انٹرویوز
الیگزنڈر کولے اورڈینیل نیکسن نے ’’تسلط کا خاتمہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں جنگ عظیم دوم کے بعد سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت تک امریکا کے بین الاقوامی نظام کے ارتقا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے الیگزنڈر کولے سے گفتگو کی گئی،جس کا ترجمہ یہاں شائع کیا جارہا ہے:۔[مزید پڑھیے]
پاکستان کے ۶۸ سالہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں معروف جرمن جریدے ’’ڈیر اسپیگل’’ (Der Spiegel) کو خصوصی انٹرویو دیا۔ ڈیر اسپیگل کی نمائندہ Susanne Koelbl کو دیے گئے اس انٹرویو میں انہوں نے عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار، چینی قیادت کے لیے اپنی پسندیدگی اور متعدد معاملات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی مماثلت پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ عمران خان کسی زمانے میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور ان کا ایک امیج پلے بوائے کا بھی تھا۔ انہوں نے کم و بیش دو عشروں کی محنت کے نتیجے میں خود کو ایک مخلص اور آمادہ بہ کار سیاست دان میں تبدیل کیا ہے۔ وہ بیک وقت کئی بحرانوں اور [مزید پڑھیے]
مقبوضہ کشمیر میں اب موت کے خوف کا وجود نہیں۔ جدوجہدِ آزادی ایک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکی ہے۔ اب پاکستانی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ حق خود ارادیت کی بنیاد پر عالمی سطح پر موثر لابنگ کرے، سیمینار، کانفرنسیں اور بھرپور مہم ترتیب دیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر پر ایک نئے مؤثر اور متحرک ریسرچ گروپ کا قیام عمل میں لایا جائے،ساتھ ہی کشمیر کمیٹی میں ٹیکنوکریٹ، مشیران اور ماہرین کو شامل کرکے اس کمیٹی کو فعال اور متحرک کیا جائے۔ یہ کہنا تھا معروف پاکستانی فلاسفر اور ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد کا۔ آپ سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور سینیٹر [مزید پڑھیے]
سوال: آپ نے اپنے آخری ناول‘‘انتہائی خوشی کی وزارت‘‘ میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں پگڑی پہنے خرگوش سے تشبیہ دی،آپ نے مودی کی چھپن انچ کی چھاتی کا تذکرہ بھی کیا،مودی نے انتخابی مہم کے دوران ہر تقریر میں اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اس چھپن انچ کی چھاتی کا ذکر کیا۔ کیا آپ اب بھی خود کواس ملک کی سیاستی قیادت کا مذاق اڑانے کے لیے آزاد تصور کرتی ہیں۔[مزید پڑھیے]
اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کے سابق سربراہان سے انٹرویو کیے گئے،جس میں ایران کے بارے میں ان کے خیا لات جاننے کی کوشش کی گئی۔۶ حیات سربراہان میں سے ۳ انٹرویو دینے پر راضی ہوئے۔یہ سب ایران کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔کچھ اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور کسی نے امریکا کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔[مزید پڑھیے]
حماس کے رہنما نے حال ہی میں یہ بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہم اب جنگ نہیں چاہتے، عبرانی ڈیلی نیوز پیپر اور ’’لاریپلک‘‘ نے حماس کے رہنما ’’یحییٰ سنوار‘‘ کا جمعہ کو انٹرویو شائع کیا،جس میں انہوں کہا کہ ’’حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے ذریعے غزہ کی سرحد پر سے پابندیاں ختم کرناچاہتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے ذریعے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے‘‘۔ سنوار نے اٹلی کے صحافی فرنسسکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے شہری ۲۰۰۷ ء سے پہلے ہی (جب کہ غزہ کی سرحدی پٹی پر پابندی نہیں لگی تھی) اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے کے لیے [مزید پڑھیے]
میں جب لمز یونیورسٹی میں جسٹس صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ طلبہ و طالبات بیٹھے تھے اور باہمی گفتگو جاری تھی۔ کمرے کا ظاہری ماحول انتہائی خوشگوار تھا اور باطنی ماحول انتہائی صوفیانہ۔ طلبہ و طالبات جب چلے گئے تو میں نے خواجہ صاحب سے بات کچھ اس انداز سے شروع کی۔ سوال: مجھے بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ نوجوان نسل آپ کے تجربات و مشاہدات سے فیض یاب ہو رہی ہے، میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ قومی زبان اردو کے بارے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟ جواب: ایسا نہیں ہے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں اور علم و فضل کے چشمے بہا رہا ہوں اور اس سے لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، [مزید پڑھیے]
سوال: عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔حکومت سے باہر ہوتے ہوئے کیا آپ کو لگتا ہے اس سے ملک میں جاری جاگیردارانہ سیاست کا تسلسل ٹوٹے گا؟ جواب: وزیراعظم کے سوا اہم حکومتی عہدوں پر تعینات تقریباََ تمام ہی افراد ماضی میں کسی نہ کسی حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم ان پرانے سیاست دانوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو ماضی کی حکمران جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں۔ موجودہ کابینہ شروع میں چھوٹی اور فعال تھی۔ لیکن اب کابینہ میں نئے افراد کااضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نئے نئے کام کر رہی ہے۔ جیسے کہ سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کرنا۔ لیکن حکومت کو غیر ملکی وفود کی نقل و حرکت کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی اب تک [مزید پڑھیے]
