
گزشتہ پانچ سال کے واقعات نے امریکا اور عرب دنیا میں اس کے روایتی شراکت داروں کے درمیان تعلقات کو نہایت کشیدہ کر دیا ہے۔ اس میں خاص طور پر وہ ممالک شامل ہیں جو خلیج تعاون تنظیم کا حصہ ہیں۔ یعنی بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں عوامی بغاوتیں پھیل گئی ہیں، خانہ جنگیاں پھوٹ پڑی ہیں اور علاقائی نظم بے حد شکستہ حالت میں ہے۔ اکثر معاملات پر واشنگٹن اور عرب دارالحکومتوں میں موجود راہنمائوں کے ردعمل مطلقاً مختلف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خلیج تعاون کونسل کے اکثر ممالک اضطراب اور بعض اوقات ناراضی کی کیفیت میں رہے، جب امریکا نے ان کے حریف ایران کے ساتھ اُس کے جوہری منصوبے کو محدود کرنے کے معاہدے پر مذاکرات کیے۔
جوہری سودے پر دستخط ثبت ہونے کے چند ہفتوں بعد اگست میں خلیجی ممالک نے برسرِ عام معاہدے کی حمایت کا عندیہ دیا۔ مگر خلیجی رہنما ایران کے بارے میں گہرے شکوک کا شکار ہیں اور ان کو پریشانی ہے کہ جو پابندیاں ایران کی معیشت کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے تھیں، اُن کے اٹھنے کے بعد ایران امیر ہوگا اور اس کے رہنما بے باک ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ عرب رہنمائوں کو اس خطے کے بارے میں واشنگٹن کے عزم و ارادے پر بھی سنگین شبہات لاحق ہیں۔ چنانچہ ایران جوہری سودے کو بہت زیادہ شور شرابا پیدا کیے بغیر مان لینے کے بدلے خلیجی ریاستوں نے امریکا سے اضافی سیاسی اور سلامتی یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
واشنگٹن خلیجی ممالک کو ہتھیار، ٹیکنالوجی اور تربیت کی شکل میں مزید فوجی امداد سے نواز کر خطے کے بارے میں اپنے عزم کے مصمم ہونے کا اشارہ دینے کی کوشش کرے گا۔ لیکن یہ سخاوت و بخشش ضروری نہیں کہ امریکا اور خلیجی ریاستوں کے درمیان آجانے والے فاصلے کو پُر کرنے کے لیے کافی ثابت ہو۔ عراق، شام اور یمن میں تباہ کن تشدد اور بدنظمی، ایرانی دخل اندازی کا سنجیدہ خطرہ، مصر اور خطے کے دیگر علاقوں میں موجود بے چینی جیسے معاملات امریکا خلیج تعلقات کے لیے امتحان ثابت ہوتے رہیں گے اور دونوں اطراف سے مزید ماہرانہ سفارت کاری کے متقاضی ہوں گے۔
آنے والے دنوں میں علاقائی حکمت عملی پر واشنگٹن اور عرب حکومتوں کی ترجیحات نمایاں طور پر مختلف رہیں گی۔ لیکن شراکت داری قائم رکھنے کے لیے اب بھی کافی مشترک مفادات موجود ہیں۔ جب تک ہر فریق دوسرے کے بنیادی خدشات کا احترام کرتا رہے گا، خاص طور پر ایران سے معاملات کرنے میں، یہ شراکت داری نبھ سکتی ہے لیکن دونوں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ایک ہم آہنگ روش مستحکم مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل میں مدد دے سکتی ہے اور اس کے ذریعے ایرانی اثر و نفوذ کو بھی قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر امریکا اور اس کے خلیجی ساتھی مزید دور ہوتے ہیں تو آخری نتیجہ خطے کی اور بھی زیادہ ابتر حالت کی صورت میں نکلے گا جس میں ایران کی حیثیت مستحکم ہوگی۔
بے پروا، یا بے اثر؟
