
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۵ء کو پارلیمان کو اخوان المسلمون کے ایک جائزے کا خلاصہ پیش کیا جس کا حکم انہوں نے اپریل ۲۰۱۴ء میں خود دیا تھا۔ اس کام کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے سعودی عرب میں سابق برطانوی سفیر سر جان جینکنز کی سربراہی میں کام کیا جبکہ اس میں سفارتکاروں کے علاوہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام بھی شامل تھے۔
غالباً کمیٹی نے اپنا کام کئی ماہ قبل ہی مکمل کرلیا تھا مگر برطانوی حکومت اور اس کی اتحادی عرب ریاستوں کے دباؤ کے باعث اس کی اشاعت مؤخر ہوتی رہی۔ اس جائزے کی خبروں کو ابتدا سے ہی جگہ دینے والے برطانوی اخبار گارجین نے اخذ کیے گئے نتائج کو توقعات سے زیادہ سخت قرار دیا۔ اس رپورٹ کے پس منظر ، اس پر کیے گئے کام کے تناظر اور سامنے آنے والے نتائج سے متعدد اہم معاملات جڑے ہوئے ہیں۔
پہلا معاملہ مستند دستاویزات اوربرطانوی حکام کی اتنی ہی اہم خفیہ گفتگو پر مبنی ان میڈیا رپورٹس سے متعلق ہے، جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان دو خلیجی ریاستوں نے اخوان المسلمون کا تجزیہ کرنے کے لیے کیمرون پر دباؤ ڈالا۔ یعنی دوسروں لفظوں میں برطانیہ کو اس فضول سیاسی مشق کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اخوان کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑنے والی اِکّا دُکّا عرب ریاستوں کے برعکس کسی بھی مغربی ملک نے کبھی اس پر دہشت گردی کا تو کجا دہشت گردی کی اعانت تک کا الزام نہیں لگایا۔ یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کا اسلامی جھکاؤ بالکل واضح ہے اور جو کئی دہائیوں سے اسلامی دنیا کے اندر اور باہر سرگرم ہے۔ عرب اسلامی مشرق کی دیگر سیاسی قوتوں کی طرح اس گروہ کے نظریات اور سیاسی خیالات میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ سو پھر برطانوی یا کسی بھی مغربی حکومت کو کیا پڑی ہے کہ کئی مہینوں کے لیے اتنا بڑا کمیشن بنائے اور اس کا خرچہ محض اس لیے اٹھائے کہ وہ اخوان المسلمون کا تجزیہ پیش کرے گا؟ بھلا برطانیہ نے جماعت اسلامی پاکستان کا جائزہ کیوں نہ لیا جس کی جڑیں برصغیر میں ہیں اور جو برطانوی مسلمانوں میں اثر و رسوخ بھی رکھتی ہے؟ یا پھر نسل پرستی اور تشدد کے حوالے سے معروف ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں کیوں نہ سوچا گیا جس کے ماننے والے بھارتی باشندے برطانیہ میں موجود ہیں ؟ اور اگر برطانوی حکومت نے دنیا کی سیاسی تحریکوں کو جانچنے کی ٹھان ہی لی ہے تو برطانیہ اور پورے یورپ میں وجود رکھنے والے نازی دائیں بازو کے سیاسی و فکری پس منظر کی تفتیش کے لیے کوئی کمیٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جدید تاریخِ اسلام میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین اخوان المسلمون پر بے شمار مطالعات شائع کرچکے ہیں۔ یہ مطالعات مصر کے اندر اور باہر اخوان کے نظریے، تاریخ، پالیسیوں اور تضادات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ مصر اور کچھ دیگر عرب ریاستوں کی مرکزی اسلامی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اخوان المسلمون برطانوی سفارتکاروں اور خفیہ اہلکاروں کی گہری دلچسپی کا مرکز رہی ہے۔
