
مغرب میں مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے مستقل پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ القاعدہ پھر مضبوط ہوگئی ہے اور یہ کہ ہر ملک کو بیرونی حملے کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔
نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکا اور نیٹو کے لیے ناگزیر تھا کہ القاعدہ کا راگ الاپتے رہیں۔ لوگوں کو مستقل فریب دے کر یہ باور کرایا جاتا رہا کہ القاعدہ کسی بھی وقت حملہ کرسکتی ہے۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ مغرب کی انتہائی طاقتور افواج القاعدہ کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز پروپیگنڈا تھا مگر کیا گیا اور لوگوں نے اس پر اعتبار بھی کیا۔ القاعدہ اور دیگر جہادی گروپوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ ظاہر کرکے دنیا بھر میں ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر انسدادِ دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا جواز پیدا کیا گیا۔
اس امر کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروپوں کو امریکا اور نیٹو نے متعدد ممالک میں اپنے مقاصد کے لیے بھرپور انداز سے استعمال کیا ہے۔ شام میں النصرۃ اور آئی ایس آئی ایس امریکی فوجی اتحاد کے پیادے ہیں اور انہی کے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ مغربی حکومتیں شام اور دیگر ممالک میں نیم فوجی دستوں کی بھرتی اور تربیت وغیرہ کے معاملے کی نگرانی کرتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کئی ممالک پر دہشت گردوں کی تربیت اور بھرپور مالی امداد کا الزام عائد کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا حامی اور مددگار خود امریکا ہے۔
شام اور عراق میں سرگرم عمل آئی ایس آئی ایس کو خفیہ طور پر امریکا، مغربی اتحادیوں، ترکی، سعودی عرب اور قطر کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ آئی ایس آئی ایس اور الشام کے منصوبۂ خلافت سے امریکا اور یورپ کے ایک بڑے منصوبے کی بُو آتی ہے جس کا بنیادی مقصد سُنّی خلافت کے قیام کے نام پر عراق اور شام کو تقسیم کرنا ہے۔ ساتھ ہی شیعہ ریاست اور کرد ریاست کا قیام بھی عمل میں لایا جانا ہے۔
امریکا کی ملٹری ڈاکٹرائن کی بنیاد دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر غیر روایتی ہتھیاروں سے جنگ جاری رکھی ہے۔ انہیں دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مداخلت کا جواز پیدا کرنا ہے۔
بہت سے ترقی پسند مصنفین اور متبادل ذرائع ابلاغ کے تجزیہ کار عراق کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی جنگ کی اصل سمجھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس امریکا اور نیٹو کے چھتری تلے کام کر رہی ہے مگر تاثر یہ دیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی الگ تھلگ گروپ ہے اور اپنے طور پر کام کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو ناٹک جاری رکھا ہے، اُسے بہت سے عسکریت پسند من و عن تسلیم کرلیتے ہیں۔ پروپیگنڈا کچھ ایسی عمدگی سے کیا گیا ہے کہ جو لوگ جنگ کے مکمل خلاف ہیں، وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو درست قرار دیتے ہیں اور اِسے جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔
عراق اور شام کے مختلف علاقوں پر مشتمل اسلامی خلافت کے قیام کے حوالے سے زوردار پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ کالعدم آئی ایس آئی ایس کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے ۲۹جون ۲۰۱۴ء کو اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔ ابوبکر البغدادی نے اب اپنا نام خلیفہ ابراہیم بن عواد رکھ لیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں خلافت کے قیام کا منصوبہ امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی میز پر ۱۰ سال تک رہا ہے۔ اب اس منصوبے کو پروپیگنڈے کے ایک بڑے ہتھیار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۴ء میں، جب جارج واکر بش اقتدار میں تھے، نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے پیش گوئی کی تھی کہ ۲۰۲۰ء تک مغربی بحیرۂ روم سے جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا تک محیط خلافت قائم ہوچکی ہوگی جو مغربی تہذیب اور اس کی اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی اقدار کے لیے سنگین خطرے کی حیثیت رکھتی ہوگی۔ رپورٹ میں یہ بھی درج تھا کہ مغرب کی تمام اقدار کے لیے اسلامی شدت پسندوں کی تحریکیں سنگین خطرے کے طور پر ابھریں گی اور اُنہیں شکست دینا مغرب کے لیے ناگزیر ہوجائے گا۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی یہ رپورٹ محض مفروضوں پر مبنی ہے۔ جن بنیادی حقائق پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ محض جھوٹ یا مفروضے کی شکل میں ہیں۔ محض قیاس آرائی کو ٹھوس، علمی انداز کی پیش گوئی قرار دے کر پیش کیا گیا ہے۔ عراق میں آئی ایس آئی ایس نے خلافت کے قیام کا جو اعلان کیا ہے، وہ اس رپورٹ کی پیش گوئی سے مماثلت رکھتا ہے۔ تاہم ابھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اعلان کن عوامل اور حالات کی پیداوار ہے۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ میں اسامہ بن لادن کے ایک فرضی پڑپوتے کی طرف سے ایک رشتہ دار کو ۲۰۲۰ء میں لکھے جانے والے ایک فرضی خط کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ رپورٹ کس قدر سطحی ہوگی اور اس میں جو بھی قیاس آرائی کی گئی ہے، اُس کے سُتون کس قدر کمزور ہیں۔ محض مفروضوں کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ خلافت کا قیام مغربی تہذیب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوگا۔
