
یہ تحریر سوشل میڈیا پر جاری بحث و مباحثہ سے اخذ کی گئی ہے۔
۲۹ فروری ۲۰۱۶ء کی صبح سے واٹس ایپ کے مختلف گروپوں میں جاری مباحثہ دیکھتا رہا۔ نتیجتاً کچھ میرے اندر کے رِندِ (نا) بادہ خوار کی حمیّت نے بھی جوش مارا، جیسے مرحوم اختر شیرانی نے، ایک محفلِ بادہ گُساراں میں، ایک گستاخِ نبیٔ پاکؐ کے منہ پر، بَھرا جام پھینک مارا تھا، اور کہا تھا کہ۔۔۔ ’’باخُدا دیوانہ باشد، بامحمد ہوشیار!‘‘
سو، یہ کچھ پیراگراف ملاحظہ کے لیے حاضر ہیں۔ کسی کو قائل کرنے کے لیے نہیں لکھے۔ بس ’’حُبِّ آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جذبہ و روایت‘‘ کو آگ میں ڈالے جانے پر، براہیمی و ہاشمی خون کی لاج رکھنے کے لیے، ضبطِ تحریر میں لا یا ہوں۔۔۔ آتشِ نمرود بُجھانے کو، جس طرح نَنھی چڑیا، چونچ بھر پانی لائی تھی، تاکہ آخرت میں آقا کے سامنے وہ اپنا عذر پیش کرسکے۔
پاکستان میں ایک گورنر کے قتل پر۔۔۔ ایک غریب سپاہی کو۔۔۔ ملنے والی سزائے موت پر۔۔۔ وقت ’’ضائع‘‘ کیے بغیر۔۔۔ پہلے سے کسی کو بھنک پڑے بغیر۔۔۔ بڑی رازداری سے۔۔۔ ’’۲۹ فروری‘‘ کو، جی ہاں ۲۹ فروری ۲۰۱۶ء کو پھانسی دے دی گئی۔!!!
یوں قانون کا بول بالا ہوگیا۔۔۔
’’میاں صاحبان آف جاتی امرا‘‘ کے عہدِ سلطانی میں، انصاف اور قانون کا سِکّہ مکمل رائج ہونے میں، آخری رُکاوٹ بھی دُور ہوگئی۔۔۔!!
اِس حالت میں کہ جب میرٹ، فوری انصاف، امانت و دیانت، غریب پروری، اور حقوقِ انسانی کی روشنی چہار سُو پھیلی ہوئی ہے، اور ہر طرف روشن خیالی کی مانگ اور گونج ہے۔
پاکستان میں بس یہی ایک سزائے موت تھی، جو بِلا سبب رُکی ہوئی تھی۔ اِس خون سے، پاکستان کے ماتھے پر کَلنک کا جو آخری ٹِیکا چِپکا رہ گیا تھا، وہ شریفوں نے دھو دیا۔
اِس ملک میں سیکڑوں افراد، جُرمِ قتل پر سزائے موت نہیں، محض قید کی سزا پاتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اگر ممتاز قادری کو پھانسی ہوگئی تو کیا ہوا؟ شریفوں کے اِخلاص اِلی الاستعمار پر مہرِ تصدیق تو ثَبت ہوگئی!!
سیکڑوں قاتلوں کو سزائے موت بھی سُنائی جاچُکی ہے۔ دیارِ مغرب کی خفگی کا لحاظ کرکے، اگر برسوں عملدرآمد نہیں کیا گیا، تو کوئی بات نہیں!!
’’اِس طرح تو ہوتا ہے، اِس طرح کے کاموں میں!‘‘
وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، زرداروں اور ’’لبرل فاشسٹوں‘‘ سے منسلک قاتلوں کو دار پر نہیں چڑھایا جاتا۔ یہ ضروری بھی نہیں!!
ریمنڈ ڈیوس جیسے عِفریت کو جس ’’شریعہ لا‘‘ کی مدد اور کروڑوں روپے مہیا کرکے، اور جن حکومتی اور اقتداری اداروں کے درپردہ و خاموش تعاون سے رہا کرایا گیا، اُس قانون اور اُن قوتوں پر ’’عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مغلوب‘‘ غریب سپاہی کا کوئی حق نہیں!!
