
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو شدید اندرونی بحران کا سامنا ہے۔ بحران یہ ہے کہ سی آئی کے پے رول پر جاسوسی اور مخبری کرنے والے غیر ملکیوں کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ وہ گرفتار بھی ہو رہے ہیں اور بہت سوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیا ہے۔ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں کہ سی آئی اے اپنے غیر ملکی مخبروں کو بچانے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ اُس نے حالات کے دباؤ کے تحت اُن کی گرفتاری یا ہلاکت پر سمجھوتا بھی کیا۔ یہ سب کچھ سی آئی اے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے سُبکی کا سامنا ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال سے سی آئی اے اور بائیڈن انتظامیہ کی ساکھ کو مزید دھچکا لگا ہے کیونکہ دنیا بھر میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ امریکا اب سپر پاور کی حیثیت سے اپنی برتری برقرار رکھنے میں نہ صرف یہ کہ ناکام ہوچکا ہے بلکہ اپنی اصلاح کے لیے ذریعے بہتری کی راہ ہموار کرنے کی تحریک سے بھی محروم ہو چلا ہے۔ اِس مضمون میں سی آئی اے کی اندرونی کمزوری کو موزوں طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
امریکا کے کاؤنٹر انٹیلی جنس حکام نے ایک خفیہ پیغام کے ذریعے دنیا بھر کے اسٹیشنز اور اڈوں کو بتایا ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ (سی آئی اے) دیگر ممالک کے بہت سے جن لوگوں کی خدمات جاسوسی کے لیے حاصل کرتا ہے ان میں سے اکثریت سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔
ایک غیر معمولی انتہائی خفیہ کیبل کے ذریعے دیے جانے والے پیغام میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے کا انسدادِ جاسوسی مشن کئی برسوں کے دوران غیر ملکی مخبروں کے کیسز کا جائزہ لے رہا ہے جو مارے گئے، قتل کردیے گئے یا جن کے معاملے میں اصولوں پر سودے بازی کرلی گئی۔ اس کیبل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے کے بہت سے مخبروں کو حریف خفیہ اداروں نے سزائے موت بھی دے دی۔ اس نوعیت کے کیبلز میں بالعموم ایسی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا جاتا۔
اس کیبل سے امریکی خفیہ ادارے کی ان مشکلات پر روشنی پڑتی ہے، جو اسے دنیا بھر میں مشکل ماحول میں کام کرنے کے حوالے سے درپیش ہوتی ہیں۔ حالیہ چند برسوں کے دوران روس، چین، ایران اور پاکستان جیسے حریف ممالک کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے ذرائع کی تلاش میں رہے ہیں اور بعض کیسز میں انہوں نے سی آئی اے کے ایجنٹس یا مخبروں کو ڈبل ایجنٹ بھی بنا ڈالا ہے۔
کیبل میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جاسوسوں اور مخبروں کا تقرر ایک ایسا معاملہ ہے جس میں خطرات بھی مول لینا پڑتے ہیں۔ ساتھ ہی حالیہ چند برسوں کے دوران سی آئی اے کو لاحق مشکلات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ ایجنٹوں کا تقرر کرتے وقت تیزی دکھائی جاتی ہے، تاہم کاؤنٹر انٹیلی جنس کے حوالے سے جن خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس مسئلے کو مذکورہ کیبل میں ’’سلامتی سے پہلے مشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
چند برسوں کے دوران بہت بڑی تعداد میں مخبروں پر سمجھوتا کرنے کے اعتراف سے بایو میٹرک اسکین، چہرے کی شناخت، مصنوعی ذہانت کے استعمال اور مخبروں تک پہنچنے کے لیے سی آئی اے افسران کی نقل و حرکت کا سراغ لگانے کے لیے آلات کی ہیکنگ جیسے معاملات میں دیگر ممالک کی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سی آئی اے کے پاس ان خفیہ معلومات کو جمع کرنے کے کئی راستے اور ذرائع ہیں، جن کا تجزیہ کرکے ماہرین پالیسی سازوں کے لیے بریفنگ کی تیاری کرتے ہیں، تاہم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایجنٹوں کی فراہم کردہ معلومات اس حوالے سے کی جانے والی کاوشوں میں کلیدی کردار کی حامل ہیں۔ اس نوعیت کی معلومات جمع کرنے کے حوالے سے سی آئی اے غیر معمولی ساکھ کی حامل رہی ہے۔
سی آئی اے کے سابق افسران کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے کیس افسران مخبروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے لیے ترقی اور انعامات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کیس افسران کو بالعموم کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز کے حوالے سے ترقی نہیں دی جاتی، مثلاً یہ معلوم کرنا کہ کوئی مخبر کسی اور ملک کے لیے تو کام نہیں کر رہا۔
سی آئی اے نے دو عشروں کے دوران افغانستان، عراق اور شام جیسے ممالک میں دہشت گردوں کی طرف سے لاحق خطرات سے نمٹنے پر زیادہ توجہ دی ہے تاہم اب بھی چھوٹی یا بڑی دشمن ریاستوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول اس کا مرکزی ایجنڈا ہے۔ مثلاً آج کل پالیسی ساز چین اور روس کے بارے میں زیادہ خفیہ معلومات کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ سابق افسران نے بتایا کہ مخبروں کو کھو بیٹھنا کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ کیبل سے البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر جتنا سمجھا جاتا ہے یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
جن لوگوں نے یہ کیبل پڑھا ہے ان کا کہنا ہے کہ اصلاً تو یہ ان فرنٹ لائن افسران کے لیے انتباہ ہے، جو جاسوسوں اور مخبروں کا تقرر کرنے اور انہیں کام پر لگانے کے عمل میں براہِ راست شریک رہتے ہیں۔ اس کیبل نے سی آئی اے کے کیس افسران کو بتایا ہے کہ ساری توجہ صرف مخبروں یا ذرائع کے تقرر پر مرکوز نہیں رکھنی بلکہ انہیں حریف خفیہ اداروں کے دام میں پھنسنے سے بچانے کو بھی مقدم رکھنا ہے۔ اس کیبل کے ذریعے سی آئی اے کے کیس افسران کو یاد دلایا گیا ہے کہ انہیں ایسے تمام اقدامات کے بارے میں سوچنا ہے جن کے ذریعے وہ سی آئی اے کے مخبروں کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے بہتر طور پر کام لے سکتے ہیں۔ سابق سی آئی اے افسران کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے لیے مخبر یا ایجنٹس کا تقرر کرتے وقت سینئر لیڈرز اور فرنٹ لائن اسٹاف کو سب سے زیادہ توجہ مخبروں کی سلامتی اور کاؤنٹر انٹیلی جنس پر دینا ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق آپریٹو ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ جب کسی ایجنٹ کے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے تب کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کبھی کبھی حالات پر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہوتا مگر بہت سے معاملات میں تساہل اور غفلت کے نتیجے میں بھی کسی ایجنٹ کے لیے حالات بہت برے ہو جاتے ہیں مگر تب اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔
ڈگلس لندن نے کیبل نہیں پڑھا تاہم ان کی کتاب ’’دی ریکروٹر: اسپائنگ اینڈ دی لوسٹ آرٹ آف امریکن انٹیلی جنس‘‘ میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ خفیہ آپریشن اور نیم فوجی نوعیت کی کارروائیوں کی طرف سی آئی اے کے جھکاؤ سے روایتی جاسوسی متاثر ہوئی ہے، جس میں کام کا زیادہ مدار ایجنٹوں کے تقرر اور ان سے ڈھنگ سے کام لینے پر ہوتا ہے۔
سابق سی آئی اے افسران کا کہنا ہے کہ مشکلات و مسائل اور کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشن سے متعلق پیچیدگیوں کے بارے میں دنیا بھر میں سی آئی اے کے اسٹیشنز اور اڈوں کو بھیجنے والے پیغامات نئے نہیں۔ اس طرح کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ کہ کاؤنٹر انٹیلی جنس افسران اس طرح کی تفصیلات سی آئی اے کی وسیع ورک فورس سے بھی چھپاتے ہیں۔ جب اس میمو کے بارے میں سوال کیا گیا تو سی آئی اے کی ترجمان نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
گزشتہ برس سی آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر فار کاؤنٹر انٹیلی جنس کے منصب پر ترقی پانے والی شیتل پٹیل مشن سینٹر کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے سی آئی اے کے موجودہ اور سابق افسران کو مختلف معاملات میں انتباہ کرنے کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
جنوری میں شیتل پٹیل نے سی آئی اے کے ریٹائرڈ افسران کو ایک خط بھیجا، جس میں انہیں خبردار کیا کہ وہ خفیہ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوششوں کے حوالے سے دوسری حکومتوں کو اپنی خدمات فراہم نہ کریں۔ بعد میں منظر عام پر آجانے والے اس خط میں سی آئی اے کے سابق افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ صحافیوں سے گفتگو سے بھی گریز کریں۔
سی آئی اے کے سابق افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی آئی اے کے افسران کو کاؤنٹر انٹیلی جنس کے حوالے سے سنجیدہ ہونے پر مائل کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ معاملات کو پھیلا دیا جائے۔ گزشتہ ہفتے بھیجے جانے والے میمو میں کہا گیا ہے کہ سی آئی اے اپنے حریفوں کو کم آنک رہی ہے یعنی یہ خیال پختہ ہوچکا ہے کہ سی آئی اے کے افسران اور ان کی مہارت حریف خفیہ ایجنسیوں کے عملے اور مہارت سے بڑھ کر ہے۔ حقائق کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ جن ممالک کو امریکا نشانے پر لیتا ہے، وہ بھی سی آئی اے کے مخبروں کا سراغ لگانے کے فن میں طاق ہیں۔ چند سابق سی آئی اے افسران کا کہنا ہے کہ عشروں تک دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے پر متوجہ رہنے اور خفیہ رابطوں پر زیادہ انحصار کرنے سے مخالف یا حریف خفیہ اداروں سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور پڑ چکی ہے۔ بیرونی حکومتوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لیے مخبروں کی بھرتی، تربیت اور ان سے کام لینا دہشت گرد نیٹ ورکس میں ذرائع کو پروان چڑھانے سے بہت مختلف کام ہے۔
میمو میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے مخبر گرفتارکرلیے گئے یا مار دیے گئے، تاہم بہت سے مخبر امریکا کے خلاف کام کرنے پر بھی مائل ہوگئے۔ ان کی تعداد معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حریف خفیہ ادارے سی آئی اے کے کسی ایجنٹ کا سراغ لگالیتے ہیں تو اسے گرفتار کرنے کے بجائے ڈبل ایجنٹ بناکر امریکا کے خلاف استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ ڈبل ایجنٹ سی آئی اے کو لاحاصل قسم کی معلومات فراہم کرتے ہیں یا پھر گمراہ کرتے ہیں۔ اس سے سی آئی اے کے خفیہ معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے عمل پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سابق سی آئی اے افسران نے بتایا کہ پاکستانی اس کھیل کے بڑے کھلاڑی ہیں۔
افغانستان میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ طالبان اور خطے کی انتہا پسند تنظیموں سے پاکستان کے روابط کے بارے میں زیادہ جاننا اب بہت اہم ہے۔ اب ایک بار پھر سی آئی اے پر پاکستان میں مخبروں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ اس نوعیت کے نیٹ ورکس کا سراغ لگاکر انہیں توڑنے میں پاکستان کو ملکہ حاصل ہے۔
امریکا میں کئی صدور کی حکومتوں نے چین اور روس سے مسابقت کے پیش نظر جاسوسی کے مضبوط نیٹ ورکس قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ جاسوسی اور مخبری کے نیٹ ورکس کا تحفظ یقینی بنانا بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
سابق سی آئی اے افسران کا کہنا ہے کہ روس اور چین میں ٹیکنالوجی بھی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ مصنوعی ذہانت، بایو میٹرک اسکینز، چہرے کی شناخت اور دیگر ٹیکنالوجیز نے ان ممالک کی حکومتوں کے لیے اپنے ہاں کام کرنے والے سی آئی اے افسران کا سراغ لگانا قدرے آسان کردیا ہے۔ ایسے میں مخبروں اور ایجنٹس سے ملاقاتیں اور رابطے انتہائی دشوار ہوچکے ہیں۔
سی آئی اے کے خفیہ اندرونی نظام covcom میں نقب لگائے جانے سے چین اور ایران کو اس کے نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں مدد ملی ہے۔ دونوں معاملات میں سی آئی اے کے مخبروں کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسروں کو سی آئی اے نے کسی نہ کسی طور نکال کر دوبارہ بسادیا۔
ایران اور چین میں سی آئی اے کے بعض افسران کا یہ خیال ہے کہ مخالف خفیہ ایجنسیوں کو چند اپنوں ہی نے معلومات فراہم کیں جن کی بنیاد پر مخبر بے نقاب ہوئے۔ امریکی فضائیہ کی سابق سارجنٹ مونیکا ایلفرائیڈ وِٹ منحرف ہوکر ایران کے لیے کام کرنے لگی تھی۔ ۲۰۱۹ء میں اس پر ایران کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی۔ ایرانیوں نے پہلے یہ اندازہ لگایا کہ اس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس کی معلومات کو قابلِ قبول سمجھا گیا۔ اسی سال سی آئی اے کے سابق افسرا جیری چن شنگ لی کو چینی حکومت سے متعلق خفیہ معلومات دشمن کو فراہم کرنے کے الزام میں ۱۹؍سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سابق سی آئی اے افسران کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ سی آئی اے نے اپنے مشن پر اس قدر توجہ دی کہ مخبروں یا ذرائع کے تحفظ کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسے میں بعض مخبروں کو شدید نقصان دہ حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ۲۰۰۹ء میں افغانستان کے شہر خوست میں سی آئی اے کے ایک اڈے پر بم حملہ مشن کو سلامتی پر ترجیح دینے کی خاصی واضح مثال ہے۔ اس واقعے میں اردن کا ایک ڈاکٹر ملوث تھا۔ سی آئی اے والے سمجھ رہے تھے کہ وہ القاعدہ میں نقب لگانے کے حوالے سے معاونت کرے گا مگر اس کے بجائے وہ امریکا کے خلاف گیا۔ ڈگلس لنڈن کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش تھی کہ بہت تیزی سے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی جائے۔ اس آپا دھاپی میں جاسوسی کے فن کی مبادیات کو نظر انداز کردیا گیا۔ ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ اب پھر یہ یاد دہانی کرانے کا وقت آگیا ہے کہ کسی بھی مشن کے حوالے سے جاسوسی کی مبادیات اور سلامتی میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اپنا کام کیجیے اور تساہل کا مظاہرہ مت کیجیے۔ یہ دراصل اس بات کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ ہم اتنے جامع نہیں جتنے تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ بہرکیف مثبت چیز ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Captured, killed or compromised:CIA admits losing dozens of informants”. (“nytimes.com”. Oct. 6, 2021)
Leave a Reply