مختصراً یہ کہ برطانوی حکومت کو اس جائزے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ جائزہ کیمرون حکومت کی جانب سے بیرونی مالیاتی بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور اخوان المسلمون پر برطانیہ میں پابندی لگانے کے خلیجی عرب ریاستوں کے مطالبے سے بچنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کیمرون نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اخوان المسلمون پر پابندی کا حکم نہیں دے سکتے تو انہوں نے عرب اتحادیوں کے دباؤ سے بچنے اور انہیں خوش کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا۔
متضاد نتائج
چونکہ شروع سے نیت ہی تضادات سے بھرپور تھی سو یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ جائزے کے نتائج بھی انتہائی متضاد رہے۔ تجزیہ پیش کرتے وقت ڈیوڈ کیمرون نے دعویٰ کیا کہ یہ کام اخوان المسلمون کو بہتر انداز میں سمجھنے کی خاطر کیا گیا ہے۔ لیکن جو خلاصہ وہ سامنے لائے ہیں اور اس پر جن پالیسیوں کا دارومدار ہے، ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ مغربی ممالک کے طاعون زدہ تعلقات کا باعث بننے والی غلط فہمیوں میں ایک اور باب کے اضافے کے سوا کچھ اور نہیں کرے گی۔
کچھ آثار ایسے بھی ہیں کہ جیسے مرتبین نے رپورٹ کو جان بوجھ کر سماجی علوم کی زبان میں تحریر کیا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ یہ غیرجانبدارانہ اور مستند دستاویز ہے۔ لیکن مشرق وسطیٰ پر ادنیٰ سی مہارت رکھنے والا محقق بھی یہ جان لے گا کہ جائزے میں سید قطب کے ورثے اور اخوان یا متشدد گروہوں پر اثر و رسوخ کو انتہائی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
سید قطب کے دعووں پر ہونے والی بحث سے قطع نظر، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اخوان المسلمون نے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے وسط سے ہی خود سب سے پہلے سید قطب کے افکار کی انتہا پسندانہ تعبیروں اور چند ایسے دعووں کی وضاحت کرنی شروع کردی تھی جو راسخ العقیدہ سنی عقائد کے بظاہر خلاف تھے۔ خود اخوان ہی سب سے پہلے ان دعووں سے دستبردار ہوئی۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ظاہر ہے کہ کیمرون اور ان کی اعلیٰ پائے کی کمیٹی نے کبھی حسن الہضیبی کی کتاب دُعاۃ لا قُضاۃ (منصف نہیں مبلغ) یا اس پر اور اس کے تحریری پس منظر پر برطانوی جامعات میں ہونے والے بیش بہا مطالعات کے بارے میں یقینا نہیں سنا ہوگا۔
رپورٹ کے مرتبین نے جو ایک چونکا دینے والی بات کی وہ یہ کہ اخوان المسلمون سے وابستگی ممکنہ طور پر شدت پسندی کی علامت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ الجیریا میں ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں جمہوریت کی جانب سفر رک جانے کے نتیجے میں اخوان المسلمون کو چھوڑ کر ہتھیار اٹھا کر تشدد کی جانب مائل ہونے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
اگر القاعدہ اور داعش کو لفظ ’’شدت پسند‘‘ کے ذریعے بیان کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی تنظیم مسلم دنیا کے اندر یا باہر اخوان سے جڑے افراد کی قابل ذکر تعداد کو اپنی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد یہ دعویٰ، چاہے محتاط انگریزی میں ہی لکھا گیا ہو، بہت زیادہ محل نظر معلوم ہوتا ہے۔
تو پھر کیا رپورٹ کے مرتبین کی منطق کو استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا جائز ہوجائے گاکہ مغربی طرزِ زندگی بھی شدت پسندی کی ایک ممکنہ علامت ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی تعداد میں مغربی ملکوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں داعش اور اس جیسی تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں؟ رپورٹ میں ’’شدت پسندی کی ممکنہ علامت‘‘ کی اصطلاح اس لیے معما بنی ہوئی ہے کیونکہ اس سے عراق پر امریکی و برطانوی چڑھائی، اور عرب اور مسلم دنیا پر قابض سفاک آمروں (مثلاً وہ جنہوں نے برطانوی حکومت کو یہ جائزہ لینے پر آمادہ کیا) کا تذکرہ شرمناک انداز میں غائب کردیا گیا ہے۔
