
کسی ایسی کانفرنس کا تصور کیجیے جس کی سرپرستی صدر بش کر رہے ہوں اور جس کا راست تعلق امریکا کے ’’منظور نظر‘‘ اسرائیل سے ہو کیا ایسی کسی کانفرنس سے غیر جانبدارانہ اور مبنی بر انصاف نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ ایسی کسی کانفرنس سے کوئی اچھی توقع رکھتا ہے تو یہ اس کی سادہ لوحی ہوگی۔ آئندہ ماہ منعقد ہونے والی مشرق وسطیٰ امن کانفرنس اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع بنی ہوئی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب اس کانفرنس سے متعلق کوئی خبر اخبارات کی زینت نہ بنی ہو، مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کا جس شدت سے پروپگنڈا کیا جا رہا ہے نتائج کے اعتبار سے یہ اتنی ہی لا حاصل ہے۔ اس کانفرنس کا امریکی نگرانی میں ہونا خود بتا رہا ہے کہ کانفرنس میں طے ہونے والا ہے اور کس کی تائید میں فیصلے کیے جانے والے ہیں۔ امریکا کی اسرائیل نوازی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے۔ امریکی خارجہ سیاست اسرائیل کے اردگرد گھومتی ہے امریکا میں بھی کچھ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن اسرائیل سے متعلق اس کی ہمدردانہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی اس وقت امریکی سیاست پنجہ یہود میں اس شدت سے جکڑی ہوئی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی۔ امریکا کو خود اپنے تحفظ سے زیادہ اسرائیل کا تحفظ عزیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا میں حکومتوں کی تبدیلی سے بنیادی پالیسی نہیں بدلتی یہ بات دیگر عالمی مسائل کے تعلق سے درست ہو یا نہ ہو لیکن اسرائیل سے متعلق سو فیصد درست ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مسئلہ فلسطین کے تعلق سے اپنائی گئی امریکی پالیسیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ امریکا کسی بھی صورت میں کوئی ایسا فیصلہ کر ہی نہیں سکتا جس سے اسرائیل کے مفادات متاثر ہوتے ہوں ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر کسی کو ایسی کانفرنس کے انعقاد سے کیا حاصل جس کا رخ پہلے سے متعین ہو۔ چنانچہ نومبر میں ہونے والی مشرق وسطیٰ کانفرنس کے تعلق سے بیشتر عرب تجزیہ نگاروں کا کہنا کہ یہ ایک لا حاصل نتائج سے عاری کانفرنس ہے بعض عرب سیاسی تجزیہ نگاروں موسم خزاں میں ہونے والی اس کانفرنس میں کوئی نئی بات نہ ہوگی مسئلہ فلسطین پر منعقدہ دیگر مذاکرات کی طرح آنے والے مذاکرات بھی صفر نتائج پر ختم ہوں گے۔
مذاکرات چاہے اجتماعی ہوں کہ انفرادی، حالت جنگ میں ہو کہ امن کی حالت میں مذاکرات مسلح جھڑپوں اور سیاسی اختلافات کے حل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مذاکرات میں وہی منطق کار فرما ہوتی ہے جو منطق جنگوں میں ہوتی ہے جنگوں میں اس فریق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے جو زیادہ طاقتور ہو۔ جدید اسلحہ سے لیس فوج اور قوت کا حامل فریق جنگ میں بازی لے جاتا ہے۔ لیکن جنگوں اور مذاکرات میں فرق یہ ہے کہ جنگوں میں سارا انحصار فوجی طاقت اور جنگی ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے اس میں دیگر سیاسی و سماجی عوامل و محرکات کا لحاظ نہیں کیا جاتا جب کہ مذاکرات میں طاقت کا مفہوم زیادہ وسیع معنی میں لیا جاتا ہے۔ مذاکرات میں طاقت کا انحصار صرف فوجی طاقت پر نہیں ہوتا بلکہ فوجی طاقت کے علاوہ مذاکرات میں اقتصادی قوت،مختلف ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور مذاکرات کی میز پر ہونے والی گفتگو میں سیاسی پختگی و غیرہ امور بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ پھر حق کس کے ساتھ ہے مذاکرات میں اس کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ مذاکرات کے بار آور ہونے کے لیے بنیادی شرط دونوں فریقوں کا اختلافات کے حل کے سلسلہ میں مخلص اور سنجیدہ ہونا ہے۔ اگر دونوں فریق یا ان ہی کا طاقت ور فریق امن کا خواہاں نہ ہو تو پھر مذاکرات کا ناکامی سے دو چار ہونا یقینی ہے بلکہ اس قسم کے مذاکرات کے بعد فریقین میں مزید شدت پیدا ہوگی اور خون خرابہ کے امکانات بڑھیں گے۔ بلکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی امن کو ششوں کا دروازہ بالکل ہی بند ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اگر مذاکرات میں شریک طاقتور فریق کمزور فریق پر اہانت آمیز شرطوں کو لاگو کرنا چاہے گا تو اس کے بھی خطرناک نتائج بر آمد ہوں گے۔کمزور فریق رد عمل کے طور پر مسلح احتجاج کا راستہ اپنائے گا۔ مختصر یہ کہ ہر طرح کے مذاکرات امن کا باعث نہیں بنتے، چاہے مذاکرات امن وسلامتی کے خوشنما عنوان سے کیوں نہ منعقد کیے گئے ہوں۔
عرب اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جھڑپوں کے نتائج اکثر اسرائیل کے حق میں دیکھے گئے۔ اگر چہ عربوں نے بعض موقعوں پر بڑی جاں فروشی کا مظاہرہ کیا۔ مختلف جھڑپوں کے مطلوبہ نتائج بر آمد نہ ہونے پر دونوں فریق مذاکرات کی میز پر جمع ہونے لگے۔ ۱۹۹۱ ء کی میڈرِیڈ کانفرنس سے لے کر اب تک منعقد کیے گئے دیگر مذاکرات سے فلسطین کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔ اسرائیل عسکری قوت کے بل بوتے پر فلسطینیوں پر دھاگ جماتا رہا۔ اس دوران اسرائیلی افواج سارے فلسطین میں دندناتی رہیں فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ مذاکرات سے مطلوبہ نتائج کی توقع اس وقت کی جا سکتی ہے جب کہ فوجی طاقت میں فریقین کے درمیان مکمل توازن ہو۔اسی توازن کی کمی مذاکرات کو بے فیض کر رہی ہے۔ اسرائیل اپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پر امریکا سے شہ پاکر فلسطینیوں کو خوب کچلنا چاہتا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس نہ ذاتی طور پر اسلحہ کی طاقت ہے نہ طاقتور حلیفوں کا سہارا ہے عرب ممالک ہزار جذبے کے باوجود صرف زبانی ہمدردی پر اکتفا کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مالی تعاون پیش کرتے ہیں لیکن ان میں حق کی تائید میں اسرائیل سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں ہے اس کے برخلاف اسرائیل ذاتی طور پر فوجی طاقت کا حامل ہے دوسرے امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی شکل میں اسے طاقتور حلیفوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ میں حق فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ اسرائیل غاصب طاقت ہے جسے فلسطینیوں پر مسلط کیا گیاہے۔ غزہ پر حماس حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل ایٹری چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اس کے لیے اسرائیل نواز فلسطینی صدر محمود عباس کو استعمال کیا جا رہا ہے حالیہ دنوں میں محمود عباس دیگر فلسطینی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر خود اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں۔ جب کہ اسرائیلی حکمران دیگر اپوزیشن قائدین کے مشورہ کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتے۔ فلسطین کی موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا امن کانفرنس کے عنوان سے فلسطینیوں کو مزید دستبرداری پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔امریکا کی زیر نگرانی ہونے والی امن کانفرنس کے تعلق سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ نے دو ٹوک انداز میں کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ دیگر عرب ممالک سے بھی انھوں نے اپیل کی ہے کہ وہ کانفرنس میں شرکت سے گریز کریں۔ شام نے بھی کانفرنس کے متعلق اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ کانفرنس میں جب تک شام کے تحفظات کا لحاظ نہیں کیا جائے گا شام کی شرکت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ تحفظات کی وضاحت کرنے پر انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی گولان کی پہاڑیوں کے متعلق فیصلہ شام کے حق میں ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات مذاکرات سے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جاتا ہے جو خوں ریز جنگوں سے بھی ممکن نہیں۔ مذاکرات سے حصول مقصد میںنئی راہیں کھلتی ہیں لیکن اس کے لیے مختلف وسائل رہنا ضروری ہے۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ کئی حلیفوں کی ضرورت ہے حلیفوں کی تبدیلی سے طریق کار بدل جائے گا اور طریق کار کی تبدیلی حقیقی نتائج کی ضامن ہو سکتی ہے۔ مذاکرات کا مطلب بنیادی مسائل پر سودے بازی نہیں۔ عرب اسرائیل تنازعہ میں فلسطین کمزور فریق ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی مسائل ہی سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔ فلسطینیوں کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء کے حدود پر جس میں القدس شہرشامل ہے خود مختار فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے نیز فلسیطنی پناہ گزینوں کی واپسی یقینی بنائی جائے۔ ان بنیادی مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی امن کانفرنس کا انعقاد وقت کا زیاں ہے۔ اسرائیل اور امریکا کے لیے فلسطینیوں کے جائز حقوق کی ادائیگی کا فیصلہ نا قابل ہضم ہے۔ یہ دونوں تو اس سے قبل ہوئے معاہدے چاہے وہ اوسلو معاہدہ ہو یا امریکا کی جانب سے پیش کیا گیا نقشہ راہ ہو، چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات سے قبل فلسطینیوں کو خوب جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آخری آئندہ نومبر میں ہونے والی امن کانفرنس اور اس میں ہونے والے مذاکرات کی بنیاد کیا ہو گی ؟ یہ پہلو فلسطینیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ بنیادی تعین میں ہر مذاکرات کی سمت متعین ہو گی۔ ماضی کی کوششوں کو نظر انداز کر کے ازسرنو سفر کا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ان سب سے اہم مسئلہ فلسطین سے متعلق منظور قراردادیں ہیں جنہیں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک ۲۶۵ قرار دادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ نے ۱۳۶ قرار دادیں پاس کیں۔ سلامتی کونسل کی جانب سے ۶۱ قرار دادیں منظور ہوئیں۔ معاشی و سماجی کونسل نے ۵ قرار دادیں پاس کیں۔ حقوق انسانی کمیشن کی جانب سے ۷ قرار دادیں پاس کی گئی عالمی تنظیم یونسکو ۱۴ قرار دادیں پا سکیں جب کہ عالمی صحت تنظیم کی جانب سے ۲۹ قراردادیں اتفاقی اہمیت کی حامل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم قرار دادیں تقسیم سے متعلق قرار داد نمبر۱۸۱ اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی سے متعلق قرار داد نمبر ۱۹۴ اس طرح سلامتی کونسل کی دو قرار دادیں قرارداد نمبر ۲۴۲ اور ۳۳۸ اور ۱۵۱۵ ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر ہونے والی کوئی گفتگو ان قرار دادوں کے بغیر نا مکمل ہے تو کیا آنے والی امن کانفرنس میں مذکورہ قرار دادیں موضوع بحث رہیں گی ؟ اسرائیلیوں کا یوں کہنا کہ اس تعلق سے آئندہ مشترکہ بیان جاری کیا جائے گا صاف بتاتا ہے کہ اسرائیل آئندہ امن کانفرنس میں سابقہ بنیادوں پر مذاکرات کا حامی نہیں ہے۔ بلکہ وہ سابقہ ساری کوششوں پر پانی پھیراز سر نو مذاکرات کا خواہاں ہے۔ اس طرح اسرائیل فلسطینیوں کو ایسی بنیاد سے محروم کرنا چاہتا ہے جس پر ان کے سارے جائز حقوق کا دارومدار ہے۔ اگر آنے والے مذاکرات علاقہ کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ہوں تو پھر اس میںفلسطینیوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہو گی اس لیے کہ فلسطین کی موجودہ حالت انتہائی ابتر ہے۔۔ اسرائیل غزہ پر حملہ کے ذریعہ حماس کو ناکارہ بناتے ہوئے محمود عباس کے ساتھ سودے بازی کے لیے کوشاں ہے جب کہ محمود عباس کسی طرح فلسطینیوں کے نمانئدے نہیں کہے جا سکتے۔ محمود عباس کے ساتھ ہونے والا کوئی معاہدہ فلسطینیوں کے حق میں نہ ہو گا۔ اسرائیل فلسطین کے متعلق سے امریکی وزیر خارجہ کے فیصلے پر انحصار کرنا چاہتا ہے امریکی وزیر خارجہ ادھر کچھ عرصہ سے مسلسل مشرق وسطیٰ کے دورے کر رہی ہیں امریکا کے ذریعہ لاگو کیے جانے والے کسی فیصلہ میںبین الاقوامی قراردادوں کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے امریکا موجودہ صورت حال کا استحصال کرتے ہوئے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال فلسطین میں عملاً دو حکومتیں قائم ہو چکی ہیں اس صورت حال پر امریکا کی خاموشی بتاتی ہے کہ امریکا فلسطین کے حصے بخرے چاہتا ہے۔ غزہ کو مغربی کنارہ سے الگ کرنا چاہتا ہے جب کہ بین الاقوامی قراردادوں میں فلسطین کی وحدت و سالمیت پر زور دیا گیا ہے غزہ کو مغربی کنارہ سے کسی طرح علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے آنے والی امن کانفرنس کا مقصد فلسطین میں دو مستقل حکومتوں کا قیام ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکا اور اسرائیل کی سب سے بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔ اس صورت میں فلسطینی کاز بین الاقوامی قانونی دائرہ سے نکل کر علاقائی شکل اختیار کر لے گا۔ دوسرا پہلو جسے مذاکرات سے قبل ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ ہر آنے والی کانفرنس میں تمام فلسطینی جماعتوں کو فلسطین کے بنیادی مطالبات کے متعلق واضح اور متحدہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن کیا محمود عباس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اسرائیل نواز محمود عباس اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے ہر کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں۔ مذاکرات میں تنہا فتح قائدین کی شرکت فلسطینیوں کی بھرپور نمائندگی نہیں کہلائی جاسکتی موجودہ صورت حال میں مذاکرات کے انعقاد کا مقصد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکا فلسطینیوں کے حصوں میں پھوٹ پیدا کرنا چاہتا ہے بین الاقوامی برادری سے سابقہ قراردادوں پر عمل آوری کا مطالبہ متحدہ فلسطینی حکومت کے بغیر ممکن نہیں فلسطین کی موجودہ صورت حال جس میں دو حکومتیں قائم ہیں کسی طرح ساز گار نہیں۔ دشمن چاہتے ہیں انتشار اور پھوٹ کی اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی قرار دادوں پر عمل نا ممکن بنایا جائے۔
کانفرنس کے انعقاد کے لیے صرف چند ہفتے باقی رہ گئے لیکن اب تک کانفرنس کا کوئی ایجنڈہ سامنے نہیں آیا۔ اور نہ اس کی وضاحت ہوئی کہ کانفرنس میں کن مسائل کو اٹھا جائے گا۔ عام خیال یہ ہے کہ آنے والی امن کانفرنس کے لیے کسی قسم کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق خود اسرائیلیوں میں بھی زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی دیتی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والی کانفرنس ایک اجلاس کی شکل اختیار کر ے گی۔ کانفرنس کا اصل مقصد صدر بش کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ صدر بش وائٹ ہاوس سے رخصت ہوئے دنیا والوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیںکہ اب بھی وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں عرب قائدین کو کانفرنس میں شرکت کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ سعودی عرب کی جانب سے کانفرنس میں شرکت کے تعلق سے قطعی موقف سامنے نہیں آیا۔
شام نے حسب توقع شرکت سے انکار کیا ہے برطانوی اخبار ’’گار جین‘‘ نے نومبر میں ہونے والی کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکا اور اسرائیل اس کانفرنس کے ذریعہ مسئلہ کے جامع حل کے تعلق سے سنجیدہ نہیں رہے ہیں، کانفرنس میں شرکت لا حاصل ہے۔ برطانوی اخبار لکھتا ہے کہ آنے والی کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات فلسطین و اسرائیل کے درمیان قیام امن تک محدود رہیں گے لیکن کانفرنس کا تفصیلی ایجنڈا اب تک غیر واضح ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply