’’مصر واپس آگیا ہے‘‘، یہ وہ پیغام ہے جو مصری خارجہ پالیسی کے حکام دنیا بھر میں اپنے ہم منصبوں کو دیناچاہتے ہیں۔ علاقائی حرکیات کی تبدیلی نے مصر کو زیادہ فعال خارجہ پالیسی اپنانے پر اکسایا ہے۔ اس کی حکومت داخلی طورپر زیادہ پراعتماد محسوس کرنے لگی ہے، نئے کردار اور ذمہ داریاں سنبھال رہی ہے، اور علاقائی صف بندی کی نئی شکلوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
ماضی میں، مصر مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی کا ایک اہم کھلاڑی تھا۔مصر کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنے جغرافیے، مقام، استحکام، اور اپنی اہمیت کے حوالے سے موجود خود اعتمادی کی بدولت، خطے میں ہونے والی متعددپیش رفتوں میں اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا۔ اور اس نے کامیابی کے ساتھ امریکا کے ساتھ قریبی اور دیرینہ تعلقات قائم کیے، اگرچہ کبھی کبھاران میں تعطل بھی آتا رہا۔تاہم گزشتہ دہائی کے دوران مصر کے بارے میں یہ تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ یمن اور شام کی جنگوں سے لے کر ایرانی جوہری پھیلاؤ تک کے اہم مسائل پر مصر علاقائی سفارت کاری سے نسبتاً غیر حاضر رہا ہے۔ یہ عرب بغاوتوں کے بعد ملکی سیاسی انتشار کا وقت تھا، جس نے قاہرہ کی توجہ خارجہ پالیسی سے ہٹا کر اندرون ملک اقتدار کی جدوجہد اور اس کی بیمار معیشت کی طرف کردی۔
اس پوری دہائی کے دوران، مصر بڑی حد تک اپنے سے قدرے چھوٹے لیکن تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے بہکاوے میں آگیا تھا،جیسا کہ متحدہ عرب امارات،جو قطر کے ساتھ شدید قسم کی دشمنی کا شکار تھے۔ لیکن گزشتہ ۲۱ ماہ میں ہونے والی کئی علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفتیں مصرکی سوچ اور حکمت عملی میں تبدیلی کا باعث بنی ہیں۔ان میں سے اہم پیش رفت امریکا میں قیادت کی تبدیلی بھی ہے۔اس کے علاوہ قطر کی خلیجی ممالک کی جانب سے ناکہ بندی کی مذمت، لیبیا میں تنازع کے خاتمے کے لیے سیاسی روڈ میپ کی تشکیل، اور یمن میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں بھی ہیں۔
دریں اثنا ترکی نے بھی خطے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مصر اور اس کے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ مصر کی معیشت پر اگرچہ اب بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں تاہم مصر کو اندازہ ہے کہ مستقبل میں وہ اپنے پڑوسی عرب ممالک اور یورپی ممالک کے لیے توانائی کا مرکز بننے جا رہا ہے، اس لیے وہ اس مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی شرائط پر اپنے سفارتی تعلقات کو ازسرنو تشکیل دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کا داخلی طور پر مضبوطی کا بڑھتا ہوا احساس بھی شامل ہے، جو اب اسے ایک بار پھر خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ جس کا مقصد ایک مضبوط علاقائی کھلاڑی کے طور پر اپنی تاریخی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک کولگتا ہے کہ مصر اتنا بڑا ملک ہے کہ وہ ناکام نہیں کہلایا جاسکتا۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک مصر کی اہمیت کو اس حوالے سے بھی دیکھتے ہیں کہ وہ لیبیا اور غزہ جیسے مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے جس سے خطہ کسی قسم کے عدم استحکام کا شکار ہونے سے بچا رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک اور امریکا مصر ی حکومت کی اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کونظر انداز کر دیتا ہے اور ساتھ جمہوریت کی جانب کوئی بھی پیش قدمی نہ ہونے کا بھی نوٹس نہیں لیا جاتا۔درحقیقت، مصری حکام کے ساتھ حالیہ گفتگوسے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے مسائل پر بات کرنے کے لیے اب پہلے سے کہیں زیادہ گنجائش ہے،جب کہ دنیا اس کے برعکس سوچتی ہے۔
