وفاق المدارس پاکستان میں موجود دینی مدرسوں کا بورڈ ہے‘ پاکستان کے نو ہزار مدرسے اس بورڈ سے منسلک ہیں۔ اس وقت ان مدارس میں پانچ لاکھ طالب علم دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ۲۷ دسمبر ۲۰۰۱ء کو صدر جناب پرویز مشرف نے اس بورڈ کے اکابرین کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: ’’مدارس میں زیرِ تعلیم غیرملکی طالبعلموں کو حکم دیں کہ وہ پاکستان میں موجودہ اپنے سفارتخانوں سے رابطہ کریں‘ جن جن طالبعلموں کے بارے میں سفارتخانے این او سی جاری کر دیں‘ آپ انہیں تعلیم دیں اور جو طالب علم این او سی حاصل نہ کر سکیں‘ آپ انہیں اپنے ادارے سے نکال دیں‘‘۔ ان میں سے اکثریت نے اپنے سفارتخانے سے این او سی حاصل کر لیے۔ وفاق المدارس نے یہ این او سی وزارتِ داخلہ میں جمع کرا دیے۔ اسی سال وفاق المدارس نے فیصلہ کیا جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے‘ پاکستانی مدرسوں میں غیرملکی طالب علموں کو داخلے نہیں دیے جائیں گے۔ چنانچہ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۵ء تک پاکستان کے کسی مدرسے میں کسی نئے غیرملکی طالبعلم کو داخلہ نہیں دیا گیا۔ اتوار کے روز میں نے وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو فون کیا۔ آپ پاکستان کے پانچ وفاق المدارس کی تنظیم ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘ کے رابطہ سیکرٹری بھی ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستانی مدارس میں ۱۴۰۰ غیرملکی طالب علم ہیں۔ غیرسرکاری ادارے ان کی تعداد ۳۵۰۰ بتاتے ہیں‘ آپ کے ریکارڈ کے مطابق کتنے طالب علم ہیں؟ جالندھری صاحب نے فرمایا: حکومت کے پاس پرانے اعداد و شمار ہیں۔ پاکستان میں ۲۰۰۲ء میں ۱۴۰۰ طالب علم تھے‘ ہم نے پچھلے تین برسوں میں نئے طالبعلموں کو داخلے نہیں دیے لہٰذا ان میں سے بے شمار طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس جا چکے ہیں۔ ہمارے پاس اب صرف پانچ سے لے کر چھ سو تک غیرملکی طالب علم ہیں۔ یہ تمام طالب علم باقاعدہ ویزہ لے کر پاکستان آئے ہیں۔ ان کے سفارتخانوں نے انہیں این او سی دے رکھے ہیں۔ یہ این او سی وزارتِ داخلہ میں جمع ہیں اور پورے پاکستان میں کسی جگہ ان طالب علموں کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں۔ یہ طالب علم پاکستان کے قوانین اور ضابطوں کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہمیں اس کی اجازت ۲۰۰۲ء میں صدر پاکستان نے دی تھی۔ برصغیر پاک و ہند کے مدارس پچھلے ڈھائی سو سال سے دنیا بھر کے طالب علموں کا مرکز چلے آرہے ہیں جب پاکستان بنا تو تعلیم حاصل کرنے کی یہ روایت اس خطے میں منتقل ہو گئی۔ پچھلے ۵۷ برسوں میں دنیا کے ۔۴ اسلامی ممالک کے ہزاروں لاکھوں طالب علموں نے پاکستانی مدارس سے تعلیم حاصل کی لیکن گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانی مدارس پر برا وقت آگیا۔ مدارس کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوا‘ غیرملکی طالبعلموں کی چھان بین کا آغاز ہوا‘ جس کے ردِعمل میں مدارس نے غیرملکی طالبعلموں کو داخلے دینا بند کر دیے۔ ہماری اس پالیسی کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ ۲۰۰۲ء تک بھارت میں ۹۱۱ دینی مدارس تھے اور ان میں ۱۲۲۳ غیرملکی طالبعلم پڑھتے تھے۔ بھارتی حکومت نے مدارس کی انتظامیہ کو نئے مدرسے بنانے کی تحریک دی۔ بھارت اس وقت دنیا کا واحد غیراسلامی ملک ہے جو مدرسہ بنانے کے لیے بلاسود قرضہ دیتا ہے اور جس میں دنیا کے کسی بھی ملک کا‘ کوئی بھی طالب علم محض ۲۱۰۰ روپے جمع کرا کے کسی بھی مدرسے میں داخلہ لے سکتا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں صرف تین برسوں میں بھارت میں ڈھائی ہزار نئے مدرسے بنے جن میں اس وقت ایک لاکھ کے قریب غیرملکی طالب علم پڑھ رہے ہیں۔ بھارت میں صرف ایران کے پچاس ہزار طالب علم ہیں‘ ان طالب علموں کی بنیاد پر بھارت نے او آئی سی میں ممبر شپ کی درخواست دے رکھی ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں آباد ہیں اور ان کے مدرسوں میں سب سے زیادہ غیرملکی مسلم طالب علم ہیں لہٰذا ہمیں او آئی سی کا ممبر بنایا جائے۔ پاکستان کی پالیسیوں کے باعث اب دنیا جہاں کے مسلم طالب علم بھارت کا رخ کر رہے ہیں اور بھارت کے زعما ان طالب علموں کو بنیاد بنا کر دعویٰ کر رہے ہیں:
