
برونائی کا شمار انتہائی مالدار ریاستوں میں ہوتا ہے۔ برونائی ایک زمانے سے معاشی استحکام اور خوش حالی کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں رونما ہونے والی معاشی مشکلات نے برونائی کو بھی نہیں بخشا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ ریاست بھی حالات کا شدید دباؤ جھیل رہی ہے۔ ایک طرف عالمی معاشی خرابیاں ہیں جو معاملات کو الجھارہی ہیں اور دوسری طرف اندرونی قرضے ہیں جن کا بڑھتا ہوا حجم برونائی سے اُس کی منفرد حیثیت چھیننے کے درپے ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کی یہ چھوٹی سی ریاست خوشحالی کی انوکھی داستان سنائی دیتی ہے۔ پانچ لاکھ تک کی آبادی والی یہ چھوٹی سی سلطنت فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کی خوش حال ترین ریاست کہی جاسکتی ہے۔ برونائی کے بادشاہ انتہائی فیاض واقع ہوئے ہیں۔ وہ کبھی دنیا کے مالدار ترین فرد تھے۔ انہوں نے سلطنت میں تعلیم اور صحتِ عامہ کی سہولتیں مکمل طور پر مفت کر رکھی ہیں۔ خوراک پر غیر معمولی زرِ اعانت دیا جاتا ہے اور رہائشی سہولتوں پر بھی۔ برونائی کے بیشتر باشندے سرکاری ملازم ہیں اس لیے انہیں غیر معمولی معاشی استحکام میسر ہے۔
برونائی کی دولت اور عمومی خوش حالی کو دیکھتے ہوئے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اس ننھی منی سلطنت میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ برس ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر برونائی کے وزیرِ صحت نے بتایا کہ برونائی کے کم و بیش سات ہزار باشندے (یعنی آبادی کا ڈیڑھ فیصد) مختلف ذہنی عوارض، اضطراب، شدید ذہنی دباؤ اور معاشرتی طور پر الگ تھلگ رہ جانے کے احساس سے دوچار ہیں۔ وزیرِ موصوف نے بتایا کہ ان میں سے چار ہزار افراد شزوفرینیا (شقاقِ دماغی) میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری میں لوگ شدید ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاملات کو کچھ کا کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ بیماری جب شدت اختیار کرتی ہے تو انسان کو ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی کیونکہ وہ بیشتر معاملات میں شدید تذبذب اور الجھن کا شکار رہتا ہے۔ افکار میں انتشار نمایاں ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈھنگ سے سوچنے کی صلاحیت ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ برونائی کے باقی تین ہزار باشندے عجیب کیفیت کے حامل ہیں جس میں وہ کسی بھی وقت موڈ کی خرابی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں شخصیت کی دُوئی یا ثنویت بھی بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بیماری انسان کو منقسم کردیتی ہے۔ برونائی میں ذہنی امراض کے حوالے سے سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ چار سال کے دوران خود کشی کرنے والوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔
رائل برونائی پولیس نے خود کشی کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اُن کے مطابق ۲۰۱۵ء میں خودکشی کرنے والوں کا تناسب ۹ء۱ فی ایک لاکھ تھا۔ ۲۰۱۸ء میں یہ تناسب ۶ء۲ فی ایک لاکھ ہوچکا تھا۔ ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء میں برونائی میں خودکشی کرنے اور خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں کم و بیش ۶۲ فیصد کا پریشان کن اضافہ دیکھا گیا۔ گزشتہ برس فروری میں نیشنل مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن ٹالیان ہیراپن ۱۴۵ شروع کی گئی تھی۔ اب اس ہیلپ لائن پر ہر ماہ کم و بیش ۲۰۰؍افراد رابطہ قائم کرکے ذہنی صحت کے حوالے سے ماہرانہ رائے لیتے ہیں۔
برونائی میں ۱۰ سال سے بھی زائد مدت سے پریکٹس کرنے والے بھارتی ڈاکٹر عبدالحق کا کہنا ہے کہ برونائی میں ذہنی صحت سے متعلق پیچیدگیوں اور خود کشی کے رجحان کے پنپنے میں کئی عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کی جانب سے ہر معاملے میں زرِ اعانت دیے جانے سے بھی معاملات بگڑے ہیں۔ جب لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ کچھ چیزیں تو ہر حال میں ملیں گی تو وہ دوسری چیزوں کی طرف لپکتا ہے۔ سلطان کے حکم پر کی جانے والی فیاضی نے عوام کو مادّہ پرست بنا ڈالا ہے۔ وہ اب بہت سی چیزوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سبھی کو جدید ترین سہولتیں اور تعیشات کے حصول کی خواہش ہے۔
برونائی میں عام آدمی کا معیارِ زندگی انتہائی قابلِ رشک رہا ہے۔ عام گھر میں تین تین کاریں عام ہیں کیونکہ پٹرول اور ڈیزل بہت سستا ہے۔ سنگاپور کے ڈالر اور برونائی کی کرنسی کی مالیت برابر ہے۔ برونائی میں پینے کے پانی کی بوتل یا ایک کپ چائے کے مقابلے میں ایک لیٹر پٹرول یا ڈیزل سستا ہے۔
بیرون ملک تعلیم پانے والی نسل کے ہاتھوں اس وقت برونائی کا خاندانی نظام بھی خطرے میں ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک، بالخصوص مغربی دنیا میں پڑھ لکھ کر آنے والے خاصی آزاد زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ برونائی کے معاشرے میں خیالات اور نظریات کو دبانے کی روش ہے تو ان میں احتجاجی رویہ پیدا ہوتا ہے۔ مغرب میں تعلیم پانے والوں کو جب ملک میں مرضی کا ماحول نہیں ملتا تو وہ صرف اپنے گھر یا خاندان ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔
فٹنس انسٹرکٹر مسٹر ڈین کہتے ہیں کہ برونائی میں ذہنی امراض کے پنپنے کی رفتار بڑھ چکی ہے۔ لوگ بہت کچھ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مسائل کے باوجود معیارِ زندگی برقرار رہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں معاشی حالات بدل چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں بہت کچھ نئے رنگ میں سامنے آیا ہے۔ پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کی فیاضی کی بدولت انہوں نے جو بھی مزے اڑائے ہیں اڑاتے رہیں۔ ذہنی و جسمانی صحت چاہے کچھ بھی ہو، لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی ساکھ برقرار رہے۔ مسٹر ڈین مزید کہتے ہیں کہ لوگوں کو معاشی معاملات کے بارے میں باقاعدگی سے بتایا جائے تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔ ان کے خیال میں معاملات کسی اور نے نہیں بلکہ خود برونائی کے باشندوں نے بگاڑے ہیں۔ کوئی کسی سے زور زبردستی نہیں کرتا اور کوئی ہمارے سر پر پستول رکھ کر نہیں کہتا کہ آئی فون خریدو۔
مسٹر ڈین کہتے ہیں کہ لوگوں کو معاشی معاملات کے بارے میں تفصیل سے بتایا جانا چاہیے تاکہ انہیں صرف یہی معلوم نہ ہو کہ بجٹ کیسے بنایا جائے بلکہ یہ بھی جانتے ہوں کہ معاشی و مالیاتی نظم و ضبط کیا ہوتا ہے اور اس سے زندگی کس طور بہتر ہوتی ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ برونائی میں عام آدمی قرضوں کے ساتھ جینے کا عادی ہوچکا ہے۔ لوگ جی بھرکے قرضے لیتے ہیں اور پھر اُنہیں چکانے کی تگ و دَو میں لگے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کی حدود میں جینا سیکھیں مگر اس کے برعکس وہ قرضے لیے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کی جدید ترین اشیاء خریدنے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ لوگ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے ہیں کہ معیشت کا استحکام داؤ پر لگ چکا ہے۔ مکمل طور پر پٹرولیم کی برآمدات پر مدار کرنے سے معیشت کمزور پڑگئی ہے۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ ملک کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے کچھ اور سوچا جائے۔ معیشت جمود کا شکار ہے۔ یہ جمود قومی آمدن کے متبادل ذرائع تلاش کرنے ہی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ لوگ جی بھرکے آسائشات و تعیشات استعمال کرتے ہیں، قرضوں پر قرضے لیے جاتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ پھنس گئے تو سلطان آکر انہیں بچالیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت کے پاس انہیں دینے کے لیے روزگار کے مواقع نہیں۔ پٹرولیم سے ہٹ کر ہے کیا؟ کون سا ایسا شعبہ ہے جو ملازمت کے بہتر مواقع فراہم کرسکے؟ خاتون صحافی کہتی ہیں کہ ہماری معیشت ایسے بچے کی طرح ہے جس نے اڑنا تو سیکھ لیا ہے، چلنا نہیں سیکھا۔ لوگ وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے کبھی عادی رہے ہی نہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے کس طرح کی مشکلات نے جنم لیا ہوگا۔ جس نے اڑنا سیکھا اور چلنا نہیں سیکھا وہ اب مفلوج سا ہوچکا ہے۔ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پہلی دنیا کے مسائل برونائی کے عوام کو تیسری دنیا کے مسائل کے گڑھے میں گرا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ برونائی کی نئی نسل کو اب اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ قومی معیشت مشکل میں ہے اور یہ کہ کہیں سے کوئی مدد کے لیے نہیں آئے گا، اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں اور خوب محنت کرتے ہوئے خود کو نئی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ معمر افراد یہ سوچ ضرور رکھتے ہیں کہ یا تو اللہ کی طرف سے کوئی خاص مدد آئے گی یا پھر سلطان انہیں بچالے گا۔ نئی نسل ایسی کسی بھی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا نہیں۔ سوشل میڈیا کے اس ماہر اور مشیر کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ برونائی ایک ایسی معاشی جنت ہے جس کا بیرونی دنیا کے معاشی مسائل سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ یہ تصور اب ختم ہوچکا ہے۔ سب کو اور بالخصوص نئی نسل کو اندازہ ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے اور کسی پر مدار رکھنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا ہوگا۔
مسٹر ڈین کہتے ہیں کہ صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے۔ سب کو مل کر کچھ کرنا ہوگا۔ برونائی کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں اور اس کا ادراک سبھی کو ہے۔ معیشت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے درست سوچ اور درست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اور ہاں، اس میں کچھ وقت بھی لگے گا۔
(آصف اللہ خان کو صحافت کی دنیا میں اپنا آپ منواتے کئی زمانے بیت چکے ہیں۔ وہ ’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘، ’’خلیج ٹائمز‘‘ اور ’’دی برونائی ٹائمز‘‘ کی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Brunei’s hidden economic crisis”. (“thediplomat.com”. June 29, 2021)
Leave a Reply