
عراق میں داعش کی وجہ سے افراتفری پھیلی ہوئی ہے، ٹکڑوں میں بٹی ریاست مزید تقسیم ہونے جارہی ہے، کردوں کو نادانستہ طور پر مزید نوازا جارہا ہے، ٹرمپ انتظامیہ عجیب مخمصے میں ہے کہ امریکا کو کرد ریاست قائم کرنے کی طویل تحریک کی حمایت کرنی چاہیے یا مخالفت، کردستان کی علاقائی حکومت پہلے ہی بغداد سے خودمختاری حاصل کرچکی ہے، ۲۰۱۴ء کے بعد سے عراقی فوج کو درپیش حالات کافائدہ اٹھاتے ہوئے کردستان نے اپنے زیر قبضہ علاقے میں ۴۰ فیصد تک اضافہ کرلیا ہے، کرد حکومت کی جانب سے سب سے اہم قبضہ تیل کی دولت سے مالا مال صوبے کرکوک پر کیا گیا، کرکوک میں طویل عرصے سے کردوں، ترکمانوں اور عربوں کے درمیان صوبے پر کنٹرول کی دوڑ جاری ہے، ۲۵ ستمبر کو کردستان کی علاقائی حکومت نے صدر مسعود بارزائی کی قیادت میں ایک ریفرنڈم کرایا، جس میں ۹۳ فیصد ووٹروں نے عراق سے آزادی حاصل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کرد حکومت نے اپنی حد سے تجاویز کیا، آزادی حاصل کرنے کی کوشش نے اس کے پڑوسیوں عراق، ایران اور ترکی کو اس کے خلاف متحد کردیا، ترکی اور ایران کا کردوں سے پرانا تنازع ہے، انہوں نے کردستان کے ساتھ موجود سرحدی گزرگاہوں کو بند کرکے اپنی ناراضی کا اظہار کردیا ہے، عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے عراقی فوج کو متنازع صوبے کرکوک میں داخل ہو کر کنٹرول سنبھالنے کا حکم دے دیا، اس اقدام میں عراقی وزیراعظم کو ایران کی مدد حاصل تھی، ۱۵،۱۶؍اکتوبر کو عراقی فوج ایران کے زیراثر ملیشیا کے ہمراہ کرکوک شہر اور اطراف کے علاقے میں داخل ہوگئی، تاکہ ان علاقوں میں دوبارہ بغداد کی عملداری قائم کی جاسکے، آپریشن کے اختتام تک عراقی فوج نے ۲۰۱۴ء سے قبل موجود علاقے سے کہیں زیادہ علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا، عراقی فوجی کارروائی کے دوران بہت کم مزاحمت ہوئی، بغداد نے عراقی فوج کے شہر میں داخلے سے قبل کردستان کی اہم سیاسی جماعت پیٹریاٹک یونین آف کردستان سے مذاکرات کیے تھے، کرکوک اور اطراف کے علاقوں میں پی یو کے کے جنگجوؤں کی گرفت بہت مضبوط ہے، پی یو کے دیگر کرد جماعتوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں، بارزائی کی کرد ڈیمو کریٹک پارٹی نے آزادی کے لیے منعقدہ ریفرنڈم کے انتظامات اور مالی وسائل کی فراہمی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پی یو کے کے جنگجوؤں کی بغیر لڑے واپسی کے بعد عراقی فوج اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے جنگجوؤں میں معمولی جھڑپوں کی اطلاعات تھیں، امریکا کے اتحادیوں کے درمیان اس تصادم نے عجیب تماشے کی صورتحال پیدا کردی، اس سے امریکا کی نازک پوزیشن بھی واضح ہوگئی۔
امریکا کا وفادار اتحادی
کرد سیکولر، مغرب اور امریکا نواز ہیں، یہاں تک کہ وہ اسرائیل کی خاموش حمایت بھی کرتے ہیں، کرد حکومت مشر ق وسطیٰ میں امریکا کے سب زیادہ قابل اعتماد اتحادیوں میں سے ایک ہے، یہ جمہوری حکومت نہیں ہے، بارزائی ۲۰۱۵ء میں اپنی حکومت کی مدت کے خاتمے کے باوجود مسلسل حکومت کرتے چلے جارہے ہیں، ان کی حکومت کو کرپشن اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدارکے لیے لڑائی کا سامنا ہے، سیاسی تقسیم کے باوجود کردستان کو اہم سیاسی اور اقتصادی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، اس کے برعکس بغداد حکومت نااتفاقی، بدانتظامی اور کرپشن میں گھری ہوئی ہے، ایرانی حمایت یافتہ بغداد حکومت پر شیعہ جماعتوں کا غلبہ ہے، عراق میں امن اور استحکام قائم ہونے کی امید پر صدام کے بعد آنے والے حکمرانوں کی واشنگٹن مدد کرتا رہا ہے، اوپیک