۲۰۰۳ء میں امریکا کے عراق پر حملے نے مشرقِ وسطیٰ میں بدامنی کی لہر کو جنم دیا جس میں ۲۰۱۱ء کی عرب بغاوتوں کے بعد نمایاں طور پر تیزی آئی۔ جنم لینے والا انقلاب دو بڑے رجحانات سے متصف رہا۔ ایک تو قدیم عرب ریاستوں (مصر، عراق، لیبیا، شام اور یمن) کا مکمل یا جزوی انہدام اور دوسرا شیعہ ایران اور خلیج کی سُنّی عرب بادشاہتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی۔ ان دونوں رجحانات نے اُس فرقہ وارانہ کشیدگی کے لیے غذا کا کام کیا ہے جس نے پہلے ہی پورے مشرقِ وسطیٰ کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ امریکا، خلیج تعلقات میں حالیہ مشکلات کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہر فریق حالات کو مختلف انداز میں دیکھ رہا ہے اور ردعمل کیا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں ہر ایک کا موقف الگ ہے۔
عرب ریاستوں کے انہدام پر خلیجی ریاستوں اور امریکا، دونوں کا اوّلین ردعمل استحکام کی تلاش تھا، مگر دونوں کے طریقے مختلف تھے۔ خلیجی ریاستوں کو اپنی سرحدوں پر تشدد اور انتشار کا خدشہ تھا اور لبرل اداروں کی فعالیت پر وہ زیادہ بھروسا کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ سیاسی خلا اور عدم استحکام کا اچانک شکار ہونے والے ممالک کے اندر انہوں نے شروع سے ہی اپنے ممکنہ اتحادیوں کی حمایت پر توجہ مرکوز کی۔ جبکہ اسی دوران امریکا نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار استحکام کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں طویل مدتی معاشی، ادارہ جاتی اور حکومتی اصلاحات ہی واحد راستہ ہیں۔ امریکا کے مؤقف کی ایک وجہ اس کی جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی تھی اور دوسری یہ کہ عرب ریاستوں کے انہدام سے اس کی سلامتی کو کوئی فوری خطرہ لاحق نہ تھا۔
دونوں اطراف میں نقطۂ نظر کا اختلاف کسی دوسرے معاملے میں اتنا واضح نہ تھا جتنا مصر کے معاملے میں۔ ۲۰۱۱ء میں مصر کے صدر حسنی مبارک کی بے دخلی کو امریکا نے ایک تاریخی موقع کے طور پر دیکھا۔ اگلے سال واشنگٹن نے یہ بات واضح کر دی کہ مصر کے اسلام پسندوں کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے باوجود امریکا جمہوری طور پر منتخب محمد مرسی کی سربراہی میں اخوان المسلمون کی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو راضی ہے۔ ۲۰۱۳ء میں جب جنرل عبدالفتح السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعے مرسی کو اقتدار سے ہٹایا تو ابتدا میں السیسی حکومت کے ساتھ اشتراک میں واشنگٹن پس و پیش کا شکار تھا اور اس نے مصر کو دی جانے والی کچھ امداد روک دی تھی۔ اس کے برعکس قطر کے سوا، اکثر خلیجی ممالک خاص طور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مبارک کے زوال کو ایک تباہی کے طور پر دیکھا اور مرسی کی حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کیا۔ جبکہ سیسی کے آنے کے بعد انہوں نے مصر کی معیشت کو اربوں ڈالر عنایت کیے۔
شام، دونوں کے درمیان موجود اختلافات کی ایک اور نمایاں مثال ہے۔ امریکا اور اس کے خلیجی اتحادیوں، دونوں کی مشترکہ خواہش ہے کہ شام میں ایک قابلِ بھروسا عسکری قوت کے ذریعے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو گرایا جائے۔ مگر گزشتہ چار سال سے بشارالاسد کی فوجوں کے خلاف لڑنے والے عسکری گروہوں کی مدد کرنے کے بارے میں دونوں کا اختلاف ہے۔
