
زیرِ نظر مضمون میں عالمی تناظر میں بنگلادیشی حکومت کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک سال پہلے کی بات ہے کہ ماحول کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بنگلادیشی حکومت کے اقدامات کا عالمی برادری نے شاندار خیر مقدم کیا تھا۔ اپنے ’’انٹینڈیڈ نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشنز‘‘ (آئی این ڈی سی) کے تحت بنگلادیش کی چیف ایگزیکٹیو (وزیر اعظم) نے ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں فوری طور پر پانچ فیصد اور اگر عالمی برادری کی بھرپور مدد حاصل ہو تو پندرہ فیصد تک کمی لانے کا وعدہ کیا۔
حال ہی میں منعقدہ پیرس سمٹ کوپ ۲۱ میں بھی بنگلادیشی حکومت نے ماحول کو نقصان سے بچانے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی بنیاد پر عالمی برادری کی طرف سے ستائش پائی۔ بنگلادیش کو حال ہی میں ڈیلٹا کولیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ نومبر میں وہ کوپ ۲۲ کے ورکنگ سیشن کی میزبانی کرے گا۔
ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بنگلادیش نے ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے اور جس عمدگی سے چھوٹے اور معیشتی اعتبار سے ڈگمگاتے ہوئے ممالک کے لیے ایک مثال قائم کی ہے، اس پر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے رفقاء کو دنیا بھر سے بھرپور ستائش مل رہی ہے۔ بنگلا دیشی حکومت ماحول کے تحفظ کے حوالے سے جو کچھ بھی کر رہی ہے اُس میں حقیقت کم اور محض بڑھک کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ بنگلادیش کا موجودہ حکومتی ڈھانچا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ وہ نہ تو ملک کی ترقی چاہتا ہے، نہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرکے عالمی برادری کی کچھ مدد کرنے کا خواہش مند ہے۔ چند ایک نمائشی نوعیت کے اقدامات کرکے عالمی برادری کو مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے محض دھوکا دیا جارہا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلی کا موضوع اس بات کا مظہر ہے کہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بنگلادیشی حکومت کے اقدامات، اس کے اعلانات اور دعوؤں سے کس قدر مختلف اور کمتر ہیں۔ دہشت گردی، عبوری انصاف اور بنیادی حقوق کے حوالے سے بنگلادیشی حکومت نے اب تک عالمی برادری کے سامنے جو موقف بیان کیا ہے وہ کچھ اور ہے اور درون خانہ ان تمام معاملات میں اس کا عمل کچھ اور ہے۔
بنگلادیشی حکومت نے نام نہاد جنگی جرائم کی تفتیش اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے جو ’’انٹر نیشنل وار کرائم ٹربیونل‘‘ قائم کیا ہے، اس کے بارے میں دعویٰ تو یہ کیا گیا ہے کہ اس کا مقصد جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دینا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد وار کرائم ٹربیونل کا طریق کار طے شدہ عالمی معیار کے مطابق ہے اور نہ ہی انصاف کے حقیقی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے انسانی حقوق کمیشن نے جنگی جرائم کی تفتیش کے اس نام نہاد ٹربیونل کے طریق کار اور کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرکے ثابت کردیا ہے کہ بنگلادیشی حکومت نے انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف یہ کہ ملحوظِ خاطر نہیں رکھا بلکہ ان کے خلاف جاکر کام کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی اداروں نے یہ بھی قرار دیا کہ اس نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے دی جانے والی سزاؤں پر عمل بھی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اور اب بھی جن سزاؤں پر عمل کیا جانا ہے اُنہیں یکسر غلط قرار دے کر معاملات روک دیے جائیں۔
۲۰۱۳ء میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ بنیادی حقوق کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی ہے یعنی قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی طرف سے کیا جانے والا ایسا کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں کسی فرد، گروہ یا برادری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اس اعلان کے چند ماہ بعد بنگلادیش بھر میں ان ہزاروں سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا، جنہوں نے یہ الزام عائد کرکے احتجاج شروع کیا تھا کہ عوامی لیگ نے دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اور ایک ایسی حکومت تشکیل دی جس کا بظاہر کوئی جواز نہ تھا۔
