
جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغان جنگ کے حولے سے اپنی پالیسی ازسر نو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اور امریکی حکمت عملی میں یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ افغانستان میں کتنی فوج رکھی جانی چاہیے۔واشنگٹن اپنی حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ افغانستان میں اپنی فوج میں اضافہ کر رہا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں امریکا اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔دفاعی سیکرٹری Jim Mattis، جنھیں صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے فیصلے کرنے کی اجازت دی ہے،ان کا کہنا ہے کہ جولائی کے اختتام تک نئی حکمت عملی سامنے آجائے گی۔
اگر افغانستان میں کسی حکمت عملی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو امریکا کو افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان،جو کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے دہشت گرد گروہوں کی مختلف طریقوں سے مدد جاری رکھے ہوئے ہے، کے حوالے سے اپنی پالیسی پر ازسر نو غور کرنا ہو گا۔چاہے کوئی یقین کرے یا نہ کرے،لیکن یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی براہ راست ان گروہوں کو اسلحہ اور مالی تعاون فراہم کر رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج طالبان پہلے سے بہتر حالت میں ہیں،جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں،اور مؤثر کارروائیاں کرتے ہیں،اور پاکستانی فوج کے افسران ان گروہوں کی خفیہ مدد کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔آئی ایس آئی کے ان عسکریت پسندوں کو براہ راست مدد کے ثبوت تو نہ ہونے کے برابر ہیں،لیکن یہ اس ہی کی مدد ہے جس کی وجہ سے یہ گروہ نہ صرف فعال ہیں،بلکہ امریکی، افغان اور نیٹو افواج کو نشانہ بھی بناتے ہیں۔
امریکا نے پاکستان کو افغانستان میں جاری انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن میں تعاون کے بدلے میں اربوں ڈالر کی سول اور فوجی امداد دی، باوجود اس کے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہا تھا۔ امریکا نے اس تعاون کے خاتمے اور زمینی راستے کی بندش کے ڈر سے پاکستان کی جو امداد جاری رکھی، اس نے پاکستانی حکام کو اس قابل بنایاکہ وہ عسکریت پسندوں کی مالی مدد کرتے رہیں اور اپنے ’’ڈبل گیم‘‘ کو بھی جاری رکھیں۔
امریکا کو اس مسئلے کے ساتھ کس طرح نمٹنا چاہیے؟ حالانکہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن ان کی حکمت عملی پاکستان کی ڈبل گیم کی پالیسی میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرسکی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک اپنی پالیسی واضح نہیں کی، لیکن امکان یہی ہے کہ اوباما سے بھی زیادہ سخت پالیسی اپنائی جائے گی۔ اور یہ حکمت عملی غلط ثابت ہو گی، کیوں کہ افغانستان کے استحکام کے لیے پاکستان کے خدشات کو دور کیے بغیر کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور ایسی حکمت عملی سے امریکا کو پاکستان کے ساتھ دیگر اہم مسائل پربھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، خصوصاً پاکستان کا بڑھتا ہوا ایٹمی پروگرام۔
کچھ تجزیہ نگار، جیسا کہ امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر اسٹیفن ہیڈلی اور سیاسی امور کے ماہر معید یوسف کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں پاکستانی تعاون کے لیے اس کے بھارت کے حوالے سے خدشات دور کرنا ہوں گے۔ کچھ تجزیہ نگار سخت موقف اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پاکستان افغانستان کے باغی گروہوں کی مدد بند نہیں کرتا تو امریکا کو اس سے تعلقات توڑ دینے چاہییں اور اسے اکیلا کر دینا چاہیے۔
یہ تجزیہ نگار صحیح کہتے ہیں کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے ’’ڈبل گیم‘‘ کو ختم کرنا ہوگا اور پاکستان کی بھارت کے حوالے سے غیر منطقی شرط اور امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات کو توڑے بنا بھی یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