تنظیم میں عراق تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں امریکی انتظامیہ عراق کو سنی اور شیعہ انتہاپسندی کے خلاف دفاعی دیوار بنانا چاہتی تھی، جس میں ان کو محدود کامیابی بھی حاصل ہوئی، ۲۰۱۴ء میں داعش کے حملے کے سامنے جب عراقی فوج بُری طرح ڈھیر ہوگئی تو امریکا نے ایرانی مدد سے عراقی فوج کو دوبارہ سے داعش سے مقابلے کے لیے کھڑا کیا، جس کے بعد پاپولر موبلائزیشن فورس طاقتور ملیشیا بن کر ابھری، اس ملیشیا کا ایک پاؤں حکومت میں اور دوسرا باہر تھا، امریکا کی طویل مدتی پالیسی عربوں اور کردوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی ہے، ایک طرف امریکا نے کردوں پر زور دیا کہ وہ عراق سے آزادی حاصل کرنے کااعلان نہ کریں اور دوسری طرف عراق پر دباؤ ڈالا کہ کردوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے،یہ پالیسی اب ناکام ہوچکی ہے،امریکا اب بھی اس معاملے میں غیر جانبداری برقرار رکھ سکتا ہے، وہ کردوں کی حمایت یا مخالفت میں بھی پالیسی بنا سکتا ہے، کردوں کی حمایت کرنے کی بہت مضبوط تاریخی، اخلاقی اور اسٹریٹجک وجوہات ہیں،یہ دنیا میں سب سے بڑا نسلی گروہ ہے جس کے پاس اپنی کوئی ریاست موجود نہیں ہے، (ساڑھے تین کروڑ کرد دنیا بھر میں موجود ہیں)، کردوں کواقلیت کے طور پرشدید ظلم کا نشانہ بنایاگیا ہے، ۱۹۹۲ء میں کے آر جی کے قیام کے بعد سے عراقی کردوں نے واشنگٹن کے ساتھ زبردست دوستانہ رویہ رکھا ہے، امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد کرد حکومت نے واشنگٹن کو متبادل ہوائی اڈے فراہم کرنے کی پیشکش کردی، جس کو امریکا نے شام میں اہم فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا، کرد حکومت زیادہ سے زیادہ تعداد میں امریکی فوجیوں کی میزبانی کی خواہش کااظہار کرچکی ہے، کرد حکومت کے علاقے میں امریکی آپریشن پر کسی قسم کی پابندی کا کوئی امکان نہیں، اربیل ایئرپورٹ پہلے ہی داعش کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
آزادی حاصل نہ کرنے کی وجوہات
کردعوام کی اکثریت ریاست کی مستحق ہے لیکن آزادی کا اعلان ملتوی کرنے کی بہت مضبوط وجوہات ہیں،کرد حکومت کو پہلے ہی کافی حد تک خودمختاری حاصل ہے ،جو درحقیقت آزادی کے قریب ہے، کردوں کے پاس اپنی حکومت، فوج،زبان اور جھنڈا موجودہے، لیکن پھر بھی بارزائی نے نتائج کی پروا کیے بغیرہی مکمل آزادی حاصل کرنے کے عمل کو تیز کردیا ہے، ایک حد تک اس سے بارزائی کا مقصد اپنی سیاسی حیثیت کو تحفظ دینے کے ساتھ کے ڈی پی کومخالفین کے مقابلے میں سیاسی فائدہ پہنچانا تھا۔ عراق، ایران اور ترکی کی مخالفت کرد حکومت کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے، ترکی کرد حکومت کا اہم تجارتی اتحادی ہے،کردستان انقرہ کی تیسری بڑی برآمدی مارکیٹ ہے،مکمل آزادی حاصل کرنے کے لیے ترکی سے تعلقات خطرے میں ڈالنا کرد حکومت کی بیوقوفی ہوگی،کرد عراقی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھ کر اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں،کرد افسران مرکزی حکومت میں اعلیٰ عہدے حاصل کرسکتے ہیں،حقیقت میں یہ ایک اعتدال پسند راستہ ہے، (اس وقت بھی عراقی پارلیمان کی ۳۲۸نشستوں میں سے ۶۲ نشستیں کردوں کے پاس ہیں)۔امریکا کو کرد حکومت کی آزادی کے اعلان کی حمایت کے بجائے بوسنیا طرز کی کنفیڈریشن کی حمایت کرنی چاہیے،یہ ایسا حل ہے جس کی حمایت ماضی میں بارزائی بھی کرچکے ہیں،اربیل اور بغداد حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعددونوں کواسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے،لیکن کرد صحافی محمد صالح کاکہناہے کہ ’’کردوں کو بغداد کی مداخلت کے بغیر اپنا تیل اور گیس فروخت کرنے کی آزادی،عراق کی فو ج میں مناسب حصہ اور خارجہ معاملات پر بااختیار بنا کر مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے مگر یہ حل ناممکن لگتا ہے کیونکہ بیرون ملک موجود کردوں کے نمائندوں کو سفارتی حیثیت تک حاصل نہیں ‘‘۔ بغداد میں موجود کچھ شیعہ گروپوں نے اس طرح کے کسی حل کے لیے تیار رہنے کا اشارہ دیا ہے، کیونکہ اس سے ان کو غیر کرد علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کا موقع مل جائے گا، مذاکرات میں مالی وسائل اور علاقے کی تقسیم پر بات چیت کافی مشکل مرحلہ ہوگا، مثال کے طور پر کرکوک اور نینوا صوبے پر بغداد اور اربیل دونوں کا دعویٰ ہے، کردوں کی حیثیت کا تعین قانونی ریفرنڈم کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے لیکن ایسا مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا، اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر کچھ علاقوں سے کرد فوجوں کونکالنے اور کچھ علاقوں کومشترکہ طور پرکنٹرول کرنے کا سمجھوتہ کیاجا سکتاہے۔
واشنگٹن کا کردار
اربیل اور بغداد کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے نیک نیت اور طاقتور ثالث کا ہونا بہت ضروری ہے،اسی لیے امریکا ثالثی کا کردار اداکرنے کے لیے منفرد حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ عراق میں امریکی فوجیوں کی مخصوص تعداد(پانچ ہزار) کی موجودگی اسے قابل اعتباربناتی ہے اور امریکا اس مسئلے کے حل کے لیے اچھی سفارتکاری بھی کرسکتاہے۔ موجودہ بحران بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا، کیونکہ امریکا داعش کیخلا ف جنگ میں بری طرح الجھاہوا ہے،جب ٹرمپ حکومت نے کردوں کے مسئلے پر توجہ دینی شروع کی اورامریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے آزادی کے ریفرنڈم کی منسوخی کے لیے کردوں سے رابطہ کیا تو ان کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑا، بہرحال اب آگے بڑھنا چاہیے، کشیدگی کے خاتمے، عراقی اور کرد فوجوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے امریکی فوجیوں کو سہولت کار کا کردار اداکرنا چاہیے، امریکی سفارت کار اربیل اور بغداد میں سمجھوتا کرانے کے لیے مرکزی کردار ادا کریں،اگردونوں میں سے کوئی بھی سمجھوتے سے انکار کرے توامریکا فوجی امداد روک کر اپنی بات منوا سکتا ہے،اس دوران اگر عراقی فوج اربیل اور دیگراہم کرد صوبوں میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے تو امریکی فوج کرد فوج کی مدد کرے گی، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کی کرد مسئلے کو حل کرانے کی صلاحیت پر شبہ ہے، کیونکہ حال میں ٹیلرسن نے صدر ٹرمپ کی جانب سے خود کو بری طرح ذلیل کرنے کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے، اربیل اور بغداد میں سمجھوتا کرانے کے لیے امریکا کو خصوصی سفارت کار نامزد کرنا چاہیے، اس حوالے سے ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس، ریمنڈ ٹی یا سابق سفیر کروکر کو نامزد کیاجاسکتا ہے، امریکا کے لیے سب سے کم برایہ ہوسکتا ہے کہ موجود صورتحال برقراررہے اور کرد حکومت کی خودمختاری کی ضمانت دیتے ہوئے عراق کو متحد رکھا جائے، اس سے بغداد اوراربیل کے کسی حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا، ورنہ اس کا نتیجہ غیر ضروری خون خرابے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Can the United States broker peace between Iraq and the Kurds?” (“cfr.org”. October 17, 2017)
Leave a Reply