
کسی زمانے میں اخوان المسلمون کو اسلامی دنیا کی ایک انتہائی متحرک اور نتیجہ خیز تحریک کا درجہ حاصل تھا، مگر اب اس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایک رکن نے حال ہی میں اپنے ساتھیوں اور مجموعی طور پر تحریک کی حالت بیان کرنے کے لیے ’’مردہ، مرتے ہوئے یا زیر حراست‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر دوڑی، جس کے بعد اخوان نے مصر میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ۲۰۱۲ء میں وہ حکمران جماعت بن گئی۔ مگر جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں فوج نے، عوام کے بھرپور تعاون سے، اخوان کو اقتدار سے نکال پھینکا۔ چار سال بعد اب جنرل السیسی مصر کے صدر ہیں اور انہوں نے اخوان کو ربع العداویہ اسکوائر سے بھی نکال پھینکا ہے۔ اخوان کے جو ارکان مارے نہیں گئے وہ جیلوں میں ہیں یا پھر روپوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اخوان المسلمون کئی اقوام پر محیط تحریک ہے۔ عرب دنیا کے متعدد ممالک میں اِس کی جڑیں ہیں اور آج بھی اس خطے کے مطلق العنان حکمران اِس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ قطر کے معاملے ہی کو لیجیے۔ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ اخوان سے سفارتی تعلقات ختم کرے، اس کی حمایت اور مدد روک دے، اس کے نظریات کی تبلیغ کرنے والے چینل الجزیرہ پر پابندی عائد کرے اور اخوان سے تحریک پانے والی جماعت کے تحت کام کرنے والی ترک حکومت کی حمایت ترک کرتے ہوئے وہاں سے اپنے فوجی واپس بلالے۔ ان تمام ممالک کا اصرار ہے کہ اخوان ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو کسی بھی ملک میں چلتے ہوئے نظام کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
گوکہ نوعیت اور اسباب پر بحث ہوسکتی ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اخوان نے تشدد کو تحریک دی ہے اور اس کے ارکان تشدد پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ حسن البنا نے ۱۹۲۸ء میں شمال مشرقی مصر کے شہر اسماعیلیہ میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مرحلہ وار اصلاحات کی حمایت ضرور کی تاہم ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تنظیم میں سید قطب کو بھی ایڈجسٹ کیا، جنہوں نے ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائیوں میں تشدد اور اس امر کی بھرپور حمایت کی اور تحریک دی کہ ’’راہ سے ہٹے ہوئے‘‘ حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں۔ جدید اسلام ازم (یعنی یہ تصور کہ حکومت اسلامی اصولوں کی روشنی میں قائم ہونی چاہیے) نے اِسی بحث کی مختلف جہتوں سے جنم لیا۔ اس کی کوکھ سے جنم لینے والی تنظیموں میں تیونس کی امن پسند النہضہ بھی ہے اور انتہائی تشدد پر یقین رکھنے والی تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ یعنی داعش بھی۔ اور حد یہ ہے کہ اب داعش خود اخوان کو راہ سے ہٹی ہوئی تنظیم قرار دیتی ہے۔ مصر میں قائم اخوان المسلمون اس وقت دو گروہوں میں منقسم ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کی راہ پر گامزن رہا جائے اور دوسرا گروہ چاہتا ہے کہ امن پسندی کی راہ منتخب کرکے مفاہمت اور مصالحت کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں۔
سعودی عرب اور قطر کے خلاف صف آراء ہونے والے دیگر ممالک کا دعوٰی ہے کہ اسلام پسندی کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ تسلیم شدہ طرزِ عمل سے ہٹ کر ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ بعض مشترکہ مقاصد کے لیے فلسطین، یمن اور شام کے اسلام پسندوں کی حمایت بھی کی جاتی رہی ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالفت کئی مغربی حکومتوں نے بھی کی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اخوان کی چھتری تلے منتخب ہونے والوں میں سے بہت سوں نے جمہوریت اور اعتدال دونوں ہی طرح کی سوچ کو خیرباد کہنے میں دیر نہیں لگائی، تاہم اس کے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اخوان کے لوگ مرکزی دھارے کی سیاست میں متحرک ہیں اور متعدد ممالک میں اخوان کی سوچ سے متاثرہ جماعتوں اور شخصیات نے خاصے اعتدال کے ساتھ اور موثر انداز سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ ایسے میں اخوان کو دہشت گرد قرار دینا اتنا آسان نہیں۔
سیاست کی رگوں میں مذہب کو ’’انجیکٹ‘‘ کرنے کے حوالے سے اخوان المسلمون کے لوگ انوکھے نہیں۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی بھی ایسا ہی کرتی آئی ہے اور اسرائیل میں بھی ایسی جماعتوں کی کمی نہیں جو چاہتی ہیں کہ اسرائیل کو حقیقی یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ یورپ میں کرسچین ڈیموکریٹس کی کمی نہیں، جو ان دونوں الفاظ کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی اس سوچ کی حامل ہے کہ عدل و انصاف اور انسانی حقوق سمیت تمام امور میں حتمی رائے خدا کی ہے اور اُس کی رائے کو ہر حال میں مقدم رکھا جانا چاہیے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ناتھن براؤن کہتے ہیں کہ ری پبلکنز وہی کہہ رہے ہیں جس پر تمام اسلام پسند اپنا اتفاق ظاہر کرچکے ہیں۔
کم از کم ایک معاملے میں تو اسلام منفرد ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایسے رہنما تھے جنہیں ریاست نہیں ملی تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سسٹم کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں صعوبتوں سے دوچار ہوئے، مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک باضابطہ سیاسی اکائی (ریاست) قائم کی اور مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر میں اس حوالے سے بہت کچھ ملتا ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے شاذی حامد ’’اسلامک ایکسیپشنل ازم‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون میں لکھتے ہیں، کہ قرآن میں چوری اور دیگر انتہائی منفی سرگرمیوں سے متعلق واضح سزاؤں کی تفصیل کے ساتھ ساتھ وراثت کی تقسیم کے طے شدہ اصول بھی ملتے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ اخوان فخریہ کہتی ہے کہ قرآن ہی ہمارا آئین ہے۔
ترکے کی تقسیم اور سزاؤں کے تعین کے حوالے سے بہت واضح اصول مرتب کرنے کے باوجود قرآن حکومت کی تنظیم کے حوالے سے زیادہ واضح نہیں۔ کسی سورۃ میں محمدؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کریں اور کسی دوسری سورۃ میں انہیں مکمل اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔ ان کے وصال کے فوراً بعد اختلافات کا آغاز ہوگیا۔ ان کے پیروکار خلیفہ کے کردار کا تعین کرنے کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہوگئے۔ یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ خلیفہ موروثی ہونا چاہیے یا منتخب۔ اور اس اختلاف نے آگے چل کر گروہ بندی کی شکل اختیار کی اور یوں اسلامی دنیا سُنّیوں اور شیعوں میں تقسیم ہوئی۔
’’اسلام وِد آؤٹ ایکسٹریمز‘‘ کے مصنف مصطفٰی اکیول لکھتے ہیں ’’قرآن نے خلافت کی ہدایت یا توثیق نہیں کی مگر مسلم فکر نے اِسے اسلامی تعلیمات کا لازمی جُز سمجھا اور یوں صدیوں تک، غیر ارادی طور پر ہی سہی، سیاست کو دین سے جوڑے رکھا۔‘‘ موروثی خلافت، جس میں دنیوی اور اخروی اصلاح کسی ایک شخصیت میں جمع ہوں، کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلم دنیا کی سیاسی جماعتوں کے لیے بہترین نمونے کی حیثیت اختیار کیے رہی۔
سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت اور ری پبلکن ترکی کے ہاتھوں خلافت کے خاتمے نے اسلام پسندی کی موجودہ تحریک کو جنم دیا۔ نوآبادیاتی نظام کے ستائے ہوئے مسلمانوں نے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے حکمرانوں کے ہاتھوں سوشل ازم اور نیشنل ازم کی شدید ناکامی کے بعد ایک ایسے نظام کی شدید خواہش محسوس کی، جس میں وہ اپنے لیے دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کا پہلو دیکھ سکیں۔ اس حوالے سے اخوان المسلمون ایک اچھا نمونہ بن کر ابھری۔
محمدؐ نے جمہوریت کو آزمودہ اور کارآمد نسخے کے طور پر پیش نہیں کیا تھا اس لیے حسن البناء نے اِسے مسترد کردیا اور ساتھ ہی ساتھ جدید عرب ریاست کا سیاسی ڈھانچا بھی مسترد کیا۔ انہوں نے مسلم ریاستوں کو مرحلہ وار ابھرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی محسوس کیا کہ اس حوالے سے مختلف طریق ہائے کار اپنانا ہوں گے۔ حسن البناء کو اندازہ ہوگیا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ریاست کی تشکیل کے لیے دورِ جدید کے جن تقاضوں کو پورا کرنا لازم ہے ان میں جمہوریت بھی شامل ہے۔ اخوان کے چند پیرو کاروں نے ناگزیر حقیقت کے طور پر چند مراحل کے لیے جمہوریت کو تسلیم اور قبول کیا تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ آج بھی اخوان کے ماننے والوں کی اکثریت جمہوریت کو موثر اور باوقار سیاسی طریق تسلیم نہیں کرتی۔
یہی وہ ’’لینس‘‘ ہے جس کے ذریعے ہمیں ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) اور اس کے رہنما رجب طیب ایردوان کو دیکھنا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں اس پارٹی کی تشکیل کے وقت رجب طیب ایردوان نے یہ تاثر دیا کہ وہ اسلام ازم کا ایک نیا ورژن متعارف کرا رہے ہیں، جس میں آزادی اور آزاد منڈی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ۲۰۰۲ء میں پہلی بار انتخابی کامیابی حاصل کرنے پر اے کے پارٹی نے جمہوری اصلاحات پر زور دیا، سیاسی اور ریاستی امور میں فوج کے کردار کو گھٹایا اور بنیادی حقوق کے حوالے سے ریاستی شناخت بہتر بنائی۔ اے کے پارٹی دیگر اسلام نواز جماعتوں کے لیے بھی ترغیب و تحریک کے ذریعے کے طور پر ابھری۔
اب یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایردوان طاقت کو بتدریج اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے سرکاری میڈیا کی مدد سے حکومت عدلیہ اور فوج میں ناقدین کو ختم کردیا۔ اے کے پارٹی میں موجود لبرل عناصر (مثلاً سابق صدر عبداللہ گل) کو ایک طرف کردیا گیا۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی فوجی کوشش ناکام بنائی گئی اور اس کے بعد کریک ڈاؤن میں ہزاروں (حقیقی اور فرضی) دشمنوں کو برطرف یا گرفتار کیا گیا۔ ان میں صحافی بھی شامل تھے۔ سول سوسائٹی گروپ بند کردیے گئے۔ سرکاری ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ شروع ہوا۔ انٹرنیٹ کے بہت سے مواد تک رسائی پر پابندی عائد کردی گئی۔ اپریل ۲۰۱۷ء میں آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کرایا گیا جس کے تحت صدر کو مزید اختیارات مل گئے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس ریفرنڈم میں دھاندلی کی گئی۔
اعتدال پسند دکھائی دینے والے اخوان ارکان کے خلاف کارروائی کے لیے مصر اگر A ہے تو ترکی کو Bکہیے۔ اخوان کے رہنما محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے تو ابتدا ہی سے تقسیم پسندی ظاہر کرتے رہے اور وہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لیے بھی بظاہر تیار نہ تھے۔ عہدِ صدارت کا پہلا سال مکمل ہونے کو تھا کہ انہوں نے یہ فرمان جاری کردیا کہ وہ عدالت کی طے کردہ حدود کے پابند نہیں۔ انہوں نے آئین کا ایسا مسودہ پیش کیا جس کی سیکیولر جماعتوں نے مخالفت کی اور جس کے ذریعے حکومت کی صفوں میں اسلام پسندوں کو داخل کیا گیا۔ ان کے خلاف بغاوت برپا ہونے تک عوام کی اکثریت فوج کے ساتھ تھی۔
کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ ترکی میں غیر لبرل عناصر کی بھرپور کامیابی اور مصر میں غیر لبرل عناصر کی بھرپور ناکامی ایسی نہ تھی جس کے بارے میں پیش گوئی نہ کی جاسکتی ہو، بلکہ یہ تو بہت حد تک ناگزیر سا معاملہ تھا۔ حقائق کو نظر انداز کرکے بہتر تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی میں معاملہ یہ تھا کہ سابق اسلامی جماعت کو ختم کیا جاچکا تھا۔ ریاستی اور سیاسی امور میں فوج کا عمل دخل زیادہ تھا اور اس عمل دخل کے لیے ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ لبرل اور سیکیولر عناصر نے اے کے پارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اے کے پارٹی کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ فوج نے ۲۰۰۷ء میں اے کے پارٹی کے صدارتی امیدوار کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بھی کوشش کی۔ اس کے ایک سال بعد ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے اے کے پارٹی کو سیکیولر ازم کی دشمن قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی۔ سیاسی بنیاد پر اے کے پارٹی کے خلاف اور بھی کئی اقدامات کیے گئے اور پھر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
مصر میں اخوان المسلمون کو بھی فوج، بیورو کریسی اور عدلیہ کی طرف سے ایسی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی، مخالفت اور سختی کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے گلیوں میں اور سڑکوں پر گشت سے انکار کیا جس کے نتیجے میں جرائم کا ارتکاب بڑھ گیا۔ پٹرولیم اور توانائی کے اداروں کے ملازمین نے جعلی قلت پیدا کی، جس کے نتیجے میں حالات خراب ہوئے۔ مرسی کے پیشرو کے تعینات کیے ہوئے ججوں نے انتخابی نتائج کو غلط قرار دیا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے مارک لنچ کہتے ہیں ’’ان تمام معاملات سے اخوان کے مطلق العنان رویے کو اخلاقی جواز تو نہیں ملتا، مگر اتنا ضرور سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے جو شاید ویسے نہ اپنائے جائیں‘‘۔ جب یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ سیکیولر عناصر انہیں ڈھنگ سے کام نہیں کرنے دیں گے اور اقتدار سے نکال پھینکیں گے تو اسلام پسند عناصر زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں درخشاں جمہوری روایات کے فقدان سے معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ مصطفٰی اکیول کا کہنا ہے کہ اے کے پارٹی کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ بہت زیادہ اسلام پسند واقع ہوئی ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ ترک نواز بننے کی کوشش کر رہی ہے۔
بہت سے ممالک میں اخوان کے نظریات سے متاثرہ جماعتیں انتخابی عمل میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ برسوں تک کچلے جانے کے بعد کویت اور اردن میں اسلام پسند جماعتوں نے گزشتہ برس کے انتخابات میں حصہ لیا اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اخوان کے فلسفے سے متاثر ہونے والی ’’دی پارٹی آف جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ‘‘ نے مراکش کے دو انتخابات جیتے ہیں اور اس وقت بھی وہ اقتدار میں ہے۔ اخوان کے مدار سے باہر بھی پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں اسلامی جماعتیں خاصی متحرک ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نواز جماعتیں حسن البناء کی سوچ سے متاثر ہیں مگر حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جہاں بھی مطلق العنانیت کو پروان چڑھانے والی سوچ نہیں وہاں یہ جماعتیں اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں۔ جہاں کہیں بھی اسلام نواز جماعتیں فعال ہیں وہاں اس نکتے پر بہت دھیان دیا جاتا ہے کہ یہ کس قدر طاقت جمع کرسکتی ہیں۔ مراکش، اردن اور کویت میں بادشاہ کو اصل حاکم کا درجہ حاصل ہے۔
اسلام پسند عناصر کو غیر لبرل اثرات پیدا کرنے کے لیے قومی انتخابات میں فاتح ہونے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ انڈونیشیا واضح مسلم اکثریت کا حامل سیکیولر شناخت والا ملک ہے اور وہاں عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے کبھی ۸ فیصد سے زائد ووٹ نہیں لیے، مگر مقامی اداروں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھنے والے ۴۰۰ سے زائد قانون منظور کیے جاچکے ہیں۔ انڈونیشیا کے صوبے آچے میں شراب پر پابندی عائد ہے، خواتین کے لیے ملبوسات کی حدود متعین ہیں اور غیر اخلاقی روابط یا ہم جنس پرستی کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جاتے ہیں۔
