
چند دنوں سے خبروں میں ایک نیا اور غیرمانوس نام‘ دارفور‘ (Darfur) آنے لگا ہے اور اس کے ساتھ ہی امریکا کے کولن پاول کی سوڈان کی حکومت کو دھمکی‘ دوسرے ہی دن ٹونی بلیئر کا اعلان کہ اس علاقہ میں برطانیہ فوجیں اتارے گا اور چھاتہ بردار فوج کو اس لیے تیار حالت میں رکھا گیا ہے پھر آسٹریلیا کے وزیراعطم ہاورڈ کی جانب سے فوجی مداخلت کو ضروری قرار دیا جانا اور اپنے ملک کی فوج کو دارفور میں اترنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دینا۔
افریقا کے اس دور دراز علاقہ میں کولن پاول کے پہنچنے کے ساتھ ہی سی این این اور بی بی سی کے ٹی وی کیمرے حرکت میں آگئے۔ فاقہ زدہ عوام کی دردناک تصوریں ٹی وی اسکرینس پر دکھائی جانے لگیں‘ کچھ نحیف و ناتواں اپنی بکریوں کی فکر کرتے نظر آنے لگے۔ چند اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے لوگ دیکھے۔ پاول گئے تو برطانوی سفارت کار (Diplomats) پہنچ گئے۔ وہ گئے تو اقوامِ متحدہ کے کوفی عنان تشریف لائے‘ دارفور کا یہ علاقہ وقفہ وقفہ سے برابر خبروں میں دکھایا اور بتایا جارہا ہے۔
ان خبروں سے سوالات ذہنوں میں ابھرتے ہیں مگر جوابات نہیں ملتے۔ کیا اس علاقہ میں کسی ’صدام حسین‘ نے عمومی تباہی کے ہتھیار ذخیرہ کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے بش۔بلیئر جوڑی تلملا اٹھی ہے؟ کیا یہاں مسلم۔عیسائی کشمکش چل رہی ہے اور عیسائی علاقہ کو مسلم سوڈان سے علیحدہ کرنے کے لیے ان ملکوں نے فوجوں کو تیار حالت میں رکھا ہے؟ کیا دارفور کے قحط زدہ علاقے اور فاقہ کش عوام کی مصیبتیں چھتری افواج کے اترنے سے دور ہو جائیں گی اور ان کا اس علاقہ میں مارے مارے پھرنا ختم ہو جائے گا؟ بار بار یہ الزام یہ سفید فام حکمران لگا رہے ہیں کہ سوڈانی عرب‘ دارفور کی حبشی نژاد آبادی کی نسل کشی کر رہے ہیں اور اس نسل کا سوڈان سے صفایا (Ethnic Cleansing) ان کا مقصد ہے۔ یہ ممالک جن کا ضمیر یورپ کے علاقہ سربیا (Serbia) میں صدر سیلو سوویچ کی حکومت کی سرکردگی میں مسلمانوں کے صفائے پر نہیں جاگا اور پانی سر سے اونچا ہو گیا اور ان کے مفادات خطرہ میں نظر آنے لگے تو تب کہیں مداخلت کی اور میلو سوویچ کو گرفتار کیا‘ کیا اب دلوں کی کیفیت ایسی بدل گئی ہے کہ کوئی اور تکلیف دیکھی نہیں جاتی اور ضمیر فوری جاگ اٹھتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات حالات کے پس منظر کو نظروں کے سامنے رکھنے سے ملیں گے۔
سوڈان اور مغرب کے تعلقات
سوڈان‘ افریقا میں رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں کی کپاس کی طرح عمدہ کپاس کہیں اور نہیں ہوتی۔ اس لیے ساری دنیا میں سوتی کپڑے کی تیاری کے لیے اس کو استعمال کیا جاتا ہے مگر کئی برسوں سے قحط اور ناقص بیجوں کی وجہ سے اس کی کاشت متاثر ہو رہی ہے‘ اس کی زمین میں اور ساحل میں زیرِ زمین پیٹرولیم موجود ہے مگر یہاں تیل زیادہ مقدار میں نہیں نکالا جاتا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی پہلی صف میں داخل ہونے کے امکانات ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمان ہے‘ جنوبی علاقہ کے قبائل عیسائی ہیں۔ سوڈان پر برطانیہ حکومت کرتا تھا مگر سوڈانیوں نے کبھی برطانوی سامراج کو قبول نہیں کیا۔ برطانیہ کے خلاف مسلح جدوجہد کی تاریخ میں مہدی سوڈانی کے نام بڑے کارنامے ملتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں امریکا سے اس کے تعلقات ناخوشگوار رہے ہیں۔ فوجی انقلابات میں حکمران بدلتے رہے مگر خارجہ پالیسی میں بہت کم تبدیلی آئی‘ امریکا کی سامراجیت کی مخالفت کی پالیسی قائم رہی‘ اسلام پسندی کا رجحان بڑھتا گیا۔ امریکا نے سوڈان کے خلاف کئی جارحانہ کارروائیاں کیں مگر اس کو خاطر خواہ ناکامی ہوئی۔ حتیٰ کہ اس نے ہتھیار سازی کا الزام لگا کر کئی فیکٹریز پر بمباری کی۔ صنعتوں کو تباہ کر دیا۔ سوڈان نے اقوامِ متحدہ سے کہا اور ہر ملک کو دعوت دی کہ ان کے وفود آکر دیکھیں کہ کیا یہ اسلحہ کے کارخانے تھے یا ادویات سازی کی فیکٹریز تھیں۔ امریکا کا جھوٹ کھل کر سامنے آگیا۔ پھر جنوب کے عیسائی قبائل کو اُکسایا گیا۔ مسلح بغاوت شروع کروائی گئی۔ ہتھیار اُن کو فراہم کیے گئے۔ پوپ (Pope) کی مداخلت سے یہ مسلح آویزش ختم ہوئی اور حکومت و باغیوں کے درمیان معاہدہ ہوا۔ امریکا اور برطانیہ کا یہ دائو بھی ناکام ہوا۔ یہ دونوں موقع کی تلاش میں رہے کہ کوئی بہانہ ملے اور سوڈان میں چھتریوں سے فوج اتاری جائے۔ دارفور کے حالات کی دہائی دے کر یہ مغربی سامراج سوڈان کو اپنے پنجہ میں لینے کی فکر میں ہے۔
دارفور کے مسئلہ کی حقیقت
دارفور‘ سوڈان کا مغربی علاقہ ہے‘ اس کے مغرب میں شاد (Chad) نامی مملکت ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ دارفور کی آبادی عیسائی ہے۔ دارفور صد فیصد مسلم علاقہ ہے‘ شاد بھی تقریباً صد فیصد مسلم ہے۔ دارفور ریگستان ہے۔ ریگستان میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوش (Nomads) ہوتے ہیں جو نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے چارے کی تلاش میں آج یہاں اور کل وہاں کی زندگی گزارتے ہیں۔ دارفور کی بڑی آبادی خانہ بدوش ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے افریقا کے کئی علاقے قحط کا شکار رہے ہیں‘ ان میں دارفور بھی ہے۔ اناج اور چارہ کی قلت کی کیفیت میں جو بھی ملتا ہے اس کے لیے کھینچا تانی قحط زدہ علاقوں میں ہوا کرتی ہے۔ یہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ خبروں میں جن جاوید (Janjaweed) کا نام آتا ہے جس کے بارے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ عرب نژادوں کی خانگی فوج ہے جو دارفور کے حبشی نسل کے عوام کا صفایا کر رہی ہے‘ قتل کر رہی ہے‘ عورتوں کی عصمت دری کر رہی ہے۔ دراصل یہ ڈاکوئوں کی ٹولی ہے‘ جس کے پاس اناج یا بکریاں ہوں ان پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ڈاکوئوں کی اس ٹولی کے خلاف حکومت سوڈان کو سخت کارروائی کرنی چاہیے تھی‘ اس میں اس نے غفلت برتی۔ دارفور کے عوام سے ہمدردی کا تقاضا تو یہ تھا کہ امریکا‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کی حکومتیں بڑی امدادی رقومات منظور کرتیں‘ حکومت سوڈان کے ذریعہ نہ سہی اقوامِ متحدہ کی راحت کاری ایجنسیوں کے ذریعہ اس علاقہ میں اناج و سامان وغیرہ پہنچاتیں۔ اقوامِ متحدہ کی یہ ایجنسیاں وسائل کی کمی کا شکار ہیں‘ وہ اپنا کام انجام دینے کے قابل بنتیں۔ واشنگٹن نے ۹۰ بلین ڈالرز صدام کو ختم کرنے کے لیے مختص کیے تھے لیکن سوڈان کے مفلوک الحال عوام کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے ایک پائی بھی نہیں دی۔ امریکا اور اِس کے ہمنوا ممالک‘ برطانیہ و آسٹریلیا‘ کم از کم ڈَچ حکومت سے ہی سبق حاصل کر لیتے جس نے سوڈان نے تعمیرِ نو کے لیے ۵ء۱۲۱ ملین ڈالرز رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دارفور میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکے۔ جن جاوید ڈاکوئوں کی ٹولی کے خاتمے کے لیے حکومتِ سوڈان سے تعاون کرتیں۔ ان سب کے بجائے بش۔بلیئر جوڑی اس علاقہ پر فوجی قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مغرب کی اس سازش کے خلاف سوڈان میں جگہ جگہ عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں اور سوڈانی عوام یہ اعلان کر رہے ہیں کہ سوڈان‘ بش۔بلیئر جوڑی کے لیے عراق سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہو گا اور یہ دونوں دلدل میں پھنس جائیں گے۔
