کیا افغان فورسز طالبان سے نمٹ سکیں گی؟

آج کی افغان فوج سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت کے وقت کی افغان فوج کے مقابلے میں خاصی کمزور ہے۔ مگر خیر، مزاحمت کرنے والے جنگجو بھی کچھ زیادہ طاقتور نہیں۔

افغانستان سے امریکا کے حتمی انخلا کا مرحلہ شروع ہوئے ایک ماہ ہوچکا ہے اور اب یہ عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجی ستمبر تک نکال لیے جائیں گے۔ ایسے میں یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے کہ وہ جولائی تک جاچکے ہوں گے۔ امریکی جرنیلوں نے پیکنگ کرلی ہے اور معاملات افغان حکومت اور فوج کے حوالے کرنے کا عمل نصف کی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔

طالبان کی قیادت میں برپا کی جانے والی شورش کے ہاتھوں تشدد بڑھتا ہی جارہا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ جوزف بائیڈن کسی سودے بازی کے موڈ میں نہیں۔ وہ ایک طویل مدت سے افغانستان میں امریکی مداخلت کے ناقد رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی فوجی جتنی تیزی سے افغانستان سے نکلیں گے اتنے ہی کم جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (ویسے در حقیقت جانی نقصان بہت کم ہی ہوا ہے۔) قندھار ایئر بیس پر کبھی جیٹ طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرون ہوا کرتے تھے مگر اب یہ ایئر بیس ویران پڑی ہے۔ کابل کے نزدیک واقع غیر معمولی وسعت کی حامل بگرام ایئر بیس بھی منصوبے کے تحت افغان حکومت کو سونپی جانے والی ہے۔ دیگر نیٹو افواج بھی انخلا کے معاملے میں امریکا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

افغان فورسز کو طالبان کا سامنا اپنے طور پر کرنا ہوگا!

عتیق اللہ امر خیل کے لیے یہ ایک جانی پہچانی صورتحال ہے۔ ۱۹۸۹ء میں جب سابق سوویت یونین کی فورسز نے افغانستان سے بوریا بستر لپیٹا تھا تب عتیق اللہ امر خیل افغان ایئر فورس کے کمانڈر تھے۔ سابق سوویت افواج نے کمیونسٹ صدر نجیب اللہ کی سربراہی میں جو حکومت چھوڑی تھی اس کے بارے میں خیال تھا کہ (امریکا اور پاکستان کے حمایت یافتہ جنگجوؤں) مجاہدین کی طاقت دیکھتے ہوئے اس کی بساط چند ہفتوں میں لپیٹ دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عتیق اللہ امر خیل اور ان کے ساتھیوں نے جلال آباد اور دیگر شہروں پر شدید حملوں کے باوجود مجاہدین سے تین سال تک مقابلہ کیا۔بعد میں جب روس نے نجیب اللہ کی مالی امداد روک دی تب اس کے لیے طالبان کی شکل میں مزاحمت کرنے والے مجاہدین کا سامنا کرنا ممکن نہ رہا اور ملک انتشار کی نذر ہوگیا۔

ایک ایسی سرزمین پر کہ جہاں چار عشروں کے بھیانک لمحات و مراحل اب تک دل و دماغ کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، تاریخ کی صدائے باز گشت بھی ایک خاص انداز سے سنائی دیتی ہے۔ افغان اس وقت یہ بحث کر رہے ہیں کہ طالبان کے دوبارہ ابھرنے کی صورت میں اب صدر اشرف غنی کی حکومت کے متوازی کیا ہوسکتا ہے۔ عتیق اللہ امر خیل کا کہنا ہے کہ سابق سوویت یونین کی افواج نے افغانستان سے روانہ ہوتے وقت انہیں (عتیق اللہ امر خیل اور ان کے ساتھیوں کو) جنگجوؤں کا سامنا کرنے کے حوالے سے بہتر حالت میں چھوڑا تھا جبکہ امریکا اور نیٹو نے اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ عتیق اللہ امر خیل کہتے ہیں کہ تب ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ہم کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ سوویت افواج نے جو افغان فوج چھوڑی تھی وہ موجودہ افغان فوج سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔ فضائی بیڑا بھی وسیع اور مضبوط تھا۔

