
سوال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی کو روکنا دینی طبقات کے نزدیک ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس میں بھی برائی (منکر)کو بزور قوت روکنے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے، اور اسی طرح یہ بات بھی کہ برائی کو روکنے کا یہ حق کسے حاصل ہے اور یہ کب جائز ہوتا ہے؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حق فقط اہلِ اقتدار کو حاصل ہے، یعنی یہ حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے، افراد کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ حق افراد کے پاس ہو تو معاشرے میں فساد رونما ہوسکتا ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ برائی کو روکنا ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کی دلیل یہ صحیح حدیثِ رسولؐ ہے:
’’تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے۔ اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے‘‘۔ (مسلم۔ عن ابی سعید الخدریؓ)
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قوی ترین ایمان پر قادر ہے تو وہ اس کے ضعیف ترین درجے پر کیوں راضی ہو جائے؟ یہ وہ رجحان ہے جو انجام اور نتائج کی پروا کیے بغیر برائی کو روکنے کے حوالے سے بعض جذباتی نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ اہلِ اقتدار اور حکومت خود برائی کا ارتکاب کرتی ہے، یا اس کی پشت پناہی کرتی ہے، حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہراتی ہے، یا فرائض کو ساقط کرتی ہے، یا حدود سے تجاوز کرتی ہے، یا حق سے دشمنی رکھتی ہے اور باطل کو رواج دیتی ہے، تو ایسی صورتحال میں افراد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں اگر افراد کوئی نقصان اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کی خاطر ہوگا، اگر قتل کر دیے جائیں گے تو فی سبیل اللہ شہادت ہوگی اور حدیث رسول کے مطابق وہ سید الشہدا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کی ہمسائیگی میں جگہ پائیں گے۔
دونوں طرف کے ان دلائل کی بنا پر بہت سے لوگوں خصوصاً غیرت مند دین پسند نوجوانوں کے لیے یہ معاملہ کچھ الجھ سا گیا ہے۔ جو لوگ پہلے موقف کے قائل ہیں کہ برائی کو روکنے کا اختیار اہلِ اقتدار کے پاس ہے، عموماً وہ لوگ ہیں جن کو سرکاری علماء کہا جاتا ہے اور عوام میں ان کی بات کو کوئی اہمیت اور وزن حاصل نہیں ہوتا، جبکہ دوسرا گروہ جو برائی کو بزور قوت روکنے کا قائل ہے، یہ سب وہ نوجوان ہیں جن کو انتہا پسند، جذباتی اور شریعت کا ظاہری مفہوم لینے کا الزام دیا جاتا ہے۔
گزارش ہے کہ صحیح رائے کی نشاندہی کریں۔ ہوسکتا ہے دونوں ہی درست ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں درست نہ ہوں، بلکہ تیسری رائے درست ہو جو اِن کے علاوہ ہو۔
جواب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کی فضیلت کے دو بڑے اسباب میں سے ایک قرار دیا ہے:
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران:۱۱۰)
قرآن مجید کی نظر میں مومنوں کی اساسی صفات یہ ہیں:
’’اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اُس کی بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے‘‘۔ (التوبہ:۱۱۲)
قرآن مجید نے جس طرح نیکی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں کی تعریف کی ہے، اسی طرح ان لوگوں کی مذمت بھی کی ہے جو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے نہیں روکتے:
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِعمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا‘‘۔ (المائدہ)
مذکورہ آیت کے مطالعے کی روشنی میں مسلمان صرف انفرادی حیثیت ہی میں صالح انسان نہیں ہوتا، جو اچھے کام کرتا ہے، بُرائی سے بچتا ہے اور اپنے ایک خاص دائرے میں زندگی گزارتا ہے، نہ اسے یہ فکر ہو کہ خیر کادائرہ سمٹ رہا ہے اور اسے بے وقعت بنایا جارہا ہے، نہ اسے یہ پریشانی ہو کہ بُرائی اس کے اردگرد پھیل رہی ہے اور پَر پُرزے نکال رہی ہے۔ بلکہ ہر مسلمان اپنی ذات میں ایسا صالح انسان ہوتا ہے جس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اوروں کی بھی اصلاح کرے۔ اسی بات کو قرآن مجید کی مختصر سورہ، سورۃ العصر میں بیان کیا گیا ہے:
