1 Comment

  1. مرکزی قیادت سعودی عرب اور ترکی ہی فراہم کرسکتے ہیں
    واہ بھئی واہ۔ ترکی نے 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور فی الحال جو میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں جناب اردوان اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ مذاکرات میں الجھے ہوئے ہیں اور آپ جناب کے مطابق اسلامی دنیا کے اس قائد کو امریکہ کی نئی حکومت کی خوشنودی کے لئے ان مذاکرات کا آغاز کیا ہے اور ترکی میں ہی اسرائیل کے اسلحے کے بڑے کارخانے ہیں تو وہ کیونکر قیادت کرسکے گا عالم اسلام کی؟ امریکہ کی خوشنودی اس کے لئے فرض اول ہے اور اسرائیل کا تو بھائی بنے ہوئے ہیں جناب اردوان۔۔۔ اخوانی-یہودی اتحاد کی بات ہورہی ۔۔۔ آپ کا دوسرا مجوزہ قائد بھی سعودی عرب کی ناجائز اور غیر منتخب استبدادی ریاست ہے جو اسرائیل کی جڑواں ریاست کہلاتی ہے جس نے اسلام کے تمام آثار مقدسہ کو تو مٹا دیا مگر نسلی طور پر یہودی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے یہودیوں کے تمام آثار بشمول قلعہ خیبر وغیرہ کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور 1967 اور 1973 میں سعودیوں نے ہی عربوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اسرائیل کو فتح دلوائی۔ خدا را آنکھیں کھولو مغرب کی تعریف کردہ عقلیت کے غلامو اور مغرب کی کھینچی ہوئے لکیر کے فقیرو۔۔۔ پاکستان ایٹمی ملک ہے مگر ذلت اور غلامی کی انتہا دیکھئے کہ دو غلاموں کو اپنا آقا بنا رہا ہے۔ شرم آتی ہے ان مسائل کو دیکھ کر پاکستانی ہونے سے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*