انڈونیشیا میں اسلام پسند عناصر کے لیے ایک بڑی کامیابی اپریل میں رونما ہوئی، جب جکارتہ میں گورنر کے انتخاب میں مضبوط عیسائی امیدوار بسوکی، المعروف اہوک کو شکست ہوئی۔ اس کے مخالف انیس بسوادن کے حامیوں نے مسلم ووٹرز کو بتایا کہ کسی عیسائی امیدوار کو ووٹ دینا حرام ہے۔ جب اہوک نے اس کے خلاف قرآن ہی کی بنیاد پر اپنے دلائل پیش کرنے کی کوشش کی تو ایک ایسی وڈیو انٹر نیٹ پر وائرل ہوگئی جس کی بنیاد پر اہوک کو توہین ربانی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انتخاب ہار گیا اور اب جیل میں ہے۔
انڈونیشیا ایک اچھی مثال ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طور جمہوریت کسی بھی غیر لبرل اقلیت کو غیر معمولی طاقت سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ جکارتہ میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام اینڈ سوسائٹی کے ۲۰۱۵ء کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ شرعی قوانین پر مبنی آرڈیننسز کے اجرا کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ بہت سے مقامی سیاست دانوں نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے حق میں قانون سازی کی تھی۔ خدا کا قانون ایک بار نافذ ہو جائے تو پھر اس کے خلاف جانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ بہت سے انتخابی امیدوار اگر نافذ شدہ اسلامی قوانین میں کوئی جھول دیکھتے ہیں تب بھی مسترد کردیئے جانے کے خوف سے زبان بند ہی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں شرعی قوانین کے لیے عوام کی بھرپور حمایت پائی جاتی ہے۔ مصر میں عوام ایسے قوانین پسند کرتے ہیں جن کی بنیاد شریعت کے اصولوں پر رکھی گئی ہو۔ اس معاملے میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اسلامی قوانین کون سی جماعتیں پیش کر رہی ہیں۔ ترکی میں معاملہ مختلف ہے۔ وہاں اے کے پارٹی نے شراب کو محدود کرنے اور حجاب پر عائد پابندی اٹھانے پر توجہ دی ہے۔ دوسرے بہت سے اقدامات بھی کیے گئے ہیں تاہم شراب پر مکمل پابندی اور خواتین کے لباس کے حوالے سے کوئی باضابطہ ضابطۂ اخلاق جاری کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اے کے پارٹی نے سیاست کو اسلام کی خدمت پر لگانے کے بجائے اسلام کو سیاست کی خدمت پر لگایا ہے۔
لبرل عناصر کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں اقلیت میں ہونے پر بھی بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ جمہوریت میں بہرحال اس نوعیت کے خطرات تو ہوتے ہی ہیں۔ مگر ہاں، جمہوریت مضبوط ہو تو ان خطرات سے بخوبی نمٹا بھی جاسکتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اہمیت لبرل ازم کی نہیں، انتخابی عمل کی ہے۔ غیر لبرل جمہوریت بھی بالآخر لبرل جمہوریت کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ جن ممالک میں مطلق العنان حکومتیں رہی ہیں ان میں جمہوریت کو جڑ پکڑنے کا موقع ضرور دیا جانا چاہیے۔ مصر کے حوالے سے بھی یہی بات کہی جاتی ہے۔ وہاں اخوان جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہوکر آئی مگر اس کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اب کہا جارہا ہے کہ ایسا کرنا درست نہ تھا، یعنی جمہوری عمل کو جڑ پکڑنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ جو کچھ صدر مرسی نے کیا آنے والے ادوار کی سیکولر اور لبرل حکومتیں اس کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجاتیں۔
یہ بات قبول کرنی پڑے گی کہ جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والی اسلامی جماعتیں خود بھی انتخابی عمل پر یقین رکھتی رہیں گی یعنی انتخابات کراتی رہیں گی۔ تیونس میں راشد غنوشی کی قیادت میں النہضہ پارٹی نے ثابت کیا ہے کہ وہ انتہائی اعتدال پسند ہے اور بیشتر معاملات میں مفاہمت کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک اچھا ماڈل ہے۔
