بحیرہ قزوین (Caspian Sea) کی بیش بہا دولت کو اسرائیل تک پہنچانے کا منصوبہ

گزشتہ سے پیوستہ

امریکا کے عراق سے متعلق رویے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی عالمی صیہونی استعماریت کو دنیا پر مسلط کرنے کے لیے کسی بھی کارروائی سے دریغ نہیں کر رہا۔ ذرائع کے مطابق وسطی ایشیا کے بعد عراق کے امریکی عسکری اڈے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں شمالی عراق میں کرکوک کے مقام پر نیا فوجی اڈا قائم کیا گیا ہے‘ جس کا اول ہدف ایران ہو سکتا ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع کے حوالے سے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اڈے پر ایٹمی اور کیمیائی وار ہیڈ سے مسلح میزائل نصب کیے جارہے ہیں۔ یہ میزائل اس سے پہلے ترکی میں انجرلیک کے امریکی اڈے پر نصب ہیں‘ جبکہ امریکا پہلے شمالی عراق کے اہم عسکری علاقے اربیل میں اپنا اڈا قائم کر چکا ہے۔ اس سے پہلے یہاں عراقی فوج کی چھائونی ہوا کرتی تھی۔ جبکہ تیسرا بڑا اڈا موصل شہر میں قائم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ مقبوضہ عراق میں یہ امریکا کے اہم ترین عسکری اقدامات تصور کیے جارہے ہیں‘ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جبکہ امریکا ایران کے خلاف میڈیا کی جنگ شروع کر چکا ہے۔ ان اڈوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے‘ جس سے علاقے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے کئی نئے باب کھل جائیں گے۔

وسطی ایشیا میں خاص طور پر قفقاز کے علاقے میں امریکی اڈے کئی سال سے قائم ہیں۔ اب روس اور ایران براہِ راست ان عسکری امریکی اڈوں کی زد میں ہیں۔ عراق میں قائم ہونے والے امریکی اڈوں کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے جارہے ہیں تاکہ انہیں عرب مجاہدین کی کسی بھی کارروائی سے محفوظ کیا جاسکے مگر عرب ذرائع کے مطابق امریکیوں کو اس سلسلے میں زیادہ دشواریوں کا سامنا ہو گا کیونکہ مجاہدین کی کارروائی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی منظم ہو چکی ہیں۔ جبکہ عراقی فوج کی جانب سے تمام عراق کے طول و عرض میں چھپایا جانے والا اسلحہ ان مجاہدین کی دسترس میں ہے‘ جن میں مشین گنیں‘ راکٹ لانچر‘ دستی بم‘ بارودی سرنگیں‘ زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایسے میزائل جو کاندھے پر رکھ کر فائر کیے جاتے ہیں۔ روپوش فوجی خفیہ ذرائع سے مجاہدین تک ان کے مقام اخفا کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دبئی سے شائع ہونے والا روزنامہ ’’الاتحاد الاسبوعی‘‘ کے مطابق اگر اب مجاہدین کو دس سال سے زیادہ عرصے تک بھی امریکا کے خلاف گوریلا جنگ لڑنا پڑی تو عراقی فوج کی جانب سے چھپایا جانے والا یہ اسلحہ ان کے لیے کافی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو عرب مجاہدین مختلف علاقوں سے سرحد پار کر کے عراق میں داخل ہو رہے ہیں‘ ان کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں ہوتا‘ اس لیے وہ آسانی سے عرب مسافروں کی شکل میں عراق میں داخل ہو تے ہیں۔ باقی تمام ’’سامان‘‘ انہیں عراق کے اندر ہی میسر آجاتا ہے۔ مقبوضہ عراق میں امریکی اڈوں کے مستقل قیام سے قفقاز‘ وسطی ایشیا اور ترکی میں قائم اڈوں کی ایک Chain معرضِ وجود میں آجائے گی‘ اس سلسلے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد علاقے میں اثر و نفوذ قائم کرنے کے لیے امریکا اور روس میں کشمکش کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی امریکی انتظامیہ کے بڑے عہدیداروں نے وسطی ایشیا کا طواف کرنا شروع کر دیا تھا۔ آزاد ہونے والی روسی ریاستوں نے مالی تعاون کے عوض مغرب کے لیے اپنے دروازے کھولنا شروع کر دیے۔ روس سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اقتصادی اضمحلال کا شکار تھا۔ اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اسے بھی امریکا اور مغربی یورپ کی مالی اعانت کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے پہلو میں واقع حساس ریاستوں میں وہ امریکا کو آنے سے نہ روک سکا اور اسے بھی امریکا کے وضع کردہ عالمی نظام کا حصہ بننا پڑا۔ جن نکات کی بنا پر امریکا اس حساس علاقے میں داخل ہوا‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

