بش‘ عراق کے بعد اب امریکا بھی ہار رہے ہیں!
امریکا میں جنگ شروع ہو گئی ہے اور بالکل ابتدائی مراحل میں ہی یہ ظاہر ہے کہ جارج بش اور ان کی فوج کے قدم اکھڑنے لگے ہیں۔ ان کے حریف اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جان کیری نے ویتنام کی جنگ میں اپنے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جارج بش پر بہت ہی کارگر اور کرار حملہ کیا ہے اور وہ پہلے ہی حملے میں دشمن کے خیمے میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
حالانکہ امریکی صدارتی انتخاب کو ابھی تین مہینے باقی ہیں اور سیاست میں تین دن بھی کافی لمبے ہوتے ہیں لیکن گزشتہ ہفتہ بوسٹن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے جس کنونشن میں جان کیری کی امیدواری کا اعلان کیا گیا اس کے ماحول سے صاف ظاہر تھا کہ یہ ایک ایسی پارٹی اور امیدوار کا مشن تھا جو کامیابی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔
جان کیری اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے کیمپ میں جو جوش و خروش ہے اور جارج بش اور ری پبلکن پارٹی میں اس وقت جو پست حوصلگی طاری ہے ان کا کچھ اندازہ ان کے انتخابی نعروں سے بھی ہوتا ہے۔
جان کیری کا مقبول نعرہ ہے ’’کیا آپ ایک امریکا چاہتے ہیں یا دو‘‘۔ یہ نعرہ دراصل جارج بش کی ان پالیسیوں پر ایک زبردست چوٹ ہے جنہوں نے گزشتہ چار برسوں کے دوران امریکی سماج کو مکمل طور پر دو ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے اور ہر محاذ پر انتشار پیدا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
دوسری طرف ’’ہردل عزیز‘‘ جارج بش کا نعرہ ہے: ’’دنیا بدل گئی‘‘۔ اس نعرے کے ذریعہ جارج بش غالباً اپنے رائے ہندوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ نئے حالات اور ایک نئی دنیا میں پرانے اصولوں اور پرانے واقعات کی بنیاد پر ان کو نہ پرکھیں بلکہ ’’بدلی ہوئی دنیا‘‘ میں انہیں امریکا کی خدمت کا ایک اور موقع فراہم کریں۔
لیکن تازہ رائے شماری کی رپورٹوں سے ایسا نہیں لگتا کہ امریکی رائے دہندے ایسی کوئی غلطی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ رائے شماری کی رپورٹوں کے مطابق تقریباً ہر محاذ پر جان کیری مقبولیت کی دوڑ میں جارج بش سے آگے چل رہے ہیں اور ہر روز یہ فرق بڑھتا جارہا ہے۔
جو لوگ امریکا کے صدارتی انتخابات کا بغور مشاہدہ کرتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کے اعلان اور اس کی جانب سے امیدواری کو قبول کرنے کے فوری بعد کچھ ہی دنوں میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ گھوڑا جیتنے والا ہے یا ہارنے والا۔ اور ان ہی چند دنوں کے اندر جیتنے والے امیدوار کی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن اور جان کیری کی امیدواری کے اعلان کے بعد بھی یہی ہوا۔ اس موقع پر جان کیری نے ’’وہائٹ ہائوس کی ساکھ اور اعتماد‘‘ کو بحال کرنے کا جو وعدہ کیا اور جس طرح کی پُراعتماد تقریر کی اس کے بعد ہی جان کیری کی مقبولیت اور ان کے سیاسی وزن میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی تیزی سے اضافہ ہوا۔