’’زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔
جو مسلمان دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جائے، اس کے لیے نجات ممکن نہیں۔ نجات اگر مسلمان کا مقدر بن سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں جب وہ حق اور صبر کی تلقین کا فریضہ ادا کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی نام دیا گیا ہے۔ مسلمان امت مسلمہ میں حق و خیر کا محافظ اور نگران ہے۔
مسلم معاشرے میں برائی صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب معاشرہ غفلت کا شکار ہو جائے یا ضعف اور انتشار سے دوچار ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں یہ معاشرہ نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی خیال نہیں کرسکتا اور اپنے ان دگرگوں حالات کی بنا پر کسی قانون کے نفاذ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
برائی، مسلم معاشرے میں غیر مقبول عنصر کے طور پر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیسے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ مجرم کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ ماورائے عدالت اور معاشرے سے چھپ چھپا کر زندگی گزارتا اور نقل و حرکت کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ برائی کے سامنے اُس وقت تک مزاحمت کرے اور اُسے روکے، جب تک اس کا ایسے علاقے سے خاتمہ نہیں ہوجاتا جو علاقہ برائی کو پسند کرنے والوں کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کی سرزمین ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسولؐ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ برائی کو روکنا ہر اس مسلمان کا حق بلکہ فریضہ ہے جو اسے دیکھ لے۔ اس بات کے فرض اور واجب ہونے کی دلیل حدیث میں مذکور لفظ مَنْ ہے، یعنی مَنْ رَاٰی (جو بھی دیکھے) عام الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہر اس شخص کے لیے ہیں جو برائی کو دیکھے، وہ شخص حاکم ہو یا محکوم۔ رسول اللہﷺ نے تو تمام مسلمانوں کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے، یعنی مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَراً (تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے) آپﷺ نے اس میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا، صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کی تمام نسلیں اس میں شامل ہیں۔ یہ برائی کو دیکھنے والا امت کا رہنما، سربراہ اور حاکم بھی ہوسکتا ہے اور عوام میں سے کوئی فرد بھی ہوسکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی برائی کو دیکھے، وہ طاقت کے مطابق اسے روکنے کی کوشش کرے۔
برائی کو روکنے کی شرائط
برائی کو روکنے کے حوالے سے مسلم فرد یا مسلم جماعت کو جن لازمی شرائط کا خیال رکھنا واجب ہے اور جن کی طرف حدیث کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں، وہ شرائط حسبِ ذیل ہیں:
٭ حرام اور متفقہ منکر
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ برائی متفقہ طور پر حرام کاموں میں شامل ہو، یعنی وہ برائی حقیقتاً منکر ہو۔ اس سے مراد وہ برائی ہے جس کو اولاً ہاتھ کی طاقت سے، پھر زبان سے اور پھر دل سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حدیث میں مذکور لفظ منکر (برائی) کا اطلاق صرف اس حرام کے اوپر ہی کیا جاتا ہے جس کو چھوڑنے کا شارع نے تاکیدی حکم دیا ہو، جب کہ اس حرام کا ارتکاب کرنے والا عذابِ الٰہی کا مستحق بھی ٹھہرتا ہو، اور پھر اس حرام کا تعلق منع کیے گئے حرام کاموں کا ارتکاب کرنے سے ہو یا انجام دیے جانے والے امور کو چھوڑ دینے سے، اس منکر کا تعلق محرماتِ صغیرہ (چھوٹے حرام امور) سے ہو یا محرمات کبیرہ (بڑے حرام امور) سے۔ اگرچہ محرماتِ صغیرہ کے بارے میں تساہل سے کام لیا جاتا ہے، لیکن محرماتِ کبیرہ کے متعلق ایسا تساہل نہیں پایا جاتا، خصوصاً اُس وقت جب ان منکرات کا مرتکب ان کا عادی بھی نہ ہو۔ قرآن حکیم میں ہے:
’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو، جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘۔ (النساء)
رسول کریمﷺ نے فرمایا:
’’پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور رمضان سے اگلے رمضان تک کے درمیانی عرصے کے گناہوں کو محو کردیتی ہیں، اگر تم کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔ (مسلم۔عن ابی ہریرہؓ)
لہٰذا مکروہ افعال کا ارتکاب اور مسنون اور مستحب اعمال کو ترک کر دینے کا فعل منکر میں داخل نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے فرائضِ اسلام کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے اس کے سامنے نماز، روزہ، زکوٰۃ کے فرائض بیان کیے۔ یہ شخص ہر فرض کے ذکر کے بعد آپﷺ سے پوچھتا تھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ میرے اوپر فرض ہے؟ آپﷺ اسے جواب دیتے: اگر تم نفلی طور پر کچھ کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔ رسول اللہﷺ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو اُس شخص نے کہا، اللہ کی قسم یارسول اللہﷺ میں نہ اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ نجات پاگیا‘‘۔ یا آپﷺ کے الفاظ تھے: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہوگیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، عن طلحہ بن عبیداللہ)۔ ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اِس آدمی کو دیکھ لے‘‘۔ (بخاری، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ منکر جس کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہو، وہ حرام کے درجے میں آتا ہو اور شریعت کی رو سے حقیقتاً منکر ہو۔ شریعت کے ٹھوس اور واضح الفاظ یا قطعی قواعد و ضوابط سے اس کا منکر ہونا ثابت ہو۔ اس منکر کا منکر ہونا محض رائے اور اجتہاد سے ثابت نہ ہوتا ہو، کیونکہ رائے اور اجتہاد درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ یہ زمانے، مقام اور حالات و رواج کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس برائی کے منکر ہونے پر سب کا اتفاق ہو۔ ایسے امور جن کے بارے میں قدیم یا جدید علما اجتہاد کا اختلاف ہو، یعنی اس امر کے جائز ہونے اور ممنوع ہونے کے بارے میں علما متفق نہ ہوں، تو یہ اس منکر کے دائرے میں داخل نہیں جس کو ہاتھ کی قوت سے روکنا، خصوصاً انفرادی سطح پر روکنا واجب ہے۔
تصویر، آلات یا غیر آلات کی موسیقی، عورت کا چہرے اور ہتھیلیوں کو نہ چھپانا، عورت کا عدالتی امور کے مناصب پر تقرر، ایک ہی دن روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ جو مطالع کے اختلاف کی وجہ سے سامنے آتا ہے، چاند کو آنکھ سے مشاہدہ کرنا یا ریڈار اور کیلنڈر وغیرہ کی مدد سے یہ حساب قائم کرنا وغیرہ ایسے امور اور مسائل ہیں جن کے بارے میں قدیم اور جدید فقہا کا طول طویل اختلاف موجود ہے۔ ان امور میں کسی مسلمان فرد یا مسلمان جماعت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک رائے کو اختیار کرکے دوسروں کو سختی کے ساتھ اس پر مجبور کرے۔
یہاں تک کہ جمہور اکثریت کی رائے اقلیت کی رائے کو ساقط اور بے اعتبار نہیں کرسکتی، خواہ مخالفت میں صرف ایک فرد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرد اہلِ اجتہاد میں سے ہو، یعنی اس کے اندر مجتہدانہ صفات اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے اور عہد میں ایک رائے متروک ہوتی ہے، لیکن کسی دوسرے عہد میں اس کا رواج ہو جاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فقیہ کی رائے کو اس کے دور میں ضعیف قرار دیا گیا اور بعد میں کوئی پیدا ہوا، جس نے اس رائے پر دلائل قائم کیے اور اس کو صحیح اور قویٰ کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ پھر یہی رائے قابل اعتماد قرار پائی اور اسی کی بنیاد پر فتوے دیے جانے لگے۔
طلاق اور خاندانی معاملات میں امام ابن تیمیہؒ کی آرا کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ انہیں زندگی بھر ان کی آرا کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفات کے بعد بھی صدیوں ان کی رائے کے خلاف مزاحمت ہوتی رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے پھیلنے کے اسباب پیدا فرمائے اور یہی آرا بہت سے اسلامی ممالک میں فتویٰ، عدالت اور قانون سازی کے شعبوں میں سند قرار پائیں۔