خلیجی ریاستوں نے شام میں حکومتی مخالف اتحاد، جیسے جیش الفتح کو امداد اور ہتھیار مہیا کیے ہیں، جن کو اگرچہ حکومت کے خلاف کچھ کامیابی ملی ہے، لیکن ان میں القاعدہ سے منسلک گروہ بھی شامل ہیں۔ واشنگٹن کو تشویش ہے کہ اس طرح کے گروہوں کو امداد اور ہتھیار دینے کی تدبیر الٹی پڑ سکتی ہے، جیسے اگر کبھی اِن گروہوں نے امریکا یا اس کے ساتھیوں سے لڑنے کا ارادہ کرلیا۔ لہٰذا امریکا نے کافی چھان پھٹک کے بعد اعتدال پسند مزاحمتی قوتوں کو تربیت یافتہ اور ہتھیار بند کرنے کا راستہ اپنایا۔ امریکا کی مرکزی کمان کے کمانڈر جنرل لائڈ آسٹن کے مطابق یہ پالیسی ستمبر تک میدانِ جنگ میں صرف چند افراد کو رکھنے میں کامیاب رہی۔ حکمتِ عملی کے اختلافات نے دونوں اطراف تلخیوں کو جنم دیاہے۔ واشنگٹن خلیجی ممالک کو بے پروا سمجھتا ہے جبکہ خلیجی ممالک واشنگٹن کو بے اثر سمجھتے ہیں۔
شام اور دو عرب ریاستیں عراق اور یمن، جو خانہ جنگی کا شکار ہیں، ان میں مداخلت کی نوعیت پر عدم اتفاق ایران کے کردار کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ ایران تینوں تنازعات میں پوری طرح فعال ہے۔ تینوں جگہ ایران نے پیسہ، ہتھیار اور جنگجو ان قوتوں کی مدد کو بھیجے ہیں جو امریکا اور خلیجی ممالک مخالف ہیں۔ یعنی شام میں بشارالاسد کی حکومت، یمن میں حوثی باغی اور عراق میں انتہا پسند شیعہ جنگجو گروہ۔ مگر واشنگٹن اور عرب حکومتوں کے درمیان ایرانی مداخلت کی نوعیت اور اہمیت پر اتفاق نہیں ہے۔ بہت سی خلیجی ریاستیں خاص طور پر سعودی عرب کا خیال ہے کہ بنیادی طور پر ایران کی دخل اندازی نے ان تنازعات کو ہوا دی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران کا اپنی پراکسی قوتوں کو مدد فراہم کرنا، تشدد و انتشار کی اصل وجہ ہے نہ کہ ان تینوں جگہوں پر سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ۔ دوسری طرف امریکا کے نزدیک ایران کی مداخلت، خاص طور پر یمن میں مسائل کی جڑ نہیں، بلکہ ابن الوقتی ہے۔
ان مختلف نقطۂ نظر کی وجہ سے دونوں کی بالکل مختلف پالیسیاں سامنے آئی ہیں۔ شام میں بشار الاسد کے لیے ایرانی حمایت ہی کی وجہ سے خلیجی ریاستوں نے داعش سے لڑنے کے مقابلے میں حکومت گرانے کو ترجیح دی۔ داعش سُنّی جہادی گروہ ہے جس نے زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور شام اور عراق کی سرحد پر دہشت پھیلا رکھی ہے۔ امریکا کا نقطۂ نظر یکسر مختلف ہے۔ داعش امریکی سرزمین کے لیے خطرہ ہے، لہٰذا داعش سے لڑنا بشارالاسد کو نکال باہر کرنے سے زیادہ اہم ہے، چاہے بشارالاسد کی بقا ایران کو فائدہ ہی کیوں نہ دے۔
خلیجی ممالک کا خیال ہے کہ یمن میں حوثی باغی ایرانی ایجنٹ ہیں اور ان کی پیش رفت ایرانی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ امریکا اس تجزیہ سے اتفاق نہیں کرتا اور ایران کی مداخلت کم اہم اور غیر فیصلہ کن گردانتا ہے۔
آخری اہم نکتہ یہ کہ امریکا عراق میں ایک شیعہ اکثریتی مرکزی حکومت کو تسلیم کرنے پر خلیجی ممالک کو راضی کرنے اور عراق کو عرب دنیا کے ساتھ جوڑنے میں کئی سال گزار چکا ہے۔ یہاں تک کہ واشنگٹن نے عراقی حکومت کو ایران کی داعش کے خلاف لڑائی میں بطور واسطہ استعمال کیا ہے، ایک ایسے دشمن کے خلاف جو ایران اور خلیجی ممالک کا مشترکہ دشمن ہے۔ لیکن کئی سالوں سے خلیجی ممالک یہ نظارہ کر رہے ہیں کہ بغداد کی مرکزی حکومت نے عراق کی سُنّی اقلیت کو کنارے لگایا ہوا ہے اور وہ اس سے کافی مایوس ہیں۔ عراقی حکومت نے امریکی دبائو کے باوجود سنیوں کو ملک کے سماجی و سیاسی دھارے میں لانے کے حوالے سے کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ مزید یہ کہ خلیجی ریاستیں دیکھتی ہیں کہ عراق کی شیعہ قیادت اپنے ایرانی سرپرستوں کی زیر بار منت ہے۔ ان نظریات نے خلیجی ریاستوں کو بغداد سے ایک فاصلے پر رکھا ہے اور وہ امریکا کی عراق میں حکمتِ عملی کی پوری طرح حمایت کرنے سے کترا رہی ہیں۔