لیکن اس کے دو دن بعد ہی جارج بش اور ان کی انتظامیہ نے ایک جوابی چال چلی اور اچانک ہی پورے امریکا میں یہ کہہ کر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ القاعدہ کے ایک بہت بڑے حملے کے منصوبے کا پتا چلایا گیا ہے حالانکہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد سے اس طرح کی وارننگ کئی مرتبہ دی جاچکی ہے اور ہر بار خطرے کے مختلف نشان لہرائے گئے لیکن اس بار جو وارننگ دی گئی وہ پہلے کے مقابلے میں بہت مختلف تھی۔ اس وارننگ میں واشنگٹن‘ نیویارک اور نیو جرسی شہروں کا نام لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی ان عمارتوں کی بھی نشاندہی کی گئی جن پر امریکی عہدیداروں کے خیال میں حملہ ہونے والا تھا۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی یا داخلی سلامتی کے محکمہ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد معاشی مراکز کو نشانہ بنانے والے ہیں تاکہ امریکا کی معیشت کو تباہ کیا جاسکے۔ جن عمارتوں کی نشاندہی کی گئی ان میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ہیڈ کوارٹرز‘ نیویارک کا اسٹاک ایکسچینج اور نیو جرسی میں پروڈنشل پلازہ جیسی عمارتیں شامل تھیں۔
وضاحت کے ساتھ ان عمارتوں کی نشاندہی اور اس وارننگ کے بعد کہ وہاں القاعدہ کے حملے کا خطرہ ہے‘ سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ سکیورٹی عملے میں اضافہ کر دیا گیا اور راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں کیونکہ امریکی عہدیداروں کا خیال تھا کہ ان عمارتوں پر ٹرک بم حملہ ہو سکتا ہے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سربراہ ٹام رج کا کہنا تھا کہ ان حملوں کا مقصد بین الاقوامی معیشت میں امریکی لیڈر شپ کو تباہ کرنا ہے۔
کیا یہ ایک ڈرامہ تھا؟
لیکن اس سارے ہنگامے کے صرف دو دن بعد ہی بش انتظامیہ کے غبارے کی ہوا نکل گئی جب یہ انکشاف ہوا کہ جن اطلاعات کی بنا پر یہ کارروائی کی گئی وہ کافی پرانی تھیں۔ یہ معلومات دراصل ان کمپیوٹروں سے حاصل کی گئی تھیں جو مبینہ طور پر پاکستان میں گرفتار القاعدہ کے دو سینئر اہلکاروں کے پاس سے برآمد ہوئے۔ ان میں تنزانیہ کے احمد خلفان گیلانی اور پاکستانی کمپیوٹر انجینئر محمد نعیم نور خاں شامل تھے۔ ان دونوں کو گزشتہ مہینہ پاکستان میں الگ الگ مقامات سے گرفتار کیا گیا اور ان میں سے کسی ایک کے کمپیوٹر سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ القاعدہ نے امریکا کی اہم معاشی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس کی بنیاد پر امریکا میں یہ سارا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ لیکن اس کے فوری بعد جب یہ انکشاف ہوا کہ یہ اطلاعات تین برس پرانی ہیں اور القاعدہ نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں سے پہلے ہی ان معاشی مراکز پر نظر رکھی تھی اور ان پر حملے کے امکان کا جائزہ لیا گیا تھا تو خود امریکی عوام نے بش انتظامیہ پر لعن طعن شروع کر دی۔
نوٹ کرنے کے قابل یہ بات بھی تھی کہ جب تازہ حملوں کی وارننگ دی گئی تب بھی امریکی عوام نے اس پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی اور جن عمارتوں کے نام بتائے گئے تھے وہاں بھی لوگوں کی آمد و رفت معمول کے مطابق جاری رہی حالانکہ سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے لوگوں کو مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صاف ظاہر تھا کہ دہشت گردوں کے حملوں کی دھمکیاں اب اس قدر معمول کا حصہ بن گئی ہیں کہ عام امریکیوں میں ان سے ایک طرح کی بیزاری پیدا ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اب اس بیزاری میں ایک شک و شبہ بھی شامل ہو گیا ہے اور پہلی مرتبہ کچھ امریکی یہ سوچنے لگے ہیں کہ وقفے وقفے سے امریکی انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی یہ وارننگ کہیں کوئی چال تو نہیں ہے؟
خاص طور پر تازہ وارننگ کے وقت کو لے کر یہ سوال اٹھنا فطری بات ہے۔ بش انتظامیہ نے نئے خطرے کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا جبکہ جان کیری کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور پورے ملک کی توجہ ان پر مرکوز تھی۔ اچانک نئے خطرے کا اعلان کر کے کیا بش اور ان کے حواریوں نے امریکیوں کی توجہ بانٹنے کی کوشش کی؟