وہ منکر جس کو طاقت سے روکنا واجب ہے، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ثابت اور بیّن منکر ہو۔ مسلمان ائمہ کا اس کے منکر ہونے پر اتفاق ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا روکنا شر کے لامتناہی سلسلے کا باعث نہ بن جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی برائی کو روکنے کے بارے میں رائے رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ اس برائی کو طاقت سے روک دیں۔
بعض اسلامی ممالک میں جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں کے گروپ بنے ہوئے ہیں تاکہ ان دکانوں کی توڑ پھوڑ کریں جو بچوں کے کھلونے اور گڑیائیں فروخت کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ کھلونے اور گڑیائیں بُت ہیں اور مجسمے کی شکلیں ہیں، جو کبائر میں بھی سب سے اوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب ان نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ قدیم علما نے بچوں کے کھلونوں کی اجازت دی ہے کیونکہ ان میں تو صورت (تصویر) کی توہین اور اس کی تعظیم کی نفی ہے۔ اس پر نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ یہ رائے تو قدیم کھلونوں کے بارے میں تھی، اب تو تصویر کی کامل تر صورت سامنے آگئی ہے، جس میں کھلونا آنکھیں کھول اور بند کرسکتا ہے۔ جب ان نوجوانوں سے یہ کہا گیا کہ بچہ تو ان کھلونوں کو دائیں بائیں پھینکتا ہے، ان کا بازو توڑ دیتا ہے، ٹانگ الگ کردیتا ہے، وہ تو انہیں تعظیم و احترام یا تقدس نہیں دیتا، تو ان نوجوانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اسی طرح کئی اسلامی ممالک میں بعض نوجوانوں نے رمضان کا چاند نظر آجانے پر ہوٹلوں، جوس کی دکانوں اور قہوہ خانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی۔ ان جذباتی نوجوانوں کا خیال تھا کہ رمضان شروع ہو چکا، لہٰذا اب کھلے عام کھانا پینا جائز نہیں۔ ایسا ہی واقعہ مصر میں بھی عیدالفطر کے موقع پر پیش آیا تھا، جب دینی حلقوں نے مختلف دلائل کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ شوال شروع نہیں ہوا۔ مطلع ابر آلود ہونے کے سبب اس رات چاند کی رویت ممکن نہیں تھی، لہٰذا مصر میں چاند دکھائی نہ دیا۔ مگر بعض حلقوں نے چاند نظر آجانے کا اعلان کردیا، تو کچھ نوجوانوں نے اصرار کیا کہ وہ روزہ چھوڑ دیں گے اور قوم کی اکثریت اور حکومت کے علی الرغم عید منائیں گے۔ اس موقع پر امن فورسز کے ساتھ تصادم ہو گیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میری رائے میں یہ لوگ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خطا کے مرتکب ہوئے ہیں:
۱۔ فقہا کی آرا چاند کی رویت پر اعتماد کرنے کے حوالے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کسی نے ایک شہادت کو کافی سمجھا ہے، کسی نے دو شہادتوں کا مطالبہ کیا ہے اور کسی نے صاف مطلع میں جمِ غفیر کی شہادت کی شرط عائد کی ہے۔ ان میں سے ہر کسی کے اپنے دلائل اور اپنا زاویۂ نظر ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بغیر کسی قوتِ نافذہ کے ایک طریقے پر مجبور کرنا جائز نہیں۔
۲۔ اسی طرح ان فقہا کا اختلاف مطالع کے اعتبار اور عدم اعتبار کے مسئلے میں بھی اختلاف ہے۔ متعدد فقہی مذاہب کی رائے یہ ہے کہ ہر علاقے کی رویت اپنی ہے۔ کسی ایک علاقے کے لیے کسی دوسرے علاقے کی رویت پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، جیسا کہ یہ مسلم میں حضرت کریبؓ کی حدیث سے معروف ہے۔
۳۔ اختلافی امور میں حکمران یا قاضی کا حکم اختلاف کا خاتمہ کر دیتا ہے اور قوم کے لیے اس کا حکم ماننا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے مسائل میں جب مقتدر قانونی قوتیں کسی امام کے قول یا اجتہاد کو اختیار کرلیں تو ان کی پیروی فرض اور قوم کے اندر فرقہ بازی ممنوع ہوجاتی ہے۔