مضطرب شراکت دار
امریکا اور اس کے عرب ساتھیوں کے درمیان دونوں کو درپیش ممکنہ مختلف خطرات، کشیدگی کا واحد سبب نہیں ہیں۔ کئی اور اسباب جن میں سے بیشتر تاریخی جڑیں رکھتے ہیں، امریکا خلیج تعاون میں رکاوٹ ہے۔ پہلا یہ کہ اگرچہ امریکا نے پچھلے ۲۰ سال میں خلیجی ریاستوں کی اجتماعی سلامتی کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے، لیکن اس مد میں زیادہ تر کوششیں لاحاصل ثابت ہوئی ہیں۔ ہر خلیجی ملک اب بھی امریکا سے اکیلے اور براہ راست بات کرنے کو ترجیح دیتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ تنظیم کے دوسرے ارکان کے ساتھ تعاون کرے۔ مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ چھوٹے خلیجی ممالک ہمیشہ سعودی عرب کی طاقت سے خائف اور مضطرب رہتے ہیں، جبکہ اس کے جواب میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی ہوئی آزادی اور جارحانہ خود اعتمادی سے ناراض ہیں۔
تعلقات کے لیے دوسرا چیلنج امریکا کی اسرائیل کے ساتھ وابستگی ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے ساتھ خلیج کی عرب ریاستوں کے کوئی باقاعدہ تعلقات نہیں ہیں۔ جب بھی امریکا فوجی ساز و سامان یا خدمات مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک کو فروخت یا برآمد کرنے پر غور ہوتا ہے تو وہ قانونی طور پر اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اس امر کو یقینی بنائے کہ یہ سودا اسرائیل کی خطے میں عددی فوجی برتری کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ایران جوہری سودے پر خلیجی ممالک کے خدشات کو کم کرنے کے لیے واشنگٹن خلیجی ممالک کے لیے اپنی براہ راست سلامتی مدد بڑھانے کو تیار ہے۔ مگر اسرائیل اپنی عددی برتری کو قائم رکھنے کے حوالے سے اکثر بہت سخت نظریہ اپناتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ جس قسم کی فوجی مدد کا خلیجی ممالک مطالبہ کریں، وہ اس پر اعتراض کرے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران کا توڑ کرنے میں اسرائیل اور خلیجی ممالک کا مشترکہ مفاد ہے۔ امریکا کے ہتھیاروں کی فروخت کے تمام بڑے سودوں کو کانگریس کی منظوری درکار ہوتی ہے اور یہ مشکل ہے کہ اسرائیلی اعتراضات کے باوجود کانگریس اس طرح کے اقدامات کی حمایت کرے۔
اگر امریکا کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات نسبتاً رواں بھی ہیں تب بھی واشنگٹن کے لیے کسی حد تک یہ طویل مدتی خطرہ ہیں۔ خلیجی ریاستیں استبدادی اصول کے مطابق چلائی جارہی ہیں جس میں اختلاف رائے کو دبایا جاتا ہے اور بعض اوقات انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ یہ ہمیشہ اچھے ساتھی ثابت نہیں ہوتے۔ ۲۰۱۱ء میں بحرین میں عوامی احتجاجات کے ردعمل میں خلیجی ممالک نے وہاں اپنی جزیرہ محافظ فوج تعینات کی تھی جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سپاہی شامل تھے اور جس کا مقصد مظاہروں کو تہس نہس کرنے میں بحرین کے حکام کی مدد کرنا تھا۔ بعدازاں جب سال کے آخر میں بحرین نے اس بغاوت پر حکومتی ردعمل کی تفتیش کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا تو معلوم ہوا کہ داخلی سلامتی کی فوجوں نے جان بوجھ کر اور منظم انداز میں طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا تھا جس میں مظاہرین کے خلاف تشدد اور جبری بیانات شامل تھے۔
