
مصر میں جنم لینے والی اسلامی تحریک اِخوان المسلمون کے نوجوان اب اپنی اور تحریک کی بقا کے لیے کچھ اور سوچنے پر مجبور ہیں۔ امن پسندی کی راہ پر گامزن رہنے سے ان کے لیے مسائل بڑھتے گئے ہیں۔ تحریک کو زندہ اور خود کو زیادہ سے زیادہ فعال اور موزوں رکھنے کے لیے انہوں نے اب انقلابی اطوار اپنانے کی ٹھانی ہے۔
قاہرہ سے تعلق رکھنے والے امر فراغ کا شمار اِخوان المسلمون کے فعال کارکنوں میں ہوتا ہے۔ وہ اِخوان کے فلسفے کو غیر معمولی لگن سے اپنائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ اخوان سے متعلق خبروں اور تصاویر کو بہت عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ اخوان نواز نیوز پورٹل ’’رصد‘‘ بھی وہ عمدگی سے چلا رہے ہیں۔
مگر اب امر فراغ قاہرہ میں نہیں۔ ۵ جولائی ۲۰۱۳ء کو مصر کی فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے اپنی حکومت قائم کرلی، تب اِخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔ اخوان کے سینئر رہنماؤں نے امر فراغ کو مشورہ دیا کہ فوج کے شکنجے سے بچنے کے لیے وہ استنبول میں سکونت اختیار کرے۔ وہاں سے وہ اخوان سے متعلق سوشل میڈیا کو بہتر طور پر چلا سکتا تھا۔ صدر مرسی کی برطرفی کے بعد چند ہفتوں کے دوران امر فراغ کی طرح اور بہت سے اخوان کارکن بھی ترکی چلے گئے، کیونکہ وہاں وہ محفوظ بھی تھے اور زیادہ سکون سے کام بھی کرسکتے تھے۔ تب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ تنظیم کو مکمل تباہی سے کیوں کر بچایا جائے۔ اخوان کو اقتدار ملا تھا، جو فوجی قیادت کو پسند نہ آیا۔ ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ اخوان المسلمون کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔
اخوان المسلمون کے سینئر رہنماؤں نے غیر معمولی شدت والے کریک ڈاؤن میں بھی اپنے آپ کو کسی بھی سطح کے تشدد سے دور رکھا اور کارکنوں کو تلقین کی کہ فوج کے کسی بھی ہتھکنڈے کے جواب میں تشدد کی راہ پر گامزن نہیں ہوا جائے گا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کے ہتھکنڈے بھی زیادہ سے زیادہ بھونڈے ہوتے چلے گئے۔ ملک بھر میں اخوان المسلمون کے کارکنوں کو گرفتار کرنے اور جھڑپوں کے دوران موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ چند ہفتوں میں ڈھائی ہزار سے زائد اخوان کارکن شہید کردیے گئے اور ۱۶؍ہزار سے زائد پابندِ سلاسل ہوئے۔ محمد مرسی سمیت سیکڑوں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ہے۔ اتنا بہت کچھ ہونے پر بھی جب یہ پیغام دیا گیا کہ ’’تشدد کی راہ پر گامزن نہیں ہونا ہے‘‘ تو اخوان المسلمون کے نوجوان کارکنوں میں بددلی پھیل گئی اور انہوں نے سینئر قائدین کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ جب سامنے سے گولی چلائی جارہی ہو تو امن کا پرچم نہیں لہرایا جاسکتا۔ انہوں نے سینئر قائدین پر حالات کا غلط اندازہ لگانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امن کی بات نہیں کی جاسکتی۔ ساتھ ہی انہوں نے قائدین پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے محمد مرسی کی برطرفی کے بعد کی صورت حال کو بہتر طور پر کنٹرول نہیں کیا اور رد عمل صورت حال کے مطابق نہ تھا۔ اخوان المسلمون کے نوجوان کارکنوں نے صاف کہہ دیا کہ اب وہ فوجی قیادت کے خلاف پرامن جدوجہد نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے تنظیم مزید کمزوری کی طرف جارہی ہے۔ نوجوان کارکن چاہتے ہیں کہ مصر کی فوجی قیادت کے خلاف جدوجہد میں امن پسندی کو بہت حد تک ترک کرتے ہوئے انقلاب کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ ساتھ ہی وہ اس خیال کے بھی حامل ہیں کہ فوجی قیادت کو جواب فوری طور پر دیا جائے۔
جب فوجی قیادت کے مظالم بڑھنے لگے تو نوجوان کارکنوں نے اپنے طور پر انقلابی انداز سے جواب دینا شروع کیا۔ اس پر اخوان کی قیادت برہم ہوئی اور اختلافات نے سَر اٹھایا۔ نوجوانوں کی کوششوں کا بنیادی مقصد معیشت کو کمزور کرنا اور فوجی حکومت کو ختم کرنا تھا۔