میں نے اپنے بعض فتاویٰ میں کہا ہے کہ اگر ہم رمضان کا روزہ شروع کرنے اور عید منانے کے معاملے میں تمام مسلمانوں کی وحدت کو ممکن نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ایک علاقے یا ملک کے لوگ تو اپنے شعائر میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ ان کے لیے یہ صورتحال قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے کہ ایک ملک کے لوگ دو حصوں میں بٹے رہیں۔ ایک حصہ روزے سے ہو اور دوسرا روزے کے بغیر۔ لیکن مخلص نوجوانوں کی اس اجتہادی غلطی کا علاج گولی نہیں ہے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ انہیں بات سمجھانا ہے۔
منکر کا ظاہری ارتکاب
دوسری شرط یہ ہے کہ منکر کا ارتکاب ظاہری ہو، خفیہ نہ ہو، یعنی اس منکر کا ارتکاب ظاہر اور دیکھا جاسکنے والا ہو۔ اگر کوئی شخص اسے لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتا ہے اور اپنے بند دروازے کے اندر ایسا کرتا ہے تو کسی کے لیے اس کے بارے میں نگرانی کے آلات یا خفیہ تصویری کیمروں یا منکر کے ارتکاب کے شک میں اس کے گھر پر چھاپہ مارنا جائز نہیں ہے۔
یہ وہ نکات ہیں جن کی نشاندہی حدیث کے یہ الفاظ کرتے ہیں: ’’جو تم میں سے کسی منکر کو دیکھے وہ اسے بدل دے‘‘۔ یعنی روکنے کا حکم منکر کے دکھائی دینے اور مشاہدے میں آسکنے سے مشروط ہے۔ منکر کے بارے میں کسی سے صرف سن لینے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اسلام اس شخص پر سزا کو نافذ نہیں کرتا جو منکر کا ارتکاب چھپ چھپا کر کرے، علی الاعلان نہ کرے۔ اسلام اس کا حساب آخرت میں اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا میں اس کے اوپر کسی کو کوئی اختیار نہیں، سوائے یہ کہ وہ خود اپنے جرم کو ننگا کردے اور اپنا پردہ ظاہر کردے۔ عذابِ الٰہی کے بارے میں تو یہاں تک ہے کہ جس شخص کے جرم پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ خود بھی اسے ظاہر نہیں کرتا، تو ایسے مجرمین کی سزا میں تخفیف کردی جائے گی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میری پوری امت کو معاف کیا جاسکتا ہے، مگر معصیت کا علی الاعلان ارتکاب کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ خفیہ منکرات کے بارے میں کسی کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ خفیہ منکرات میں سرفہرست قلبی معصیات یعنی ریاکاری، نفاق، کبر، حسد، بخل اور غرور وغیرہ ہیں۔ اگرچہ دین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے، لیکن یہ اُس وقت کبیرہ بنتے ہیں جب ظاہری عمل میں ڈھل کر سامنے آجائیں، اور ایسا اس لیے ہے کہ ہمیں ظاہری صورتحال پر رائے دینے اور خفیہ صورتحال کو اللہ پر چھوڑ دینے کا حکم ہے۔
حضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس سلسلے کے عمدہ واقعات میں سے ہے۔ یہ واقعہ امام غزالیؒ نے ’احیاء علوم الدین‘ میں ’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘ کے تحت بیان کیا ہے:
’’حضرت عمرؓ دیوار پھلانگ کر ایک آدمی کے گھر میں چلے گئے اور اس آدمی کو ناپسندیدہ حالت میں دیکھا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ آدمی نے کہا، امیر المومنین! اگر میں نے ایک پہلو سے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو آپ نے تین پہلوئوں سے نافرمانی کی ہے۔ امیر المومنینؓ نے پوچھا: وہ کیسے؟ آدمی نے کہا، اللہ نے فرمایا ہے ’’تجسس نہ کرو…‘‘ (الحجرات:۱۲)۔ جبکہ آپؓ نے تجسس کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو… ‘‘(البقرۃ:۱۸۹)۔ جب کہ آپ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو…‘‘(النور:۲۷)۔ جب کہ آپ نے سلام نہیں کیا۔ آدمی کے اس جواب پر حضرت عمرؓ نے آدمی کو توبہ کرنے کی شرط پر چھوڑ دیا‘‘۔ (احیاء علوم الدین، ج ۷، ص ۱۲۱۸، طبع الشعب، القاہرہ)
منکر کو روکنے کی طاقت
تیسری شرط یہ ہے کہ منکر کو روکنے کی بالفعل طاقت رکھتا ہو۔ گویا منکر کو روکنے والا ذاتی طور پر یا اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر بالفعل یہ طاقت رکھتا ہو کہ منکر کو قوت سے روک سکے۔ اس کے پاس مادّی اور معنوی طور پر یہ قوت ہو کہ وہ آسانی کے ساتھ منکر کا ازالہ کرسکے۔ یہ شرط بھی زیر بحث حدیث کے ان الفاظ سے ماخوذ ہے:’’جو طاقت نہ رکھتا ہو وہ زبان سے روکے‘‘۔ یعنی جو شخص برائی کو اپنے ہاتھ کی قوت سے نہیں روک سکتا، وہ اس کام کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ خود صرف زبان و بیان پر ہی اکتفا کرے اور وہ بھی اگر اس کے بس میں ہو تو۔