یہ تشدد بحرین کی اس بندرگاہ سے زیادہ دور وقوع پذیر نہیں ہوا تھا جہاں امریکی بحریہ کا پانچواں بیڑا موجود ہے اور جو امریکا خلیج سلامتی تعاون کا سب سے واضح نشان ہے۔ یہ نظارے امریکا کے لیے زیادہ خوشگوار نہیں تھے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں لبرل جمہوریت کا سب سے زیادہ پُرجوش ترویج کنندہ سمجھتا ہے۔ بحرین میں جو کچھ ہوا، وہ اس خطرہ کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ خلیج میں امریکا کے ساتھی امریکا میں بنے ہوئے ہتھیاروں اور بارود کو نہتے شہریوں کے خلاف بھی استعمال کرسکتے ہیں، صرف اس لیے کہ ایک جائز سیاسی مخالفت کو دبایا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ بیشتر عرب آبادیاں معاشی اور سیاسی معاملات میں جو زیادہ نمائندگی مانگ رہی ہیں، وہ ضروری نہیں کہ استحکام یا سلامتی کا موجب ہو۔ کم ازکم قلیل مدت میں ایسا ہونا مشکل ہے۔ نہ ہی ضروری ہے کہ یہ تبدیلیاں امریکی مفادات کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں۔ لیکن اگر واشنگٹن عوامی تحریکوں کو دبانے میں آمادہ نظر آتا تو عالمی سطح پر اس کا تاثر تار تار ہو جاتا اور اگر وہ تحریکیں بالآخر حکومتوں کو ہٹانے اور ان کی جگہ لینے میں کامیاب ہو جاتیں تو نئی حکومتوں کے سامنے امریکا کی کوئی ساکھ اور اخلاقی قوت نہ رہتی۔
تہران کی جانب جھکائو
خطے پر منڈلاتے نئے خطروں اور امریکا خلیج تعلقات میں موجود پرانی رکاوٹوں کے درمیان عرب کی خلیج ریاستوں میں وسیع پیمانے پر یہ خوف موجود ہے کہ واشنگٹن اس خطے سے جارہا ہے اور یہ اس کی اپنے معاملہ کو محدود کرنے کی وسیع پالیسی کا حصہ ہے اور اب خلیجی ممالک کو اپنے راستے خود تلاش کرنے ہوں گے۔ دہائیوں تک امریکا نے اپنے خلیجی ساتھیوں کو اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیار اور نظام فروخت کیے ہیں۔ اس کے باوجود خلیجی ممالک کی فوجیں باصلاحیت لڑاکا افواج میں نہیں بدل سکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں نے اپنی فوجوں کو زیادہ تر اپنے دفاع اور داخلی استحکام قائم رکھنے پر لگایا ہوا ہے اور علاقائی نظم کو لاحق کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا پر بھروسا کیا ہے۔ مگر جنگ کی ایک دہائی کے بعد امریکی عوام میں مشرقِ وسطیٰ میں مزید مہمات میں کودنے کی خواہش نہیں ہے اور امریکی پالیسی ساز اور دفاعی حکام چاہتے ہیں کہ خلیجی ریاستیں اپنے دفاع کی ذمہ داری خود اٹھائیں۔ خلیجی ممالک بہت ناراضی کے ساتھ اس کو تعلقات میں ایک بنیادی تبدیلی، بلکہ کم و بیش ایک دھوکے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ احساسات خلیجی اشرافیہ کے اس یقین سے اور نمو پاتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری سودا ایران کے ساتھ تعلقات درست کرنے اور خطے میں عرب مفادات کی قیمت پر طاقت کا نیا توازن قائم کرنے کے بڑے منصوبے کا پہلا قدم ہے۔ جوہری معاملے کو ایران کی خطے میں دخل اندازی کے معاملے پر فوقیت دینے کے واشنگٹن کے فیصلے سے اس یقین کو تقویت ملتی ہے۔ امریکی پالیسی سازوں نے اس طرح کی شکایات پر یہ ردعمل دیا ہے کہ امریکا کا ایران کے ساتھ وسیع ہم آہنگی پیدا کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور اسی لیے جب کبھی ایران کی بات آتی ہے تو وہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی نظر میں یہ محض کھوکھلی باتیں ہیں، جب تک ان کے ساتھ کوئی قابلِ ذکر اقدام نہ ہو۔
مستقبل میں امریکا کے تہران کی طرف جھکائو کے عرب خدشات کی کوئی بنیاد نہیں مگر مشرقِ وسطیٰ میں موجود غیر یقینی کی وجہ سے خدشات نے خلیجی ریاستوں کی تزویراتی جمع تفریق کو متاثر کیا ہے اور انہیں آزادانہ اقدام کرنے پر ابھارا ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۴ء میں متحدہ عرب امارات نے اپنی سرحدوں سے ۳۰۰۰ میل دور لیبیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جب اس نے اعتدال پسند قبیلوں کی فوجوں کی مدد کرنے کے لیے اسلام پسند گروہوں پر فضائی حملے کیے، جہاں اعتدال پسند قوتیں قذافی کے بعد کے لیبیا میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ خلیجی ممالک نہ صرف خود سے طاقت استعمال کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ وہ دیگر عرب ممالک جیسے مصر، اردن اور مراکش کے ساتھ اپنے اتحادوں کو بھی نئی شکل دے رہے ہیں۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں عرب لیگ نے اپنے اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ اپنی مشترکہ فوجی قوت کے لیے ایک متحد کمانڈ تشکیل دے گی۔ واشنگٹن اپنے خلیجی ساتھیوں کے خودمختاری کی جانب بڑھنے کا خیرمقدم کرسکتا ہے، کیونکہ اس طرح امریکا پر خطے کا پولیس مین ہونے کا بوجھ کم ہو جائے گا۔ مگر زیادہ عرب خودمختاری کا مطلب امریکا کا کم اثر و رسوخ اور امریکی نقطۂ نظر سے اختلاف جیسے منفی نتائج کا امکان بھی ہے۔ فضائی جنگ اور اس محاصرہ پر غور کریں جو سعودیوں نے یمن کی سرحد کے دوسری جانب حوثیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مارچ میں شروع کیا۔ سعودیوں کو ابھی بھی امریکی انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد میسر ہے۔ مگر جب سے اس مہم نے طول پکڑا ہے، واشنگٹن نتائج کے بارے میں تشویش کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ سعودیہ کی سربراہی میں قائم اتحاد پر، جس میں کئی خلیجی ممالک شامل ہیں، شہری علاقوں میں کلسٹر (Cluster) گولہ بارود استعمال کرنے کا الزام ہے۔ دوسری طرف یمن میں بڑے پیمانے پر تباہی اس کے پہلے ہی محدود انفرااسٹرکچر کی وجہ سے وہاں جنم لینے والے انسانی المیے کو گہرا کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق جنگ و جدل کی وجہ سے اب تک دو ہزار یمنی شہری موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں، جبکہ ۴۱۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
تشدد اور انتشار نے انتہا پسند قوتوں کو بھی مضبوط کیا ہے۔ القاعدہ کی عرب جزیرہ شاخ، جو یمن میں سرگرم ہے، اپنی پہنچ کو وسعت دے چکی ہے اور اب ایسے کئی علاقوں پر قابض ہے جو پہلے قبیلوں یا حکومت کی فوجوں کے زیر انتظام تھے۔ اس دوران خلیجی ممالک کا یمن تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے پر اصرار اور حوثی باغیوں کو ایران کے شیعہ ایجنٹوں کے طور پر پیش کرنے کا پُرزور اصرار واشنگٹن کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرے گا، امریکا کا خیال ہے کہ یمن میں لڑائی کے پیچھے دراصل قبیلوں اور گروہوں کے جھگڑے ہیں۔
مسئلے سلجھائے جاسکتے ہیں!