بنگلادیش میں سیاسی مخالفین کو ماورائے عدالت قتل کرنا، بلاجواز اور غیر منطقی تشدد، کسی قانونی جواز کے بغیر حراست میں رکھنا اور غائب کردینا آج بھی عام ہے اور اس حوالے سے آنے والی خبروں کو دبا دیا جاتا ہے۔
بنگلادیش کی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو باتیں بہت بڑھ چڑھ کر کی ہیں، ان کا عالمی برادری نے خیرمقدم کیا ہے۔ بنگلادیش کی حکومت بظاہر اس بات پر بہت فخر کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں وہ بھی ایک اہم محاذ سنبھالے ہوئے ہے۔ اور اس بات پر بھی کہ اس نے سیکیولر ازم کے اصولوں کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ ساتھ ہی ساتھ بنگلادیشی حکومت اس بات کو بھی بہت زور دے کر بیان کرتی ہے کہ اس نے قانون کی بالا دستی یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مگر یہ سب محض بڑھک مارنے کی حد تک ہے۔ انتہا پسندی اور انقلابی حملوں کا ہدف بننے والوں کو بنگلادیشی حکومت یہ کہتے ہوئے ایک طرف کردیتی ہے کہ اپنے اس انجام کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ لا دینی نظریات اور دیگر امور کی بنیاد پر جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی رائے کے اظہار کی زیادہ گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کے نام پر مخالف جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا معمول ہے۔ اس عمل کے ذریعے فوری انتخابی فوائد بٹورنا ممکن بنایا گیا ہے۔
بنگلادیشی حکومت کی پالیسیوں کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ماحول سے متعلق اس کی پالیسی عدم تسلسل کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے دوغلی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ اب حکومت نے ورلڈ ہیریٹیج قرار پانے والے سندر بن سے محض پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رام پال کول پاور پلانٹ کے حوالے سے دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس سے ماحول کو خفیف سا بھی نقصان نہیں پہنچے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پاور پلانٹ ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور ماہرین نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔
اب بنگلادیش کے چند اعلیٰ افسران نے بھی یہ کہا ہے کہ بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کے اشتراک سے قائم کیے جانے والے اس بجلی گھر سے ماحول کو جزوی نقصان ضرور پہنچے گا۔ اصل تشویش اس بات پر ہے کہ اس کول پاور پلانٹ کے قیام سے دنیا میں منگروو کے سب سے بڑے جنگلات کو نقصان پہنچے گا۔
اس علاقے میں شیروں کی تعداد بھی گھٹتی جارہی ہے۔ بنگلادیشی حکومت نے گزشتہ برس عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شیروں کی افزائش نسل کا معاملہ بہتر بنانے کے حوالے سے غیر معمولی اقدامات کرے گی۔ مگر اب تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بنگلادیشی حکومت نے اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات سے گریز کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے حال ہی میں بنگلادیشی حکومت سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی ہے۔
سندر بن کو دنیا بھر میں منگروو کے سب سے بڑے جنگلات سمجھا جاتا ہے اور یہ کاربن ڈائی اوکسائڈ جذب کرنے والے خطے کے طور پر بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر اس علاقے کے ماحول کو نقصان پہنچا تو صرف بنگلادیش متاثر نہیں ہوگا۔ اس کے شدید منفی نقصانات غیر معمولی اثرات کے حامل ہوں گے۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا قیام ماحول کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بنگلادیشی حکومت کے دعوؤں کی مکمل نفی ہے۔
بنگلادیشی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ اپنے دریاؤں اور سمندر میں حیاتیاتی تنوع برقرار رکھنے اور ماحول کو مکمل محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ مگر جو کچھ عمل کی دنیا میں دکھائی دے رہا ہے، وہ بہت مختلف ہے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا قیام بنگلادیشی حکومت کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے اس کے عزائم کی کمزوری ظاہر کر رہا ہے۔ بنگلادیشی حکومت نے عالمی برادری کو یقین دلایا ہے کہ اس بجلی گھر سے خارج ہونے والے دھویں کو جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کنٹرول کیا جائے گا تاکہ ماحول کو براہ راست کوئی قابل ذکر نقصان نہ پہنچے۔ اس کے لیے سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی بروئے کار لانے کی باتیں کی جارہی ہیں مگر عمل کی دنیا میں ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کس طور بروئے کار لائی جائے گی۔ اس بجلی گھر میں کوئلے کو جلانے کے طریقے کے حوالے سے بھی خاصا ابہام اور تضاد پایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گرین پیس اور دوسرے کئی ادارے اور انجمنیں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج کم کرنے کے لیے عشروں سے کام کر رہے ہیں۔ گرین پیس کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے خارج ہونے والے دھویں سے ماحول کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ فضا اور پانی دونوں ہی بری طرح آلودہ ہوجاتے ہیں۔ ماحول کو نقصان سے بچانے کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بنگلادیشی حکومت جس علاقے میں کول پاور پلانٹ لگانا چاہتی ہے وہاں جنگلات واقع ہیں۔ اگر ماحول آلودہ ہوا تو وہاں آبی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ جب کول پاور پلانٹ کام کرے گا تب وہاں آبادی میں بھی اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں جنگلات میں بھی بستیاں بسائی جائیں گی۔ یہ سب کچھ فطری ماحول کے لیے کسی صورت بہتر نہ ہوگا۔
اپنے معاملات درست انداز سے چلانے کے معاملے میں بڑھکیں مارنے والی بنگلادیشی حکومت درحقیقت کیا کر رہی ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کول پاور پلانٹ کافی ہے۔ اس حقیقت سے کون ناواقف ہوگا کہ بنگلادیش ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کی زد میں رہا ہے۔ دنیا بھر میں جو موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کا سب سے زیادہ اثر بنگلادیش ہی پر مرتب ہوتا رہا ہے۔ ایسے میں بنگلادیشی حکومت کو عالمی برادری کی طرف سے ماحول کے تحفظ کے حوالے سے انعام سے نوازا جانا ان تمام لوگوں کی تضحیک و تحقیر کے مترادف ہے، جو رات دن ماحول کو بچانے کے لیے فعال رہتے ہیں۔
ماحول کے تحفظ کا معاملہ بنیادی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق کمشنر کے دفتر کا یہ دوٹوک موقف ہے کہ ماحول اور بنیادی حقوق دو الگ حقیقتیں نہیں۔ ماحول کو نقصان پہنچانا دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی عمل سے ماحول کو پہنچنے والا نقصان خوراک، آب و ہوا، صحت، تعلیم، رہائش، حقِ خودارادیت، ثقافت اور مجموعی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بہت سی جامعات اور دیگر اداروں کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماحول میں پیدا ہونے والی گراوٹ سے بہت سی سماجی برائیوں اور خرابیوں کو راہ ملتی ہے۔ ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیاں لوگوں میں تشدد پسندی کے رجحان کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ بہت سے ریاستی اداروں میں شکست و ریخت کا سبب بھی بنتی ہے۔ اسی سے سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت سوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔
ہم اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ سندر بن سے لاکھوں بنگلادیشیوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اور دوسرے لاکھوں بنگلادیشیوں کو یہ جنگلات رہائش بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ جنگلات سمندری طوفانوں کی روک تھام میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ماحول کو نقصان پہنچانے والے کسی منصوبے کی راہ میں دیوار کھڑی نہ کی گئی تو لاکھوں بنگلادیشیوں کا روزگار متاثر ہوگا اور دوسرے لاکھوں بنگلادیشیوں کے لیے بہتر ڈھنگ سے سکونت اختیار کیے رہنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ ایسے میں اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ بنگلادیشی حکومت تھوڑے سے معاشی فائدے کے لیے لاکھوں بنگلادیشیوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے؟
عالمی برادری کے لیے لازم ہے کہ بنگلادیشی حکومت کے سیاسی ریکارڈ پر بھی نظر ڈالے۔ مخالفین کی بلا جواز گرفتاری اور پھر ان کا ماورائے عدالت قتل عام سی بات ہے۔ بنگلادیشی حکومت عالمی برادری سے کیے گئے وعدے نبھانے میں اب تک تو ناکام رہی ہے۔ اس کا نوٹس لیا جانا لازم ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Burning coal in a world heritage fores”. (“mwcnews.net”. September 27, 2016)
Leave a Reply