یہ کام غالباً ہر صاحبِ اختیار اپنے دائرہ اختیار میں کرسکتا ہے۔ خاوند اپنی بیوی، باپ اپنی اولاد، سرپرست اپنے زیر سرپرستی افراد، کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کے اندر اور امورِ حکومت کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری اور اختیار کے حدود میں رہتے ہوئے کرسکتے ہیں۔ کیونکہ بعض اشیا و امور کا فیصلہ ذمہ دارانِ حکومت کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا معاملہ اس مسئلے میں بہت واضح مثال ہے، یعنی وہ موروثی نظام سے ہٹ کر عنانِ حکومت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں نہیں لوٹا سکے۔
ہم نے اس شرط کے آغاز میں مادّی و معنوی کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی پر یا باپ کا اپنی اولاد پر اختیار اس لیے نہیں ہے کہ وہ مادّی قوت کا مالک ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس کا ایک احترام اور ہیبت ہوتی ہے جو اس کی بات کو منواتی اور اس کے حکم کو نافذ کرتی ہے۔
فتنہ و فساد کا خدشہ:
چوتھی شرط یہ ہے کہ کسی بڑی برائی کے پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ گویا منکر کو طاقت سے روکنے یا اسے ختم کرنے کے نتیجے میں کوئی بڑی بُرائی پیدا ہو جانے کا ڈر نہ ہو، کہ یہ فعل ایسے فساد کا باعث بن جائے جس میں بے گناہوں کا خون بہہ جائے، حرمتیں پامال کی جائیں، مال و دولت لوٹ لی جائے اور آخری نتیجہ یہ نکلے کہ برائی اپنے قدم مزید مضبوط کرلے اور ظالم و متکبر زمین میں ظلم و فساد کا بازار گرم کر دیں۔
علما نے اسی بنا پر اس منکر پر خاموشی کو جائز ٹھہرایا ہے جس کو روکنے کے نتیجے میں اس سے بھی بڑی برائی پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ یہاں کمتر ضرر کے ارتکاب اور کمتر شر کے اختیار کا اصول نافذ ہوتا ہے۔ اس بارے میں صحیح حدیث بھی موجود ہے: نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اگر تمہاری قوم سے پہنچنے والے شر کا مجھے خوف نہ ہو تو میں کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر استوار کر دوں‘‘۔
قرآن مجید میں بھی اس نکتے کی تائید میں واقعہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے رب سے وعدے کے مطابق چالیس راتیں گزارنے کے لیے قوم سے دور چلے گئے تو ان کی غیر موجودگی میں یہودی جادوگر سامری نے قوم کو سنہری بچھڑے کے فتنے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ کے شریکِ نبوت بھائی حضرت ہارون علیہ السلام نے قوم کو وعظ و نصیحت کی، مگر وہ باز نہ آئے اور سامری کے پیچھے چل پڑے۔ کہنے لگے:
’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ ہمارے پاس واپس نہ آجائے‘‘۔ (طٰہٰ)
جب حضرت موسیٰؑ میعاد پوری کرکے واپس آئے اور قوم کو اس بچھڑے کی عبادت جیسی بدترین برائی میں مبتلا دیکھا تو بھائی کو ان کی سستی اور عدم توجہی پر زدوکوب کرنے لگے۔ ان کی داڑھی پکڑ لی اور شدتِ غضب میں کہا:
’’موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹے اور) بولے: ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟ ہارونؑ نے جواب دیا: اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑو، نہ میرے سر کے بال کھینچو، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تم آکر کہو گے: تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔ (طٰہٰ)
اس واقعہ میں حضرت ہارونؑ کے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی حضرت موسیٰؑ کی غیر موجودگی میں قوم کو وحدت اور یکجہتی کو محفوظ رکھنا مقدم سمجھا اور خیال کیا کہ بھائی کے آجانے پر باہمی سوچ بچار کے بعد دیکھیں گے کہ حزم و احتیاط اور حکمت و دانائی کے متقاضی اس خطرناک موقف سے کس طرح نپٹنا ہے۔
یہ چار شرائط ہیں۔ جو شخص بھی برائی کو ہاتھ کی قوت سے یا دوسرے الفاظ میں ناگزیر مادّی قوت سے روکنا چاہتا ہو اس پر ان شرائط کو پورا کرنا فرض ہے۔
جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رہی ہو؟