٭ علاقائی ملکوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امداد مہیا کرنا۔

٭ اسلامی نظریات کی ترقی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر اس نے اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا نام نہاد نعرہ بلند کیا اور ان ملکوں کی ’’سیکولر‘‘ انتظامیہ کو مدد فراہم کرنے کے عملی اقدامات کیے۔

٭ روس اور دیگر ریاستوں کی اقتصادی صورتحال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر امریکا نے علاقے میں پیر پھیلاناشروع کر دیے۔ اس سلسلے میں مغربی این جی اوز کو منصوبہ بند طریقے سے آگے بڑھایا گیا جبکہ کاروباری شخصیات اور دیگر حکومتی و غیرحکومتی اداروں کو قفقاز اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھیجا گیا۔

٭ اس کے علاوہ امریکا نے علاقائی جھگڑوں میں بھی ٹانگ اڑانا شروع کر دی۔ امریکا پہلے اقتصادی امداد اس کے بعد انسانی حقوق اور سلامتی کے امور کے نام پر اور آخر میں ماہرین بھیجنے کی غرض سے علاقے کا ٹھیکیدار بننے لگا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکا نے آرمینیا اور آذربائیجان کے تنازعہ میں جس کا محور و مرکز ناگورنو کا راباخ تھا‘ سکیورٹی آرگنائزیشن یورپ کے نام پر مداخلت کرنے لگا۔ اس کے بعد ’’منسک‘‘ کانفرنس کے حوالے سے مسئلے کے ’’حل‘‘ کی کوششوں میں لگ گیا۔ جب کہ دوسری جانب وہ روس کی جانب سے شیشان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آنکھیں پھیرے ہوئے تھا جبکہ ازبکستان جہاں امریکا نواز ڈکٹیٹر نے مسلمان عوام کے خلاف ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے‘ امریکا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ ان علاقوں میں امریکا اقتصادی بحالی اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے نام پر اپنا زہر اتارتا اور علاقے میں اپنی عسکری موجودگی کے جواز پیدا کرتا رہا تاکہ قفقاز اور وسطی ایشیا میں امریکی عسکری اڈوں کی ’’گنجائش‘‘ پیدا ہو سکے۔

