
برطانیہ کے لوگوں نے کبھی یہ بات اپنے ذہن سے نہیں نکالی کہ وہ کبھی ایک عظیم سلطنت تھے۔ جب براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کا کاندھوں تک کا مجسمہ نکال باہر کیا تب برطانیہ کے لوگ بھڑک گئے تھے اور ایک چھوٹا موٹا سفارتی بحران نمودار ہوگیا تھا۔ لندن کے سابق میئر اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھنے والے بورس جانسن نے اس عمل کو غداری کے مترادف قرار دیا تھا۔ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے تھے کہ ممکن ہے براک اوباما نے اپنے بزرگوں سے کوئی ایسی ویسی بات سن رکھی ہو اور برطانیہ کے لیے اپنی شدید ناپسندیدگی کا مظاہرہ کرنے اور برطانوی باشندوں سے بدلہ لینے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو! اس نوعیت کا الزام عائد کرنے سے اور کچھ ظاہر ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، یہ بات ضرور کھل کر سامنے آگئی کہ برطانیہ اب بھی اپنے شاندار ماضی کو بھولا نہیں اور بہت حد تک ذہنی سطح پر اسی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔
برطانیہ کے لوگوں نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دے کر یہ ظاہر کردیا ہے کہ برطانیہ اب بھی اپنے ماضی کو یاد رکھے ہوئے ہے اور اس عظمت کو بحال کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ برطانیہ میں حالیہ ریفرینڈم کے لیے جو مہم چلائی گئی، اس میں یہ نکتہ بھی بیان کیا گیا کہ ہمیں ووٹ یورپی یونین سے الگ ہونے کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے دینا ہے۔ گویا اہلِ برطانیہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پورے یورپ کی قیادت کے اہل ہیں اور ایک بڑی سلطنت دوبارہ قائم کرکے پوری دنیا کو بتاسکتے ہیں کہ وہ نہ ہوں تو یورپ کچھ بھی نہیں۔
برطانیہ میں لوگ خواہ کچھ سوچتے ہوں، ہمارا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اور بہت کچھ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات بالکل واضح ہوں تاکہ کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان تر ہو جائے۔ سب سے پہلے تو ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ برطانیہ نے یورپی یونین کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بعد ہمیں اپنا ہر کام پوری صراحت اور تیزی کے ساتھ کرنا ہے۔ امریکا میں لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے قائدین جب جمع ہوتے ہیں تو ان کے لیے کسی بہتر فیصلے پر پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔
اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حوالے سے مذاکرات طول نہ پکڑلیں۔ اگر ایسا ہوا تو کئی بحران ابھر کر سامنے آئیں گے۔ ایک طرف تو یونان کا بحران ہوگا اور دوسری طرف تارکین وطن کا بحران جس نے پہلے ہی یورپ کے لیے پریشانی کا سامان کر رکھا ہے۔ معیشتیں بحران کا شکار ہیں۔ اور پھر دہشت گردی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ہر چند ماہ کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہان ملتے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی واضح نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے۔ ملاقات ہوتی ہے، مختلف امور پر بات بھی ہوتی ہے مگر جو فیصلے کیے جانے چاہییں وہ نہیں کیے جاتے اور معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
برطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یورپی یونین کو اپنی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے یعنی کوئی رکن الگ ہوا ہے اور رکن بھی کوئی اور نہیں، برطانیہ ہے جو واضح طور پر بڑا ملک ہے۔ یورپی کونسل میں برطانیہ ۹ سال رہا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ برطانوی قائدین کو الگ ہونے کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے کس قدر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ دونوں اب بھی بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ دونوں کو اشیا و خدمات کے حوالے سے ایک دوسرے پر غیر معمولی حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین سے الگ ہونے کے عمل میں برطانیہ ہم سے بہت سی مراعات چاہے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ یہ سودا گھاٹے کا نہ ہو تاکہ برطانوی باشندوں کو یہ محسوس ہو کہ حکومت نے ڈھنگ کا کوئی کام کیا ہے۔ اگر ہم نے برطانیہ کو اس سودے میں منافع کمانے کا موقع فراہم کیا تو یورپی یونین میں ایسے عناصر کو مزید تقویت ملے گی، جو مل کر رہنے کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ یورپی یونین ختم کردی جائے۔ قوم پرست اور پوپیولسٹس تو پہلے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ یورپی یونین اب کوئی پرکشش اور زیادہ قابل عمل تصور نہیں اور یہ کہ اس سے جان چھڑا لینا ہی گھاٹے سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ برطانیہ سے یورپی یونین کا تعلق مکمل طور پر ختم ہوجائے۔ ہم برطانیہ سے کس طور ڈیل کیا کریں گے، یہ بعد میں طے کرلیا جائے گا۔ اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس فیصلے پر بھرپور طریقے سے عمل بھی کرلیا جانا چاہیے۔ اس معاملے کو طول دینے سے یورپی یونین کی ساکھ کمزور ہوگی۔ یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے اداروں اور میکینزم میں اصلاح لازم ہے۔ بیشتر ادارے نئے زمانے کے تقاضوں کو نبھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اداروں کی مجموعی اصلاح پر توجہ دینا ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی کوئی ایسا کام کرسکیں گے جو یورپی یونین کو مزید استحکام کی طرف لے جائے۔ پالیسیاں بھی زمانے کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ پالیسیوں میں کس حد تک تبدیلیاں کی جائیں تاکہ دیگر خطوں سے ہمارے روابط بہتر ہوں اور ہم زیادہ عمدگی سے کام کرسکیں۔ برطانیہ کے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ بدلتے ہوئے وقت کے پیدا کردہ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی صلاحیت یورپی یونین کے ارکان میں کس حد تک ہے۔ ہمیں بھی ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہیں۔