ڈاکٹر قبلہ ایاز ممتاز علمی شخصیت ہیں اور اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں،آپ نے ۱۹۷۵ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور اگلے ہی سال اسی یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں آپ ایڈنبرا یونیوسٹی برطانیہ چلے گئے، جہاں سے آپ ’’وسطی دور کے مشرق وسطیٰ کی تاریخ وسیاست ’’میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے ۱۹۸۵ء میں واپس وطن لوٹے اور دوبارہ پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ۲۰۱۳ء تک پشاور یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین رہے اور پھر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ۸ نومبر ۲۰۱۷ء کواگلے تین سال کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین [مزید پڑھیے]
گلبدین حکمت یار نے ۱۹۷۴ء میں حزبِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ حزب طویل پابندیوں اور قیادت کی روپوشی کے باوجود آج بھی افغانستان کی ایک اہم اور توانا اسلامی، نظریاتی اور جمہوری جماعت ہے۔ پچھلے دنوں سلیم صافی نے اپنے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ کے لیے جناب حکمت یار کا انٹرویو لیا، جو ۹ اور ۱۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو ’’جیو نیوز‘‘ پر نشر ہوا۔[مزید پڑھیے]
پرویز ہود بھائی: ہیلو نوم! مجھے خوشی ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں۔ ایریزونا میں اس وقت صبح ہوگی، جبکہ یہاں اسلام آباد میں شام ہے۔ آپ کیسے ہیں؟ نوم چومسکی: میں ٹھیک ہوں۔ ہود بھائی: نوم، میں کئی موضوعات پر آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ میں اپنی گفتگو کا آغاز اس سے کروں گا کہ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے انسان ایک بار پھر سے قبیلوں میں بٹ رہا ہے اور ہم ایک بار پھر اپنی ابتدائی وفاداریوں کی طرف لوٹ رہے ہیں، جیسا کہ مذہب یا قوم پرستی۔ یہ سب قریباً ہر جانب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایسا بریگزٹ (Brexit) کے موقع پر ہوا، اسی طرح یورپ میں انتہائی دائیں بازو کا ابھرنا اور امریکا میں ڈونلڈ [مزید پڑھیے]
الائیڈ نیوز پیپرز کے مشہور نامہ نگار بیورلی نکولز نے ۱۹۴۴ء میں اپنے قیام ہندوستان کے تاثرات Verdict on India کے عنوان سے پیش کیے تھے، اس میں قائداعظم سے ایک تاریخی انٹرویو ہے، جس میں پاکستان کا کیس اس کے بہترین ایڈوکیٹ نے پیش کیا ہے، کتاب کے متعلقہ حصہ کا ترجمہ پیش جارہا ہے۔ ادارہ[مزید پڑھیے]
جوہری پھیلاؤ اور ماحول کی تبدیلی موجودہ دور کے انتہائی تشویش ناک مسائل ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اب تک کی کارکردگی نے اسے ناگہانی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ ان دونوں مسائل کی سنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ ’’ٹروتھ آؤٹ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ مفکر نوم چومسکی نے حالیہ مہینوں میں پیش آنے والے چند اہم واقعات (مثلاً شام کی ایئر بیس پر امریکی بمباری اور روس، ایران اور شمالی کوریا سے امریکا کے تناؤ) پر بات کی ہے۔ یہ انٹرویو ڈینیل فالکن نے لیا۔ اس انٹرویو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔[مزید پڑھیے]
میرین لی پین ((Marine Le Pen فرانس کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کے بانی،جین میری لی پین، کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔یہ ۱۳ سال کی عمر سے ہی اپنے والد کے ساتھ سیاسی مہمات میں حصہ لے رہی ہیں۔انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا، علاقائی کونسلر کی حیثیت سے انہوں نے اپنا پہلا انتخاب ۱۹۹۸ ء میں جیتا اور ۲۰۱۱ء میں سیاسی رہنما کے طور پر اپنے والد کی جگہ لی۔ انھوں نے جلد ہی والد کے سخت موقف سے فاصلہ اختیا ر کر لیا،پھر جب ان کے والد نے ہو لو کاسٹ کے حوالے سے اس موقف کو دہرایا کہ ’’یہ تاریخ کا حصہ ہے‘‘ تو میرین نے ان کو عہدے سے فارغ کردیا۔ ان دنوں کہ جب یورپ [مزید پڑھیے]
آٹھ نومبر ۲۰۱۶ء کو ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام ووٹروں کے اشتعال اور گھٹیا رجحانات کوابھارتے ہوئے امریکا کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی یہ مہم نازی جرمنی کے ترجمان اور پروپیگنڈا کے ماہر، جوزف گوبلز کو بھی چکرا کر رکھ دیتی ہے۔ تاہم ٹرمپ کی فتح کا درحقیقت کیا مطلب ہے اور ہر صورت اپنی مرضی مسلط کرنے کے عادی اس رہنما کے ۲۰ جنوری ۲۰۱۷ء کو اقتدار سنبھالنے پر عام آدمی کی توقعات کیا ہوں گی؟ نیز ٹرمپ کے سیاسی تصورات کیا ہیں اور کیا ’’ٹرمپ ازم‘‘ کا عملاً وجود ہے؟ کیاٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی ماضی کے روایتی دھارے سے کنارا کشی کرتے ہوئے ایک الگ راہ اختیار کرے گی؟ کیا اس سے عالمی [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
11
»