
جمعہ کے دن یورپی یونین میں سناٹا اور گھمبیر خاموشی کی کیفیت طاری تھی، ا س وقت یہ جاننا تقریباً ناممکن تھا کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج یورپ کے حق میں ہوں گے یا خلاف، لیکن برطانوی سفارتکاروں کی یورپ کے خلاف تائید نے مستقبل کے خدو خال کو کسی حد تک واضح کردیا تھا ۔
برطانوی ریفرنڈم کے نتائج سے برطانیہ سمیت عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوگی، یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد برطانیہ کے سامنے یورپ سے ۴۳ سال بعد باضابطہ علیحدگی، نئی حکومت کا قیام، آزاد ریاست میں نسل پرستوں کے غیر برطانوی شہریوں پر حملے سے نمٹنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے مدد لینے سمیت کئی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ سب برطانیہ کے اندرونی مسائل ہیں لیکن خارجہ پالیسی کے حوالے سے برطانیہ کے لیے تین سوال اہم ہیں۔
۱۔ برطانوی ریفرنڈم، یورپی یونین پر کس طرح اثر انداز ہو گا؟
یورپی یونین کو مشترکہ منڈی سے دوسری بڑی معیشت کی روانگی کے بعد آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔سیاسی طور پر اس کے زیادہ خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔برسلز کے لیے یورپی یونین میں ناراضی محسوس کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کو برسلز نے ہوا دی ہے،برسلزنے ہی برطانوی ریاست کی خودمختاری کی خلاف ورزی اوریورپی یونین سے نکلنے کی سوچ پیدا کی اور وہ ہی اس کا محرک بنا ہے۔ بریگزٹ کے حق میں خیالات کا اظہار دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن اور پولش کے سابق وزیر اعظم یروسلو کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے بہت بڑے طبقے نے بھی کیا تھا۔ یورپ کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ یورپی یونین میں شامل بقیہ ممالک کو ساتھ رکھنا چاہتا ہے یا ان کو بھی رخصت کر دے گاکہ وہ سرمایہ دار ملک کی انفرادی حیثیت بحال کر لیں اور ان ممالک کو یورپی یونین میں شامل رکھنا کہیں نمائندہ ممالک کے امور میں بے جا مداخلت تو نہیں ہے، یہ بات اب سامنے آچکی ہے کہ یورپ کی قیادت کا بوجھ فرانس کے صدر فرانکس ہالینڈے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل کے سر پر ہے، جو خود اپنے ملک میں ۲۰۱۷ء کے انتخابات کے علاوہ دوسرے اور بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہیں ۔
یہ ایک بڑا اور یقینی نتیجہ ہے کہ بریگزٹ کے بعد نیٹوزیادہ اہم اور مضبوط کردار اداکرے گا،برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد نیٹو واحد کثیرالجہتی ادارہ ہوگا جس میں یورپ کی بڑی طاقتیں برطانیہ کے ساتھ اکٹھے موجود ہوں گی، یورپ کا کوئی ملک بھی نیٹو سے علیحدہ ہونا نہیں چاہے گا، وارسا میں نیٹوکا اہم اجلاس ہوگا، جس میں نیٹو یورپ کے اتحاد اور ہم آہنگی سے متعلق پوری دنیا کوایک واضح پیغام دے گا۔
۲۔بریگزٹ امریکا پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟
اوباما نے اپریل میں برطانیہ کا دورہ کیا اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے خلاف مہم میں ڈیوڈ کیمرون کی مدد کی۔ براک اوباما نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دے گا، انہوں نے اس صورت میں ٹرانس پیسیفک اور ٹرانس اٹلانٹک تجارتی معاہدے کو ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا، دونوں تجارتی معاہدوں کو امریکا میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آزاد تجارت کے حوالے سے بھی بحث کا آغاز ہوچکا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد آزاد منڈی تک برطانیہ کو اسی طرح رسائی حاصل رہے گی یا اس کے لیے یہ سہولت ختم کر دی جائے گی۔
یہ بات صاف ظاہرہے کہ برطانیہ،یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد امریکا سے مضبوط تعلقات قائم کرے گا، بریگزٹ یورپی یونین کے حوالے سے امریکا کے لیے منفی نتائج پیدا کرے گا، امریکا کے یورپی یونین سے بہت اچھے تعلقات نہیں رہ پائیں گے،ماضی میں یورپ اور امریکا کے تعلقات کو بہتربنانے کے لیے برطانیہ نے اہم کردار ادا کیا تھا، خاص طور سے اس وقت جب امریکا کے تعلقات برلن اور پیرس سے کشیدہ تھے۔ ایران اور روس پر پابندیوں کی حکمت عملی میں امریکا کے لیے یورپ کی حمایت حاصل کرنا اہم ہے ہر چھ مہینے بعد ان ممالک پر پابندیوں کی حمایت کے لیے ووٹنگ کی جاتی ہے، جس میں یورپ سمیت ۔۲۸ممالک سے رائے لی جاتی ہے، برطانیہ سے یورپی یونین کی علیحدگی کے بعد امریکا کا یورپ میں اثرورسوخ کم ہو جائے گا اس اثرورسوخ کو قائم رکھنے کے لیے امریکا کو فرانس اور جرمنی سے مضبوط تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوںممالک امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات بحال رکھیں گے۔
۳۔بریگزٹ پوری دنیا پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟
دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ بریگزٹ کے عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بریگزٹ اس سوچ کو تقویت دینے میں کامیاب رہا ہے کہ ریاستوں کو بین الاقوامی مشترکہ نظام سے نکل جانا چاہیے۔ روس اپنے بنیادی دعوے اور وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے اور مغربی ممالک کے لیے اس کی جارحیت میں تیزی آئی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے، امریکی سیاسی ماہرین اس پر گفتگو کر رہے ہیں کہ دنیا ایک بار پھر سیاسی اور معاشی تنہائی کی طرف جا رہی ہے۔ عالمی قیادت کولازمی طور پر دنیا کو اس عدم استحکام سے نکالنا ہوگا خصوصی طور پر مستقبل کی عالمی قیادت پر اس حوالے سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ آنے والے دور میں یہ ضروری نہیں کہ ماضی کے دعوئوں اور وعدوں کو پورا کیا جائے بلکہ مستقبل کی عالمی قیادت کے لیے پوری دنیا میں استحکام اور ترقی کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔
ترجمہ (سمیہ اختر)
“Brexit Vote Implications: What the Outcome Means for the U.K., Europe and the U.S.”. (“blogs.wsj.com”.Jun 24, 2016)
Leave a Reply