تیونس میں زین العابدین بن علی کی آمریت کے دور میں النہضہ کو کچل کر رکھا گیا۔ پھر جب ۲۰۱۱ء میں عوامی بیداری کی لہر کے نتیجے میں زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انتخابات کے ذریعے النہضہ سے ہم آہنگ ایک سیاسی جماعت کو اقتدار ملا۔ مگر یہ جماعت معاملات کو سنبھالنے میں ناکام رہی اور معاشرے میں تقسیم بڑھ گئی۔ ۲۰۱۳ء میں انتہائی قدامت پسند مسلمانوں نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دو بڑے سیاست دانوں کو قتل کردیا۔
النہضہ کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج ہوا تو مصر میں اخوان کی طرح اس نے مزاحمت کرنے کے بجائے مصالحت سے کام لیا اور لبرل عناصر سے بات کی۔ یوں نئے آئین میں لبرل عناصر کی سفارشات کو بھی اہمیت دی گئی۔ آئین کی رو سے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ اور پھر النہضہ نے ۲۰۱۴ء میں اقتدار ایک ٹینکو کریٹ سیٹ اپ کو سونپ دیا۔ اگلے الیکشن النہضہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام پسند عناصر کو شکست دینے کے لیے بنائی جانے والی جماعت ندا تیونس نے کامیابی حاصل کی اور راشد غنوشی نے اس جماعت کے بانی بیجی سید ایسیبسی سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ راشد غنوشی نے کہا کہ اس عبوری دور میں ہمیں زیادہ سے زیادہ مصالحت اپنانے کی ضرورت ہے۔ مصر میں اخوان کے ایک رہنما نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تیونس میں النہضہ نے مصر میں اخوان کی غلطیوں سے سبق سیکھا۔
راشد غنوشی کہتے ہیں کہ النہضہ اب اسلامی پارٹی نہیں بلکہ مسلم ڈیموکریٹس کی پارٹی ہے جیسا کہ یورپ میں کرسچین ڈیموکریٹس کی پارٹیاں کام کرتی ہیں۔ اس جماعت نے اب اپنے اسلامی ونگ سے خود کو الگ کرلیا ہے جو دعوت یعنی دین کی تبلیغ سے وابستہ ہے۔ النہضہ اب بھی اسلام کی بات کرتی ہے مگر راشد غنوشی کہتے ہیں کہ معاشرے میں مذہب کا معاملہ ریاست کے طے کرنے کا کام نہیں۔ انتخابی عمل جاری رہنا چاہیے۔ دین اگر معاشرے میں ہے تو پارلیمنٹ میں بھی دکھائی دے گا۔
لبرل عناصر مجموعی طور پر یہ چاہتے ہیں کہ اسلام پسند عناصر جب اقتدار میں آئیں تو زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے کام کریں، لوگوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔ اس سے تصادم اور محاذ آرائی میں کمی واقع ہوگی۔ شاذی حامد کے مطابق ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لبرل عناصر کی خواہش ہے کہ اسلامی جماعتیں جب منتخب ہوجائیں تو اسلام ازم کی بات نہ کریں۔ یہ بھی بنیادی جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ لوگ جن اصولوں کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں، متعلقہ جماعت اُن سے رو گردانی کرے گی تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو ترک کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔
ترکی، مصر اور تیونس کے حالات بہت مختلف ہیں۔ ترکی میں فوج مضبوط تھی۔ مصر میں فوج مضبوط ہے جبکہ تیونس میں فوج اب تک سیاسی معاملات میں دخیل نہیں۔ ایسے میں النہضہ کے پاس مصالحت اور مفاہمت سے کام لے کر آگے بڑھنے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ النہضہ ایک ایسا ماڈل ہے جسے راشد غنوشی ایکسپورٹ نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ النہضہ نے کیا ہے وہ تیونس کے حالات کا تقاضا ہے۔ النہضہ کے ارکان نے جیل میں لبرل عناصر کے ساتھ وقت گزارا ہے اور چاہتے ہیں کہ ایک ایسا نظریہ اپنائیں جس میں سب کو برداشت کرنے اور سب کے پنپنے کی گنجائش ہو۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Can political Islam make it in the modern world?”. (“The Economist “. August 26, 2017)
Leave a Reply