امریکا کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نتائج کی پروا کیے بغیر اور بِنا کسی معافی تلافی کے پاکستان میں ان عسکریت پسندوں کو جو امریکی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں کھلے عام اور خفیہ طور پر نشانہ بناناچاہیے۔ اس ہی کے ساتھ پاکستا ن کی فوجی امداد کو ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے مشروط کر دینا چاہیے، جن کی وہ عرصے سے مدد کر رہا ہے اور ان میں وہ دہشت گرد بھی شامل ہیں جو بھارت کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے پاکستانی فوج کا جو تشخص خراب ہو گا اس کے بدلے میں امریکا کو اسے کچھ انعام دینا چاہیے۔واشنگٹن کو انسدادِ دہشت گردی میں استعما ل ہونے والے ہتھیاروں کے علاوہ روایتی ہتھیاربھی پاکستانی فوج کو فراہم کرنے چاہییں، جن میں حملے کی صلاحیت والے ہیلی کاپٹر، فوجی گاڑیاں اور اسی طرح کے دوسرے ہتھیار جن کا وہ بہت عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے۔ اس طرح کے آپشنز پر پہلے بھی غور کیا جاتا رہا ہے لیکن کسی سابقہ انتظامیہ نے اس حکمت عملی کو اپنایا نہیں۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف دہشت گردوں کو ختم کرنے میں مدد دے گی، بلکہ پاکستان کے اس خوف کو بھی ختم کرے گی جو وہ بھارت کے حوالے سے رکھتا ہے۔ اور جس خوف کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کی مدد کر تا ہے۔
دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا
پاکستان کے حمایت یافتہ مزاحمت کار گروہوں کو زیادہ جارحانہ طریقے سے نشانہ بنانا ہوگا، جس کے بہت سے فوائد ہوں گے۔ اس سے پاکستان کو یہ تاثر جائے گا کہ امریکا اب اس کا ’’ڈبل گیم‘‘ مزید برداشت نہیں کرے گا، اس لیے وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دے گا۔ اس عمل سے وہ گروہ بھی کمزور ہو جائیں گے جو امریکی، افغان، نیٹو فوج اور عام عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان نے فاٹا میں امریکی حملوں کو تحمل سے برداشت کیا ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس علاقے میں اپنے آپریشن کو تیز کر ے بلکہ ان علاقوں میں بھی دہشت گردوں کا پیچھا کرے جہاں وہ آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں، جیسا کہ کراچی، بلوچستان اور جنوبی پنجاب۔ پاکستان کے ان علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں انھیں افغانستان میں بغیر کسی جوابی کارروائی کے ڈر سے ڈرامائی انداز میں مزاحمت کا عمل تیز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ افغانستا ن کے استحکام اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے جارحانہ کارروائی اور سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
اگلے مرحلے میں امریکا کو پاکستان کی فوجی امداد اس وقت تک کے لیے معطل کر دینی چاہیے جب تک وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ باقی عسکری گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کے لیے رضامندی ظاہر نہ کرے۔ اس سے پاکستانی فوج پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان کی بری اور فضائی فوج انسداد دہشت گردی کے آپریشن کے لیے امریکی آلات پر انحصار کرتی ہے۔ امداد کی معطلی کے فوری نتائج برآمد ہوں گے۔ (امریکا کو پاکستانی عوام کی مدد غیر مشروط طور پر جاری رکھنی چاہیے، انھیں اپنے راہنماؤں کے اعمال کی سزا نہیں ملنی چاہیے)۔