امر فراغ سے جب ۲۰۱۴ء میں پوچھا گیا کہ مصر میں اخوان کیا کر رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اجازت نہیں کہ پارٹی کی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ بات کریں۔ جب فوجی قیادت نے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونے کے بعد سب کچھ ہتھیانے کی کوشش کی، تب اخوان کے نوجوانوں نے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی ابتدا کی۔ اِخوان کی قیادت اس کے خلاف تھی۔ نوجوانوں نے نیشنل گرڈ کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ کئی مقامات پر بجلی کے بڑے ٹاور گرا دیے گئے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک بھر میں بنیادی سہولتوں کا فقدان اور فوجی حکومت کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہو۔ اخوان کی سینئر قیادت نے اس عمل کو یکسر مسترد کردیا۔
اخوان المسلمون میں جو نوجوان انقلابی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، وہ اب تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ امر فراغ نوجوانوں کے جس گروپ کی نمائندگی کرتا ہے، وہ اب پارٹی میں مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ فروری میں اِخوان کے اندرونی انتخابات میں اس گروپ نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ اخوان کے رہنما احمد عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں اخوان کی ۶۵ فیصد قیادت تبدیل ہوگئی اور نئی قیادت میں ۹۵ فیصد نئی نسل شامل ہے۔ اخوان المسلمون نے اب بیرون ملک مقیم مصریوں کے لیے خصوصی دفتر کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ دفتر مصر کی فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد کو مربوط بنانے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔
عبدالرحمن نے ’’الجزیرہ‘‘ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب تک انقلابیوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرلیے جاتے، کوئی بھی سیاسی حل قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ہم حتمی فتح تک اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ اخوان المسلمون کا مرکزی مقصد ایک ہے، اور وہ یہ کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت ختم کردی جائے۔ محمد مرسی کو سزائے موت سنائے جانے پر اخوان نے جو بیان جاری کیا ہے، اس میں واضح کردیا گیا ہے کہ ایسا انقلاب ناگزیر ہے جس میں سڑے ہوئے جسموں پر سے سَر اتار لیے جائیں اور یہ کہ جبر ڈھانے والے ہر انسان کو ختم کردیا جائے۔
اِخوان المسلمون میں تشدد کی حمایت کرنے والے تیزی سے ابھرے ہیں اور انہوں نے اس بات کی بھرپور وکالت کی ہے کہ فوجی حکومت کو کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر ختم کردیا جانا چاہیے۔ اخوان کے نوجوان قومی معیشت کا پہیہ جام کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ کئی مقامات پر ٹائر جلاکر ٹریفک روکی گئی ہے، ٹرینوں کی آمد و رفت میں خلل ڈالا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خبریں اور تصویریں بھی اَپ لوڈ کی جارہی ہیں۔ اخوان کے نوجوان کارکن اب کُھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ بزدلوں کی طرح مارے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ ظالموں کو اپنی کرنی پر خوف آئے۔ اِخوان سے تعلق رکھنے والی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سابق نائب سربراہ رفیق حبیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اخوان المسلمون کے نوجوان جبر کے آلات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اخوان کی اعلیٰ قیادت کا مائنڈ سیٹ بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی رفیق حبیب نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اخوان کی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد کسی کی جان لینے سے زیادہ بنیادی ڈھانچے کو متاثر کرنا ہے۔
اخوان کی طرف سے پُرتشدد راستہ اپنانا کوئی نئی بات نہیں۔ محمد مرسی کے ایک سالہ دور میں بھی جب کبھی ان کے خلاف احتجاج ہوتا تھا، اخوان کی طرف سے اسے کچلنے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جاتا تھا۔ محمد مرسی کی برطرفی سے چند ماہ قبل اخوان نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ شمالی قاہرہ اور دیگر علاقوں میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا۔ اخوان نے پولیس کی گاڑیوں، سکیورٹی اداروں کے ہیڈ کوارٹر اور پولیس افسران کے مکانات تک کو نشانہ بنایا۔ اس پوری مدت کے دوران اخوان المسلمون کی قیادت نے تشدد کی راہ پر گامزن ہونے والوں کو Own کرنے سے گریز کیا۔ کہا یہ جاتا رہا کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی قیادت کے خلاف نوجوانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں اور ان پر قابو پانا اخوان کی قیادت کے بس کی بات نہیں۔ ساتھ ہی اخوان کی قیادت نے یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ سرکاری مشینری اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والے نوجوان اخوان سے الگ ہوجانے والے گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں اصطلاحاً Offshoot کہا جاتا ہے۔ اخوان نے غیر ملکی سیاحوں کو بھی خبردار کیا کہ وہ مصر آنے سے گریز کریں۔ اخوان ہی نے جہاد اور شہادت سے متعلق بیانات اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے۔ یہ بیانات جنوری ۲۰۱۵ء میں اپ لوڈ کیے گئے تھے۔
اخوان المسلمون نے دو رخی پالیسی اختیار کی ہے۔ ایک طرف وہ ضرورت پڑنے پر تشدد بھی کرتی ہے اور دوسری طرف وہ تشدد سے گریز کا اعلان بھی کرتی ہے۔ اخوان المسلمون میں نوجوان کارکن کسی بھی حال میں یہ نہیں چاہتے کہ اب ہر معاملے میں صرف نرمی اور امن پسندی اپنائی جائے۔ ان کا استدلال ہے کہ جہاں تشدد کی زبان میں بات کی جارہی ہو، وہاں صرف تشدد ہی کی زبان میں جواب دیا جائے۔ وہ اس معاملے میں کسی کی بات ماننے کو بظاہر تیار نہیں۔ اوباما انتظامیہ نے بھی تشدد سے گریز کے اخوان کے بیانات کا خیر مقدم کیا ہے اور واشنگٹن آنے والے اخوان رہنماؤں کا ذاتی حیثیت میں استقبال کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مصر کی صورت حال کا کوئی واضح فوری حل تلاش کرنا ہے، تاکہ خرابیاں اتنی نہ بڑھیں کہ انہیں دور کرنا ممکن ہی نہ رہے۔
انقلابی انداز اختیار کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ مصر کی فوجی حکومت کے خلاف انقلابی انداز اختیار کرنے والے دیگر گروپوں اور تنظیموں سے ہم آہنگی بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور ان کے ساتھ مل کر کام بھی کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں قائم اخوان گروپ مکاملین سے گفتگو کرتے اخوان لیڈر محمد گابر کا کہنا تھا کہ اب انقلابی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پارٹی کے اندر اور باہر جتنے بھی ماہرین ہیں، ان کی خدمات حاصل کرنا اور انہیں بروئے کار لانا لازم ہوگیا ہے۔
اخوان بالعموم بیرونی عناصر پر زیادہ اعتبار نہیں کرتی۔ مگر اب وہ بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کو تیار ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصر کے حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت گھٹ رہی ہے اور اس کی قیادت بھی محسوس کرنے لگی ہے کہ وہ مطابقت سے محروم ہو رہی ہے۔
اب اخوان کی قیادت کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ مصر میں السیسی کی فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت میں اس کا حصہ گھٹ رہا ہے۔ فوجی حکومت کے خلاف ۷۰ فیصد جدوجہد دوسری جماعتوں اور گروپوں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ اخوان کی قیادت چاہتی ہے کہ وہ صورت حال سے بھرپور مطابقت پیدا کرے تاکہ مصر کے حالات تبدیل کرنے کے حوالے سے کریڈٹ دوسرے نہ لے اڑیں۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اخوان بہت سے اندرونی معاملات میں الجھی ہوئی ہے جس کے باعث اس کے لیے بھرپور انداز سے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ بہت سے سرکردہ کارکن پابندِ سلاسل ہیں۔ ہزاروں نوجوان کارکنوں سے بہتر روابط استوار نہیں۔ ان سے رابطے میں رہنا بنیادی مسئلہ بن گیا ہے۔
بیرون ملک مقیم اخوان کارکنوں کے لیے قائم دفتر دیگر تنظیموں اور گروپوں سے رابطوں میں مصروف ہے تاکہ السیسی حکومت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی راہ ہموار کی جاسکے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے۔
محمد مرسی کی برطرفی کے بعد قائم کی جانے والی انقلابی کونسل میں بھی اخوان المسلمون کے راہنما اب مرکزی حیثیت میں ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب اخوان انقلابی اطوار اپناکر السیسی حکومت کو برطرف کرنا چاہتی ہے۔ صورت حال سے مطابقت پیدا کرنے کا اخوان کے پاس اب یہی ایک بہتر طریقہ رہ گیا ہے۔
“Egypt’s Muslim Brotherhood gets a facelift”. (“Foreign Affairs”. May 20, 2015)
Leave a Reply