بین الاقوامی اور ملکی دونوں محاذوں پر مصری حکومت کا نیا اعتماد یورپی حکام کو اپنے مصری ہم منصبوں کے ساتھ زیادہ تعمیری انداز میں مشغول ہونے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ یورپی پالیسی سازوں کو اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مصر کو اپنے مفادات اور اقدار (انسانی حقوق،جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی)کے حصول کے لیے کس طرح راضی کیا جائے اور اس پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہوا جائے۔یہ اقدام نہ صرف مصر کی خوشحالی کا باعث بنیں گے بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی پائیدار استحکام آئے گا۔ مصری عوام اوریورپی ممالک دونوں اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
مصر،آخری دہائی خاموشی کی دہائی:
اس مقالے کے لیے مصری وزات خارجہ کے اہلکاروں سے جب انٹر ویو لیے گئے تو انھو ں نے گزشتہ دہائی میںمصری خارجہ پالیسی کو ’’دفاعی‘‘قرار دیا۔ کیوں کہ اس عرصے میںملک داخلی مسائل سے دوچار تھا۔یقیناً مصر کبھی بھی علاقائی منظر نامے سے مکمل طور پر پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کے جنوب میں ایتھوپیا اور سوڈان کے ساتھ اس کے تعلقات میں پانی کی حفاظت جیسے اہم مفادات، یا اس کے مغرب میں لیبیا میں ناقابل فہم جنگ کا مطلب یہ تھا کہ یہ دنیا سے خود کو دور نہیں کر سکتا۔ لیکن ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد سے مصر کی داخلی سیاسی مشکلات، ۲۰۱۳ء میں صدر عبدالفتاح السیسی کا اقتدار پر قبضہ، اور مصری معیشت میں جاری ابتری نے قاہرہ کے بڑھتے ہوئے علاقائی چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے مصر کی قیادت کو موثر پالیسی بنانے کی صلاحیت سے روکے رکھا۔ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء کے عرصے میں اس دفاعی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ملک کو دوچار خطرات میں اضافہ ہوتا چلا گیا،داعش نے مصرکی سرزمین پر حملے شروع کر دیے، اس کے ساتھ ساتھ صحرائے سینا میں دہشت گردی کی کافی وارداتیں ہوئیں۔
اس دوران ملکی سیاست خاص طور پر سیسی کا اسلام مخالف سیاسی ایجنڈا اور مصر میں اخوان المسلمون کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی منظر نامے سے ہٹانے کی کو شش کی بنیاد پر ساری خارجہ پالیسی چلائی جا رہی تھی۔ اس کا سب سے بڑا مظہر مصر کا ایک ایسے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ تھا، جس کی قیادت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کر رہے تھے اور جس میں ایران، قطر اور ترکی جیسے اسلام پسند ممالک کا گھیرائو کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس نئے اتحاد کی وجہ سے مصر کی معیشت کو مشکل وقت میں کافی مدد ملی۔ اس شراکت داری کی بنیاد ایک مشترکہ نظریہ تھا کہ آمروں کو بااختیار بنایا جائے اور پورے خطے میں سیاسی اسلام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اگرچہ یہ وژن بنیادی طور پر سعودی عرب کا تھا، لیکن سیسی اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور ڈی فیکٹو لیڈر شیخ محمد بن زید النہیان نے اس پر عمل پیرا ہونے میں سب سے زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کیا۔ اس اتحاد کی اجتماعی کوششوں میں قطر کا گھیرائو بھی شامل تھا، کیوں کہ قطر نے علاقائی اسلام پسند تنظیموں کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ ان کی مالی و تذویراتی مدد بھی کی۔ جون ۲۰۱۷ء کو قطر کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا۔ سیاسی اسلام کی ناکہ بندی کے لیے ہی لیبیا میں بھی خلیفہ ہفتار کی حمایت کی گئی، جس نے اپنے آپ کو ایک بڑے اسلام مخالف کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ اسی طرح مصر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پالیسی کے مطابق اخوان المسلون کے خلاف بھی سخت کارروائی کی اور پھر حماس کو بھی اس ہی کی شاخ قرار دے کر اس پر بھی پابندی لگا دی۔ اخوان پر خلیجی اتحادیوں نے داخلی سلامتی کے لیے خطرناک ہونے کا الزام لگایا تھا۔مصر نے ۲۰۱۳ء میں اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ ۲۰۱۵ء میں مصری عدالت نے حماس کو بھی ملکی سطح پر دہشت گرد تنظیموں میں شامل کر دیا۔