تمام تر پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کے باوجود امریکا خلیج تعلقات ابھی بھی ٹوٹنے سے بچائے جاسکتے ہیں، بلکہ مضبوط کیے جاسکتے ہیں۔ قریبی دفاعی تعلقات مسئلے کے حل کا حصہ ضرور ہونے چاہئیں مگر محض امریکی وسائل کو خلیجی ریاستوں میں انڈیلنا کافی نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس دونوں اطراف کو ان معاملات میں تعاون کو فروغ دینا چاہیے جن پر ان کا اتفاق ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کو ان معاملات پر رعایتیں دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو دوسرے فریق کے لیے نہایت اہم ہوں۔ عراق اور شام میں داعش اور بشارالاسد کی حکومت کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں کو مل کر قابلِ بھروسا اور باصلاحیت سُنّی افواج ترتیب دینے کا کام کرنا ہوگا۔ امریکا کو پورے خطے میں ایران کی مداخلت اور خفیہ فوجوں سے لڑنے کے عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا، چاہے وہ ایران کے ساتھ جوہری سودے پر عمل درآمد ہی کیوں نہ شروع کر دے اور اس کے بدلے خلیجی ممالک کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف ایران کے ساتھ اپنی مقابلہ بازی کے درجہ حرارت کو نیچے لائیں گے بلکہ اس اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بھی شروع کریں گے۔
قریبی تعاون اور باہمی لچک کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ امریکا خلیجی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے کا کام چھوڑ دے اور اپنے خلیجی عرب ساتھیوں کو یہ باور کرنا ترک کردے کہ طویل مدتی استحکام کا صحیح ترین راستہ تدریجی اصلاح ہے۔ امریکا اور خلیجی ریاستیں جمہوری اور غیر جمہوری نمونۂ ریاست کے درمیان استحکام اور صحت کے فرق جیسے بنیادی سوال کے جواب پر اختلاف رکھنے کے باوجود مل کر کام کرسکتے ہیں۔
شام میں امریکا کو اپنے مقاصد تبدیل کرنے چاہئیں اور اس کی توجہ کا مرکز صرف داعش سے مقابلہ کرنے کے بجائے ایسے فوجی اور سیاسی حالات کا قیام ہونا چاہیے جو مذاکرات کے ذریعے خانہ جنگی کے خاتمے کی طرف لے جاسکیں۔ اس کے لیے امریکا کو شام کی مخالف قوتوں کو تربیت دینے کی اپنی نیم دلانہ کوششوں کو تیز کرنا ہوگا، اور قابلِ بھروسا جنگجوئوں کو مدد دینی ہوگی، یہ دیکھے بغیر کہ وہ داعش سے لڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، بشارالاسد سے یا پھر دونوں سے۔ اسی دوران میں خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ انتہا پسند گروہوں کی امداد کرنا بند کریں اور اس کے بجائے اپنی حمایت امریکا کے تربیت یافتہ جنگجوئوں اور دوسرے اعتدال پسند بشار مخالف گروہوں کی طرف منتقل کریں۔ مثلاً شمال مشرقی شام میں کرد جنگجوئوں اور شمالی اتحاد کی طرف جو آزاد شامی فوج (Free Syrian Army) سے منسلک ایک مخالف اتحاد ہے۔
عراق میں امریکا اور خلیجی ریاستوں کو سنی قبائلی افواج کی مدد میں اضافہ کرنا چاہیے۔ بغداد کی حکومت کے ساتھ بھی تعاون ہونا چاہیے، مگر ان افواج کے ساتھ براہ راست کام ہونا چاہیے تاکہ ان کی تربیت کے لیے مالی امداد دی جاسکے۔ واشنگٹن کو اضافی فوجی مشیر بھی عراق بھیجنے چاہئیں تاکہ وہ ان افواج کو تربیت دینے میں مدد کرسکیں۔ ابتدا میں سُنّی افواج کو شہریوں کی حفاظت کرنے اور داعش کو مزید عراقی سرزمین پر پنجے گاڑنے سے روکنے کے لیے تربیت دینی چاہیے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل ہو سکتی ہیں کہ داعش کو عراقی شہروں سے نکال باہر کریں۔ وہ اپنے اقدامات کو امریکی سربراہی میں موجود داعش مخالف اتحاد کی فضائی بمباری کے مطابق تشکیل دے کر فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
خلیجی ممالک بغداد پر یہ دبائو ڈالنے میں امریکا کی مدد کرسکتے ہیں کہ وہ عراق کو چلانے کے لیے سب کو ملا کر چلنے کی روش اپنائے، ایک ایسی روش جو ملک کے سنیوں کو یہ یقین دلائے کہ عراق کے مستقبل میں ان کا بھی حصہ ہے اور ان کی بات بھی سنی جائے گی۔ صدام حسین کے چلے جانے کے بعد کے سالوں میں خلیجی ریاستوں نے عراق کے ساتھ اپنے سفارتی، معاشی اور فوجی روابط بڑھانے سے گریز کیا ہے۔ خلیجی ممالک کو بغداد کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ اگر اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روش اپنائی تو عراق عرب کے علاقائی نظم سے اب مزید عرصہ باہر نہیں رہے گا۔