مسلم اتحاد کے خلاف سازش
مغربی استعماری (سامراجی) ممالک کی آزمائی ہوئی پالیسی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ ہے۔ اب اسی پالیسی کو بش۔ بلیئر جوڑی اختیار کر رہی ہے۔ سوڈان میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر کوئی فساد‘ کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ عرب نژاد اور غیرعرب نژاد‘ دونوں سوڈانی عوام کی زبان عربی ہے‘ عقیدہ کے ساتھ ساتھ زبان کی یکسانیت نے ان کے اتحاد کو ہمیشہ مضبوط رکھا ہے۔ آپس میں شادی بیاہ عام بات ہے۔ عراق پر حملہ نے ساری دنیا کے مسلم عوام میں اتحاد کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ مسلم حکمرانوں میں آپسی اختلافات ہو سکتا ہے‘ جارح امریکا سے ہاتھ ملائے رکھنے کی خواہش ہو سکتی ہے مگر جہاں تک عوام کا تعلق ہے‘ چاہے وہ عرب ہوں کہ غیرعرب‘ چاہے وہ ایشیائی ہوں‘ افریقی ہوں‘ یورپی ہوں یا امریکا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا میں بسنے والے ہوں‘ بش بلیئر کی حکمتِ عملی سے نفرت کا جذبہ سب میں پایا جاتا ہے اور سب ان کو ظالم‘ قاتل اور حملہ آور سمجھتے ہیں۔ مسلم عوام کے اس جذباتی اتحاد نے ان میں اپنی اسلامی شناخت کو آگے بڑھانے اور اس پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے جذبہ کو بھی پروان چڑھایا ہے جس کو فرانس میں قانونی پابندی کے باوجود حجاب پر اصرار کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
برطانیہ اور امریکا نے مسلمانوں کے اس اتحاد کو توڑنے کے لیے رنگ و نسل کی بنیاد پر ان میں پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑانے کی پالیسی اختیار کی ہے‘ جس کا اس دور میں پہلا تجربہ سوڈان میں کیا جارہا ہے۔ افریقی مسلمان اتنے بے شعور نہیں ہو سکتے کہ ان کو جو حبشی نژاد کو غلام بنائے رکھنے والی جنوبی افریقا کی سفید فام حکومت کی نسلی علیحدگی (Apartheid) کی پالیسی کی تائید کرتے رہے‘ ان کو سیاہ فام حبشی نژاد مسلمانوں کا ہمدرد سمجھیں اور ان کے جال میں پھنس جائیں۔ امریکا کی سرکردگی میں مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تہذیبی جنگ کا یہ بڑا کاری ہتھیار ہے۔ سوڈان کے عرب و حبشی عوام اس ہتھیار کی دھار اور اس کے نشانے کو سمجھیں اور نسلی منافرت پیدا کرنے کی اس سازش کو ناکام بنائیں۔
امریکا‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کو کوئی ہمدردی دارفور کے عوام سے نہیں ہے‘ ان کا مقصد اس علاقہ میں جہاں یورانیم کی زیرِ زمین موجودگی کے امکانات ہیں‘ قبضہ جمانا ہے (نائیجر سے لے کر سوڈان کے مغربی علاقہ تک‘ یورانیم کی موجودگی کے آثار ہیں‘ یہ دھات نائیجر (Niger) میں نکالی بھی جاتی ہے اور ایٹمی توانائی اور ہتھیاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے)۔ سوڈان کو زیرِ اثر لاکر پیٹرولیم کے ان ذخائر پر قبضہ کرنا ہے جہاں سے اب تیل نہیں نکالا جارہا ہے اور سب سے پہلے یہ کہ سوڈان میں اٹھتی ہوئی اسلام پسندی کی لہر کو دبانا ہے تاکہ اس کے اطراف کے مسلم ممالک‘ شاد‘ صومالیہ وغیرہ اس سے متاثر نہ ہوں اور امریکا کے سامراجی عزائم کے لیے چیلنج نہ بنیں۔
(بشکریہ: ’’المنصف‘‘/’’ریڈینس‘‘۔ بھارت)
Leave a Reply