منکر کو روکنے کے مسئلے میں ایک مشکل یہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے کہ جب صاحبِ قوت اور صاحبِ اختیار، یعنی حکومت ہی برائی کی مرتکب ہو تو پھر افراد اور جماعتیں اس منکر کو کیسے روکیں جس میں حکومت ملوث ہو یا حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہو؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افراد اور جماعتیں پہلے اتنی قوت کی مالک بنیں جو برائی کو روک سکے۔ عہدِ حاضر میں تین طاقتوں میں سے ایک کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
iمسلح افواج:
یہ وہ طاقت ہے جس کا سہارا عہدِ حاضر کے بہت سے ملک لیتے ہیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اپنے حکم نافذ کرنے، سیاست کا سکہ بٹھانے اور اپنے مخالفین کو آتش و آہن کے ذریعے خاموش کرنے کے لیے اسی قوت سے کام لیتے ہیں۔ ان حکومتوں کے نزدیک مناسب، محفوظ اور معقول راستہ دلیل و منطق اور بات چیت کا نہیں بلکہ قوت کا ہے۔ یہ قوتیں جس کے ساتھ ہوں گی اس کے لیے قومی دھارے کے رُخ کو بدلنا یا روک دینا ممکن ہوگا۔ اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں بہت سے ممالک میں کیا گیا اور آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔
ii پارلیمنٹ:
مروجہ جمہوری نظامِ حکومت میں غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون بنا بھی سکتی ہے اور تبدیل بھی کرسکتی ہے۔ خالص حقیقی جمہوری نظام کے تحت یہ اکثریت جس کو بھی حاصل ہو جائے، اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ قانون سازی کے بعد اس کو نافذ کرکے ان تمام منکرات کو روک سکتی ہے جو اسے نظر آئیں۔ پھر کسی وزیر، سربراہ حکومت، یا سربراہِ ریاست کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے نہ کہے۔
iii قومی سطح کی فیصلہ کن عوامی قوت:
یہ عوام کی ملکی سطح کی ایسی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے جسے اجتماع سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ جب یہ قوت حرکت میں آجائے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔ یہ قوت اپنی تندی اور تیزی میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر یا سب کچھ بہا لے جانے والے سیلاب کی مانند ہوتی ہے کہ کوئی شے حتیٰ کہ مسلح قوتیں بھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں۔ یہ مسلح قوتیں بھی تو اسی کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ عوام ان قوتوں کے افرادِ خاندان، باپ، بیٹے اور بھائی ہی تو ہوتے ہیں۔
جس کے پاس ان تینوں قوتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ صبر سے کام لے، دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے، اور روابط کو بڑھانے پر توجہ دے۔ یہاں تک کہ وہ ان قوتوں میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جب تک اسے یہ طاقت حاصل نہیں ہو جاتی وہ اپنی زبان اور قلم، دعوت اور تعلیم، رہنمائی و توجہ اور نصیحت و مشورے کے ذریعے منکر کی روک تھام کا فریضہ ادا کرے، اور اس وقت تک یہ فریضہ ادا کرتا رہے جب تک کہ رائے عامہ کو برائی کے انسداد پر یکسو اور یک زبان نہ کرلے جو برائی کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ پھر وہ صاحبِ ایمان آئندہ نسل کی ایسی تربیت کرے کہ وہ برائی کے انسداد کی اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اس نکتے کی طرف حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ کی روایت کردہ حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے رسول اللہؐ سے سورۃ المائدہ (آیت ۱۰۵) کے بارے میں پوچھا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو‘‘۔
رسول اللہﷺ نے انہیں جواب دیا:
’’تم ایک دوسرے کو اس وقت تک نیکی کی طرف بلاتے اور برائی سے منع کرتے رہو جب تک تم طمع و لالچ کی پیروی، خواہشات کا اتباع، دنیا ہی کو سب کی ترجیح اور صاحبِ رائے کو اپنی رائے کے فریب میں مبتلا نہ دیکھ لو، اُس وقت تم اپنے اوپر ہی توجہ مرکوز رکھو اور عوام کو چھوڑ دو۔ تمہارے بعد ایسے حالات آنے والے ہیں جن میں صبر کرنے والے کی مثال انگارے کو ہتھیلی میں پکڑنے والے شخص کی مانند ہوگی۔ ان حالات میں دین پر عمل کرنے والے کے لیے پچاس آدمیوں جتنا اجر ہے جو تمہارے جیسے عمل کریں‘‘۔ (ترمذی)