قطر کے ساتھ تعلقات میں جو تعطل تھا وہ بالآخر جنوری ۲۰۲۱ء میں ’’العلامعاہدے‘‘ پر دستخط کے ساتھ ختم ہو گیا اور قطر کی معاشی ناکہ بندی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس معاہدے پر خلیج تعاون کونسل کے ارکان نے سعودی عرب کے صحرائی شہر میں دستخط کیے۔ اتحادی ممالک کو اس معاشی ناکہ بندی کا جو نقصان ہوا اس کو دیکھ کر وہ قطر سے تعلقات بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ معاہدہ علاقائی کشیدگی میں وسیع پیمانے پر کمی کی بھی عکاسی کرتا ہے، جیسا کہ ترکی متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنی مسابقت کم کرنے اور سعودی عرب اور مصر کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی مذاکرات کی بات چل رہی ہے۔
تاہم سعودی عرب کی جانب سے مصر اور متحدہ عرب امارات کو اعتماد میں لیے بغیر اس طرح قطر کے ساتھ معاہدہ کرنے پر قاہرہ اور امارات کو شدید تحفظات تھے۔سعودی رہنما محمد بن سلمان نے معاہدہ کرتے وقت مصری خدشات کو کوئی اہمیت نہ دی۔نجی محفلو ں میں مصر کی جانب سے مایوسی کا بھی اظہار کیا گیا۔یہی احساس متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی سامنے آیا تاہم امارات نے سعودی اقدامات سے اتفاق کر لیا۔ آخر کا ر مصر کو بھی اس معاہدے کو قبول کرناپڑا۔تاہم مصر نے اس دستخط کی تقریب میں نہ آنے کا فیصلہ کیا،جس کی وجہ سے سعودی اور مصری قیادت میں تنازع بھی پیدا ہو گیا تھا۔ سعودی عرب چاہتا تھا کہ مصر کی جانب سے سیسی اس تقریب میں شرکت کریں،لیکن مصر نے وزارت خارجہ کے نمائندے کو اس تقریب میں شرکت کے لیے بھیجا، جو اس بات کی بہرحال عکاسی کر رہا تھا کہ مصر بھی قطر سے تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی ضرور رکھتا ہے۔
درحقیقت، مصری حکومت کے ارکان اب یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کا قطر کے ساتھ ہمیشہ کے لیے تعلقات منقطع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مصر کے انٹیلی جنس سے تعلق رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ ’’العلا معاہدے‘‘ کے آغاز سے پہلے ہی، انہوں نے ناکہ بندی ختم کرنے کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مصر کو قطر کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے دوبارہ قیام سے فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے باوجود، مصر نظریاتی طور پر قطر کا مخالف ہے، کیونکہ مؤخر الذکر کی طرف سے اسلام پسند گروپوں کی حمایت جاری ہے۔ اور مصر کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حصوں نے،جو کہ حکومت میں ایک غالب قوت ہیں، ابھی تک قطریوں کو ۲۰۱۱ء کے انقلاب میں اخوان المسلمون کی حمایت اوراس کے بعد اقتدار میں آنے کے لیے جو مدد کی تھی اس کے لیے ابھی تک معاف نہیں کیا۔
اس معاہدے کے بعد جب امارات اور مصر کے درمیان دوریاں بڑھیں تو مصر نے قطر سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں شروع کر دیں۔قاہرہ اور دوحہ نے تعلقات کی بحالی کے ساتھ سفیروں کا تبادلہ بھی کیا ہے۔دونوں ممالک نے تعلقات کی بحالی میں سرمایہ کاری کے مواقع، افریقا کے حوالے سے مشترکہ خارجہ پالیسی کو بنیاد بنایا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ حال ہی میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے معاملات پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔اس پیش رفت کا مقصد ان تحریکوں کے حوالے سے ایک متوازن اور معتدل نقطہ نظر تلاش کرنا ہے،تاکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فروغ مل سکے۔اس پیش رفت ہی کی بنیاد پر مصر نے اسلامی تحریک کی قیادت جو کہ قطر میںموجود ہے اس کی حوالگی کی درخواست واپس لے لی ہے اور اس کے علاوہ الجزیرہ چینل سے پابندی بھی ہٹا لی ہے،حال ہی میں الجزیرہ نے اپنے صحافی دوبارہ سے قاہرہ بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔
مصر متحدہ عرب امارات تعلقات میںدراڑیں:
متحدہ عرب امارات (اور پھر سعودی عرب) کے ساتھ مصر کی شراکت کبھی بھی غیر مشروط طور پر نہیں رہی۔ دونوں ممالک کے یکساں نظریہ کے باوجود پچھلی ایک دہائی میں کئی ایسے مواقع آئے جب دونوں ممالک کے خارجہ پالیسی کے حوالے سے مفادات بالکل مختلف تھے اور، بعض اوقات ان کے ایجنڈے ایک دوسرے سے ٹکرائے بھی۔ مثال کے طور پر قاہرہ نے ۲۰۱۵ء میں یمن میں خلیجی اتحاد کی حمایت کے لیے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ مصری فوجی رہنما اس درخواست کی مخالفت میں اٹل تھے، کیونکہ وہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں یمن میں جنگ کے بھیانک نتائج ابھی تک بھولے نہیں تھے، جس دوران ہزاروں مصری فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح بعض خلیجی ریاستوں کی شدید مخالفت کے باوجود مصر نے شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت جاری رکھی۔ ۲۰۱۸ء میں مصر نے سوڈانی صدر عمرالبشیر کی کھلے عام مخالفت کرنے سے گریز کیا، جب تک کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹا جانا یقینی نہ ہوگیا، اگرچہ خلیجی ممالک مصر پر سوڈانی صدر کی مخالفت کے لیے مستقل دبائو ڈال رہے تھے۔ تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی وجہ جو معاملات ہیں وہ مصر کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، جیسا کہ لیبیا اور قرن افریقا کا معاملہ جوکہ مصر کی آبی سلامتی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ان سب اختلافات کے باوجود ’’سیاسی اسلام‘‘ کے خلاف مصر کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ شراکت داری کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ان کا آپس کا تعلق برقرار رہے گا۔ایک اماراتی اہلکار نے بتایا کہ مصر کی بڑی آبادی، تزویراتی طور پر اہم جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے مصر ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس لیے دونوں ممالک مشترکہ مقاصد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مثال کے طو ر پر سعودی عرب،مصر اور متحدہ عرب امارات نے اس سال تیونس کے صدر قیس سعید کو بھرپور سفارتی مدد فراہم کی، جنھوں نے آئین سے بغاوت کرکے اسلامی تحریک ’’النہضہ‘‘ کو نشانہ بنایا ہے۔
دریں اثنا قطر سے تعلقات بحال ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ مصر کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کو ایک جھٹکا تو اس وقت لگا جب وہ قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے خلاف بھر پور مزاحمت کر رہا تھا تاہم سعودی عرب نے اس کی مزاحمت کو نظر انداز کرتے ہوئے قطر سے تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دیا۔مصری وزارتِ خارجہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ اماراتی سفارت کاری تنزلی کا شکار ہے،اس کی بڑی وجہ ابوظہبی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کیے جانے والے معاہدے کو قبول کرنا بھی ہے، اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے میں ابو ظہبی فلسطین کے حوالے سے اپنی کوئی شرط بھی منوانے میں ناکام رہا اور نہ ہی کوئی فائدہ مند شرائط رکھیں۔ ان سب اقدامات کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات خطے میں تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے معاہدے کو تمام عرب ممالک نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس پر کڑی تنقید بھی کی تھی۔