ازبکستان کی اہمیت

وسطی ایشیا کا ملک ازبکستان ۱۹۹۱ء میں آزاد ہوا۔ روزِ اول سے اس ریاست کو امریکی ہدف کہا جاتا ہے کیونکہ اس ریاست کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں جو مستقبل میں چین پر امریکی دبائو کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ امریکا نے روس کی حمایت کرتے ہوئے ازبکستان پر دبائو ڈالا کہ آزادی کے بعد بھی یہاں سوویت دور میں آنے والے روسی باشندے حسبِ سابق قیام کریں گے اور ازبکستان کی نئی تشکیل دی جانے والی فوج میں روسیوں کو ان کے تناسب سے حصہ ملے گا۔ اس کے علاوہ نئی فوج کی تشکیل میں یوکرائن اور بیلا روس سے مدد لی جائے گی۔ اس کے بعد امریکا اور روس میں ایک بات پر اتفاق ہوا کہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال اس مسلم ملک میں کسی اسلام پسند تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد واشنگٹن نے ماسکو سے ہٹ کر پالیسیاں وضع کرنا شروع کر دیں۔ امریکا نے روس سے بالا بالا اس علاقے میں عسکری فوقیت حاصل کرنے کے لیے تاجکستان اور قرغیزستان کے ساتھ ازبکستان کو سلامتی امور سے متعلق ایک معاہدے میں منسلک کروا کر ان تین ملکوں کی ایک اسٹراٹیجک مثلث قائم کر دی‘ جسے وسطی ایشیا کے سیاسی‘ اقتصادی اور عسکری امور کی چابی کہا جاتا ہے۔ یہ چابی اب امریکا کی جیب میں ہے۔ مئی ۲۰۰۰ء میں امریکا نے ازبک امریکا عسکری کمیٹی کے نام پر ایک اور نئی چال چلی جس کے تحت واشنگٹن نے تاشقند کو عسکری تکنیکی امداد مہیا کرنا شروع کی۔ اس کمیٹی کے زیرِ انتظام سابق سوویت دور کی طیارہ ساز فیکٹری ’’چالکون‘‘ کو جدید انداز میں اپ گریڈ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ ازبکستان کے فوجی افسروں کو امریکا میں تربیتی کورس کے لیے لایا جانے لگا۔ مگر گیارہ ستمبر کے بعد یہ تعلقات تیزی کے ساتھ مختلف شکلیں اختیار کرتے چلے گئے۔ خان آباد کا عسکری ہوائی اڈا جو تاشقند سے پانچ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ ازبکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد سے اس کا فاصلہ دو سو کلو میٹر ہے‘ امریکیوں کا پہلا عسکری اڈا بن گیا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو روسی خبر رساں ایجنسی ’’ایتار پریس‘‘ نے خبر دی کہ خان آباد کا ہوائی اڈا افغان سرحد پر امریکا کا انفارمیشن سینٹر بن چکا ہے‘ جہاں امریکا اور برطانوی فوجیوں کی تعداد کو مسلسل بڑھایا جارہا ہے۔ اس دوران تاشقند کے قریب ’’توزیل‘‘ کے ہوائی اڈے کو امریکیوں نے اپنی تحویل میں لینا شروع کر دیا اس سلسلے میں ازبک نژاد افغان کمانڈر عبدالرشید دوستم اور امریکیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا‘ جس کے تحت طالبان کے خلاف امریکی جنگ میں شمالی اتحاد کو امریکا فضائی امداد ازبکستان کے اڈوں سے دی جاتی تھی۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے اس معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے اسے امریکا اور ازبکستان کے درمیان دفاعی تعاون سے تعبیر کیا تھا۔ ازبک صدر کا بیان تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہم اکیلے نہیں رہ سکتے مگر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ازبک حکومت نے امریکا کو افغانستان کے خلاف اپنے اڈے استعمال نہ کرنے کا عندیہ دیا مگر یہ اڈے استعمال ہوئے اور آج بھی صورت حال پہلے کی طرح ہے۔

کرغزستان پر نظر

افغانستان پر شدید حملوں کے بعد پانچ ہزار امریکی فوجی جن کے ساتھ نیٹو کے سیکڑوں فوجی شامل تھے۔ قرغیزستان میں رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ اس نئے علاقے میں امریکی عسکری اڈوں کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ عرب صحافتی ذرائع کے مطابق قرغیزستان میں امریکی فوجی قرغیزستانی فوجیوں سے زیادہ فعال حالت میں نقل و حمل کرتے ہیں۔ امریکی فوج کے قرغیزستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک روز قبل قرغیزی صدر نے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا‘ جس میں پارلیمنٹ سے امریکیوں کے لیے مناس کے ہوائی اڈے کے استعمال کی قرارداد منظور کروائی گئی تھی‘ مناس کا ہوائی اڈا قرغیزی دارالحکومت بیشکیک کے قریب واقع ہے‘ اسے ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا کہا جاتا ہے۔ قرغیزی حکومت نے امریکیوں کو بغیر پاسپورٹ اور تفتیش کے ملک میں دخول و خروج کی اجازت دے رکھی ہے‘ ان تمام شرمناک قراردادوں کو قرغیزستان کی پارلیمنٹ نے فوراً قبول کر لیا‘ جس کے بدلے امریکی دسیسہ گروں نے قرغیزستان کو بھاری اقتصادی امداد کا وعدہ کیا۔ اس وقت ایک ڈالر قرغیزی کرنسی ۵۰ صدم کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ایک ڈالر میں بمشکل دس کلو آٹا خریدا جاسکتا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی یہاں کمیونسٹ عناصر ہی حکومت میں رہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ۷۰ فیصد کمیونسٹ حکومتی ارکان آج بھی مغرب کی خواہش کے مطابق یہاں کے مسلمانوں پر حاکم ہیں۔