جہادی سلفیت اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی تمام تشدد پسند تنظیموں کے تانے بانے الجیریا میں بغاوت، مصر میں حسنی مبارک، شام میں بشار الاسد اور عراق میں نوری المالکی کی حکومتوں کے علاوہ مصر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ کر عوامی امنگوں کے خلاف برسراقتدار آنے والی اس حکومت سے جاملتے ہیں، جس سے برطانیہ کے قریبی روابط ہیں۔ رپورٹ میں حماس کے سوا کسی اور ایسی تنظیم کا ذکر نہیں کیا گیا جسے اخوان المسلمون نے مسلح کیا ہو، اور اس کا ذکر وزیراعظم کیمرون کی جانب سے پیش کیے گئے خلاصے میں بار بار کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اس معاملے میں بھی رپورٹ کے مرتبین مسائل کو ان کے اصل تناظر میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔
فلسطین میں ایک قومی تحریک آزادی چل رہی ہے، جس میں عوام دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کو بھی بروئے کار لارہے ہیں۔ یہ جدوجہد تقریباً ایک صدی سے جاری ہے جس میں نہ تو حماس نے سب سے پہلے ہتھیار اٹھائے اور نہ ہی وہ ہتھیار اٹھانے والی واحد فلسطینی تنظیم ہے۔ اپنی بقا کی اس طویل جنگ میں ہر طرف جھکاؤ رکھنے والے فلسطینیوں نے ہتھیار اٹھائے، چاہے وہ قوم پرست ہوں، محب وطن ہوں، مارکسی ہوں یا حماس کی طرح کے اسلام پسند ہوں۔
اخوان المسلمون کے ایک دھڑے کی جانب سے بیرونی توسیع پسندی اور آبادکاری کے ذریعے قبضہ کرنے کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر اس تنظیم کو مشکوک بنانا ایسا ہی ہے جیسے بھارت پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے پر بھارتی کانگریس پارٹی یا جنوبی افریقا میں اپارتھائیڈ کے خلاف آواز اٹھانے پر افریقی نیشنل کانگریس کو مشکوک سمجھا جائے۔ حماس کے معاملے میں اخوانی پس منظر کے بجائے اس کے قومی آزادی کے پس منظر پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ رپورٹ لکھنے والوں کو خود سے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ: اخوان المسلمون کی بہت سی شاخوں میں سے صرف فلسطینی دھڑا ہی ہتھیار اٹھانے پر کیوں مجبور ہوا؟
برطانوی وزیراعظم نے یہ اعلان کرکے اچھا کیا کہ ان کی حکومت اخوان المسلمون پر پابندی نہیں لگائے گی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر ان عربوں کو کیسے مطمئن کرپائے ہوں گے جنہوں نے انہیں اس راستے پر دھکیلا تھا۔ البتہ ان کی جانب سے یہ اعلان کرنا کہ ان کی حکومت برطانیہ کے اندر اور باہر اخوان المسلمون کی نگرانی سخت کرکے اس پر گرفت مضبوط کرے گی، ایسا بیان ہے کہ جسے نرم سے نرم الفاظ میں سمجھ سے بالاتر قرار دیا جاسکتا ہے۔
برطانوی حکومت ایک ایسے اسلامی گروہ کو گرفت میں لینے کا وعدہ کس طرح کرسکتی ہے جو جمہوریت اور آزادی کی جانب تبدیلی کی قیادت کررہا ہے اور جسے عرب اور مشرقی اسلامی دنیا میں لاکھوں مسلمانوں کی ہمدردی اور حمایت حاصل ہے؟
[urdu](ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)[/urdu]
“Britain’s misconceptions of the Muslim Brotherhood”.
(“middleeasteye.net”. December 23, 2015)
Leave a Reply