آپ لوگ قبل از اسلام کے ’’اہلِ مصر‘‘ کی طرح، اس مباحثہ اور مناظرہ میں لگے رہیے، کہ سلمان تاثیر نے اصلاً توہینِ آقائے دوجہاں کی تھی یا نہیں۔ ممتاز قادری کو کیا حق و اختیار تھا کہ خود کو جس دانائی سُبُلَ، ختم الرُسُل، مولائے کُل کا غلام سمجھا، اُن کی ناموس پر مر مِٹا اور قانون ہاتھ میں لے لیا۔ (وہی قانون، جو صرف ضعیفوں پر لاگو ہوتا ہے۔۔۔ ضعیف چاہے فرد ہو یا دینِ اسلام! )
ڈکٹیٹر ضیاء کے دَور میں بننے والے اسلامی قوانین کو اپنی ’’اصولی و جمہوری و قانونی‘‘ کسوٹی اور میزان پر، پرکھ کر، تول کر دیکھتے جائیے، اور کہتے جائیے کہ اُن قوانین میں بڑا عدم توازن ہے، شدت پسندی کا مزاج ہے، ’’آزادیٔ فکر و اظہار‘‘ کے بُتوں کی ناک پر بیٹھی یہ مکھیاں ہیں، جنہیں ہٹانا، اُڑانا، بھگانا، عدل و انصاف اور عَصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
اپنے اِس یقین و عزم کو دُہراتے رہیے کہ مُلّائیت اور شکست خوردہ ذہنیت نہیں، جدیدیت اور دنیا کے مقبولِ عام چلن کو لے کر ہی، آگے بڑھا جاسکتا ہے، ترقی کی جاسکتی ہے، اِس میں سے حصہ پایا جاسکتا ہے۔
بھائیو! عہدِ حاضر و موجود ہی نہیں، اگلے زمانے کو دیکھنے اور ملحوظ رکھنے کی بات میں، بحمدللہ، مَیں آپ سے پیچھے نہیں، آگے ہوں گا۔
مگر ’’اَگلے زمانوں‘‘ کو بھی، اسلام کی کسوٹی کے مطابق ہی، اِسے مکمل اکائی مان کر، اور صد فی صد ’’ریلی وینٹ‘‘ جان کر، دیکھنا اور سوچنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میں نہ کسی ’’آرتھوڈوکس اسلام‘‘ سے واقف ہوں، نہ کسی ’’کیتھولک اسلام‘‘ سے، نہ کسی ’’پروٹیسٹنٹ اسلام‘‘ سے۔
دین کے بنیادی عقائد اور ایمانیات، اَساسی اَقدار، اُصولی اُمور، کلیدی اَخلاقیات، مقاصدِ شریعہ کو۔۔۔ مستقل اور قیامت تک کے لیے دائمی مانتا ہوں۔ کسی دُنیوی قوت کے خوف سے اور کسی بڑے سے بڑے انعام کی توقع پر، اِس موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ہاں، بقیہ اُمور، لائقِ نظرثانی بھی ہیں اور قابلِ تَغیُّر بھی۔
رحمۃ للعٰلمینؐ کی غلامی میں، عَفوِ عام اور معافی و درگزر کا بھی حامی ہوں، اور حضرتِ عمر فاروقؓ کی طرح، غیر معمولی حالات میں، حدود کو مؤخر کرنے کو بھی جائز سمجھتا ہوں۔
مگر اسلام، اور صرف اسلام کے نام پر بنے اِس ملک کو، جان سے پیارے پاکستان کو۔۔۔ اپنی کُھلی آنکھوں سے۔۔۔ استعماری غلاموں، بے حمیت ضمیر فروشوں، بدعمل اور زرخرید ’’روشن خیالوں‘‘ اور کارپوریٹو کریسی کے ’’کمیشن ایجنٹوں‘‘ کے قبضے میں جاتا دیکھ کر، خاموش اور بے عمل رہنا، منافیٔ ایمان سمجھتا ہوں۔
’’میاں صاحبان آف جاتی امرا‘‘ جیسے ’’سراپا اور مکمل‘‘ تاجروں کو سامنے رکھ کر۔۔۔ لبرل، سیکولر، اباحیت زدہ اور نئے ’’گریٹر ساؤتھ ایشیا‘‘ ( اَکھنڈ بھارت وَرش) کا جو ایجنڈا آگے بڑھایا جارہا ہے، واللہ اُس کا صحیح اِدراک و احساس بھی ہمیں نہیں۔
پہلے پاکستان کے حصے بخرے کرکے یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کامیابی نہ ملی تو، اِس کے بخیے اُدھیڑنے اور خونم خون کرکے، بے حال کردینے کی سعی کی گئی۔
اُس سے بھی کام نہ چلا تو، اِس ملک کا جغرافیہ مجبوراً برقرار رکھ کر، اِسے ’’ویلیو نیوٹرل‘‘ اور بے اَساس کرنے کی حکمتِ عملی پر اب کام چل رہا ہے۔ یہ پھانسی، شرمین کی فلم، تحفظِ خواتین ایکٹ۔۔ علامہ اقبال کی مکمل ’’چُھٹّی‘‘۔۔ ’’تسبیح‘‘ کے یہ دانے، یوں ہی تو نہیں گر رہے!!