’’اسلام‘ مسلمان اور مدرسے جس قدر بھارت میں محفوظ ہیں‘ اتنے پاکستان سمیت دنیا کے کسی اسلامک ملک میں نہیں‘‘۔ بھارت کے بعد برطانیہ اور امریکا ایسے غیراسلامی ممالک ہیں جن میں مدارس کو نہ صرف قانونی حیثیت حاصل ہے بلکہ حکومت انہیں مالی معاونت بھی دیتی ہے۔ امریکا میں اس وقت ۸۴۳ مساجد‘ ۱۶۵ مدرسے اور ۴۲۶ اسلامی تنظیمیں ہیں۔ امریکا میں ۸۰ لاکھ مسلمان ان تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ ان ۱۶۵ مدرسوں میں ہزاروں کی تعداد میں غیرامریکی طالب علم پڑھ رہے ہیں اور حکومت کو ان پر کوئی اعتراض نہیں۔ برطانیہ میں اس وقت پندرہ بڑے مدارس ہیں‘ ان مدارس میں ۳ ایسے مدرسے بھی شامل ہیں جنہیں وہ اسلامی تنظیمیں یا تحریکیں چلا رہی ہیں جن پر اسلامی ممالک نے پابندی لگا رکھی ہے۔ برطانیہ میں ان مدرسوں کو مالی امداد دینے والے لوگوں اور اداروں کو حکومت ٹیکس میں چھوٹ تک دیتی ہے۔ ان مدرسوں میں بھی غیرملکی طالب علم پڑھتے ہیں اور حکومت نے آج تک اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ امریکا اور برطانیہ ان اداروں اور ان اداروں میں زیرِ تعلیم طالب علموں پر اعتراض بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ممالک اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے پابند ہیں۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ تعلیم دنیا کے تمام بچوں کا بنیادی حق ہے اور دنیا کے تمام لوگ اپنے مذہب‘ اپنے نظریے اور اپنی روایات کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اسلامی مدرسوں پر پابندی لگائیں گے تو انہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی اسکول بھی بند کرنا پڑیں گے اور وہ فی زمانہ یہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بھارت ہو‘ برطانیہ ہو یا امریکا‘ وہاں مدرسے بھی چل رہے ہیں اور ان مدرسوں میں ہر سال سیکڑوں غیرملکی طالب علم داخلے بھی لیتے ہیں لیکن حکومتوں نے آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ پاکستان کے مدرسے اور ان مدرسوں میں تعلیم ۵۰۰ غیرملکی طلبہ پوری دنیا کو چبھ رہے ہیں جبکہ ان طلبہ اور ان مدرسوں کا نائن الیون سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی سیون سیون سے۔ امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی دہشت گردی کے کسی ملزم نے پاکستان کے کسی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی‘ یہ عجیب بات ہے ایک کام امریکا‘ برطانیہ اور بھارت میں جائز ہے لیکن وہ پاکستان میں ناجائز ہے۔
امریکی اور برطانوی مدرسے صحیح ہیں اور پاکستانی مدرسے غلط ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو مجھے خطرہ ہے کہ کسی دن امریکا اور برطانیہ پاکستانی مسجدوں پر بھی انگلی اٹھا دیں گے۔ وہ شلوار قمیص اور مسواک کو بھی دہشت گردی قرار دیں گے‘ وہ شہد اور کھجور پر بھی پابندی لگوا دیں گے اور وہ اونٹ اور خچر کو بھی دہشت گرد قرار دے کر انہیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ ثابت کر دیں گے۔ مجھے لگتا ہے اگر کبھی امریکا اور برطانیہ نے خچروں‘ اونٹوں‘ کھجوروں اور شہد اور مسواک کے بارے میں ایسا سوچنا شروع کر دیا تو پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہو گا جو اس نوعیت کی دہشت گہردی کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ بنے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply