
جارج گیلووے (George Galloway) جو برطانیہ کی Respect Party کی جانب سے ایم پی ہیں‘ نے ۱۸ مئی کو امریکی سینیٹرز کے سامنے درج ذیل تقریر کی جنہوں نے اُن پر بدعنوانی اور صدام حسین کے ساتھ مفاہمت کا الزام عائد کیا تھا۔
سینیٹر! نہ میں اب اور نہ پہلے کبھی تیل کا تاجر رہا ہوں اور نہ ہی میری جانب سے یہ کام کسی نے کیا ہے۔ میں نے تیل کے ایک بیریل کا بھی اپنی ملکیت میں آنے یا خریدے جانے یا بیچے جانے کے عمل کا مشاہدہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی میری جانب سے یہ کام کسی اور نے کیا ہے۔ اب مجھے معلوم ہے کہ پیمانے چند سالوں سے واشنگٹن کے ہاتھ لگ گئے ہیں لیکن کسی قانون گو کے نزدیک آپ حضرات عدل کے کسی بھی خیال کے حوالے سے بے حس ہو چکے ہیں۔ میں آج یہاں موجود ہوں مگر گذشتہ ہفتے آپ پہلے ہی مجھے مجرم قرار دے چکے ہیں۔ آپ نے مجھے دنیا بھر میں بدنام کیا‘ بغیر اس کے کہ آپ نے کبھی مجھ سے کوئی سوال کیا ہو‘ کبھی کوئی رابطہ کیا ہو‘ کبھی کوئی خط لکھا ہو‘ کبھی کوئی فون کیا ہو یعنی ہر طرح کے رابطے کے بغیر ہی مجھ سے جھوٹ بات منسوب کر دی گئی اور آپ اسے عدل کا نام دیتے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اُن اوراق سے تعرض کروں جو ڈوزیر میں مجھ سے متعلق ہیں اور ان مقامات کی نشاندہی کروں جہاں (فراخدلانا اصطلاح اگر استعمال کی جائے تو کہا جائے گا) غلطیاں ہیں۔ پھر میں اسے اس سیاق و سباق میں رکھوں گا جہاں میرے خیال میں اسے رکھا جانا چاہیے۔ آپ نے اپنے دستاویز کے اول صفحہ پر میرے متعلق یہ لکھا ہے کہ میں نے صدام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ میری صدام سے صرف دو ملاقاتیں رہی ہیں‘ ایک ۱۹۹۴ء میں اور دوسری اگست ۲۰۰۲ء میں۔ انگلش زبان کی مفہوم کی وسعت کے کسی بھی پیمانے سے صدام کے ساتھ ’’کئی ایک ملاقات‘‘ (Many meetings) اس کا مفہوم نہیں بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں صدام حسین سے اتنی ہی مرتبہ ملا ہوں جتنی مرتبہ رمز فیلڈ اس سے مل چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ رمز فیلڈ اس سے اس لیے ملے تھے کہ اسے اسلحہ بیچیں اور ان مقامات کا نقشہ حوالے کریں جہاں ان اسلحوں کو اسے استعمال کرنا ہے۔ میں اس سے اس لیے ملا کہ پابندیوں‘ آلام و مصائب اور جنگ کے خاتمے کی کوشش کروں اور دوسرے موقع پر اس سے اس لیے ملا کہ اسے آمادہ کروں کہ وہ ڈاکٹر ہانس بلکس اور اقوامِ متحدہ کے دوسرے اسلحہ انسپکٹروں کو اپنے ملک میں واپس آنے دے۔ ان دونوں ملاقاتوں کا مقصد آپ کے اپنے وزیرِ دفاع کی اس کے ساتھ ملاقاتوں سے کہیں بہتر تھا۔ میں اس وقت سے صدام حسین کا مخالف رہا ہوں‘ جب برطانوی اور امریکی حکومتوں اور تاجروں نے صدام کو اسلحے اور گیس فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ میں عراقی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کیا کرتا تھا جبکہ برطانوی اور امریکی افسران عراق کے اندر تھے اور تجارتیں کر رہے تھے۔ آپ ۱۵ مارچ ۱۹۹۰ء سے آگے کی جانب سرکاری پارلیمانی ریکارڈ Hansard میں بے شمار شہادتیں دیکھ سکتے ہیں کہ صدام کی مخالفت کا میرا بہتر ریکارڈ ہے۔ برطانوی و امریکی حکومت کے دیگر ارکان کے مقابلے میں اب آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے اس دستاویز میں ماخذ کا حوالہ دیا ہے اور آپ نے ماخذ کے حوالے میں بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا ہے یوں کہ آپ نے کبھی مجھ سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ آیا یہ الزام جس ماخذ سے آیا ہے‘ وہ درست ماخذ ہے یا نہیں۔ آیا یہ الزام درست ہے کہ نہیں کہ میں ایک کمپنی کا مالک ہوں‘ جس نے عراق میں تیل کی تجارت کر کے خوب منافع کمائے ہیں۔ سینیٹر! میری ملکیت میں کوئی کمپنی نہیں ہے‘ سوائے ایک چھوٹی کمپنی کے جس کا کل مقصد‘ جس کا واحد مقصد لندن میں اپنے ایمپلائر Associated Newspapers کی صحافتی کمائی سے منافع حاصل کرنا ہے۔ میں ایسی کسی کمپنی کا مالک نہیں ہوں‘ جو عراق میں تیل کی تجارت کر رہی ہو اور آپ کا کام کوٹیشن کو آگے بڑھانا نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ بے وقعت اور جعلی نہ ہوں یا اس سے کچھ دوسرے مقاصد حاصل نہ ہوتے ہوں۔ اب آپ کا مجھ پر کچھ بھی الزام ثابت نہیں ہے۔ سینیٹر! سوائے اس کے کہ عراق کے ناموں کی فہرست میں میرا نام شامل ہے اور جن میں بیشتر کا نام اس وقت درج کیا گیا ہے جب آپ نے اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بغداد پر مسلط کر دیا ہے۔ اگر آپ کے پاس میرے خلاف کوئی بھی خط جیسا کہ آپ Zhirinovsky اور حتیٰ کہ Pasqua کے خلاف رکھتے ہیں تو وہ آپ کے اس سلائڈ شو میں سب سے اوپر ہوتے تاکہ آپ کے کمیٹی کے ارکان اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ میرا نام آپ کی ان فہرستوں میں داخل ہے جو آپ کو Duelfer Inquiry نے فراہم کیے ہیں اور ڈوئلفر کو یہ نام بینک ڈکیتی کا ایک ملزم اور جعل ساز اور جعل سازی کے ذریعہ لوگوں سے پیسے نکلوانے والا احمد چلبی نے فراہم کیے تھے‘ جو آپ کے ملک کو عراق جیسے دلدل میں لے جاکر پھنسانے کا ذمہ دار ہے جیسا کہ آپ کے ملک کے بہت سارے لوگوں کا یہ خیال ہے۔ بنیادی طور سے اس فہرست میں ۲۷۰ لوگوں کے نام ہیں۔ اس فہرست میں بعض نام الگ کر لیے گئے تاکہ آپ انہیں اس کمیٹی میں ڈیل کریں۔ اس کمیٹی میں زیرِ بحث آنے والے ناموں میں پاپ جان پال دوم کے سابق سیکرٹری‘ افریقی نیشنل کانگریس کے صدارتی دفتر سابق سربراہ اور کئی دوسرے لوگوں کے نام شامل ہیں۔ ان سب میں صرف ایک قدرِ مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب لوگ پابندیوں اور جنگ کے خلاف تھے جنہیں آپ نے بڑے زور و شور سے وہاں عملی جامہ پہنایا اور جس نے ہمیں اس تباہی سے دوچار کر دیا۔ آپ نے دہر یٰسین رمضان کا نام لیا ہے۔ ہاں! اس حوالے سے آپ کو مجھ سے کچھ شکایتیں ہیں۔ میں دہر یٰسین رمضان سے کبھی نہیں ملا۔ آپ کی سب کمیٹی اس سے اعلانیہ مل چکی ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ آپ کا قیدی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ابو غریب جیل میں ہے۔ میرا خیال ہے اسے جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے‘ جس کی سزا موت ہے۔ یہ جانتے ہوئے جو دنیا جانتی ہے آپ کے متعلق کہ آپ کس طرح ابو غریب جیل‘ بلگرام ایئربیس اور گوانتاناموبے میں قیدیوں کے ساتھ سلوک روا رکھتے ہیں‘ برطانوی شہری بشمول میرے جو اس طرح کے مقامات میں وقت گزار چکے ہیں‘ یہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں مجھے یقین نہیں ہے کہ آپ کی قیدیوں سے راز اگلوانے کی جو کوششیں ہیں‘ اس کو کوئی بہت زیادہ سراہے گا۔ لیکن آپ نے دہر یٰسین سے ۱۳ الفاظ نقل کیے ہیں جس سے میں کبھی نہیں ملا ہوں۔ اگر یہ سب باتیں اس نے کہیں ہیں جو اس سے منسوب کی جارہی ہیں‘ تو اس نے یہ باتیں غلط کہی ہیں۔ اگر آپ کسی حقیقی آئل ٹرانزیکشن کے حوالے سے میرے خلاف کوئی شہادت رکھتے ہیں یا اس حوالے سے میرے خلاف کوئی شہادت رکھتے ہیں کہ کسی نے مجھے پیسے دیے تو آج یہ پبلک کے سامنے اس کا اظہار ہو گا‘ اس کمیٹی کے سامنے اسکا اظہار ہو گا۔ اس لیے کہ میں نے آپ سے اتفاق کیا ہے۔ جناب Greenblatt! (واضح رہے کہ Greenblatt اس کمیٹی پر قانونی مشیر ہیں) آپ کے جناب Greenblatt مطلقاً درست ہیں۔ جو کچھ اہمیت رکھتا ہے وہ کاغذ پر تحریر شدہ نام نہیں ہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ پیسے کہاں ہیں؟ کس نے مجھے لاکھوں ڈالر دیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی نے نہیں اور اگر آپ کے پاس کوئی ایسا آدمی ہے جس نے مجھے کبھی کوئی ایک پیسہ بھی دیا ہو تو پھر انہیں آج آپ کو پیش کرنا ہو گا۔ اب آپ نے ان دستاویزات میں Aredio Petroleum نامی کمپنی کا بڑی تفصیل سے حوالہ دیا ہے۔ آج میں آپ کے سامنے یہاں یہ حلف لے کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کمپنی کا کبھی نام سنا ہے اور نہ ہی اس کمپنی کے کسی آدمی سے ملا ہوں۔ اس کمپنی نے مجھے کبھی کوئی اَدّھی (Penny) بھی اد انہیں بلکہ میں آپ سے کچھ دوسری بات کہوں گا کہ میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ Aredio Petroleum نے کبھی ایک پائی (Penny) بھی Mariam Appeal Campaign کو نہیں دیا اور نہ ہی کوئی معمولی سکہ ہی دیا۔ میں نہیں جانتا Aredio Petroleum کے مالک کون لوگ ہیں لیکن میں ضرور کہنے کی جرأت کروں گا کہ اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ ضرور اس بات کی تصدیق کریں گے کہ وہ لوگ مجھ سے کبھی نہیں ملے ہیں اور نہ ہی مجھے ایک پائی دیا ہے۔ اب جبکہ میں اس موضوع پر ہوں تو بتائیے کہ وہ کون سابقہ حکومت کا افسر ہے جس سے آپ نے کل گفتگو کی تھی۔ کیا آپ کے خیال میں مجھے اس کے بارے میں جاننے کا حق نہیں ہے؟ کیا آپ کے خیال میں اس کمیٹی اور پبلک کو جاننے کا حق نہیں ہے کہ یہ سابقہ حکومتی افسر کون ہے‘ میرے خلاف جس کے بیان آپ نقل کرتے رہے ہیں اور جس سے واقعتا آپ نے کل ہی انٹرویو لیا ہے۔ اس وقت آپ نے جو اس دستاویز میں سب سے سنگین غلطی کی ہے‘ بغیر کسی تکلف کے میں کہوں گا کہ وہ غلطی ایک اسکول کے طالب علم کی مانند اپنی احمقانہ کوششوں کی تاویل میں احمقانہ باتیں ہیں۔ آپ صفحہ ۱۹ پر ایک بار نہیں دو بار دعویٰ کیا ہے کہ دستاویزات جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں‘ وقت کے لحاظ سے ایک مختلف مدت کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان دستاویزات سے جن کا احاطہ ڈیلی ٹیلی گراف نے کیا ہے اور جو اتہامی مقدمہ کا ایک موضوع تھا‘ جس کو میں نے انگلینڈ کے ہائی کورٹ میں گذشتہ سال کے آخر میں جیت لیا تھا۔ آپ کہتے ہیں کہ ڈیلی ٹیلی گراف کے مضامین نے جن دستاویزات کا حوالہ دیا ہے وہ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۳ء کے عرصے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ آپ جن دستاویزات سے تعرض کر رہے ہیں‘ ان کا تعلق ۲۰۰۱ء کے فوراً بعد سے ہے۔ سینیٹر! ڈیلی ٹیلی گراف کے دستاویزات کی تاریخیں ٹھیک وہی ہیں جو ان دستاویزات کی‘ جنہیں آپ یہاں اپنی رپورٹ میں ڈیل کر رہے ہیں۔ ڈیلی ٹیلی گراف کا کوئی بھی دستاویز ۱۹۹۲ء یا ۱۹۹۳ء کی مدت سے تعرض نہیں کرتا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ۱۹۹۲ء سے پہلے کبھی عراق میں اپنا قدم نہیں رکھا۔ بہت ممکن ہے کہ تیل برائے غذا سے متعلق کوئی بھی دستاویز ۱۹۹۳۔۱۹۹۲ء میں موجود نہ ہو اس لیے اس زمانے میں تیل برائے غذا کی اسکیم موجود نہ تھی۔ اس کے باوجود آپ نے دستاویز کا ایک پورا سیکشن مختص کیا ہے جو دعویٰ کرے کہ آپ کے دستاویزات ڈیلی ٹیلی گراف کے مختلف زمانے سے ماخوذ ہیں جبکہ بات اس کے بالکل برعکس سچ ہے۔ آپ کے دستاویزات اور ڈیلی ٹیلی گراف کے دستاویزات دونوں ٹھیک ایک ہی مدت سے تعرض کرتے ہیں۔ لیکن شاید آپ ڈیلی ٹیلی گراف کے اقدام کو کرسچن سائنس مانیٹر کے ساتھ گڈمڈ کر رہے ہیں۔ کرسچن سائنس مانیٹر نے اپنے اول صفحہ پر میرے خلاف الزامات کی وہ فہرست واقعتا شائع کی تھی جو آپ کی کمیٹی کے الزامات سے بڑی حد تک مشابہ تھی۔ انہوں نے واقعتا ان دستاویزات پر انحصار کیا تھا‘ جن کا آغاز ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۳ء میں ہوتا ہے۔ ان دستاویزات کو خود کرسچن سائنس مانیٹر نے جعل سازی قرار دیا۔ اب نوقدامت پرستوں کی ویب سائٹس اور اخبارات جس میں جناب سینیٹر آپ ہیرو کے طور پر پیش کیے گئے تھے کہ کرسچن سائنس مانیٹر کی دستاویزات کی اشاعت پر بہت ہی زیادہ خوش تھے۔ یہ لوگ دستاویزات کی صداقت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ ان سبھوں کو پوری طرح اطمینان تھا کہ ان دستاویزات نے مجھے صدام حکومت سے ۱۰ ملین ڈالر وصول کرتے ہوئے بے نقاب کیا ہے۔ یہ ساری باتیں جھوٹ تھیں‘ ٹھیک اسی ہفتے جبکہ ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنے دستاویزات شائع کیے جو کہ جعل سازی ثابت ہونے اور برٹش نیوز پیپر Mail on Sunday نے دستاویزات کا تیسرا سیٹ خریدا اور یہ بھی قانونی تحقیق پر جعل سازی ثابت ہوا۔ لہٰذا اس سے متعلق کوئی ندرت نہیں تھی‘ قطعاً کوئی اس حوالے سے ندرت نہیں تھی۔
جعلی دستاویزات کا وجود جو مجھے عراقی حکومت کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں ملوث کرتا ہے‘ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ جعلی دستاویزات موجود تھے اور عراقی حکومت کے زوال کے فوری اثر کے طور پر انہیں دائیں بازو کے بغداد کے اخبارات اور دنیا کے اطراف میں پھیلایا جارہا تھا۔ سینیٹر! اب میں دل و جان سے اس پالیسی کی مخالفت کروں گا جس کو آپ فروغ دے رہے ہیں۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی کا خون بہایا‘ اس کوشش میں کہ عراق پر پابندیوں کے سبب عراقیوں کے قتلِ عام کو روکا جاسکے۔ ان پابندیوں نے دس لاکھ عراقیوں کی جان لے لی ہے‘ جن میں بیشتر بچے تھے۔ بہت سی زندگیاں اس حالت میں خاموش ہو گئیں کہ انہیں ابھی اپنے عراقی ہونے کا شعور بھی نہیں ہوا تھا۔ کسی اور وجہ سے ان کا قتل نہیں ہوا‘ مگر صرف یہ کہ وہ عراقی تھے اور عراق کے اس بدقسمت دور میں پیدا ہو گئے تھے۔ میں اپنے دل وجان نچھاور کر دوں گا آپ کو اس تباہی ڈھانے سے روکنے کے لیے جو آپ نے عراق میں جارحیت کر کے ڈھائی ہے۔ میں نے دنیا کو بتایا کہ جنگ کے لیے آپ کا مقدمہ جھوٹ کا ایک پلندہ تھا۔ میں نے دنیا کو آپ کے دعووں کے برعکس بتایا کہ عراق کے پاس عام تباہی کے اسلحے نہیں تھے۔ میں نے آپ کے دعووں کے برعکس دنیا کو بتایا کہ عراق کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے آپ کے دعووں کے برعکس دنیا کو بتایا کہ عراق کا گیارہ ستمبر کے حملوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں نے آپ کے دعووں کے برعکس دنیا کو بتایا کہ عراقی عوام اپنے ملک کے خلاف برطانوی و امریکی جارحیت کی بھرپور مزاحمت کریں گے اور یہ کہ سقوطِ بغداد جنگ کے خاتمے کے آغاز نہیں ہو گا بلکہ محض آغاز کا خاتمہ ہو گا۔ سینیٹر! ہر معاملے میں مَیں نے عراق کے متعلق بتا دیا تھا۔ میری ہر بات درست ثابت ہوئی اور آپ کی ہر بات غلط ثابت ہوئی۔ اس جھوٹ کے پلندے کی وجہ سے ایک لاکھ لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ ۱۶۰۰ امریکی فوجی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‘ ۱۵ ہزار فوجی زخمی ہوئے اور ان میں سے بے شمار لوگ معذور ہو گئے۔ یہ سب کچھ جھوٹ کے پلندوں کی وجہ سے ہوا کہ اگر دنیا کوفی عنان کی بات سن لیتی جن کی معزولی کا آپ مطالبہ کر رہے تھے‘ اگر دنیا صدر شیراک کی بات مان لیتی جنہیں آپ ایک بدعنوان غدار کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے‘ اگر آپ میری اور برطانیہ میں جنگی مہم کے مخالفیں کی بات مان لیتے تو ہم اس تباہی سے دوچار نہیں ہوتے جس سے آج دوچار ہیں۔
سینیٹر! یہ ہے تمام بہانہ بازیوں کی جڑ۔ آپ اس جرم سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جس کی آپ نے حمایت کی۔ اربوں ڈالر کی عراقی دولت کی چوری سے آپ لوگوں کی توجہ ہٹا رہے ہیں۔ آپ تیل برائے غذا کے اصل اسکینڈل پر نظر ڈالیں۔ اس ۱۴ ماہ کے عرصہ پر نظر ڈالیں جس میں بغداد آپ کے زیرِ نگرانی تھا۔ اس ۱۴ ماہ کے عرصے میں جبکہ بغداد آپ کی نگرانی میں تھا‘ ۸ء۸ بلین ڈالر کی عراقی دولت آپ کی چوکیداری کے دوران غائب ہوئی۔ آپ ہیلی برٹن اور دیگر امریکی کارپوریشنوں پر نظر ڈالیں جنہوں نے نہ صرف عراق کی دولت چرائی بلکہ امریکی ٹیکس دہندہ کے بھی پیسے مار گئے۔ ذرا اس تیل پر نظر ڈالیں جس کی آپ نے پیمائش بھی نہیں کی‘ جسے آپ ملک سے باہر شِپ کر رہے تھے اور بیچ رہے تھے۔ کسے معلوم ہے کہ ان کا منافع کہاں گیا؟ آپ ۸۰۰ ملین ڈالر پر نظر ڈالیں جو آپ نے فوجی نمائندوں کو ملک کے اطراف میں بانٹنے کے لیے دیا‘ بغیر گنے یا وزن کیے۔ آپ حقیقی اسکینڈل پر نظر ڈالیں جو آج کے اخبارات میں بریکنگ نیوز کے طور پر شائع ہوا ہے اور جس نے اس کمیٹی کی تاریخ ماضی میں جا کر انکشاف کیا ہے کہ پابندیوں کے اصل ذمہ دار نہ میں ہوں‘ نہ روسی سیاستدان ہیں اور نہ فرنچ سیاستدان ہیں بلکہ اصل ذمہ دار آپ کی اپنی کمپنیاں ہیں‘ آپ کی اپنی حکومت کی چشم پوشی کے ساتھ۔
(بشکریہ: The Milli Gazette 1-15 June 2005)
Leave a Reply