عراق اور شام میں یہ کوششیں امریکا اور خلیج کے وسیع تر تزویراتی تعلقات اور عسکری تعاون سے فائدہ اٹھا کر کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اس تعاون میں امریکا کی جانب سے خلیج کو ہتھیاروں کی فروخت شامل ہے، مگر خلیجی ریاستوں کو بھاری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کو لاحق زیادہ تر خطرات غیر روایتی ہیں۔ اس کے برعکس جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے، وہ انٹیلی جنس کا مزید تبادلہ اور انسداد دہشت گردی کی تربیت کی مزید مشترکہ مشقیں ہیں جو سُنّی انتہا پسندوں اور ایرانی اثرورسوخ سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں گی۔ امریکا اور خلیجی ممالک کو اپنی خصوصی آپریشنز افواج کے لیے ایک مشترکہ ہیڈ کوارٹر بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خطے کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے باقاعدگی سے کثیر جہتی ملاقاتیں امریکا اور اس کے خلیجی عرب ساتھیوں کو اس اتفاقِ رائے پر پہنچنے میں مدد دے سکتی ہیں کہ خطے میں طاقت کا استعمال کب اور کیسے کیا جائے۔ اس کی بدولت کسی بھی طرف سے یکطرفہ فوجی اقدام کا امکان کم ہوسکتا ہے۔
امریکا اور خلیجی ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے اس بھروسے کو دوبارہ قائم کرنا پڑے گا جو حالیہ سالوں میں کم درجے پر آچکا ہے۔ دونوں اطراف کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے مرکزی مفادات کو تسلیم کرنا ہوگا، خاص طور پر ایران کے معاملے پر۔ امریکا کو خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو لگام دینے کے لیے اپنے خلیجی ساتھیوں کا زیادہ جارحانہ اور منظم انداز میں ساتھ دینا چاہیے۔ واشنگٹن کو خلیجی ممالک کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کے تزویراتی مذاکرات شروع کرنے چاہئیں جس میں ایران کی مداخلت سے نمٹنے، اس کے ہتھیاروں سے لیس جہازوں کو روکنے اور اس کے خلاف زیادہ انٹیلی جنس کے تبادلے جیسے نکات پر بات ہو۔
خلیجی ممالک کو ایران کے ساتھ اپنی برسرعام مخالفت کو کم کرنا ہوگا اور اس فساد آمیز شیعہ مخالف مواد کو کم کرنا ہوگا جو ریاستی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں یمن میں اپنی فوجی مہم بند کرنا پڑے گی، جس سے ایران پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ لیکن اس نے ایک انسانی مسئلے کو جنم دیا ہے۔ مزید برآں ایران چونکہ خلیجی ممالک میں دبا کر رکھے جانے والے شیعوں کی سیاسی محرومیوں کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے، لہٰذا خلیجی ریاستوں کو بتدریج اصلاح کے ذریعے ان کی سیاسی شمولیت کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے ذریعے ان کی داخلی سلامتی میں بھی اضافہ ہوگا۔
امریکا اور خلیجی ممالک کو ایران کی مداخلت کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ باہمی مفاد کے معاملات پر ایران سے بھی بات کرنی چاہیے۔ امریکا اور خلیجی ممالک کو ایک متعدد الاطراف سفارتی بات چیت کی کوشش کرنا چاہیے جو خطے میں عدم استحکام کے ذرائع کو ختم کرنے کا ایک سیاسی حل پیش کرے۔ خطے کی سطح پر بات چیت میں شام کا مسئلے بھی زیر بحث آئے گا۔ اس وقت واشنگٹن اور خلیجی ریاستوں کو ایران اور (بشارالاسد کے مرکزی اتحادی روس) کی ضرورت پڑے گی، تاکہ خانہ جنگی ختم کرنے کے حل کے حصے کے طور پر اسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یمن کے معاملے سے نمٹنا آسان ہوگا کیونکہ وہاں کا تنازعہ ایران کے لیے اتنی ترجیح نہیں رکھتا اور وہاں وہ سعودیوں کو کافی رعایات دینے کو تیار ہوں گے۔
یہ سفارتی حکمت عملی مسائل کو فوری حل نہیں کرے گی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہو جائے گا کہ مشرقِ وسطیٰ کو لپیٹ میں لی ہوئی کئی خانہ جنگیوں کو ختم کرنے کا واحد راستہ ایک ایسا مذاکراتی معاہدہ ہے جس میں تمام مرکزی کردار شامل ہوں۔ اس مذاکراتی عمل سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے امریکا اور خلیجی ممالک کو ایک متحدہ محاذ قائم کرنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلاف ختم کرنا شروع کریں۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
(“Bridging the Gulf: How to fix U.S. relations with the GCC”.
(“Foreign Affairs”. Nov.-Dec., 2015)”
Leave a Reply