
ترکی کی شناخت کیا ہو؟ کیا سیکولر جمہوریت، جس کا خواب جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے دیکھا، یا ایک اسلامی عقیدے کے مطابق ایک قومی حکومت؟ جیسا کہ خلافتِ عثمانیہ کہ جس کی راکھ سے جدید ترکی کی بنیاد پڑی۔ ملک کو اس سوال کا سامنا رہا۔ اتاترک نے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی اپنے تئیں بہت کوشش کی۔ خلیفہ کو رخصت کیا، ترکوں کو حکم دیا کہ دوسرا نام استعمال کریں، ترکی ٹوپی پر پابندی عائد کردی اور ترک زبان کا رسم الخط عربی سے تبدیل کرکے رومن حروف میں کردیا۔
اتاترک کے انتقال کے بعد اُس کے پیش روئوں نے اتاترک کے نقطۂ نظر کو زور زبردستی سے نافذ کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ چار دہائیوں میں چار مرتبہ کمالی جرنیلوں نے منتخب حکومتوں کو اقتدار سے محروم کر دیا، یہ کہہ کر کہ یہ سیکولر حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن ۲۰۰۲ء میں سب کچھ بدل گیا، جب ترک کرشماتی شخصیت کے مالک گرم مزاج رجب طیب اردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو اپنے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں لے آئے۔
کبھی سیاسی اسلام کے مسلمہ حامی، اردوان نے وزیراعظم کے لیے اپنی امانت و دیانت کی بنیاد پر مہم چلائی۔ خاص طور پر معیشت کے میدان میں، کمالی اشرافیہ کا قدامت پسند، اناطولیہ کے مرکز میں اعتماد کھونا جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کا سبب بنا، لیکن بعدازاں اُس کی حمایت اگلے انتخابات میں بڑھتی چلی گئی۔ لیکن جیسے جیسے ملک اگلے پندرہ مہینوں میں مزید تین انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے، اہم مسئلہ ریاست کے سیکولر یا مذہبی ہونے کا نہیں، یہ اردوان کا ہے۔ ترکوں نے طے کرنا ہے کہ آیا وہ نظام کو چلانے کے لیے درکار کنٹرول اور توازن کے لیے ایک طاقتور آدمی کو ترجیح دیتے ہیں، یا کسی متوازن شخص کو۔
گزشتہ سال مئی میں جب استنبول کے غازی پارک کے مستقبل کے حوالے سے اچانک مظاہرے پھوٹ پڑے، تو اردوان کے ردعمل نے مظاہرین کے موقف کی توثیق کردی کہ بڑا مسئلہ اردوان کے بڑھتے ہوئے آمرانہ اقدامات ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا اور مظاہرین پر آنسو گیس اور پانی کی توپیں برسائیں۔ اس ردعمل پر عالمی برادری نے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ وزیراعظم ملک سے باہر تھے، جب کہ AKP کے دیگر رہنمائوں بشمول عبداللہ گل نے سیاسی حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ یہ رویہ اردوان کی واپسی تک ہی رہا۔ اردوان نے وطن واپسی پر ان واقعات میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے بیرونی قوتوں نے اپنے کارندے بھیج کر یہ کام کروایا۔ اردوان کا اشارہ واشنگٹن کی جانب تھا۔
گزشتہ سال دسمبر میں اردوان نے پھر یہی رویہ اختیار کیا، جب بڑے پیمانے پر کرپشن کی جڑیں شہ سرخیاں بنیں۔ فی الوقت AKP کے قریبی حلقے ایسے بل پاس کر رہے ہیں، جو ان کے برسرپیکار لیڈر کو مزید طاقتور بنا رہے ہیں۔ صدر گل نے انٹرنیٹ کو محدود کرنے اور نیٹ صارفین سے باخبر رہنے کے بِل پر دستخط کر دیے ہیں۔ پریشان کن کرپشن کے الزامات جو خود اردوان کی طرف بڑھ رہے تھے، لہٰذا ایک اور بِل پاس کیا گیا جس کے نتیجے میں ججوں اور استغاثہ پر ایگزیکٹو کنٹرول کو سخت کر دیا گیا ہے۔ عدالتی تحقیقات اردوان کے اتحادیوں کے اس مطالبہ کے تحت ہو رہی ہیں کہ تحقیقات وزیراعظم اور ’’متوازی حکومت‘‘ دونوں کے دبائو سے آزاد ہوں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ’’متوازی حکومت‘‘ امریکی ریاست پنسلوانیا میں مقیم اعتدال پسند اسلامی رہنما فتح اللہ گولن چلا رہے ہیں؟
جو کچھ ہو رہا ہے، ۳۰ مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹر اس پر اپنی پہلی رائے کا اظہار کریں گے۔ حزب اختلاف کا کردار متاثر کن نہیں ہے۔ اتاترک کی قیادت میں ریپبلکن پیپلز پارٹی تقسیم کا شکار اور کسی متاثر کن شخصیت سے محروم ہے جو اردوان کو چیلنج کر سکے، لیکن معاشی اعداد و شمار میں کمی کے ساتھ اگر AKP اپنے کسی مضبوط حلقہ، جیسے استنبول سے ہار جاتی ہے تو یہ نتیجہ اردوان کے مخالفین کے حوصلے بلند کردے گا۔ ہوسکتا ہے کہ انتخابی دھچکا AKP میں موجود اختلافات کو زندہ کر دے، شاید اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے پارٹی کے اندر مقابل امیدوار ابھر آئیں۔
AKP کے ایک ترجمان کے مطابق اردوان، جو پارٹی کے قوائد کے مطابق تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتے، صدارتی دفتر سنبھالیں گے۔ لیکن اگر موجودہ صدر عبداللہ گل نے بھی صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو حکمراں جماعت کی اندرونی تقسیم ووٹروں کو اردوان کے مقابلے میں قابل اعتماد متبادل کا راستہ فراہم کرسکتی ہے جوکہ حزب اختلاف اب تک رہنے میں ناکام رہی ہے۔ گل ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، جو وزیراعظم کے اکثریتی رجحانات کے برعکس کئی مختلف لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور قانون کی بالادستی کے قائل ہیں۔
ایک ناامید منظرنامہ جون ۲۰۱۵ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ کیا گل صدارت چھوڑ دیں گے؟ اور کیا AKP ایک مرتبہ پھر قانون ساز اداروں میں غالب رہے گی؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ وہ اردوان کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے دستیاب ہوں گے۔ گل اس سے قبل ۲۰۰۲ء میں بھی یہ کردار ادا کر چکے ہیں، جب اردوان کو اسلامی سیاست کے الزام میں سزا دی گئی تھی اور منتخب ہونے کے فوراً بعد دفتر سنبھالنے سے روک دیا گیا تھا۔ ایک اور ملازمت کی تبدیلی ابھی ان امکانات کو ختم کر دے گی کہ ایک قابل بھروسا حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں AKP میں سے اردوان کا کوئی حقیقی متبادل ابھر سکے۔
(مترجم: سید سمیع اللہ حسینی)
(“Can Turkey’s Erdogan stay in power?”… “Time”. Feb. 27, 2014)
Leave a Reply