ہوئے تو امریکا کے لیے خطے میں مشکلات بڑھیں گی۔ اگر امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کہنے پر قطر سے تعلقات ختم یا کم کرنے پر رضامندی ظاہر کر بھی دی تو امریکی محکمہ دفاع ایسا کرنے پر کسی طور راضی نہ ہوگا۔
قطر سے سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں کا واپس بلایا جانا بدلتی ہوئی صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے اور بحران کو حل کرنے کے حوالے سے کوششیں بھی تیزی اختیار کریں گی مگر ہمیں یہ نکتہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ خطے میں اب بیشتر ممالک اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اتحاد و اتفاق کا تصور دھندلا ہوتا جارہا ہے۔
(“Break Up in the Gulf”…”Foreign Affairs”. March 6, 2014)
Leave a Reply