جارجیا میں موجودگی

جمعرات ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء کو پہلا امریکی فوجی دستہ جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی پہنچا تھا۔ یوں قفقاز کے علاقے میں پہلی مرتبہ امریکا و صیہونیت کے ناپاک قدم پہنچے۔ جارجیا کے سب سے بڑے عسکری اڈے ’’قادیانی‘‘ سے سوویت فوج کے انخلا کے بعد امریکی فوجیں براہِ راست اس اڈے میں داخل ہوئی تھیں۔ ازبکستان اور قرغیزستان کے بعد یہ تیسرا سوویت اڈا تھا‘ جہاں امریکیوں نے اپنے شیطانی مستقر قائم کیے ہیں۔ وسطی ایشیا کی نسبت قفقاز کو زیادہ شورش زدہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ جارجیا اور ابخازیا کے درمیان طویل عرصے سے علیحدگی کے لیے کشمکش جاری ہے۔ جارجیا کا دعویٰ ہے کہ ابخازیا اس کی سرزمین کا حصہ ہے جبکہ ابخازیا اس سے آزادی چاہتا ہے جبکہ یہی صورتحال جنوبی اوسیتیا کی ہے۔ روسی اینی زیا اور آرمینیا کی آزادی کی حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں جارجیا کو جارح قرار دیتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ جارجیا خاموشی کے ساتھ شیشن مجاہدین کی پشت پناہی کرتا ہے اس لیے جواباً روس نے یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ اس لیے روس جارجیا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں دونوں ریاستوں کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا اس جھگڑے میں تیسری جگہ کھڑا ہے‘ وہ ان تنازعات کی روشنی میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے چکر میں ہے۔ جبکہ دوسری طرف روس اپنی سرحدوں کے قریب امریکی عسکری موجودگی کو ناراض نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ روس کی چاق و چوبند فوج کو شیشن مجاہدین نے الجھا رکھا ہے‘ اس لیے اس جہاد کو خاص زاویہ سے اپنے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی فوجی میڈیا جنگ میں روسی فوجیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے وہ یہاں روس کی کمر شیشان کے مجاہدین کے ہاتھوں توڑنا چاہتا ہے تاکہ علاقے میں مقام حاصل ہو جانے کے بعد وہ سازشوں کے ذریعے مجاہدین کی کمر توڑ سکے جیسا اس نے افغانستان میں کرنے کی کوشش کی۔ روس کے غیظ و غضب کو دیکھتے ہوئے جارجیا نے موقف اختیار کیا ہے کہ امریکی فوجوں کی جارجیا آمد کا مقصد علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف حصہ لینا ہے حکومت جارجیا اور شیشان کی سرحد پر واقع علاقے وادی بانکیسی دہشت گردوں کا گڑھ بنی ہوئی ہے‘ جبکہ روسی ذائع کا کہنا ہے کہ شیشن مجاہدین اس علاقے میں جارجیائی حکومت کی مدد سے فرار ہو کر پناہ حاصل کرتے ہیں۔ امریکا نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ایسی خبریں پھیلانی شروع کر دیں کہ دہشت گردی کے خلاف واشنگٹن کا ماسکو سے خاموش معاہدہ ہو چکا ہے۔ اس لیے امریکی فوج جارجیا میں وارد ہوئی مگر روس کی سلامتی کے مدیر نیکولائی بارترو شیف نے ان خبروں کی تردید کی۔ اس طرح روسی پارلیمنٹ ڈوما کی خارجہ کمیٹی سربراہ نے واضح کیا کہ روسی سرحد کے قریب امریکی فوج کی کوئی بھی کارروائی چاہے وہ شیشان کے مجاہدین کے خلاف ہو‘ روس کے لیے خطرہ تصور کی جائے گی اور روس اپنے دفاع میں کارروائی کا حق محفوظ رکھے گا۔ روس کے اس طرح عامل کو دیکھتے ہوئے امریکیوں نے اپنی روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے روسی حکام کو یقین دلایا کہ ان کی سرحدوں کے قریب کسی بھی کارروائی سے پہلے روس کو باقاعدہ مطلع کیا جائے گا مگر اس کے باوجود روس کی جانب سے جارجیا پر دبائو جاری ہے۔ اس سلسلے میں روسی پارلیمنٹ ڈوما میں یکم مارچ ۲۰۰۲ء کو اس بارے میں رائے شمالی کرائی گئی کہ اگر شمالی جارجیا پر مشتمل دو ریاستوں ابخازیا اور آرمینیا کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا یہ روس کے مفاد میں ہو گا۔ جارجیا کی حکومت روسی ڈوما میں ہونے والی اس قرارداد کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کر رہی ہے جبکہ روس اس دبائو کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر ذرائع کے مطابق جارجیا اور امریکا کے درمیان ایک بڑا ’’سودا‘‘ معرضِ وجود میں آچکا ہے‘ جس کے مطابق امریکا جارجیا کی سرزمین جب اور جیسے چاہے استعمال کر سکے گا‘ اس کے جواب میں ۲۰۰۵ء تک جارجیا کو نیٹو کا رکن بنانے کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ جارجیا کے صدر کے خارجہ مشیر نے صراحت کی ہے کہ ’’ان کا ملک نیٹو کا رکن بننے کی قرارداد سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘‘۔ اس سلسلے میں روس کے لیے اس وقت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جب امریکی جارجیائی فوج کو نیٹو کے تقاضوں کے مطابق تربیت دینا شروع کریں گے۔ عرب ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں جارجیا کو واشنگٹن‘ لندن اور پیرس سے مطلوبہ معاونت اور امداد موصول ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے جارجیا نے واشنگٹن میں تعینات اپنے سابق سفیر ٹیدو جاجاریدزہ کو قومی سلامتی کے ادارے کا سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا ہے۔ یہ عہدہ جارجیا کی صدارت کے بعد اہمیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ماسکو کے سیاسی ماہرین کے مطابق جارجیا کی حکمتِ عملی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ علاقے میں امریکی فوج کے طویل قیام کے سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں۔ روسیوں کے مطابق امریکا وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں روسیوں کے تمام راستے بند کرنا چاہتا ہے۔