ڈیمو کریٹک پارٹی کے کچھ لیڈروں کا بھی خیال ہے‘ ویرمانٹ کے سابق گورنر ہاورڈ ڈین نے یہی سوال اٹھایا ہے۔ ’’کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ انہوں نے یہ وارننگ ڈیمو کریٹک کنونشن کے دو دن بعد جاری کی جبکہ جان کیری کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔ حالانکہ یہ وارننگ کئی ہفتے قبل دی جاسکتی تھی‘‘۔ لیکن داخلی سلامتی شعبے کے سربراہ ٹام رج نے ان الزاموں کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس وارننگ کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ حکومت پر اعتماد سے ہے۔ جہاں ٹام رج نے یہ مانا کہ دہشت گردوں کے منصوبوں کے بارے میں یہ معلومات تین سال پرانی ہیں‘ وہیں انہوں نے کہا کہ حملے کا خطرہ بالکل حقیقی ہے اور دہشت گردوں نے اس برس جنوری تک بھی ان عمارتوں پر نظر رکھی تھی۔
عراق کا پھندا
سچائی جو بھی ہو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس برس کے صدارتی انتخابات میں عراق جتنا بڑا موضوع ہو گا اتنا ہی بڑا موضوع امریکا کی داخلی سلامتی بھی ہو گی اور ان دونوں ہی موضوعات پر اس وقت بش کو ناکامی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ امریکیوں کی اکثریت عراق کی صورتحال اور دہشت گردی کے داخلی خطرات کو الگ کر کے نہیں دیکھ رہی اور اس سے بش کی ناکامی اور بھی سنگین بن گئی ہے۔
دہشت گردی کے تازہ خطرے کو لے کر جو کچھ ہوا‘ اس پر بعض امریکیوں نے یہ طعنہ کسا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کی تلافی کے لیے اب بش انتظامیہ اس طرح کے احتیاطی اقدامات کر رہی ہے تاکہ اس پر کچھ نہ کرنے کے جو الزامات ہیں‘ انہیں دـھویا جاسکے لیکن ایسا کرنا بش انتظامیہ کے لیے آسان نہیں۔
۱۱ ستمبر کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اس معاملے میں بش کی انتظامیہ کی ناکامیوں کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے اور جان کیری اس کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امریکیوں سے وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ ملک کے اندر زیادہ سلامتی اور تحفظ کا احساس پیدا کرنے والے قدم اٹھائیں گے۔
جہاں تک عراق کا سوال ہے وہاں بش کی ناکامیوں کی فہرست اتنی لمبی ہو گئی ہے اور خود امریکی عوام اس سے اس حد تک واقف ہو گئے ہیں کہ جان کیری اسے بار بار دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے وعدوں کی قلعی پہلے ہی کھل گئی ہے اور اس معاملے میں بش کی دروغ گوئی پوری دنیا میں امریکا کے لیے زبردست بدنامی کا باعث بنی ہے۔ اس کے بعد گزشتہ سوا برس کے دوران عراق میں امریکی افواج کے جانی نقصانات اور امریکا کے مالی نقصانات بھی عام امریکیوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ عراق میں صورتحال ابھی بھی دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے۔ عراقی مزاحمت کی طاقت بڑھ رہی ہے اور امریکی ہیلی کاپٹر مار گرائے جانے کا واقعہ فوجی نقطۂ نظر سے کافی اہمیت کا حامل ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ عراق کے مزاحمت کاروں کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔
اس کے علاوہ عراق میں کام کرنے والے بیرونی باشندوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی امریکی فوج کے لیے بڑھتی ہوئی پریشانیوں کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن بھارتیوں کے بشمول کئی بیرونی ٹرک ڈرائیوروں اور دوسرے کارکنوں کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے دو پاکستانی اور ایک ترکی ڈرائیور کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا۔ اغوا کے ان واقعات کو الگ الگ معنی پہنائے جارہے ہیں۔ جبکہ اغوا کنندوں کا مقصد بالکل واضح اور صاف ہے۔ وہ امریکی فوجیوں کو ملنے والی رسد کا راستہ بند کر دینا چاہتے ہیں۔ عراقی مزاحمت کاروں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ جو بھی امریکی فوجیون کو ساز و سامان اور رسد پہنچانے کا کام کرے گا وہ اسے ختم کر دیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ان اغوا کروں نے غریب بھارتی ڈرائیوروں کی ساتھ وہ سلوک نہیں کیا ہے جو انہوں نے پاکستانیوں اور دوسروں کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ان یرغمالیوں کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کویت کی جو بھارتی کمپنی عراق میں کام کر رہی ہے اور امریکی فوجیوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے‘ اسے وہاں اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور کیا جائے اور لگتا ہے کہ عراقی مزاحمت کار اس میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں۔
اگر یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا اور امریکی فوجیوں کو ملنے والی رسد میں رکاوٹ آتی ہے یا اس کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے تو پھر امریکی فوج کے لیے عراق سے واپسی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔ اس طرح اب امریکی صدارتی انتخاب میں عراق سے امریکا کی ڈیڑھ لاکھ افواج کی واپسی بھی ایک اہم موضوع بن گئی ہے۔ جان کیری نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ عراق سے امریکی فوجیوں کی باعزت واپسی کو یقینی بنائیں گے۔
جب جنگ اور فوجیوں کے مسائل پر جان کیری کچھ بولتے ہیں تو اس میں جارج بش کی باتوں سے زیادہ وزن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جان کیری خود ایک فوجی رہ چکے ہیں اور ویتنام کی جنگ لڑ چکے ہیں اور انہیں جنگ کی ہلاکت خیزیوں کا تجربہ ہے۔ اس کے مقابلے میں جارج بش پر یہ الزام ہے کہ جب انہیں ویتنام کی جنگ کے وقت فوج میں بھرتی ہونا پڑا تو انہوں نے کسی نہ کسی طرح میدانِ جنگ میں جانے سے اپنے آپ کو بچالیا۔
اب بش اور ان کے مشیروں کے لیے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ جان کیری کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سامنا کیسے کریں۔ جارج بش ڈرامہ بازیوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل وہ پھر کوئی ڈرامہ رچائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی عوام کو یقین دلانے کے لیے کہ عراق میں سب کچھ ٹھیک ہے اگلے چند ہفتوں میں عراق سے کچھ امریکی فوجیون کو واپس بلالیں۔
لیکن اکثر کا کہنا ہے کہ اب بش جو بھی کریں گے اس کا نتیجہ الٹا ہی نکلے گا کیونکہ امریکی عوام میں اس وقت بش کے خلاف سخت برہمی کی لہر چل رہی ہے۔ وہ چاہے ۱۱ ستمبر کے واقعات ہوں‘ عراق کی تباہ کن صورتحال ہو‘ دنیا بھر میں امریکا کے لیے بڑھتی ہوئی نفرت ہو‘ دہشت گردی کے سنگین خطرات کی وجہ سے امریکیوں کے لیے تنگ ہوتی ہوئی زمین ہو۔ ہر مسئلہ پر امریکی ووٹر اپنا غصہ جارج بش پر نکالنا چاہتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جارج بش کے خیمے میں طوفان سے قبل کی خاموشی چھائی ہوئی ہے اور بش کے اطراف جمع عیسائی مذہبی انتہا پسند ٹولے یا Neo-conservative کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ آنے والا یہ طوفان ان کے لیے کیا پیام لانے والا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)