لیکن امریکی امداد کی بندش، اس کی مخالفت اور جارحانہ کارروائیاں بھی پاکستان کو مزاحمت کاروں کی مدد کی روش سے پیچھے نہیں ہٹاسکیں گی، کیوں کہ پاکستان ان کو اپنی قومی سلامتی کی اہم ضرورت سمجھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کسی بھی امریکی آپریشن کی بھرپور مخالفت کرے گا، جیسا کہ اس نے ۲۰۱۱ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کی تھی اور موقف اپنائے گا کہ امریکا اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستانی فوج سخت برہمی کا اظہار کرے گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ امریکی فوج پر جوابی حملوں کی دھمکی بھی دے اور اپنے سیاستدانوں پر امریکا سے تعلقات توڑنے کے لیے دباؤ بڑھائے۔ امداد کی معطلی، انسداد دہشت گردی مہم میں پاک امریکا تعاون کو نقصان پہنچائے گی۔ اور پاکستان کو اس بات پر مجبور کرے گی کہ وہ امریکا مخالف طاقتوں (ایران، چین اور روس) سے تعلقات بڑھائے۔ اور امداد کی معطلی کا عمل پاکستان کو اس بات پر بھی مجبور کرسکتا ہے کہ وہ افغانستا ن اور بھارت میں اپنی پراکسی جنگ لڑے۔
ان نتائج سے بچنے کے لیے امریکا کو پاکستان کو یقین دلانا ہوگا کہ اگر وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر ے گا تو نہ صرف اس کی امداد بحال کر دی جائے گی بلکہ اس کی فوجی امداد میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔پاکستانی تعاون کے بدلے میں روایتی فوجی امداد کی اس پیشکش سے امریکی حکام پاکستانی راہنماؤں کا اس بات پر اعتماد بھی بحال کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے روایتی دشمن بھارت کے خلاف اپنا دفاع ان دہشت گرد گروہوں کی مدد کے بغیر بھی کر سکتا ہے۔
ضروری توازن
اس نقطہ نظر کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی کارروائی پر انحصار کرنا ایک حماقت ہو گی، اس کے علاوہ پاکستان کی روایتی فوجی امداد نہ صرف خطے میں عدم توازن پیدا کرے گی بلکہ بھارت کو بھی تنہا کرنے کا باعث بنے گی۔ لیکن درحقیقت امداد کا یہ تبادلہ ہی پاکستان کو امریکا کی جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں تعلقات توڑنے سے روکے گا۔ اور یہ حکمت عملی افغان جنگ کے آغاز سے اب تک نہیں اپنائی گئی۔ پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کا وعدہ کیے بغیر اس پر دباؤ بڑھانا ایک تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان کے امریکا سے تعلقات کو مستقل طور پر منقطع کر دے گا، بلکہ امریکا ایک ایسے اتحادی کو بھی کھو بیٹھے گا، جو عالمی دہشت گردی کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ مزید یہ کہ امریکا کو پاکستان کے دوہرے معیار سے توبھرپور طریقے سے نمٹنا ہو گا لیکن نہ ہی امریکا اور نہ دنیا اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی ریاست کو جو تیزی سے ایٹمی ہتھیار بنا رہی ہے اور جوہری پھیلاؤ اور دہشت گردوں کی معاونت کی ایک تاریخ رکھتی ہو، اسے عالمی قوانین سے آزاد کر کے ایک خود سر ریاست بنا دیا جائے۔
بھارت پاکستان کی اس فوجی امداد پر شدید اعتراض کرے گا، لیکن امریکی حکام کو سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو اس با ت کا یقین دلانا ہو گا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ مزاحمت کار بھارت کی سلامتی کے لیے پاکستان کے روایتی ہتھیاروں سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔ اور ان کے خاتمے سے بھارت زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔
اوباما کے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان سے پاکستان کو محسوس ہوا کہ امریکا کے نکل جانے کے بعد کے مشکل حالات اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ سے اسے اکیلے ہی نمٹنا ہوگا اور امریکا کی جانب سے بھارت کے لیے بڑھتی ہوئی فوجی امداد نے پاکستان کو پراکسی مزاحمت کاروں کی مدد کرنے کی ضرورت پر مجبور کر دیا۔ اس طرح امریکا جو چاہتا تھا اس کے با لکل الٹ نتائج برآمد ہوئے۔ان سب حالات کے باوجود پاکستان کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجے میں ہزاروں سویلین لوگوں کی جانیں چلی جائیں۔ لیکن اگر پیش کردہ حکمت عملی پر عمل کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں، ایک تو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم ہو گا اور دوسرا پاکستان کے ’’ڈبل گیم‘‘ کا ویسا ہی خاتمہ ہوگا جس کا وہ مستحق ہے۔
(ترجمہ حافظ محمد نوید نون)
“Calling Pakistan’s Bluff”.(“Foreign Affairs”. July 14, 2017)
Leave a Reply