یورپی یونین میں مالیاتی بحران کو کم و بیش ۹ سال ہوچکے ہیں مگر اب تک ہم اپنے بینکوں کو مضر اثرات سے پاک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ معیشتوں کو مستحکم کرنے کا عمل اب تک مکمل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکا ہے۔ یورپی یونین کے ارکان میں معاشرتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ آبادیوں کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے۔ ثقافتی سطح پر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر یورپی طاقتیں یہ سمجھ رہی تھی کہ تاریخ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے اور یہ کہ اب ہم عالمی قیادت کے اہل ہیں۔ یعنی دنیا کو جو کچھ بھی چاہیے، یورپ سے ملے گا۔ علم و حکمت سے ایجادات، حکمرانی کے اطوار اور فیشن تک سب کچھ یورپ دینا چاہتا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم حقیقی اور حتمی فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تو محض دھوکا تھا، آنکھوں کا فریب تھا۔ دور چمکتی ہوئی ریت کو ہم پانی سمجھ کر لپک رہے تھے۔ آج کا یورپ مشکلات سے دوچار ہے، اندر بہت کچھ ہل چکا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کر رہا ہے۔ شام میں داعش کے خلاف باضابطہ لڑنا تو بہت دور کی بات ہے، ہمارے پاس تو اب تک لڑائی کو ڈھنگ سے شروع کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن جو اقدامات کر رہے ہیں ان کا بہتر ڈھنگ سے جواب دینا فی الحال ہمارے بس میں نہیں۔ ہمیں اس حوالے سے اچھا خاصا ہوم ورک کرنا ہے۔ آج بھی ہم اپنے بہت سے مسائل کے موثر حل کے لیے امریکا کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا جاتا ہے۔ امریکیوں کو بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ یورپ اب ایک اصلی ٹربل میکر ہے۔ جب بھی معاملات کچھ آگے بڑھتے ہیں، یورپ کی طرف سے کچھ کیے جانے کی توقع کی جاتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ یورپی قائدین تذبذب کا شکار ہیں۔ اس تذبذب نے معاملات کو خطرناک حد تک الجھا دیا ہے۔ یورپ کے بہت سے معاملات کو درست کرنے کے لیے امریکا کو براہِ راست میدان میں آنا پڑتا ہے۔ یوکرین کے بحران میں امریکا نے مرکزی کردار ادا کیا۔ امریکا کی معاون وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے اگر یوکرین کے بحران کے حوالے سے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کو یکسر ناکام قرار دیا تو اس میں کچھ حیرت کی بات ہے نہ افسوس کی۔ انہوں نے یورپی یونین کی متذبذب پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی۔ مگر اصل وار تو خود صدر نے کیا جب انہوں نے یورپی یونین کے ارکان کو ’’فری رائڈر‘‘ قرار دیا۔ یعنی ان کی نظر میں یورپی یونین کے ارکان ایسے بچے ہیں جو جھولے سے لطف اندوز تو ہونا چاہتے ہیں مگر ٹکٹ کی رقم ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے چرچل کا مجسمہ ہٹانا ان ریمارکس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ شام میں شدید بحران ہے۔ مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی آمریت برقرار ہے۔ یوکرین پر روس نے حملہ کیا اور کرائیمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ یہ تمام ایسے بحران ہیں جن سے یورپی یونین کا بالکل نزدیک کا تعلق ہے۔ ان سب کے لیے یورپی یونین کو ذمہ داری قبول کرنی ہی چاہیے۔
برطانیہ کی شکل میں ہمارا سب سے مضبوط عسکری دوست الگ ہوا ہے۔ فرانس کے مقابلے میں یورپ کے دفاعی اخراجات ۱۰؍ ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ خارجہ پالیسی اور دوسرے بہت سے معاملات میں برطانیہ کی مہارت سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ برطانیہ کا ہم سے الگ ہونا کسی بھی اعتبار سے ہمارے حق میں نہیں مگر ہمیں یہ صورت حال اچھی طرح برداشت کرنی ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھنا کسی بھی طور ہمارے حق میں نہ ہوگا۔ ہمیں اب اپنے لیے نیا لائحۂ عمل طے کرنا ہے۔ برطانیہ کا ہم سے الگ ہونا یورپی یونین کے باقی ۲۷؍ ارکان کے لیے حقیقی نوائے بیداری ہے۔ اب ہمیں جاگنا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمارا مقدر مشترکہ ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر غیر معمولی انحصار کرنا ہے۔ مل کر آگے بڑھنے ہی میں ہماری بھلائی ہے، محفوظ مستقبل ہے۔ ایک اور بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے اور وہ بات یہ ہے کہ جہاں بھی اصلاح کی ضرورت ہے ضرور کی جائے اور اس میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔
ماضی کی طرف دیکھنے سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ جو ہوچکا ہے وہ ہوچکا ہے، وہ دوبارہ نہیں ہوسکتا۔ اب ہمیں مل کر خارجہ پالیسی تیار کرنی ہے۔ اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی ہے۔ امریکا نے بحرانوں سے بہتر امکانات کشید کرنے کا فن سیکھ رکھا ہے۔ ہمیں بھی یہ فن سیکھنا ہے۔ کسی بھی مشکل صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فن ہمیں آنا ہی چاہیے۔ ایک کامیاب طاقت ہی ہے جو ہر طرح کی صورت حال میں اپنے لیے امکانات تلاش کرسکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“‘Brexit’ is the European Union’s chance to clean up its act”. (“Los Angeles Times”. June 26, 2016)
Leave a Reply