مستقبل کے ارادے

امریکا کے آئندہ مقاصد کے سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ وہ عراق میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے کے بعد قازقستان کا رخ کرے گا۔ کیونکہ ۱۹۹۷ء میں امریکا قازقستان کے ساتھ مل کر ’’تین شان‘‘ کے پہاڑی علاقے میں مشترکہ فوجی مشقیں کر چکا ہے۔ یہ مشقیں افغانستان پر حملے کی ریہرسل کہی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں جب کہ علاقے میں امریکی عسکری وجود روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ روس کے خوف میں اضافے کا سبب ہے۔ قازقستان‘ ازبکستان اور قرغیزستان کے ساتھ عسکری معاہدے ایک طرف چین کو گھیرے میں لے رہے ہیں تو دوسری جانب روس کو اس کے حلیفوں سے الگ کیا جارہا ہے۔ امریکا کے انہیں اقدامات کی بو سونگتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر قسطنطن شونآلو نے امریکی گلوبلائزیشن کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۰ء تک امریکی حکمتِ عملی ایسی صورتحال کا آئینہ دکھاتی ہے‘ جس نے بلقان میں بڑی تباہی کا راستہ ہموار کیا تھا۔ یہی صورتحال امریکا سابق سوویت ریاستوں میں برپا کرنا چاہتا ہے‘ اس لیے اس پالیسی کو ترک کیا جائے۔ ’’اس منظرنامے کو سامنے رکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قزوین (کیسپین) کے تیل اور گیس کے حصول کے لیے امریکا اور اسرائیل نے کس قسم کے اقدامات کر رکھے ہیں۔ یہ تمام سیاسی اکھاڑ پچھاڑ صرف اور صرف کیسپین کی پائپ لائن کے لیے شروع کی گئی ہے۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*