ہمارے ہاں، مذہبی اور دینی سیاسی قوتوں کے پَر تراشے جاچکے۔ اُنہیں ہر معاملہ میں مَخمصہ، گو مگو، بے یقینی اور انتشارِ فکر و نظر کی کیفیات میں مبتلا کیا جا چکا۔
اُن کی اسٹریٹ پاور کو رخصت ہوئے عرصہ ہوا۔
اُن کی پارلیمانی اور انتخابی ’’بیلنسنگ پاور‘‘ بے وزنی کی حالت میں جاچُکی۔ اب یہ سارے مذہبی عناصر، خَلا میں ہاتھ پیر چلاتے رہیں۔ نتیجہ معلوم!
اُدھر حال یہ ہے کہ ریاستی اِداروں میں، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے عمل میں، اِبلاغی و تشہیری اِداروں میں، نوجوانوں کی ذہن سازی کے مراکز (جامعات، بزنس اسکولز، لا اسکولز) میں، اور عدالتی ایوانوں اور قانون دانی کے دائروں میں۔۔۔ سابق اشتراکی کوچہ گَرد، اباحیت پسند لبرلز، اسلام کی دائمی اَقدار سے نابلد روزی روٹی کے پُجاری، اللہ اور رسول کے ہر حوالے سے اِلرجِک نام نِہاد دانشور، اور کچھ خوف زدہ اقلیتی گروہوں جیسے، ’’گُھس بیٹھیے‘‘ اور عیّار عناصر نے بڑا رُسوخ پالیا ہے۔
اب تو ذہناً شکست خوردہ اور معذرت خواہ ’’اسلامی لِبرلز‘‘ بھی، ’’گدھے‘‘ پر بیٹھ کر نعرہ مار رہے ہیں کہ ’’ہم سب شہسوار دلّی جارہے ہیں‘‘۔
مسلم معاشروں میں اپنی بات اور پیغام کے پُرامن فروغ اور قبولیتِ عامّہ سے، درجِ بالا طبقات مایوس ہیں۔ اُن کی حکمتِ عملی، مسلم دنیا میں یہ ہے کہ ریاست کی چُھری اور اسلام پسندوں کو آمنے سامنے کردیا جائے۔ یہ حکمتِ عملی ہر جگہ کامیاب رہی ہے۔
’’اسلام پسند اور مُحِبّانِ خدا و رسول‘‘ مجموعی طور پر، معاشرے کا غالب حصہ ہیں۔ مگر بھرپور اور زوردار انتظام ہے کہ اِس غلبہ کا وجود دِکھائی نہ دے۔ اِن سب دین پسندوں کو بے شمار خانوں میں بانٹ دیا جائے۔ روزمرّہ کے ایشوز اور احتجاجی ’’کسرتوں‘‘ میں تھکا دیا جائے۔ مُعاشرے کے ذہین طبقات کو اِن سے دُور، یا خوف زدہ، یا بے پروا کردیا جائے۔ اِنہیں وقتی، سطحی، ردّعملی مائنڈ سیٹ اور مزاج کا خُوگر بنا دیا جائے۔
تاکہ یا تو اِن پر ریاستی وار کے دَر کُھل جائیں، یا یہ خود مایوسی اور تھکاوٹ کا شکار ہوکر، اُمورِ دنیا سے کنارہ کَشی اختیار کرلیں۔
لہٰذا بھائیو! ۲۹ فروری کے سانحے پر تو متحد رہو۔ دشمن کے گریٹر گیم کو سمجھو۔ ’’قانونی نِکات‘‘ اور بال کی کھال نکالنے میں کہاں پھنس رہے ہو؟
اِس بحثابحثی اور باہم تلخ نوائی میں اُلجھائے جانے کی چال سمجھو۔
’’قانون پسندی‘‘ کے درس کے پیچھے چُھپے مذموم مقاصد کو جانو، اِن سے ہوشیار رہو۔
صاحبان!
۲۹ فروری کے سانحہ کو الگ سے یا Isolation میں لینا، ازخود قانون دانی فرمانا، اور معاملہ کو سر کے بَل کھڑے ہوکر دیکھنا، میری رائے میں نِری سادگی ہے، یا خطرناک نادانی۔
یہاں معاملہ یہ بھی نہیں ہے کہ کسی ’’شاتمِ انبیاء‘‘ کو دار پہ کھینچ دیا گیا ہو۔
بلکہ اِس کے بالکل اُلٹ معاملہ ہوا ہے، کہ کسی غریب و سادا سپاہی نے، لاٹ صاحب کو شاتمِ رسول سمجھا۔ پہلے اُس سے بحث کرنے کی کوشش کی۔ بد دماغ اور متکبِّر گورنر صاحب کی تُندخُوئی سے مزید مشتعل ہوکر، اُس نے اپنے تئیں شاتمِ انبیاء کا کام تمام کردیا۔ ’’قتلِ عَمَد‘‘ کے الزام میں اُسے پھانسی چڑھا دیا گیا۔
لہٰذا اصل سوال اب یہ نہیں رہا کہ لاٹ صاحب شاتمِ رسول تھے یا نہیں؟
یا کسی کو از خود سزا دینے کا اختیار ہے کہ نہیں؟
یا توہینِ انبیاء پر سزائے موت ہونی چاہیے یا نہیں؟
یہاں اصل اور حساس سوالات تو یہ ہیں کہ ممتاز قادری کی سزائے موت پر مکارانہ عملدرآمد کیوں ضروری تھا؟
دنیا میں کون اِس سزا پر عملدرآمد کا خواہاں تھا؟ اور کیوں تھا؟
کسے کیا پیغام دیا گیا ہے؟۔۔۔ کہ سنبھل جاؤ، بلکہ ڈر جاؤ۔۔۔ اپنے دین کی اَساس اور اپنے ملک کی بنیاد پر چلتے کلہاڑوں سے بھی آنکھیں بند رکھو۔ ورنہ موت کی شاہراہ ہموار کردی گئی ہے!!
اب کہاں ہیں وہ لوگ، جو سرے سے سزائے موت ہی کو غلط سمجھتے ہیں؟ آپ آگے بڑھیے، ایک کمزور و ضعیف طبقہ کے سپاہی (ممتاز قادری) کو پھانسی دینے کے خلاف اُٹھنے والی آواز سے آواز ملائیے۔
آپ لوگوں کے دباؤ پر، توہینِ رسالت کے مجرموں میں سے کسی کو بھی، آج تک، پھانسی نہیں دی گئی ہے۔ آپ پہلے بیٹھے رہے، شاید ’’غیر جانبدار‘‘ رہے۔ مگر حُبِّ رسول کی شمع کے پروانے کو پھانسی لگ چُکی۔ اب تو زوردار لہجے میں بولیے کہ ’’سزائے موت مردہ باد‘‘!!
۲۹ فروری ۲۰۱۶ء کے سانحے کی یاد، ہر سال مَنانے کی ’’زحمت‘‘ سے قوم کو بچانے ہی کے لیے تو، مسلم لیگ کی حکومت نے یہ ’’زبردست۔ خدمتِ اَغیار‘‘ لیپ ایئر میں انجام دی ہے۔
۲۰۲۰ء تک، اِن کے داناؤں کا خیال ہے کہ، قوم یہ سانحہ بھول چُکی ہوگی۔ کچھ نئے سانحوں سے گزر رہی ہوگی۔ کچھ نئے زخم لگائے جاچکے ہوں گے۔ ۲۰۲۰ء میں کسے اِس لیپ ایئر والے زخم ستائیں گے؟
’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں!‘‘
اُس وقت تک اَحبابِ دانا اور اَصحابِ فرزانہ، پہلی صدی ہجری کے اہلِ مصر کی طرح، اپنی بحث جاری رکھ سکتے ہیں۔
اُن کے مابین بحث تھی کہ حضرتِ عیسیٰ کا گدھا، اگر آج ہمارے سامنے آجائے، تو ہمیں اُس کی تقدیس و تکریم کس طرح کرنا ہوگی۔ اُس وقت فاتحِ مصر لشکر، مصری قلعہ کے باہر گھیرا ڈالے بیٹھا تھا۔ آگے کی داستان تاریخ میں درج ہے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم۔
وَتُبْ عَلَیْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ!!!
Leave a Reply