’’میپنگ دی گلوبل فیوچر‘‘ کے زیر عنوان تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں جو فرضی خط شامل کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کس طور اسلام دشمن قوتوں سے خلیفہ کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور کس طرح وہ ان مشکلات سے گلوخلاصی ممکن بنائے گا۔ امریکا، یورپ اور چین جیسی قوتیں خلافت میں دیوار بن سکتی ہیں۔ خلافت کے لیے وہی خطہ تجویز کیا گیا ہے جو روایتی طور پر مسلمانوں کا گڑھ رہا ہے۔
یہ رپورٹ صرف وائٹ ہاؤس، کانگریس اور امریکی محکمہ دفاع ہی کو نہیں بلکہ امریکا کے تمام اتحادیوں کو بھی پیش کی گئی تھی۔ مسلم دنیا سے لاحق مفروضہ پر مبنی خطرات کو ایسی رپورٹس ہی کی بنیاد پر امریکا اور نیٹو کے ملٹری ڈاکٹرائن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ اعلیٰ افسران، پالیسی سازوں، تجزیہ کاروں اور محققین کے لیے تھی۔ اعلیٰ افسران کے لیے اس رپورٹ پر غور کرنا لازم قرار دے کر اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ وہ مسلم دنیا سے لاحق خطرے کو ہر وقت محسوس کرتے رہیں اور اِسی حوالے سے پالیسیاں ترتیب دیں۔
مسلمانوں کی طرف سے مفروضہ خطرے کی بنیاد تہذیبوں کا تصادم ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا راگ اس قدر الاپا گیا ہے کہ اب عیسائی دنیا نے اس پروپیگنڈے کو قبول اور ہضم کرلیا ہے کہ اگر مغربی تہذیب اور اس کی تمام سیاسی و اقتصادی اقدار کو بچانا ہے تو اسلامی دنیا سے دو دو ہاتھ ضرور کرنے ہوں گے۔ اہلِ مغرب اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کہیں بھی عسکری مداخلت کی جاسکتی ہے۔
جغرافیائی اور جیو پولیٹیکل نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو خلافت میں وہ پورا علاقہ شامل ہوگا جو اسلام کی پہلی صدی کے آخر تک دسترس میں آچکا تھا۔ سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی والی خلافتِ راشدہ کا احیا کیا تو اس کے زیر نگیں علاقوں میں مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا، پرتگال اور اسپین تک کا یورپ، بلقان کا خطہ، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور ایشیا و بحرالکاہل میں انڈونیشیا کا علاقہ بھی شامل ہوگا۔ جن علاقوں کو خلافت کے زیر نگیں لائے جانے کا راگ الاپا جارہا ہے، اُن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جن میں امریکا اور یورپ اپنا سیاسی و معاشی اثر و رسوخ ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ان خطوں کا کنٹرول ہاتھ سے نکل گیا تو امریکا اور یورپ کی سیاسی و اقتصادی برتری ختم ہوجائے گی اور ان کی سپر پاور کی حیثیت بھی دم توڑ دے گی۔ خلافت والے علاقوں میں تو وسط ایشیا کے ساتھ ساتھ روس کا انتہائی جنوبی علاقہ بھی شامل ہوگا۔ خلافت کا خوف دلاکر مغرب کے باشندوں کو عسکری مداخلت کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا اِسی لیے زیادہ آسان ہے۔ امریکیوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اگر وہ خلافتِ راشدہ کے احیا کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو امریکا کے تمام مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
ایک فرضی خط کی بنیاد پر جو رپورٹ تیار کی گئی ہے، اس کے ذریعے مغربی دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ اگر اسلامی خلافت کا احیا ہوگیا تو نیا عالمی نظام (جو مغرب نے متعارف کرایا ہے) خطرے میں پڑ جائے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی تہذیبوں کے تصادم میں شدت لائے گی۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ خلافت کے قیام کی صورت میں مسلمانوں میں تشدد پسندی اور انتہا پسندی بڑھے گی جس کے نتیجے میں مسلح تصادم کی راہ مزید ہموار ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلافت کے قیام کا اعلان مسلم دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ دے گا، جس کے نتیجے میں دہشت گردی بڑھے گی اور یوں دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ میں بھی تیزی آئے گی۔
ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ خلافت کے قیام کے بعد مسلمانوں میں کئی گروپ اٹھیں گے جو خلافت کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف برسر پیکار ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے، برطانوی و اسرائیلی خفیہ اداروں ایم آئی سکس اور موساد کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا میں انتہا پسندی و دہشت گردی اور خلافت کے رجحان کو تقویت بہم پہنچانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف مین اسٹریم میڈیا نے بھی دہشت گردی کے حوالے سے نیا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ ایک طرف سے تو مسلم دنیا سے ابھرنے والے خطرات کا رونا رویا جارہا ہے اور دوسری طرف امریکا اور یورپ میں اندرونی طور پر ابھرنے والے خطرات کا ڈھول بھی پیٹا جارہا ہے۔ اندرون خطرات سے مراد مغرب میں بسے ہوئے مسلمانوں میں جہاد کے جذبے کا ابھرنا اور ان کا مسلم دنیا میں جاکر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہے۔
“The Islamic state, the ‘Caliphate Project’ and the ‘Global war on Terrorism’.” (“globalresearch.ca”. July 2, 2014)
Leave a Reply