مصری حکام نجی محفلوں میں یہ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں متحدہ عرب امارات سے دوری اختیار کر لینی چاہیے تاکہ عرب ممالک، جیسا کہ اردن اور فلسطین،میں ہماری ساکھ مزید متاثر نہ ہو۔ان کا کہنا ہے کہ قاہرہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مفادات کی ابو ظہبی نے حمایت نہ کر کے ہمیں مایوس کیا ہے۔مصری حکام اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ مصر نے اپنے مفاد کے لیے ابوظہبی کو چھوڑ دیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ مصر ماضی میں بھی خطے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس کی ہمیشہ پوزیشن ’’لیڈنگ رول‘‘ادا کرنے والی ہی رہی ہے۔ ابو ظہبی سے دوری اختیار کرنے کی بڑی وجہ وہ افریقا میں پانی کے مسئلے پر ابو ظہبی کے مخالف کیمپ میں کھڑے ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
مجوعی طور پر اب مصر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پُراعتماد دکھائی دیتی ہے اور انھوں نے ملک کے داخلی مسائل اور معاشی مسائل پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے، اس لیے اب وہ ایک بار پھر سے خطے میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
مصر،خطے کی ابھرتی ہوئی طاقت:
جہاں مصر اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں سرد مہری نظر آرہی ہے، وہیں مصر اور قطر کے تعلقات میں گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مصر دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔اس کے علاوہ مصر اپنے پڑوسی ممالک میں اپنے اثرورسوخ میں بھی اضافہ کے لیے کوشاں دکھائی دیتا ہے۔
اسرائیل اور فلسطین:
اس سال حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی گیارہ روزہ جنگ نے مصر کو ایک مرتبہ پھر یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلامتی کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی مکالمہ کار کے طور پر اپنا روایتی کردار ادا کرے اور اپنی حیثیت کو منوائے، اور اس میں مصر کامیاب بھی رہا۔مصر نے ۱۱ روزہ اس تنازع کو نسبتاً بہت کم مدت میں ختم کر کے عالمی طور پر بھرپور داد حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی مصر نے دنیا کو یہ بھی باور کروا دیا کہ اسرائیل کے پڑوسی ہونے کے ناطے اسرائیل کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لیے مصر کا کردار ہمیشہ اہم رہے گا۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کے لیے بھی اگر پائیدار امن کے کوئی کوشش کی جائے گی تو وہ مصر کی شمولیت سے ہی مؤثر ثابت ہو سکے گی۔ اس مرتبہ مصر نے حماس کے حوالے سے عملی اور نسبتاً نرم موقف اپنایا، ایسا سیسی کے دور میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مصر نے حماس کے ذریعے جزیرہ نما سینا کو محفوظ بنانے اور وہاں امن قائم کرنے کے لیے حماس کے تعاون کو یقینی بنایا اور اسی بنیاد پر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ غَزّہ میں پائیدار امن کی مصر کی کوششیں قطر کی جانب سے غزہ کی مالی اعانت کے بغیر حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتیں۔قاہرہ،دوحا اور واشنگٹن اس وقت غزہ کی بحالی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں، جس میں مصر کے ذریعے غزہ کو گیس کی فراہمی کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ اس کے ساتھ شمالی سینا میں اقتصادی منصوبوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے، جن میں بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی شامل ہے۔
عرب اتحاد:
جیسا کہ مصر نے خطے میں اسرائیل کے اہم سیکورٹی پارٹنر کے طور پر اپنے کردار کا اعادہ کیا ہے، اسی طرح اس نے تاریخی تعلقات کی بنیاد پر نئے اتحاد بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اردن اور عراق کے ساتھ شراکت داری کرکے، مصر اب ایک مکمل ’’عرب اتحاد‘‘ کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے۔ اگرچہ اس معاہدے کے لیے اس نے ابتدائی طور پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان (کم از کم عوامی سطح پر) ناکام امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی تھی، اب اس کا مقصد تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