اس زمانے کے عتیق اللہ امر خیل کے ایک دشمن کو بھی اس بات سے اتفاق ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے گلبدین حکمت یار کو پاکستانی حکومت کے ذریعے آنے والی سی آئی اے اور سعودی عرب کی فنڈنگ سے خاصا بڑا حصہ ملا تھا۔ افغان پارلیمنٹ سے متصل اپنے دفتر میں وہ کہتے ہیں کہ سابق سوویت یونین کی افواج نے ۱۹۸۹ء میں مجاہدین سے نبرد آزما ہونے کے لیے جو افغان فوج چھوڑی تھی وہ موجودہ افغان فوج سے مضبوط تر تھی۔ روسیوں نے افغان سرزمین سے روانہ ہوتے وقت افغان فوج کو ٹینک، آرمرڈ گاڑیاں، توپ خانہ اور ایئر فورس سے مزین کیا تھا۔ دو عشروں کے دوران امریکا اور نیٹو نے شورش دبانے کے لیے خاصی کمزور اندرونی سیکورٹی فورس تیار کی ہے۔ عسکری امور کے تھنک ٹینک سی این اے کے جوناتھن شروڈن کہتے ہیں کہ تب کی اور اب کی افغان فوج کا موازنہ پوری صورت حال کے حوالے سے صرف ایک پہلو سے ہے۔ ان کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جنگجوؤں کو غیر معمولی فوجی امداد ملی تھی جس میں اینٹی ایئر کرافٹ اسٹنگر میزائل بھی شامل تھے۔ طالبان کو شاید اب بھی پاکستان میں پناہ گاہیں میسر ہوں اور وہ مجاہدین کے مقابلے میں زیادہ متحد دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر بھی یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ ان میں لڑنے کی قوت کم ہے۔ شروڈن کا استدلال ہے کہ نجیب اللہ کے مقابلے میں صدر اشرف غنی زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔

امریکی افواج کے انخلا کی رفتار طالبان رہنماؤں کی نظر میں بہت حوصلہ افزا ہے کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ (طالبان) عسکری فتح سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ فریقین (افغان حکومت اور طالبان) کو مذاکرات کی میز تک لانے اور کسی وسیع البنیاد معاہدے تک پہنچنے میں مدد دینے سے متعلق امریکی کوششیں اب روکی جاچکی ہیں۔ محسوس ہورہا ہے کہ پورا موسمِ گرما فریقین کے درمیان لڑائی اور طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کی کوشش میں گزرے گا۔ طالبان مختلف علاقوں اور قصبوں پر قبضہ کرکے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ نصف سے ۷۰ فیصد کی حد تک دیہی علاقوں کے لیے یا تو لڑائی جاری ہے یا ان پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ نے یکم جون کو بتائی ہے۔

افغان فوج جن پولیس اہلکاروں اور سپاہیوں پر مشتمل ہے وہ حالیہ چند ماہ کے دوران دیہی علاقوں کی کئی لڑائیوں میں موم کی طرح پگھل گئے۔ حد یہ ہے کہ غیر معمولی تربیت یافتہ اور جدید ترین ہتھیاروں اور عسکری ساز و سامان سے لیس نیٹو فورسز کو بھی طالبان کے کئی حملوں کے دوران شدید مزاحمت کرنا پڑی۔ قندھار سے باہر کے ایک علاقے میں قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ افغان پولیس کی بہت سی چیک پوسٹس میں خوراک دستیاب ہے نہ اسلحہ اور ان اہلکاروں کو وقت پر تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ جب طالبان ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں تب ان میں لڑنے کی ہمت باقی نہیں رہتی۔ کبھی کبھی وہ بہت تیزی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور مقامی عمائدین کی معرفت بات چیت کرتے ہیں۔