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ابودائودؒ نے بھی اسے ابن مبارکؒ کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عتبہ بن ابی حکیم سے روایت کیا ہے۔ بعض روایات میں ’’تم ایسے امور دیکھو جن کو روکنے کی طاقت نہ ہو‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔
منکر کے ازالے میں نرمی کی ضرورت
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کو ہم فراموش نہیں کرسکتے، اور وہ یہ ہے کہ منکر کے ازالے میں نرمی، اور اس کے مرتکب لوگوں کو معروف کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ رسول کریمﷺ نے ہمیں اس نرمی کی وصیت کر رکھی ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں اس کو پسند کرتا ہے، اور یہ نرمی جس معاملے میں بھی آجائے اسے حسن عطا کر دیتی ہے اور جس معاملے سے نکل جائے اسے بدنما بنا دیتی ہے‘‘۔
اس سلسلے میں بیان کیا گیا ایک واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مامون الرشید کے پاس آیا تاکہ اسے نیکی اور بدی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرے۔ آدمی نے بات شروع کی تو اس کی گفتگو میں شدت آتی گئی اور اس نے مامون کو اے ظالم، اے فاجر! کے الفاظ کہہ کر مخاطب کیا۔ مامون بڑا سمجھ دار اور حلیم الطبع تھا۔ اُس نے آدمی کا جواب اسے سزا کی صورت میں نہ دیا جیسا کہ حکمرانوں کا وتیرہ ہوتا ہے، بلکہ کہا: کچھ نرمی سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے بہتر شخص کو نبی بنا کر مجھ سے بدتر لوگوں کی طرف بھیجا، اور اسے نرمی کا حکم دیا۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کو، جو دونوں تجھ سے بہتر ہیں، فرعون کی طرف مبعوث کیا جو مجھ سے بدتر ہے۔ سورہ طٰہٰ میں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دونوں پیغمبروں سے کہا:
’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔
غور کیجیے کہ اس آیت میں حروفِ اُمید (شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے) اس کے باوجود استعمال کیے کہ فرعون کی سرکشی اور باغیانہ روش کا بھی دوسری جگہ تذکرہ کیا (اُس نے سرکشی کی)۔ ان حروفِ امید کا یہاں استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ داعی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے مخاطبین کے بارے میں امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے، خواہ وہ کفر و ظلم کے راستے پر ہی چل رہے ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل نرمی اور شائستگی کے ساتھ دعوت دے نہ کہ سختی و شدت کے ساتھ لوگوں کو حق کی طرف بلائے۔
جزوی برائیوں کا انسداد مرض کا علاج نہیں!
میں یہاں اس بات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو مسلمانوں کی اصلاح کے عمل میں مصروف لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پسماندگی، مغربی استعمار، آمروں اور سیکولر حکومتوں کے ادوار میں جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئے ہیں، اس تخریب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے جزوی برائیوں کا ازالہ کافی نہیں ہے۔ مثلاً رقص و سرود کی محفلیں، عورتوں کا راستوں میں اظہارِ زینت کے ساتھ آنا جانا، آڈیو ویڈیو کیسٹوں کی فروخت وغیرہ اگرچہ نامناسب ہیں، جائز نہیں ہیں۔ مگر صرف انہی برائیوں کے خاتمے سے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ معاملہ ان سے بھی بڑا اور عظیم ہے، جو کامل، وسیع تر اور گہری بنیادوں پر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسی تبدیلی جو افکار و تصورات، اقدار و معیارات، اخلاق و اعمال، آداب و روایات اور قوانین و ادارہ جات سب کا احاطہ کرتی ہو۔ اس سے پہلے مسلسل تعلیم، دائمی تربیت اور بہترین نمونوں کے ذریعے لوگوں کا اندر سے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو تبدیل کرلیں گے تو اس کے اہل قرار پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسلمہ قانون کے مطابق انہیں تبدیل کردے، یعنی:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد:۱۱)
(’’بحوالہ: کتاب ’’فتاویٰ یوسف القرضاوی‘‘ جلد دوم)
Leave a Reply