پچھلے دو سالوں میں، اس اتحاد کے اراکین نے متعدد سہ فریقی اجلاس کیے ہیں۔حال ہی میں بغداد میں ہونے والے اجلاس میں تمام شرکا نے انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر عملدرآمد کا وعدہ کیا،ایک دوسرے کو توانائی کی فراہمی اور اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے بھی وعدے کیے۔ یہ بڑھتی ہوئی صف بندی اصولی طور پر قاہرہ، عمان اور بغداد کو خلیجی ریاستوں پر اپنا انحصار کم کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اس اتحاد سے امریکا بھی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اس لیے وہ اس کا خیر مقدم بھی کر رہا ہے۔ خاص طور پر ایران پر عراق کے اقتصادی انحصار کو کم کرنے کے لیے اس اتحاد کی اشد ضرورت ہے، اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ عملاً ایسا ہو نہیں پائے گا۔
لیبیا:
مصری حکام کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے یہ بات کر رہے ہیں کہ لیبیا کے تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف درحقیت مصر طویل عرصے سے لیبیا میں کسی بھی سیاسی عمل کی کامیابی میں اہم رکاوٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ بارہ ماہ سے مصر اس مسئلے کے سفارتی حل کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔تاکہ وہ مشرقی لیبیا میں ایک سیاسی شراکت دار اور سلامتی کے ضامن کاکردار ادا کر سکے۔اس حکمت عملی کی تبدیلی کی وجہ سے مصر کو نہ صرف اقوام متحدہ کے زیر قیادت امن کوششوں میں کرداد ادا کرنے کا موقع ملا بلکہ قطر اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آنے کی امید ظاہر ہوئی کیوں کہ یہ دونوں ممالک ہفتار کی مخالفت کرنے والی مغربی لیبیا کی فوج کی حمایت کرتے ہیں۔
اگرچہ مصر ابھی بھی مشرقی لیبیا میں اپنے شراکت داروں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے تاہم یہ ہفتار کی فوج نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ ہیں جو فوج سے متنفر ہو کر بھاگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ابو ظہبی اب بھی ہفتار کی حمایت کر رہا ہے، مصر کا خیال ہے کہ ہفتار طاقت کے زریعے تریپولی پر قابض نہیں ہو سکتا،اور ابو ظہبی کو زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے۔ابو ظہبی مصر کی تجویز کو ایک طرف رکھ کر ابھی بھی ہفتار ہی کی حمایت کر رہا ہے۔جس سے مصری حکام کی اس سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ ابو ظہبی ہمارے مفادات اور تجاویز کو خاطر میں لائے بغیر اپنی پالیسی پر عمل کرتا ہے، جو کہ مصر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔مصر لیبیا کے معاملے میں کوئی غلطی کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا کیوں کہ اس ملک کے ساتھ اس کی ۱۱۰۰؍کلو میٹر کی زمینی سرحد موجود ہے۔جس سے مصر کے لیے لیبیا کی تزویراتی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ترکی:
خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں اگر چہ مصر اور ترکی تعلقات میں بہتری آرہی ہے، تاہم اس راستے میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔مصنفہ نے جب اس معاملہ پر مصر کی سلامتی کے حکام سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ دشمنی کافی گہری ہے، جس کی بڑی وجہ ترک صدر طیب ایردوان کی اسلام پسند پالیسیوں اور اخوان المسلمون کی مسلسل حمایت ہے۔اس دشمنی میں ترکی قطر سے بھی آگے ہے۔مصر ی حکام ترکی کو ’’غیر عرب‘‘جارح کے طور پر دیکھتے ہیں۔اور دوسری طرف قطر کو اپنا ’’عرب بھائی‘‘ سمجھتے ہیں۔ ترکی کے ساتھ تعلقات کی حساسیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ترکی نے ۲۰۱۳ء کے بعد ہزاروں مصری جلاوطنوں کو اپنے ملک کی شہریت بھی دی ہے۔
قاہرہ اور انقرہ کے مابین تعلقات میں سرد مہری کی ایک وجہ بحیرہ روم گیس فورم (EMGF) کا قیام بھی ہے، جو کہ مصر نے ۲۰۲۰ء میںقبرص،اسرائیل اور یونان کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔اس فورم کے قیام سے توانائی کے حوالے سے ہونے والی سفارت کاری میں تیزی آئی اور اس فورم نے فرانس اور اٹلی جیسے اراکین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔تاہم ترکی اس فورم کو توانائی کے حوالے سے ہونے والی سفارت کاری میں اپنے مفادات کے خلاف دیکھتا ہے۔ترکی سمجھتا ہے کہ اس فورم کے ذریعے اسے تنہا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کے باوجود،حالیہ دنوںمیں ترکی نے اخوان المسلمون کے ذرائع ابلاغ کے چینلوں پردبائو ڈالا ہے کہ وہ مصری صدر کے خلاف بیانات کو کم کر دیں دوسری صورت میں ان کی نشریات مکمل طورپر بند کردی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ملک میں موجود اخوان کے کچھ سرکاری دفاتر کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ان اقدامات سے قاہرہ اور انقرہ کے مابین کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
مصر اور ترکی نے لیبیا میں اپنے اپنے کردار پر بھی مذاکرات کاآغاز کر دیا ہے۔قاہرہ کا خیا ل ہے کہ وہ انقرہ کو لیبیا سے اپنی فوج نکالنے اور وہاں کے تنازعے میں اپنا کردار کم کرنے پر راضی کر لے گا۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو مصری حکام کا کہنا ہے کہ’’لیبیا کے تنازع میں مصر ایک اچھی پوزیشن پر آجائے گا ویسے بھی لیبیا ہمارے لیے اپنی سلامتی کا مسئلہ ہے‘‘۔دوسری طر ف حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے متحدہ عرب امارات کی مدد سے ہونے والے امن معاہدہ کو سامنے رکھ کر ایتھوپیا کو ڈرون کی فراہمی کا معاہدہ کیا ہے۔جس پر مصر نے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔اور ترکی مصر تعلقات میں بہتری کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔
مصر اور قرن افریقا میں پانی کا مسئلہ:
مصر کے ایک سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ غزہ اور لیبیا کے موجودہ مسائل سے مصر کو جن سرحدی چیلنجوں کا سامنا اب کرنا پڑ رہا ہے اتنا عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ان سب مسائل میں ایک خاص مسئلہ ایتھوپیا کی جانب سے دریائے نیل پر Grand Ethiopian Renaissance Dam (GERD) کی تعمیر کا ہے۔اس ڈیم کا مسئلہ ۲۰۱۱ء میں شروع ہوا،اس وقت سے مصر اس کی تعمیر رکوانے کی کوششوں میں مصروف ہے، ۲۰۱۵ء میں ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے جس کے تحت دونوں ممالک اس مسئلے پر مذاکرات جاری رکھیں گے۔اس معاہدے کے تحت مصر نے کم از کم ایتھوپیا کے ڈیم کی تعمیر کے موقف کو مسترد کرنے کے بجائے اس مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دینا شروع کر دیا۔مصر نے اب تک جتنی بھی کوششیں کی ہیں ان سے خطے میں طاقت کے توازن کو اپنی طرف موڑنے میں ناکام رہا ہے۔اب بھی بیشتر ممالک مصر ی موقف کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔
مصری حکام کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایتھوپیا کی بے جا حمایت نے اس معاملے کو یہاں تک پہنچایا ہے ورنہ ایتھوپیا میں خود سے اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس معاملے پر اتنا سخت موقف اپناتا۔مصری حکام اس بات پر ناراض نظر آتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے ہمارے اتحادی ہونے کے باوجود ہمارے مفادات کو ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ان حالات کے پیش نظر مصر نے اب ایسی حکمت عملی ترتیب دینا شروع کر دی ہے، جس میں متحدہ عرب پر کسی بھی قسم کا انحصار نہیں ہو گا۔مصر بغیر کسی سہارے کے اس سارے معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کرے گا، اسی لیے سوڈان سے تعلقات کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے تاکہ سفارتی سطح پر اس ڈیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حمایت حاصل کی جا سکے۔
اہم بات یہ ہے کہ مصر اب قطر کو اس معاملے پر متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک متبادل کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگرچہ قطر کے ایتھوپیا کے ساتھ مضبوط اسٹریٹجک تعلقات نہیں ہیں، لیکن علاقائی حرکیات ایک جامع نقطہ نظر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور مصر قرن افریقا میں خلیجی عرب ریاستوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔ قطر بالآخر مصر کو اپنے سیکورٹی اہداف کے حصول میں مدد کر سکتا ہے۔