ضلع پنجوائی کے کسان شیر محمد نے بتایا کہ گزشتہ برس ایک مقامی طالبان کمانڈر نے اس پر دباؤ ڈالا کہ طالبان کے لیے خدمات انجام دے۔ اس سے کہا گیا کہ ایک مقامی بیس کے دروازے پر دستک دے اور فوجیوں کو نکل جانے کا الٹی میٹم دے۔ میں چِلّایا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ میں کسی نہ کسی طور فوجی اڈے میں داخل ہوا تو اسے ویران پایا، سپاہی جاچکے تھے۔ یہ امریکیوں کے انخلا سے پہلے کی بات ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران بہت سی چیک پوسٹس اور اڈوں کا یہی معاملہ رہا ہے۔ پولیس اور عام فوج کو شدید مزاحمت اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومت اسپیشل فورسز کے یونٹس پر مدار رکھتی ہے۔ ان کمانڈوز نے نیٹو فوجیوں کے ساتھ کام کیا ہے اور اگرچہ ان پر بھی دباؤ رہا ہے تاہم انہوں نے بہت سے مواقع پر طالبان کو پچھاڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کمانڈوز کو خطرناک علاقوں میں بھیجا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے جنگجوؤں کے حملوں کو ناکام بناکر بہت سے علاقے واپس بھی لیے ہیں۔

فریقین اور شہریوں میں بڑھتی ہلاکتیں

طالبان نے بڑے شہروں پر قبضے کی بھرپور کوششیں کی ہیں، جو اسپیشل فورسز کی بھرپور مزاحمت کے باعث اب تک ناکامی سے دوچار رہی ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہی ہوتا رہے گا کیونکہ طالبان کے پاس نفری ہے نہ زیادہ ساز و سامان۔ امریکی جرنیل کہہ رہے ہیں کہ وہ روسیوں والی غلطی نہیں دہرائیں گے یعنی غیر ضروری طور پر فنڈ نہیں روکیں گے۔ مگر خیر یہ بھی واضح نہیں کہ ایک بار انخلا مکمل ہو جانے کی صورت میں وہ افغان فورسز کی کیا مدد کریں گے۔ امریکی محکمہ دفاع نے ۲ جون کو کہا کہ امریکا کی امداد افغان فوج کی تنخواہ کی ادائیگی اور چند طیاروں کی دیکھ بھال کے اخراجات تک محدود رہے گی۔

شروڈن کہتے ہیں کہ سوویت افواج کے انخلا کے بعد صدر نجیب اللہ کو زیادہ دیر تک حکومت کرنے کا موقع اس لیے ملا کہ ایک طرف تو فوج اچھی تھی اور فنڈنگ بھی تھی اور دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت تھی کہ وہ حیرت انگیز حد تک لچک دار تھے اور روسیوں نے انہیں بقا یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اشرف غنی کو زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔ انہیں ایک طرف تو موقع پرست ریاستی عناصر کو متحد کرنا ہوگا اور دوسری طرف امریکی دباؤ کے تحت طالبان سے کوئی معاہدہ بھی کرنا ہی پڑے گا۔ آنے والے چند ماہ کے دوران ان کا بنیادی یا کلیدی کردار افغانستان کی سالمیت برقرار رکھنا اور اسے متحارب جنگجو سرداروں کے درمیان تقسیم ہونے سے بچانا ہوگا۔

طالبان پُرجوش ہیں اور واشنگٹن کی طرف سے ملنے والے اشارے زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ایسے میں فوج کا مورال بنیادی چیز ہے۔ افغان فوج دباؤ میں ہے۔ یہ بہت حد تک نفسیاتی معاملہ ہے۔ ایک افغان سفارت کار کا کہنا ہے کہ ہم اگر یہ موسم گرما جھیل گئے تو بہت کچھ درست ہو جائے گا۔ عتیق اللہ امر خیل بھی اس نکتے سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری فوج اگر دو ماہ میں اپنی بقا ممکن بنانے میں کامیاب ہورہی تو ہم بقا یقینی بنا لیں گے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Can Afghan forces hold off the Taliban after American troops leave?”(“The Economist”. June 6, 2021)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*