شام اور ایران:
مصر کی بڑھتی ہوئی علاقائی سرگرمیاں اب شام اور ایران تک پھیل رہی ہیں۔درحقیقت، سیسی طویل عرصے سے شام کی جنگ سے متعلق سفارتی پیش رفت میں اپنے ملک کے لیے کردار کی تلاش میں ہیں۔ مصر گزشتہ دہائی کے وسط میں جنیوا کانفرنسوں میں ایسا کردار حاصل کرنے میں ناکام رہا، اگرچہ اس کام کے لیے اس نے بڑے پیمانے پر یورپی یونین میں لابنگ بھی کی تھی۔ لیکن اب وہ’’آستانہ عمل‘‘ میںعرب رہنماکے طور پر کردار کی تلاش میں ہے، جو ترکی، ایران اور روس پر مشتمل ہے۔
خلیجی عرب ریاستوں کی مخالفت میں، سیسی نے کئی سالوں سے شام میں بشارکی حکمرانی کی بھرپور حمایت کی ہے، اگرچہ اس کے پاس متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب کی طرح سرمایہ کاری کی طاقت نہیں ہے، پھر بھی مصر شام کی تعمیر نو اور بحالی کے ایجنڈے میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے کوشاں ہے۔ قاہرہ نے شامی تنازعے کے دوران قاہرہ میں شامی انٹیلی جنس حکام کے ساتھ باقاعدگی سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔
مصر اور مغرب:
جب سے مصر کے جمہوری طور پر منتخب صدر کا تختہ الٹا گیا ہے، اس کے لیے امریکی حمایت جاری ہے۔اس لیے یورپ اور دیگر ممالک میں اس سوچ کو تقویت بخشی ہے کہ مصر ایک اتنی بڑی ریاست ہے کہ اس کا ناکام ہونا اتنا آسان نہیں۔ درحقیقت، ایک ایسے صدر کے لیے جس نے برسوں کی محنت کے بعد اب ملک میں اتنی طاقت حاصل کر لی ہے کہ وہ سکون سے حکومت کر رہے ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت کو نہ صرف امریکا،یور پ اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک نے قبول کر لیا ہے،حالاں کہ اس دوران یورپ اور امریکا سیسی کے آمرانہ طرز عمل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مستقل تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔اور وہ یہ کام حکومت کو پریشان کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
برسوں سے، امریکا اور یورپ نے مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کو مایوس کن پایا ہے، اور ملک میں ہونے والی پیش رفت پر مسلسل اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دونوں اطراف پر پالیسی ساز اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ سیسی حکومت سے بہت کم ہی فائدہ اٹھا سکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں عرب ریاستوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن، دوسری طرف، یورپی ممالک نے ایسے حالات پیدا کرنے کی بہت کم کوشش کی ہے کہ وہ مصر کے گھریلو مسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے، یا اس وقت کے اہم علاقائی مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ہاں مغربی طاقتوں نے دفاعی شعبے میں فائدے ضرور اٹھائے ہیں جیسا کہ مصر کو اسلحے کی فروخت پر پابندی ہٹا کر، تاہم وہ فائدہ بھی کو ئی خاص نہیں رہا۔ کچھ مواقع پر یورپی طاقتوں نے مصر کے کردار کو سراہا بھی ہے،جیسا کہ غزہ میں جنگ بندی کروا کرمصر نے یورپی ممالک سے خوب داد سمیٹی۔
مشرق وسطیٰ سے امریکا کے نکلنے کے بعد یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ امریکا اور یورپی ممالک کو مصر کی کتنی ضرورت پڑے گی اور وہ مصر سے کس طرح کے تعلقات رکھنا چاہیں گے،تاہم مصر نے روس اور چین سے تعلقات میں بہتری لا کر اور ترکی قطر کے قریب آکر یورپ اور امریکا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ’’ہمیں ان کی جتنی ضرورت ہے، اس کے مقابلے میں انھیں ہماری کہیں زیادہ ضرورت ہے‘‘۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Burning ambition: Egypt’s return to regional leadership and how Europe should respond”. (“ecfr.eu”. October 1, 2021)
Leave a Reply